G-7 اجلاس ۔۔2030 تک کاربن سے پاک شاہ راہوں کا ہدف حاصل کرنے کا عزم

یوکرین جنگ کے لیے روس کو بھاری معاشی وسیاسی نقصانات سے دوچار کرنے کا عہد

مسعود ابدالی

چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ عالمی جمہوریت، عقیدے اور اظہار کی آزادی کے لیے خطرہ قرار
ڈیموکریٹس کا کمزور موقف اہداف کے حصول کے لیے قانون سازی میں حائل۔ صدر بائیڈن کو شرمندگی کا سامنا
دنیا کے سات بڑے ممالک یعنی گروپ سات یا G-7کا سربراہی اجلاس جرمن شہر کُرن (Krun)کے تاریخی قلعے شلوس ایلاماو (Schloss Elmau) میں ختم ہو گیا۔ کوہِ ایلپس کے دامن میں یہ چار منزلہ عمارت اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی شکست کے بعد یہاں ہٹلر کے ہاتھوں بے گھر کیے جانے والے یہودیوں نے پناہ لی تھی۔ بلند مینار والا یہ قلعہ 1914ء میں ایک فلسفی اور پروٹیسٹنٹ عالم جوہانس ملر اور ماہرِ تعمیرات (Architect) پروفیسر کارل سیٹلر نے تعمیر کیا تھا۔ جون کی 26 سے 28 تاریخ تک جاری رہنے والی یہ بیٹھک گروپ سات کی 48 ویں سربراہ کانفرنس تھی۔ گزشتہ چوٹی کانفرنس ایک سال پہلے لندن میں منعقد ہوئی تھی۔ سینتالیسویں سربراہی اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ رکن ممالک کی کارپوریشنوں پر کم سے کم 15 فیصد انکم ٹیکس کا نفاذ تھا۔
گروپ سات، نظریاتی طور پردنیا کے 7 ہم خیال، امیر و ترقی یافتہ صنعتی ملکوں، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ گروپ کا آغاز 1973 میں اس وقت ہواجب عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرماں روا شاہ فیصل مرحوم نے عربوں کے معاملے میں معقولیت پر مجبور کرنے کے لیے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کر دی تھی۔ اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ شدید بحران کا شکار ہوئے اور امریکی وزیر خزانہ نے اپنے جرمن (اس وقت مغربی جرمنی) ہم منصب ہیلمٹ شمٹ، فرانسیسی وزیر خزانہ گسکارڈ دیستان اور برطانیہ کے انتھونی باربر کو مشورے کے لیے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ اجلاس کے دوران معیشت کے چاروں ماہرین نے بحران سے نبٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر غور کیا۔ گفتگو بے حد مفید رہی اور بات چیت کے اختتام پر جب یہ چاروں افراد رسمی ملاقات کے لیے امریکی صدر نکسن کے پاس پہنچے تو وہیں قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی لائبریری میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں تیل کے بحران کے ساتھ ساتھ دوسرے معاشی مسائل، امکانات اور مواقع پر تفصیلی بات چیت کے بعد مل کر کام کرنے کا بھی عہد کیا گیا۔اس غیر رسمی و غیر روایتی مجلس کا نام ’لائبریری گروپ‘ طے پایا۔ کچھ دن بعد جاپان بھی اس گروپ میں شامل ہوا اور لائبریری گروپ G-5 بن گیا۔ دو سال بعد جب گسکارڈ دیستان فرانس کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے گروپ پانچ کا سربراہی اجلاس طلب کیا۔ پیرس میں 1975 کے اس تین روزہ اجلاس کو اقتصادی چوٹی کانفرنس یا ورلڈ اکنامک سمٹ کا نام دیا گیا۔ اس اجلاس میں اٹلی بھی شریک ہوا چنانچہ اس محفل کو گروپ 6 کہا جانے لگا۔
اس کے اگلے برس امریکی صدر جیرالڈ فورڈ نے اپنی کالونی پورٹوریکو میں سربراہی اجلاس کی میزبانی کی جہاں کینیڈا کے وزیر اعظم آنجہانی پیرے ٹروڈو (موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد) خصوصی دعوت پر شریک ہوئے جس کے بعد یہ ادارہ گروپ سات بن گیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے تاسیس کی یاد تازہ کرنے کے لیے 1997 کا سربراہی اجلاس شہر ڈینور (Denver) کی نو تعمیر شدہ سرکاری لائبریری میں طلب کیا جس میں روسی صدر بورس یلتسن بھی مدعو کیے گئے اور یہ فورم گروپ آٹھ بن گیا۔ 2014 کی سربراہ کانفرنس بحر اسود کے ساحلی شہر سوچی (روس) میں ہونی تھی لیکن کریمیا پر قبضے کے بعد روس کو گروپ آٹھ سے نکال دیا گیا۔ اس سال سربراہ کانفرنس بیلجیم کے شہر بروسلز میں ہوئی اور یہ تنظیم اب دوبارہ گروپ سات ہے۔
اپنی ولادت سے پہلے پانچ چھ سال تک گروپ سات اقتصادی اتحاد کے طور پر کام کرتا رہا۔ کچھ علمائے سیاست، گروپ سات کو آزاد عالمی مرکز دانش یا Think tank قرار دیتے ہیں لیکن تمام ممالک ایک خاص سیاسی نظریہ و عقیدہ رکھتے ہیں اور دنیا پر چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے یہ اپنے عزم کے اظہار میں کسی مداہنت سے بھی کام نہیں لیتے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں امریکی صدر رونالڈ ریگن اور برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے زور اور اصرار پر عالمی سیاست اور دفاعی امور پر بھی بحث مباحثہ شروع ہوا۔
گروپ سات ممالک کی مجموعی آبادی دنیا کے 10 فیصد کے برابر ہے لیکن دنیا کی 31 فیصد دولت انہی سات ممالک کے پاس ہے۔ گروپ سات کی دولت و ثروت کا تخمینہ جی ڈی پی کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ ان ممالک میں جہاں وسائل اور دولت کا انبار ہے وہیں گروپ سات دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کا بھی ایک بڑا سبب ہے کہ 21 فیصد کاربن کا اخراج ان ہی سات ملکوں سے ہوتا ہے۔
اس بار گروپ سات چوٹی کانفرنس کا خیالیہ یا theme ’عادل دنیا کی طرف پیش قدمی‘ تھا۔اور جن موضوعات پر بحث کی گئی وہ کچھ اس طرح ترتیب دیے گئے :
سیاسی، عسکری اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار عالمی نظام
اقتصادی استحکام
صحت مند زندگی
بہتر مستقبل کے لیے سرمایہ کاری
اتحاد میں برکت UNITED TOGETHER
یہ گروپ چونکہ بنیادی طور پر اقتصادیات کا فورم ہے اس لیے اس میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور اس نوعیت کے دوسرے ادارے بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس بار ہندوستان، ارجنٹینا، انڈونیشیا، سینیگال اور جنوبی افریقہ کے سربراہان بھی خصوصی دعوت پر بطور مبصر شریک ہوئے۔ یوکرین روس تنازعے میں کریملن کے خلاف سخت موقف اختیار نہ کرنے پر تین ماہ پہلے جرمنی کے چانسلر اولاف شلز نے ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن صدر بائیڈن کے اصرار پر جرمنی نے یہ اعتراض واپس لے لیا۔
ایجنڈا اپنی جگہ لیکن یوکرین بات چیت پر چھایا رہا تاہم مشترکہ اعلامیے میں اس کا براہ راست کوئی ذکر نہ تھا۔ رکن ممالک نے ایسے اقدام کرنے کا عہد کیا ہے جس سے روس کو جنگ مسلط کرنے کی بھاری معاشی و سیاسی قیمت چکانی پڑے گی۔اختتام پر من درجہ ذیل چار نکاتی ’عہدنامہ‘ جاری ہوا
گروپ سات رہنماوں نےانسانی حقوق کے تحفظ کا عزم کرتے ہوئے چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی شدید مذمت کی۔
کاربن سے پاک ماحول کے حصول کے لیے2030 تک Decarbonized Road کے ہدف کا اعادہ کیا گیا۔
اسی کے ساتھ 2035 تک توانائی کے باقی شعبوں کو کاربن سے پاک یا ڈی کاربونائزڈ کرنے کا ہدف طے ہوا
گروپ نے شاہ راہیں، مواصلاتی ڈھانچے اور ماحولیاتی کثافت کے خاتمے کے لیے اگلے پانچ سال کے دوران دنیا بھر میں 600 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا جس میں سے نصف یورپی ممالک فراہم کریں گے۔
قارئین کی دل چسپی کے لیے ’کاربن سے پاک ماحول‘ کی مختصر سی تشریح پر چند سطور پیش ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات اور کوئلہ دورِ حاضر کا روایتی ایندھن ہے۔ خام تیل اور گیس کا کیماوی نام ہائیڈروکاربن ہے۔ کوئلہ سے حاصل ہونے والی گیس میتھین methane بھی ہائیڈروکاربن ہے جس کے جلنے سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونوآکسائیڈ اور دوسرے مرکبات خارج ہوتے ہیں جو نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہیں بلکہ یہ کرہ ارض کی طرف آنے والی اوزون سے بچاو کے لیے قدرت کی تعمیر کردہ مدافعتی تہہ یا Ozone Layer میں شگاف کا سبب بھی بن رہی ہے۔ کاربن سے پاک سڑک و شاہراہ کا مطلب ہے کہ 2030 کے بعد پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں ترک کر دی جائیں گی جبکہ 2035 کے بعد بجلی گھروں کے لیے بھی تیل کے استعمال پر پابندی ہو گی۔
بادی النظر میں مشترکہ اعلامیے سے انصاف پر مبنی مستحکم و پائیدار دنیا کی تعمیر کا عزم ظاہر ہوتا ہے لیکن بات چیت کی جو تفصیل امریکی ذرائع ابلاغ پر تفصیلات شایع ہوئی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ممالک دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
ترقی و خوش حالی کے لیے جس خطیر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ دراصل چین کے Belt and Road Initiatives یا BRI کے توڑ کے لیے ہے۔ چین نے One Belt one Road کے نام سے برّی اور آبی شاہ راہوں کا یہ عالمی منصوبہ 2013 میں شروع کیا تھا جسے اب BRI کہا جاتا ہے۔امریکہ نے اس مقصد کے لیے200 اور یورپی یونین نے 300 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جبکہ جاپان اور کینیڈا 100 ارب ڈالر فراہم کریں گے۔ ان منصوبوں کے لیے امریکہ کی ترجیحات صحت عامہ، صنفی مساوات اور Digital Infrastructure ہیں۔ کانفرنس میں بحث و مباحثے کے دوران یورپی رہنماوں نے دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو عالمی جمہوریت، عقیدے کی آزادی اور آزاد پریس کے لیے خطرہ قرار دیا۔ چینی وزارت خارجہ نے بعض رہنماوں کی تقریروں پر سامراجی تکبر کی پھبتی کستے ہوئے یورپی رہنماوں کو سرد جنگ کی گھسی پٹی حکمت عملی ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اسی تناظر میں شمالی کوریا نے ایشیائی نیٹو کے قیام کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ گروپ سات اور اس کے فوراً بعد نیٹو سربراہ کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے سرکاری خبر رساں ایجنسی KCNA کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان ایشیائی نیٹو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا ہدف شمالی کوریا ہو گا۔ بیان میں شمالی کوریا نے نیٹو کی میڈرڈ چوٹی کانفرنس میں جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہان کی بطور مبصر شرکت اور اس دوران امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے خصوصی سربراہی اجلاس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ’’تین کا یہ ٹولہ “ شمالی کوریا کے خلاف معاندانہ عزائم رکھتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے کچھ ایسے ہی تحفظات کا اظہار معاہدہ اربع یا QUAD کے خلاف کیا ہے۔ کواٖڈ، ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکی بحریہ کے درمیان ایک غیر تحریری فوجی معاہدہ ہے جس کا مقصد بحرالکاہل میں آزادانہ جہاز رانی کو یقینی بنانا ہے۔ بیجنگ کا خیال ہے کہ کواڈ اب جنوب ایشیائی نیٹو کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
اسی کے ساتھ امریکی سپریم کورٹ نے حال ہی میں جو دو فیصلے کیے ہیں، گروپ سات کے قائدین اسے سربراہ کانفرنس میں کیے جانے والے فیصلوں کے منافی قرار دے رہے ہیں۔
افتتاحی اجلاس سے دو دن پہلے امریکی عدالت عظمی نے اسقاطِ حمل کے معاملے کو ریاستوں کے حوالے کر دیا۔ 1973 میں سپریم کورٹ نے میرا جسم میری مرضی کا اصول تسلیم کرتے ہوئے اسقاط کو پُر امید ماووں کا حق قرار دیا تھا۔ لیکن اب تین کے مقابلے میں 6 ججوں نے فیصلہ دیا کہ اسقاط کے جائز یا نا جائز ہونے کا فیصلہ ریاستوں کو کرنا چاہیے۔ تیرہ سے زیادہ ریاستوں کی مقننہ اسقاط کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔ گروپ سات کا کہنا ہے کہ صنفی مسساوات اور خواتین کا اقتصادی استقلال اس سال کے فیصلوں کی روح ہے اور امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کا حق خواتین سے چھین کر حوا کی بیٹی کو دوسرے درجے کی مخلوق بنا دیا ہے جسے اپنے جسم پر بھی اختیار حاصل نہیں۔فیصلے سے امریکی سپریم کورٹ کی نظریاتی تقسیم ایک بار پھر سامنے آ گئی۔ تینوں لبرل ججوں نے فیصلے کی مخالفت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فیصلے کا مسودہ کچھ عرصہ پہلے Leak ہو چکا تھا۔
امریکی عدلیہ میں قدامت پسندوں نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے ایک اور فیصلہ یہ سنایا کہ مقتدرہ برائے تحفظِ ماحول (EPA) کو کلیدی ضابطے بنانے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قانون سازی وفاقی اور ریاستی مقننہ کو کرنا چاہیے۔ یہ فیصلہ بھی نظریاتی بنیادوں پر ہوا اور تینوں لبرل ججوں نے اکثریتی فیصلے کی خلاف نوٹ لکھے۔ اس فیصلے سے جہاں EPA کی قدغنوں سے پریشان امریکی سرمایہ کار و صنعت کار، خاص طور تیل اور تعمیرات کی صنعت سے وابستہ طبقے نے اطمینان کا سانس لیا ہے وہیں گروپ سات کی قیادت کو ڈر ہے کہ EPA مفلوج ہو جانے کی صورت میں 2030 تک کاربن سے پاک شاہ راہوں کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
صدر بائیڈن نے اپنے حلیفوں کو یقین دلایا ہے کہ ان دونوں معاملات پر قانون سازی کے ذریعے وہ عدالتی فیصلوں کے منفی اثرات کے سد باب میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن زمینی حقائق اور نومبر کے انتخابات کے لیے عوامی جائزے برسر اقتدار ڈیمو کریٹک پارٹی کے لیے انتہائی مایوس کن ہیں۔ سیاسیات کے پنڈتوں کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایوان نمائندگان (لوک سبھا) اور سینیٹ (راجیہ سبھا) دونوں ایوانوں میں حکمراں جماعت کے ہاتھ سے نکلتے نظر آرہے ہیں ۔گروپ سات کا بھی یہی خیال ہے کہ دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن نومبر کے انتخابات کے بعد قانون سازی کے اختیار سے محروم بائیڈن انتظامیہ عملاً اپاہج بطخ یا Lame duckبن کر رہ جائے گی۔
[email protected]
***

 

***

 اس بار ہندوستان، ارجنٹینا، انڈونیشیا، سینکال اور جنوبی افریقہ کے سربراہان بھی خصوصی دعوت پر بطور مبصر شریک ہوئے۔ یوکرین روس تنازعے میں کریملن کے خلاف سخت موقف اختیار نہ کرنے پر تین ماہ پہلے جرمنی کے چانسلر اولاف شلز نے ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن صدر بائیڈن کے اصرار پر جرمنی نے یہ اعتراض واپس لے لیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022