خبر و ںظر

پرواز رحمانی

یہ ضبط و تحمل خوب ہے
گزشتہ چند ماہ سے سماج دشمن شر پسندوں نے مسلم سماج کے خلاف نفرت و کدورت کا جو محاذ کھول رکھا ہے، اس میں مسلمانان ہند کا ضبط و تحمل قابل دید ہے۔ خصوصاً نوپور شرما کی بد زبانی کے بعد مسلمانوں کا صبر و استقلال اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اودے پور میں ایک ٹیلر کو کسی نے ہلاک کردیا۔ یہاں بھی مسلمانوں نے یہ دیکھے بغیر کہ قتل کیا واقعی کسی مسلمان نے کیا ہے اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کیا۔ تمام مسلم جماعتوں اور چھوٹے بڑے لیڈروں نے اس قتل کی مذمت کی۔ کسی نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا کہ مقتول نے نوپور کی حمایت میں ٹوئٹر پر کچھ پوسٹ کیا تھا۔ ہاں یہ ضرور کہا کہ اگر مقتول نے نوپور کی حمایت میں کچھ لکھا بھی تھا تو اس کے بدلے قتل کا کوئی جواز نہیں یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ رسول اکرمؐ نے اس کی اجازت کبھی کسی کو نہیں دی۔ جب سے شرارت شروع ہوئی ہے، مسلم جماعتیں اور رہنما مسلم امہ کو یہی تلقین کررہے ہیں کہ ضبط و تحمل سے کام لیں، غیر ضروری جوش و جذبہ نہ دکھائیں۔ کسی جوابی کارروائی کے بارے میں نہ سوچیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔

فرد واحد کی شر انگیزی
۲۹ جون کو راجستھان کے شہر اودے پور میں کسی نے ایک ٹیلر ماسٹر کو قتل کردیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اس نوپور شرما نامی خاتون کی حمایت میں ٹوئٹر پر کچھ پوسٹ کیا تھا جس نے رسول اکرم کی شان میں بڑی گستاخی کی تھی۔ وہ خاتون نوپور شرما بی جے پی کی باقاعدہ ترجمان تھی۔ ابتدا میں چار پانچ دن خاموش رہنے کے بعد بی جے پی نے اسے عہدے سے برطرف کردیا۔ پارٹی کی ممبر شپ بھی منسوخ کردی۔ حکومت کچھ نہیں بولی، آج تک نہیں بولی۔ مسلمانوں نے مذمتی بیانات کی حد تک ردعمل ظاہر کیا جرم کی سنگینی کی وجہ سے یہ بات پوری دنیا میں پھیلی۔ مسلم ملکوں نے اس کا نوٹس لیا۔ ہندوستانی سفیروں سے بات بھی کی۔ کئی مسلم ملکوں میں ہندوستانی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے معقول طرز عمل کی وجہ سے یہاں امن و امان رہا۔ اب ایک نا گوار خبر اودئے پور سے آئی ہے جس کی حقیقت نامعلوم ہے۔ جمعہ کے خطبات میں بھی خطیب حضرات عوام کو صبر و ضبط کا مشورہ دے رہے ہیں۔ بہت سے غیر مسلم بھائیوں نے بھی نوپور کی حرکت بد کی مذمت کی اور بی جے پی کے طرز عمل پر تنقید کی۔

سول سوسائٹی کہاں ہے
بتانے کی ضرورت نہیں کہ ملک میں یہ نا خوش گوار صورت حال حکم راں گروہ کے شر پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ویسے تو یہ گروہ تقریباً سو سال قبل اپنے مقام کے وقت سے اس کام کے لیے بدنام ہے۔ مگر اقتدار میں جگہ پانے کے بعد اس کی شر انگیزیوں میں اضافہ ہوگیا ہے، اس کے موجودہ اقتدار کی تاریخ جو آٹھ سال سے جاری ہے، شر انگیزیوں اور فتنہ و فساد سے بھری پڑی ہے۔ موجودہ نوپور معاملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وہ تو مسلمان ضبط و تحمل سے کام لیتے ہیں، ان کی شرارتوں کا نوٹس نہیں لیتے ورنہ پورے ملک کی سرزمین جھگڑے فساد سے بھرجائے۔ ان شرپسندوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ مسلمان منفی ردعمل ظاہر کریں اور لڑائی میں مقابلے پر اتر آئیں تاکہ ملک مکیں فسادات بھڑکیں اور انہیں سیاسی فائدہ ہو۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ کیا ملک میں ایسا کوئی حلقہ نہیں ہے جو ان لوگوں کو سمجھا سکے کہ فتنہ و فساد سے یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔ ان لوگوں کو بھی بالآخر کچھ نہیں ملے گا جو وقتی سیاسی فائدے کے لیے یہ سب کررہے ہں۔ مخالف سیاسی پارٹیوں میں بھی کوئی دم نہیں رہ گیا ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ ملک انارکی اور مطلق العنانیت کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سول سوسائٹی کہیں نظر نہیں آتی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022