صیام و قیام:روحانیت کے ارتقاءکا ذریعہ

خودساختہ رہبانیت مطلوب نہیں۔رب سے شعوری تعلق اوربندگی کے تقاضوں کی تکمیل ہی روحانیت ہے

ڈاکٹر ساجد عباسی ، حیدرآبادا

قرآن میں صیامِ رمضان کا حکم دینے کے ساتھ اس کی حکمت وعلت بھی بتلائی گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے ۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(سورۃ البقرۃ ۱۸۳)۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ روزہ کا مقصدتقوی کی صفت پیدا کرنا ہے۔ تقوی اس استعداد کا نام ہے جو ایمان کوبالفعل اعمالِ صالحات میں بدلے۔تقویٰ ایسا محرک ہے جو ایک عقیدہ کو عمل میں ڈھال دے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان کے روحانی وجود کو حیوانی وجود پر مکمّل کنٹرول حاصل رہے۔ انسان کے دو مستقل وجودہوتے ہیں۔ ایک ہے حیوانی اور دوسرا روحانی وجود جس کو اخلاقی وجود بھی کہتے ہیں ۔
یہ دونوں اپنے مقتضیات رکھتے ہیں۔ حیوانی وجود ہوا، پانی، غذا، آرام اور متعدد ان گنت چیزوں کا طالب ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی عین ضروریات کے مطابق اس کرۂ ارض پر پیدا فرمایا ہے اوران کی تکمیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔انسان کی بقا و نشونماکے لیے جتنی چیزیں درکار ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔ (سورۃ ابراھیم ۳۴)
اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے بہت پہلے اس کرۂ ارض کوتمام ضروریاتِ زیست کے ساتھ بہرمند فرمایا اور انسانی ذوق کے مطابق دلکش رعنائیوں سے اس کو مزّین کیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے روحانی وجود کے لیے اللہ تعالیٰ نے کیا انتظامات کیے ہیں؟ انسانی روح کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ امرِرب ہے یعنی روح کو حکم الہی سے پیدا فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بے شمار چیزوں کو اسباب و علل) (cause and effect )کے تحت پیدافرمایااور کچھ چیزوں کو بس ایک امر یعنی حکم کے ذریعے پیدا فرمایا۔اللہ تعالیٰ نےقرآن میں فرمایا کہ اس نے ‘کن’ کہہ کر اشیاءکی تخلیق کی اور وہ’ فیکون‘ ہوکر وجود پذیر ہوگئی۔اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو اسباب کے تحت پیدافرمایالیکن روح کو اپنی پھونک کے ذریعے جسد ِ آدم میں ڈال دی۔آج بھی رحمِ مادر میں انسان کا استقرارِ حمل اسباب و علل کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہےلیکن فرشتہ روح کو نوزائدہ انسانی جان میں امرِ رب کے تحت ڈال دیتا ہےاور یہی وقت انسانی شعورکا نقطۂ آغاز ہوتا ہے۔انسانی جسم زمین کے اجزاء سے بناہوا ہےاور زمین ہی کی پیداوار سے نشونما پاتا ہے۔لیکن روح عالم بالا سےفرشتہ کے ذریعے لائی جاتی ہے اور موت کی صورت میں جسم سے نکال لی جاتی ہے اور عالم ِ بالامیں پہنچادی جاتی ہے۔اس لیے روحانی ترقی اور روحانی غذاکا انتظام بھی عالمِ بالا سے ہوتا ہے۔روح کو قرآن میں قلب سے بھی موسوم کیا گیاہے۔جسم میں سماعت و بصارت کی صلاحیتوں کے ساتھ قلب کی سماعت و بصارت کابھی قرآن متوازی طور پر ذکر کرتا ہے:’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔(سورۃ الحج ۴۶۔)
دل اندھے ہونے کا مطلب ہے دل کی یعنی روح کی آنکھیں اندھی ہوتی ہیں جب روح مادہ پرستی کی وجہ سے ماند پڑجاتی ہے تو اس کی سماعت و بصارت ختم ہوجاتی ہے۔ایک اور مقام پر اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا۔
’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔(سورۃ الاعراف ۱۷۹)۔
روح کی سماعت و بصارت سے اگر انسان کام نہ لے تو وہ نرا حیوان بن جاتا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔روح کے اندر سماعت و بصارت اور شعور ودیعت کیاگیا۔اس کے ساتھ روح کے اندر خیر و شر کی تمیز رکھی گئی۔اس بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ۔اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا پھر اُس کی بدی اوراُس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔(سورۃ الشمس ۸۔)
انسان کی شخصیت کی اصل چیز روح ہےجو شعورو ارادہ رکھتی ہے۔اس کے اندر اخلاقی حس موجود ہوتی ہے۔اس کے اندر ضمیر یعنی نفسِ لوامہ موجود ہےجو برائی پر انسان کو متنبہ کرتا ہےاور برائی کے ارتکاب پر ملامت کرتا ہے۔اسی روح میں نفس امّارہ بھی ہے جو نفسانی خواہشات پر انسان کو اکساتا ہے۔اسی کے اندر نفس مطمئنہ بھی ہے جو انسان کے اندر ایمان کی بدولت سکینت و اطمینان پیدا کرتا ہے۔روح جب پرواز کرجاتی ہے تو انسان کے اندر سے شخصیت نکل جاتی ہے جس کو دنیامیں کسی نہ کسی نام سے پکارتے ہیں ۔جس کو ’تم‘ یا ’ہم‘ کہاجاتا ہے۔موت کے بعد لوگ نام سے نہیں بلکہ میت کہہ کر پکارتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں ایسے ملحد پائے جاتے ہیں جو روح کا سرے سے انکار کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو علم کے اس حصے کو نہیں مانتے جو غیب سے متعلق ہے اور جو محسوسات و مشاہدات سےماوراء ہے۔دوسری طرف وہ لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو روح کو ترقی دینے کے لیے غیر فطری ریاضتیں کرتے ہیں اور یہ تصور رکھتےہیں کہ وہ حیوانی وجود کو کچل کر اللہ کے اتنے قریب ہوجائیں گے وہ بالآخراللہ کی ذات میں (معاذاللہ )ضم ہوجائیں گے۔یہی تصور ہندؤوں میں اور کچھ حد تک صوفی سوچ میں پایاجاتاہے۔
اسلام میں روحانیت کا سادہ مطلب یہ ہے کہ انسان شعوری طور پر اپنے خالق سے جڑا رہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک انسان اپنے رب کی صفات کے آئینہ میں اس کی معرفت حاصل کرے۔ اس معرفت کے نتیجے میں ایک فرد کو وہ ایمان حاصل ہو جس کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دل میں مستحضر رکھے، اسی پر توکل کرے ،اسی سے مدد طلب کرے،اس کا شکر اداکرے،اس سے شدید محبت کرے اوراسی کی بندگی بجالائے۔ اس کے آگے سر تسلیم خم کردے۔ اس کی نافرمانی کے برے انجام سے بچنے کی کوشش کرے۔اسی کا نام تقویٰ ہے۔چنانچہ اسی ایمان کی بدولت انسان کا روحانی وجود اس کے جسمانی وجود پرغالب رہے گا۔وہ نفسانی خواہشات کا غلام نہیں بنے گا۔اس کیفیت کو گھوڑےکی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی گھوڑے پر سوار ہو اور گھوڑے کی لگام اس کے ہاتھ میں ہوتو وہ گھوڑے کو قابو میں رکھ کر اپنی منزل پر پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر گھوڑا بے لگام ہوتو سوار اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے کسی بھی کھائی میں گر کر زخمی یا ہلاک ہوجائے گا۔ یا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ایسی کار میں سفر کرنے کا ارادہ کرے جس کا بریک نہ ہو۔ ایسی صورت میں وہ نہ ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرسکتا ہے اور نہ ہی حادثات سے بچ کر اپنی منزل تک جا سکتا ہے۔ تقوی کے ساتھ زندگی گزارنے کی مثال یہ ہےکہ ایک ڈرائیور ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب گاڑی مکمل طور پر اس کے قابو میں ہو۔ حیوانی وجود پر روحانی وجود کے غلبہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نفسانی خواہشات کو کچل کر آدمی رہبانیت اختیار کرے۔ اس کی مثال ایسے ڈرائیور کی ہےجس کو اپنی گاڑی پر کنٹرول تو حاصل ہو لیکن وہ اپنے خود ساختہ ٹریفک کے قوانین کے مطابق گاڑی کو چلائے اور متعین ومروجہ ٹریفک قوانین کو نہ مانے۔ ایسی خودساختہ رہبانیت اللہ تعالیٰ کو مطلوب نہیں ہے۔ حقیقی روحانیت دراصل اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت میں اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اسی رویے کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ میں یہ تصور بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت ہم کو دیکھ رہا ہے اور ایک دن ہمیں اس کے حضور اپنی نیتوں سمیت اعمال کی جوابدہی کرنی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان چوراہوں پر جہاں کیمرہ نصب ہو وہاں لوگ سرخ سگنل کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور جہاں CCTV کیمرے نصب ہوتے ہیں وہاں چوراور ڈکیت چوری کی ہمت نہیں کرتے۔روزہ مسلسل ایک مہینہ یہ احساس دلاتا ہےکہ ہم چھپ کر بھی کچھ کھا پی نہیں سکتے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔اسی احساس کا نام تقویٰ ہے اور یہی صفت ہمیں مسلسل معصیت سے بچنے اور اللہ کی اطاعت کی خوگر بناتی ہے۔
اظہار تشکر: روزے کا ایک اور مقصد جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے وہ ہے قرآن کے نزول پر اظہارِ تشکر۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان گنت نعمتیں عطا فرمائی ہیں لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت قرآن کی نعمت ہے۔دنیا کی تمام نعمتیں عارضی ہیں اور انسان ان نعمتوں سے ہر حال میں استفادہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہتا۔یہاں تک کہ موت آکر انسان کا تمام لذتوں سے اس کا رشتہ کاٹ دیتی ہے۔جبکہ قرآن ایسی نعمت ہے جو جنت کی ابدی نعمتوں کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔اس حقیقت کا ادراک کروانے کے لیے ہر سال عید الفطر منائی جاتی ہے۔عیدالفطر دراصل قرآن کے نزول پراللہ کے لیے اظہارِ کبریائی بھی ہے اور اظہار تشکّر بھی۔چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے ، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔
(سورۃ البقرۃ ۱۸۵)۔
اسی مضمون کو سورۃ یونس میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’ اے نبی ؐ ، کہو کہ” یہ اللہ کا فضل اور اُس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘۔(سورۃ یونس ۵۸)
دنیا میں طاقتور ممالک کے پاس سب کچھ ہے۔ٹکنالوجی ہے،دولت کے خزانوں پر ان کی سیادت ہے اور ان کے پاس جدید اور مہلک ہتھیار ہیں مگران کے پاس نہ خالقِ کائنات کی معرفت ہےاور نہ اس کا پیغام ہے۔ اہلِ ایمان دنیاوی اسباب کے لحاظ سے اس وقت تہی دست ہیں لیکن ان کے پاس اب بھی ایسی نعمت ہے جو ابھی بھی ان کو دنیا میں عزت و سرفرازی دلاسکتی ہے اور آخرت میں ابدی جنتوں سے ہمکنار کرسکتی ہے۔یہ وہ نعمت ہے جو ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن کوآج کے انسان سمیٹ رہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان قرآن کی قدردانی کریں اور اس سے استفادہ کریں اوراس کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔اس طرح پیش کریں کہ اس میں تمام انسانی مسائل کا حل ہے اور اس کی تعلیمات میں ابدی کامیابی کی ضمانت ہے۔
حکمتِ قیام: ماہِ رمضان میں جہاں دن میں روزے فرض کیے گئے ہیں وہیں رمضان کی راتوں میں قیام یعنی اجتماعی طور پر نمازِ تراویح رکھی گئی ہے جو نفل کے درجے میں ہے۔ جس طرح جسم کی بقا و نشوونما کے لیے ہوا، پانی اور غذا کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح روح کے لیے بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن دراصل روح کی غذا ہے۔دن کے وقت روزے میں جسم کو غذا سے محروم کرکے جسم کو روح کے تابع کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے اور رات میں روحانیت کی آبیاری کے لیے قرآن کی آیات کو سنایا جاتا ہے۔لیکن قرآن اسی وقت روح کی غذا بنتا ہے جب قرآن کے مطالب ہماری روح تک پہنچیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم قرآن کو سنتے ہوئےسمجھ رہے ہوں۔جیسے ہماری اکثر عبادات روح سے خالی ہوتی ہیں اسی طرح تراویح کی نماز بھی ایک رسم کی ادائیگی بن چکی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تین دن میں یا دس دن میں پورے قرآن کو سن کر قرآن کی سماعت کا حق ادا کررہے ہیں ۔جبکہ صورتحال یہ ہےکہ قرآن سننے کی صورت میں قرآنی آیات کی کانوں کے پردوں سے دل تک رسائی نہیں ہوتی اور پڑھنے کی صورت میں قرآنی آیات حلق سے اتر کر دل کی گہرائیوں میں نہیں پہنچ پاتیں ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن ہماری شخصیت پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا جس طرح قرونِ اولیٰ کے اولوالالباب پر ہوتا تھا۔
روزہ کے ذریعے تقویٰ کی صفت پیداکرکے اللہ تعالیٰ چاہتا ہےکہ ہم میں اتنی استعداد پیدا ہوکہ ہم قرآن حکیم کے احکام پر عمل کرسکیں۔ وہیں رات کے لمحات میں قرآن چاہتا ہےکہ بندۂ مومن قرآن کی ہدایت سے روشناس ہو۔ نہ صرف ہم احکامِ الہی کا درک حاصل کریں بلکہ قرآن کےاندر دل آفریں دلائل سےبھی ہمارا ایمان راسخ ہو۔
صیام و قیام کا ایک اور اہم مقصد یہ بھی ہےکہ ایک بندہ اللہ کے حضور اپنے پچھلے تمام گناہوں سے معافی کا پروانہ حاصل کرسکے۔اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے حضور احساس ندامت کےساتھ توبہ واستغفار کرکے اپنے نامہ اعمال میں موجود تمام پچھلے گناہوں کی سیاہی سے پاکی حاصل کریں۔ہر سال اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نایاب موقع دیا جاتا ہےکہ شب ِ قدر کو تلاش کریں اور اس میں دعاؤوں ،اذکارو استغفار کے ذریعے اپنے اعمال میں ایک عمر بھر)ہزارماہ) کی نیکیاں سمیٹیں۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے، ایمان و احتساب کے ساتھ صیام و قیام اور شبِ قدر کااہتمام دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے جو آخرت میں ابدی جنت کی صورت میں حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان بندوں میں شامل فرمائےجنہوں نے اس رمضان سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اللہ کی طرف سے عفو و مغفرت اورعتق من النار کا سامان کرلیا ہو۔آمین۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022