کشمیر میں 90 کے دہے کی بازگشت!

دفعہ 370 کی برخاستگی کے بعد وادی میں خوشحالی کے بلند بانگ دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے

غازی سہیل خان، سرینگر

’ٹارگیٹ کلنگ‘ کے سلسلہ وار واقعات سے مرکز کی ناکام پالیسی اجاگر
کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ٹارگیٹ کلنگ کا نہ تھمنے والا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے ۔مرکزی حکومت نے دفعہ کی منسوخی کے بعد بلند بانگ دعوے تو بہت کیے تھے کہ اب کشمیر میں امن اور بھائی چارہ بحال ہوگا ،اب وادی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگی ،روز گار کے مواقع میسر ہوں گے، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں ہر طرف بے گناہوں کا قتل عام ہو رہاہے ۔ہر کوئی سیاسی پارٹی حسب روایت ہر ایک واقعہ کے بعد ایک عدد بیان دیتی ہے۔ کہیں کوئی پاکستان پر بمباری کی بات کرتا ہے تو کہیں کوئی کشمیر میں اسلام پسندوں کو ہی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے ،کہیں بھاجپا گزشتہ حکومتوں کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھیرا رہی ہے تو چند پارٹیاں پاکستان کو بات چیت میں شامل کرنے کے مشورے دے رہی ہیں ۔لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا ۔جب بھی کوئی مرکزی حکومت سے سوال کرتا ہے تو وہ دھونس اور دباو سے کشمیر کے حالات کو قابو میں کرنے کا ارداہ ظاہر کرتے ہیں ۔زیادہ سے زیادہ فورسز کی تعیناتی اور پکڑ دھکڑ کو ہی اس طرح کے حالات سے چھٹکارے کاکامیاب نسخہ مانتے ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ دنوں میں ساڑھے تین سو فورسز کی کمپنیاں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم عملی میدان میں یہ سارے نسخے نا کام دکھائی دے رہے ہیں۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے کسی بھی محاذ پہ کشمیریوں کو راحت نہیں ملی ہے آج کی تاریخ میں کشمیر بے روز گاری کے کوہ گراں کے نیچے دب چکا ہے جہاں معیشت تباہی کے دہانے پر ہے وہیں سب سے زیادہ زیاں معصوم انسانی جانوں کا ہو رہا ہے،بچے آج بھی یتیم اور عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں وہ چاہے ہندو ہوں یا مسلم ۔
6؍ اپریل 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق راجیہ سبھا میں’’ نتیانند راے‘‘ کا کہنا تھا کہ 370 کی منسوخی کے بعد 87 عام شہری اور 99 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں ۔اس کے مقابلے میں گزشتہ پانچ سالوں میں 177 عام شہری 406 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں ۔وہیں موصوف کا کہنا تھا کہ کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے اور دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف ٹھوس کارروائیاں جاری ہیں، تاہم گزشتہ بیس دنوں میں وادی کشمیر میں 9 افراد کو ٹارگٹ کر کے ہلاک کیا گیا۔ مقامی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق امسال 18 عام شہری ہلاک کیے گئے جن میں مسلم اور ہندو دونوں شامل ہیں ۔اسی طرح سے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد حکومت نے کہا تھا کہ دہشت گردی کو جلد ختم کیا جائے گا لیکن حالات آج 90 کی دہائی کے ہی لگ رہے ہیں جب کشمیر لہو میں ڈوب گیا تھا اور کشمیری پنڈتوں نے اجتماعی سطح پہ ہجرت کر کے ملک کی مختلف ریاستوں میں پناہ لی تھی۔ آج بھی نوجوان بندوق کا راستہ اختیار کر رہے ہیں یعنی ہم آج آگے بڑھنے کے بجائے تیس سال پیچھے چلے گئے ہیں بلکہ آج کے حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ صورتحال اس دور سے بھی زیادہ خطرناک رخ اختیار کر گئی ہے۔اسی طرح سے حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ یہاں سرمایہ کاری کی جائے گی لیکن ابھی تک کشمیر میں ایسی کسی سرمایہ کاری کو نہیں دیکھا گیا جس میں یہاں کے بے روز گاروں کے لیے کوئی راحت کا سامان ہوتا ۔گزشتہ سال ’’نیوز کلک‘‘ کی ایک خبر کے مطابق حکومت نے ابھی تک 41 لاکھ غیر مقامی افراد کو ڈومیسائل فراہم کیے ہیں جن میں 55931 مغربی پاکستان کے مہاجرین کے ساتھ ساتھ 2754 والمیکی پسماندہ ہندو برادری اور 789 گورکھوں کو اب تک ڈومیسائل فراہم کیے گئے ہیں ۔ماہر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ کشمیر میں غیر مسلموں کی ٹارگیٹ کلنگ کی بنیاد یہی ڈومیسائل ہیں ۔اسی کے نتیجے میں گزشتہ چند دنوں سے کشمیر میں ٹارگیٹ کلنگس کا گراف بھی بڑھ گیا ہے ۔ اس تحریر کے لکھے جانے تک بینک منیجر کے ساتھ ساتھ بہار کے ایک مزدور کو بھی ٹارگیٹ کلنگ کے ذریعے ہلاک کیا گیا ہے ۔وہیں اس سے پہلے راہل بٹ نامی ایک کشمیری پنڈت کی ہلاکت کے بعد کشمیری پنڈتوں نے زور دار احتجاجی تحریک کی شروعات کی تھی ۔راہل بٹ کی ہلاکت کے بعد کشمیری پنڈتوں کا یہ مطالبہ زور پکڑ رہا تھا کہ ہمیں جموں منتقل کیا جائے۔ حکومت کسی طرح سے ان کو سمجھا بُجھا ہی رہی تھی کہ چند دن بعد وجے کمار نامی ایک علاقائی دیہی بینک کے منیجر کو بھی اسی طرح ہلاک کر دیا گیا۔جس کے بعد پنڈتوں نے مکمل طور کشمیر سے ہجرت کرنی شروع کر دی ہے ۔کشمیری پنڈتوں کے ٹرکوں کو جمع کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔مقامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کشمیری پنڈت ملازمین کے کوآرڈینیٹر امیت رانا نے کہا کہ پوری وادی میں پنڈتوں نے احتجاج ختم کر دیا ہے ۔کیوں کہ یہاں اقلیتیوں کی زندگیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقلیتیوں کے پاس اب ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔کشمیر اقلیتی فورم نے ہجرت کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام احتجاجی ملازمین کو قاضی گنڈ کے پار جمع ہونے کی اپیل بھی کی ہے ۔اسی طرح سے شمالی کشمیر کے بارہمولہ سے کشمیری پنڈت لیڈر اوتار کرشن سنگھ نے کہا کہ ہم نے ٹرکیں تیار رکھی ہیں اور ہم کبھی بھی یہاں سے منتقل ہو سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بارہمولہ میں ساڑھے تین سو کشمیری پنڈت ملازمین کے کنبوں میں سے آدھے منگل کو ہی چلے گئے ہیں۔اسی بیچ پنڈتوں نے انتظامیہ پر یہ الزام بھی لگایاہے کہ انہوں نے اندرا نگر پنڈت کالونی کو سیل کر دیا ہے تاکہ کہ یہاں سے کوئی ہجرت نہ کر پائے ۔ پہلی بار پنڈتوں کو مرکزی سرکار اور بھاجپا کے خلاف اس طرح سیخ پا دیکھا جا رہا ہے۔ احتجاجی مظاہرین نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمیں کشمیر میں بسانے میں مکمل طور ناکام ہو گئے ہیں، نوکری تو دور کی بات ہمیں اب ہماری جانوں کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ہمارا کشمیر میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے ۔اس ساری نازک صورتحال کے بیچ کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی جانب سے مرکز ی حکومت پر خوب تنقید بھی کی جا رہی ہے ۔ ترنمول کانگریس کے لیڈر کیرتی آزاد نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ’’دفعہ370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں حالات کو بگاڑ دینا بھاجپا کی واحد کامیابی ہے ۔کانگریس کے لیڈر سلمان نظامی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ’’کہاں ہیں وہ بھاجپا کے لیڈر جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عسکریت پسندی ختم ہو جائے گی اور دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد حالات معمول پر آئیں گے؟ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد دائیں بازو کے ہندو اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ وہ اب کشمیر میں رہیں گے اور وہاں زمین بھی خرید سکیں گے ۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے ایک ری ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’ بڑی دکھ کی بات ہے کہ غیر مسلح افراد پر حالیہ طویل حملوں میں یہ ایک اور حملہ ہے حکومت کے الفاظ کھوکھلے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ حالات کو معمول پر لانے تک وہ آرام نہیں کریں گے۔ دعا کرتا ہوں متوفیوں کو امن نصیب ہو ۔‘‘وہیں پی ڈی پی کی صدر اور سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’’حکومت کے پر امن حالات ہونے کے کھوکھلے دعوؤں کے درمیان ٹارگیٹ کلنگ بڑھ رہی ہے جو کہ گہری تشویش کا باعث ہے۔ بزدلی کے اس عمل کی مذمت کریں جو بھاجپا نے افسوس ناک طریقے سے مسلم مخالف بیانیے میں شامل کر کے پھیلائے ہیں ۔‘‘وہیں 2 جون کو مرکزی حکومت نے دلی میں وزیر داخلہ امیت شا کی صدارت میں ایک اہم میٹنگ کا انعقاد عمل میں لایا جس میں آرمی چیف ،را چیف ، جموں و کشمیر پولیس چیف کے علاوہ ایل جی منوج سنہا اور اجیت دوال نے شرکت کی جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پنڈتوں کی جانوں کا خاص خیال رکھا جائے گا، پنڈت ملازمین کے تبادلے محفوظ مقامات پر کیے جائیں گے اور پولیس کو بھی خاص ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ عسکریت پسندی سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیں۔ اس میٹنگ میں مرکزی سراغ رساں اداروں نے پاکستان کو کشمیر میں اس طرح کے حالات پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے ۔اخباری اطلاعات کے مطابق ایجینسیز نے امیت شاہ کو بتایا ہے کہ ابھی تک طالبان کا کشمیر میں کوئی وجود نہیں پایا گیا ہے۔ جموں کشمیر کے ایل جی منوج سنہا نے ٹارگیٹ کلنگ کے بڑھتے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جنہوں نے بھی یہ کیا ہے ان کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے گی جس کو وہ یاد رکھیں گے ۔‘‘
اس ساری نازک صورتحال کے بیچ سوشل میڈیا پہ کشمیر فریڈم فائٹرز نامی کسی عسکری گروپ کا ایک بیان وائرل ہوا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے ایک لڑکے نے بینک منیجر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور آگے بتایا کہ جو کوئی بھی کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی میں ملوث ہوگا اس کا بھی یہی انجام ہوگا لہٰذا یہ حملہ ان تمام غیر مقامی لوگوں کی آنکھیں کھولنے والا ہے جو احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کہ مودی کی قیادت والی حکومت انہیں یہاں بسائے گی، یہ ان کے لیے فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور انہیں اب اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی قیمت انہیں اپنی زندگیوں کی صورت میں چکانی پڑے گی ۔‘‘تاہم حکومت یا کسی اور ادارے نے ابھی اس خط کے متعلق کوئی تصدیقی یا تردیدی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر نے موجودہ حالات کے متعلق کہا کہ ’’کشمیر میں پیش آنے والی قتل کی منصوبہ بند وارداتوں کو ہم مرکز کی ناکام پالسی کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔کشمیر کی آئینی حیثیت کو تلپٹ کرنے کا جو جواز یہ لوگ پیش کر رہے ہیں اور جن مقاصد کو لے کر یہ سارے انتظامات کیے گئے ہیں اُن میں سے ایک بھی مقصد ابھی تک پورا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ۔‘‘ ایک اور تجزیہ نگار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ اس خط سے یہ لگتا ہے کہ ملیٹینٹوں کا مقصد اب غیر مقامی افراد کو ہی نشانہ بنانا ہے تاکہ جو بھی باہر والا یہاں بسنا چاہے وہ ہزار بار سوچے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کوبیان بازی اور طاقت آزمانے سے زیادہ کشمیریوں کی بات سُننی چاہیے اور جب تک کشمیریوں اور پڑوسیوں کے ساتھ بات چیت نہ ہو اور کشمیر سے متعلق کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے انہیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا اس طرح کی قتل و غارت گری یہاں روز کا معمول رہے گی ‘‘۔ اس سارے منظر نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ غیر مقامی افراد (بالخصوص ہندوؤں) کو یہاں بسا کر یہاں کی آبادیاتی ساخت (ڈیموگرافی) کو تبدیل کر کے اکثریتی آبادی کو اقلیتی آبادی میں تبدیل کر دیا جائے گا لہذا حکومت اگر اس منظرنامہ کو پڑھ کر مناسب اصلاحی قدم نہ اٹھائے تو خدشہ ہے کہ آگے حالات مزید ابتری کی طرف جا سکتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022