اداریہ

حکومت اپنوں کی سنے

نائب صدر جمہوریہ ہند وینکیا نائیڈو کے دورہ قطر کے بیچ ہمارے سفیر کو قطری حکومت طلب کرتی ہے، ان کے اعزاز میں طے شدہ دعوت منسوخ کر دی جاتی ہے بلکہ ان کی پریس کانفرنس تک منسوخ ہو جاتی ہے۔ کیا یہ سب وزارتِ خارجہ کی نا اہلی اور کوتاہی کا غماز نہیں؟
سفیروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی نظر میں بھارت کی امیج کو سنواریں، غیر ملکوں میں بسنے والے بھارتیوں کی زندگی کو آسان بنائیں ان کے مسائل حل کریں اور بیرونی سرمایہ کو اندرون ملک منتقل کریں۔ لیکن اب وہ ’ڈیمیج کنٹرول’ میں اپنی توانائی صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کو صفائی دینے کا کام کرنا پڑ رہا ہے اور وہ ایسا کرنے کے لیے خود حکمراں پارٹی کی کرتوتوں کے سبب مجبور ہو کر بیرونی ممالک میں بھارت سے معافی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ ہمارے سفیروں سے توہینِ رسالت پر جواب طلبی کی جاتی ہے۔ جمہوریتوں میں سفیر ملک کی پائیدار خارجہ پالیسیوں کا تحفظ کرتا ہے وہ انتخابات کے بعد بدلنے والی حکومتوں یا پارٹیوں کا رکن نہیں بلکہ تربیت یافتہ خارجہ سروس کا ایک کیڈر ہوتا ہے۔ ان کو اپنی تنگ نظر سیاست کے لیے یوں استعمال کرنا ملک و قوم کے مفادات کے خلاف ہے۔ جتنی جلد یہ بات اہل اقتدار سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہو گا۔
چند روز قبل حزب مخالف کے قائد راہول گاندھی نے اپنے ایک غیر ملکی دورہ کا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک سفیر نے ان سے کہا کہ اب وزارتِ خارجہ بدل گئی ہے، لوگ اس کے سفیروں کو مغرور بتانے لگے ہیں۔ اس پر وزیر خارجہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ’’اسے غرور نہیں خود اعتمادی کہتے ہیں، اسے قومی مفاد کا تحفظ کہتے ہیں اور ان کے سفیر نئی حکومت کے خارجہ محکمے کی سرکاری ہدایات پر کاربند ہوتے ہیں۔‘‘ اس سے قبل جب چینی دراندازی کے حوالے سے راہول گاندھی نے سوالات کھڑے کیے تھے تب وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ’مودی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنایا ہے۔‘ اگر یہی بات ہوتی تو قطر نے بی جے پی ترجمانوں کی جانب سے کی جانے والی توہینِ رسالت کے لیے بھارتی حکومت سے کھلی معافی مانگنے کرنے کا مطالبہ کیوں کیا؟ دوحہ میں بھارتی سفیر کو صفائی کیوں دینی پڑی کہ متنازعہ بیان حکومت میں شامل کسی فرد نے نہیں دیا ہے اور وہ ایک ’فرِنج عنصر‘ ہے؟ حکمراں جماعت کے ایک ترجمان کو اس طرح ’حاشیہ والا فرد’ قرار دے کر مودی حکومت نے اپنی ہی جَگ ہنسائی کروائی۔ پچھلے ہفتے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال 87 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی ہے۔ 89 لاکھ سے زائد ہندستانیوں کے توسط سے 50 بلین ڈالر کا زر مبادلہ خلیجی ممالک سے بھارت میں آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہماری معیشت میں مسلم ممالک سے تجارت ایک بڑا حصہ ہے۔ لیکن وزارت خارجہ پر عالمی دباؤ پڑنے پر حکومت اور حکمراں پارٹی کے حرکت میں آنے سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ حکومت خود اپنے شہریوں کی بات کو اہمیت نہیں دیتی بلکہ بیرونی ممالک میں اپنی امیج پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ اس کے باوجود ملک کی عوام کو امید کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے کہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی زیادتیوں کو نکیل کسنے کے راستے کھلے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کی خارجہ پالیسی میں جو بے اعتدالی اور بے ترتیب باتیں نکل کر آرہی ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
وزیر خارجہ ایس جیے شنکر نے یوروپ اور امریکہ کو مختلف موقعوں پر ’کھری کھری’ سنائی جب کبھی ان کے اداروں یا حکومتی نمائندوں نے بھارت میں حقوق انسانی یا مذہبی آزادی یا شہریوں کے ساتھ کسی زیادتی پر توجہ دہانی کرائی یا نکتہ چینی کی۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن کی جانب سے بھارت کی اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کے معاملے پر تبصرہ بہت اعلیٰ حکومتی سطح کا عمل تھا۔ اس کا معقول اور معروف انداز سے جواب نہ دے کر وزارت خارجہ نے امریکہ میں ’بندوق کلچر’ اور خوں ریزی پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ اب جبکہ پاکستان نے توہین رسالت پر جب ایک ٹویٹ کر دیا تو ترجمان اَرِندم باگچی نے پلٹ کر وار کر دیا کہ ’پاکستان اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے کئی واقعات میں ملوث ہے اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ دوسرے ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر اس کا بیان مضحکہ خیز ہے۔’ اس طرح کی تو تو میں میں ہم اپنے یہاں انتخابی عمل کے دوران دیکھنے سننے کے عادی ہیں لیکن عالمی سفارتکاری میں ویسی زبان استعمال نہیں کی جاتی جیسی گلیوں یا چوپالوں میں کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ایم مودی نے دعوی تو کر دیا کہ ’’میں نے 8 سال میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ملک کا سر شرم سے جھک جائے‘‘ لیکن آج دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح دنیا کے سامنے ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022