دعوتی مشن اپنالیں‘ اندھیرے چھٹ جائیں گے

تنقید میں انصاف واعتدال سے انحراف امّت کو نقصان ہی پہنچائے گا

محمد ابراہیم خان، آکوٹ، مہاراشٹر

گفتگو ایک نجی ملاقات میں ہو یا کسی محفل میں، تبصرہ کرتے ہوئے کچھ باتوں کا لحاظ کرنا چاہیے۔ بطور خاص کسی دینی شخصیت یا دینی جماعتوں کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ کبھی کبھی جذبات میں تبصرہ کرتے ہوئے غیر ضروری باتیں بھی زبان سے نکل جاتی ہیں اور جماعتی عصبیت جنم لینے لگتی ہے یا ہماری غیر حکیمانہ اور بیہودہ تنقید سے کسی کی شخصیت مجروح ہوجاتی ہے۔ اکثر شخصیات میں اور جماعتوں میں کچھ لوگ منفی رویوں اور کمزوریوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کبھی تو کوئی خوبی بھی ان کو خامی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اکثر حوالوں سے بات کی جائے تو اسے زیادہ پسند کرتے ہیں، یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ مضمون نگار صرف اپنی ہی قابلیت کو نہیں ظاہر کر رہا ہے بلکہ جو بات بھی کر رہا ہے وہ اپنے اسلاف اور سینئر لوگوں سے استفادہ کرتے ہوئے بات کہہ رہا ہے کہ یہ شرف اس کی ہی رائے نہیں بلکہ بہت سے بزرگوں اور اسکالر لوگوں کی رائے بھی ہے اور ان کی تحقیق بھی۔ اس طرح اگر کوئی مضمون نگاری کرتا ہے تو وہ کافی مطالعہ کرکے اور محنت شاقہ سے اپنی تحریر میں زور پیدا کر رہا ہے لیکن نقاد اس کو بھی یہ کہہ کر مضمون نگار کی خامی ثابت کردے کہ یہ صاحب تو انگریزوں اور دہریوں سے متاثر ہو کر ان کے افکار و نظریات کے حوالے دیتے ہیں۔ اب چاہے آپ اپنی تحریر میں ان فلاسفہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں غلط ثابت کر رہے ہوں۔ چونکہ ان کی کتابوں سے آپ نے حوالہ لیا جو کہ عین ضروری تھا مگر ناقد کو یہی ریفرنسس ناگوار گزرے اور اس نے اسے خامی ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اسی طرح کسی جماعت کو ہم اس کے دائرہ کار کی بنیاد پر، اپنے تناظر میں غلط ثابت کر کے گمراہی یا دین سے ہی ہٹ جانے کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں اور یہ ساری بحث جماعت کے ذمہ داروں سے رجوع کیے بغیر ہم اپنے سطحی جائزے کی بنیاد پر کر بیٹھتے ہیں حالانکہ اگر واقعی کوئی بڑی خطا یا بھول یا تغافل ہو رہا ہو تو احسن طریقہ پر توجہ دلائی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ ٹیلیگرام، فیس بک وغیرہ پر پوسٹ کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ہم خیال لوگوں کی تائید اور واہ واہی حاصل ہوجاتی ہے اور دو چار لوگوں ‌نے لائیک کرلیا تو سینہ پھول جاتا ہے۔
ایک بات بار بار سامنے آتی رہی کہ فلاں جماعت کا کام تو بس مسلمانوں تک ہی محدود ہے اور وہ غیر مسلم لوگوں تک دین کا پیغام پہنچانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتی، لیکن یہ سب باتیں کسی ذمہ دار سے رابطہ کیے بغیر ہی ہوتی ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ آیا جماعت کے کچھ لوگ برادران وطن میں دعوتی کام کرتے بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن یہ جاننے کی ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی یا پھر کسی ذمہ دار سے نجی ملاقات میں اور دوستانہ ماحول میں دعوتی کام کی اہمیت واضح کر دیں تو بات سمجھ میں آئے گی اور ضرور عمل کی راہیں بھی نکلیں گی، لیکن اگر کوئی جماعتوں پر ٹارچ لگا کر ان کی خامیوں کو ہی کوئی تلاش کرنے کو اپنا مشن بنالے تو اس میں اصلاح کی گنجائش کم ہوگی۔
ہم نے اکثر اپنے ملاقاتیوں میں اس طرح کے چرچے ضرور کیے ہیں اور یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کی ہے کہ آج اگر ملک میں ملت اسلامیہ پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ پیغام حق پہنچانے کی کوشش کرے تو آج بھی حالات بدل سکتے ہیں، اور یہی ہمارا فرض منصبی بھی ہے اور کار نبوت بھی ہے۔ لیکن بطور خاص کسی ایک ہی جماعت کو ذمہ دار ٹھیرانا تو درست نہیں ہے۔ اب دیکھیے یہی بات ایک جماعت کے ذمہ داران خود جماعت کے افراد سے کہتے ہیں۔
’’ہمارے ایک انتہائی مخلص بزرگ بھائی عبد الرشید صاحب حیدرآبادی جو نصف صدی سے حرمین شریفین کی خدمت میں مصروف ہیں، تبلیغی جماعت سے قدیم تعلق رکھتے ہیں۔ اس مرتبہ تشریف آوری کے موقع پر انہوں نے ایک عجیب واقعہ سنایا۔ جب وہ کئی سال پہلے ازبکستان جماعت میں گئے تھے تو وہاں ایک بزرگ سے ان کا تعارف کرایا گیا۔ اس وقت ان کی عمر اسّی سے متجاوز تھی۔ انہوں نے جماعت کے احباب کو مخاطب کر کے کہا: ایک زمانہ تھا یہ علاقہ مسلمانوں کا علمی و روحانی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ امام بخاری و ترمذی یہیں پیدا ہوئے، بڑے بڑے مشائخ پیدا ہوئے، یہاں کا معمولی شخص کہیں اور جاتا تو اس کو امام بنایا جاتا مگر پھر ’’اشتراکی انقلاب‘‘ آیا۔ وہ کہنے لگے کہ مجھے یاد ہے چوراہے پر ہماری عورتوں و بچیوں کو جمع کیا گیا اور ان کو حکم ہوا کہ وہ برقع اتار کر اپنے ہاتھ سے ان میں آگ لگائیں، ورنہ ان کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ میری اہلیہ تیار نہ ہوئیں اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو آگ میں ڈال دیا گیا۔ میں نے بچیوں سے کہا کہ برقع اتار کر آگ لگادو اور گھروں میں داخل ہو جاؤ۔ وہ شریف بچیاں برقع اتار کر گھروں میں داخل ہوئیں تو ان کے جنازے ہی باہر نکلے۔ وہ بزرگ بولے؛ جانتے ہو حالات کیوں خراب ہوئے؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم نے یہاں کی غیر مسلم آبادی کو نظر انداز کر دیا، ہم نے ان میں دعوت کا کام نہیں کیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ تم ہندوستان جا کر میری وصیت پہنچا دینا کہ ابھی مسلمانوں کے پاس موقع ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھائیں، غیروں کے سامنے اسلامی اخلاق کا نمونہ پیش کریں اور ان میں کام کریں ورنہ خدانخواستہ ہندوستان میں بھی وہی حالات نہ پیدا ہوجائیں جو یہاں ازبکستان میں ہوئے ہیں۔
مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے برما کے مسلمانوں کو بھی اسی خطرہ سے آگاہ کیا تھا کہ اگر غیروں میں کام نہ ہوا تو وہ دن آنے والے ہیں کہ زندگی تنگ ہوجائے گی۔ ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے اب یہی راستہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق سے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں اور اسلام کا نظام اخلاق ایمان کی طاقت اور یقین کے ساتھ برادران وطن کے سامنے پیش کریں، اور ہر ضروری اور اہم کام سے پہلے اس کو اہم سمجھیں کہ یہ ہمارا اخلاقی فریضہ بھی ہے، دینی فریضہ بھی، یہی ہمارے تحفظ کا بھی راستہ ہے اور یہی دعوت دین کا سب سے محفوظ، مؤثر اور طاقتور قدم ہے۔‘‘(مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی )
کاش مخلصانہ کوششیں جہاں ہو رہی ہیں، ان پر ہم سب اعتماد کریں اور اسی ایک نکاتی پروگرام پر پوری ملت اتفاق کرلے اور دعوتی مشن کو جیسا کہ ہمارے ان بزرگوں نے اس کی ضرورت محسوس کی تھی۔ ہم سب پوری ذمہ داری اور منصوبہ بند طریقہ پر انجام دینے لگ جائیں تو ان شاء اللہ اس ملک میں جو خطرات محسوس کیے جارہے ہیں وہ بھی دور ہوں گے اور سماج میں چھائے ہوئے اندھیرے بھی چھٹ جائیں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023