سول سوسائٹی کے ارکان نے عدالتوں اور پولیس سے اترکاشی میں ہندوتوا گروپس اجتماع کو روکنے کی اپیل کی

نئی دہلی، جون 13: سول سوسائٹی کے ارکان نے منگل کو سپریم کورٹ، اتراکھنڈ ہائی کورٹ اور پولیس سے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا نوٹس لینے کو کہا۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ 15 جون کو ہندوتوا گروپوں کے ذریعے بلائے گئے اترکاشی میں ہونے والے ایک اجلاس کی وجہ سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

گذشتہ ہفتے ہندوتوا گروپوں کی جانب سے مسلمانوں کو ریاست چھوڑنے کی دھمکیاں دینے کے بعد سے اتراکھنڈ میں کشیدگی بڑھی ہوئی ہے۔ اترکاشی قصبے کے مسلمان تاجروں کو 15 جون تک اپنی دکانیں بند کرنے اور شہر سے نکل جانے کی تنبیہ کی گئی ہے۔

پرولا مین بازار کے علاقے میں مسلمانوں کے لیے انتباہات والے پوسٹر لگائے گئے تھے جس کی وجہ سے کمیونٹی کے کئی افراد کو شہر چھوڑنا پڑا۔ مسلمانوں کی ملکیتی دکانوں کے دروازوں کو ’’X‘‘ سے پینٹ کیا گیا تھا تاکہ انھیں نشان زد کیا جاسکے۔

منگل کو 52 سابق سرکاری ملازمین کے ایک گروپ نے ریاست کے چیف سکریٹری اور پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کو ایک خط میں اتراکھنڈ کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹس نے ریاستی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ’’مجرمانہ، فرقہ وارانہ یا دھمکی آمیز‘‘ واقعات، جیسے ہندوتوا گروپوں کی طرف سے بلائے گئے کنکلیو کو اترکاشی میں ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔

انھوں نے کہا ’’یہ ہمارے لیے ایک معمہ ہے کہ عوامی ڈومین میں معلومات دستیاب ہونے کے باوجود 26 مئی سے اقلیتی برادریوں کے خلاف جاری مجرمانہ مہم میں پوسٹروں کے بعد ‘نامعلوم افراد’ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے علاوہ کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟‘‘

دستخط کنندگان نے یہ بھی نشان دہی کی کہ سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نفرت انگیز تقریر کے واقعات کے خلاف مقدمات درج کریں چاہے کوئی شکایت درج نہ کرائے۔ اس خط پر ہندوستانی انتظامی خدمات کے سابق افسران ہرش مندر، روی ویرا گپتا، سنیل مترا، اشوک واجپئی اور دیگر نے دستخط کیے تھے۔

دریں اثنا واجپئی اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے سپریم کورٹ اور اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو الگ الگ خط لکھ کر خبردار کیا ہے کہ اترکاشی میں ہونے والے واقعات بڑے پیمانے پر تشدد کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے اپنے خط میں کہا ’’یہ واقعات ماضی قریب میں اقلیتی مذہبی گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر یا منظم نفرت انگیز تقاریر کے تناظر میں ہیں، جس نے خوف اور دھمکی کا ماحول پیدا کیا ہے۔‘‘

عدلیہ سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے انھوں نے ان لوگوں کے لیے معاوضہ اور بازآبادکاری کا مطالبہ کیا جو اترکاشی میں اپنے گھر اور دکان چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔