شہریت ترمیمی قانون مغربی بنگال حکومت کی مخالفت کی وجہ سے ریاست میں نافذ نہیں ہو پارہا، ریاستی بی جے پی سربراہ کا دعویٰ

نئی دہلی، فروری 19: آنند بازار پتریکا کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی مغربی بنگال یونٹ کے سربراہ نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ ریاست میں شہریت ترمیمی قانون کو اس لیے نافذ نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ ممتا بنرجی حکومت اس قانون کی مخالفت کر رہی ہے۔

بونگاؤں شمالی 24 پرگنہ میں میونسپل انتخابات کے لیے مہم چلاتے ہوئے ریاستی صدر سُکانتا مجومدار نے کہا کہ بی جے پی ’’جلد یا بدیر‘‘ شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کرے گی۔

آنندبازار پتریکا کے مطابق انھوں نے مزید کہا ’’ہم اس معاملے کے بارے میں اعلیٰ سطح پر سوچ رہے ہیں۔ اس ریاست [مغربی بنگال] میں سی اے اے میں تاخیر ہوئی ہے کیوں کہ ریاستی حکومت اس قانون کی مخالفت کر رہی ہے۔ اگر ریاستی حکومت چاہے تو ہم کل ہی سی اے اے نافذ کر سکتے ہیں۔

معلوم ہو کہ بونگاؤں میں متوا برادری کا غلبہ ہے، ایک ایسی برادری جس میں ایسے دلت شامل ہیں جو زیادہ تر بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آئے ہیں اور بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق اس سال جنوری میں مغربی بنگال میں متوا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے متعدد قانون سازوں نے شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کے لیے نریندر مودی کی قیادت والی حکومت پر دوبارہ دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اے این آئی کے مطابق دسمبر میں مغربی بنگال کے بی جے پی لیڈروں کے ایک وفد نے، بشمول ریاست کے 17 ممبران پارلیمنٹ، وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی اور اس قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق فروری 2021 میں مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات سے پہلے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ کووڈ 19 ویکسینیشن مہم ختم ہونے کے بعد اس قانون کو نافذ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون جسے پارلیمنٹ نے 11 دسمبر 2019 کو منظور کیا، بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ اقلیتی مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں مقیم ہوں اور 31 دسمبر 2014 سے پہلے ملک میں داخل ہوئے ہوں۔

تاہم اس قانون کو نافذ کرنا ابھی باقی ہے کیوں کہ شہریت ترمیمی قانون کے قواعد وضع ہونا باقی ہیں۔ حکومت نے کہا تھا کہ کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے قواعد کی تشکیل میں تاخیر ہوئی ہے اور اس نے اس کی مدت میں متعدد توسیع کی درخواست کی ہے۔

شہریت کے قانون کو امتیازی قرار دیتے ہوئے وسیع پیمانے پر تنقید کی گئی ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے اسے این آر سی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تمل ناڈو، مغربی بنگال، کیرالہ، پنجاب، راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی کئی ریاستوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں۔