مرکز نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس سے ملحق تنظیموں پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی

نئی دہلی، ستمبر 28: مرکزی حکومت نے بدھ کو پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کے ساتھیوں پر مبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی۔

بدھ کی شام پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی کیرالہ یونٹ کے جنرل سکریٹری عبدالستار نے کہا کہ تنظیم کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔

ایک حکومتی نوٹیفکیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ تنظیم اس کے آٹھ ملحقہ اداروں کے ساتھ ملک میں دہشت کا راج قائم کرنے کے ارادے سے ’’پرتشدد دہشت گردانہ سرگرمیوں‘‘ میں ملوث ہے، جس سے ملک کی سلامتی اور امن عامہ کو خطرہ لاحق ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے بانی ارکان میں سے کچھ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا تنظیم کے رہنما ہیں اور ان کے دہشت گرد گروپ جماعت المجاہدین بنگلہ دیش سے تعلقات ہیں۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’’پی ایف آئی اور اس کے ساتھی ایک سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی تنظیم کے طور پر کھلے عام کام کرتے ہیں لیکن وہ جمہوریت کے تصور کو کمزور کرنے کے لیے کام کرنے والے معاشرے کے ایک خاص طبقے کو بنیاد پرست بنانے کے لیے خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔‘‘

پی ٹی آئی نے رپورٹ کیا کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے بعد تنظیم سے منسلک جائیدادوں کو ضبط کیا جائے گا اور اس کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کیا جائے گا۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا 2007 میں جنوبی ہندوستان میں تین مسلم تنظیموں کے انضمام کے ذریعے تشکیل دیا گیا تھا۔

حکومت کی طرف سے بدھ کی کارروائی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے تنظیم کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کے درمیان سامنے آئی ہے۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کی سیاسی ونگ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا سے منسلک 250 سے زیادہ افراد کو 22 ستمبر اور 27 ستمبر کو تفتیشی ایجنسیوں کے چھاپوں کے دوران دہشت گردی سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ چھاپے کیرالہ، کرناٹک، مہاراشٹر، دہلی، اتر پردیش، گجرات، آسام، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش، تامل ناڈو، راجستھان اور پڈوچیری میں مارے گئے۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے اس کارروائی کو اپنے ارکان اور حامیوں کے خلاف ’’وچ ہنٹ‘‘ قرار دیا ہے۔ تنظیم نے الزام لگایا ہے کہ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے ’’دہشت کا ماحول‘‘ بنانے کے لیے بے بنیاد دعوے کیے ہیں۔

بدھ کے نوٹیفکیشن میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ اسے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے عالمی دہشت گرد تنظیموں جیسے اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ بین الاقوامی روابط کی متعدد مثالیں ملی ہیں۔

حکومت نے کہا ’’PFI اور اس کے ساتھی ملک میں عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دے کر ایک کمیونٹی کی بنیاد پرستی کو بڑھانے کے لیے خفیہ طور پر کام کر رہے ہیں۔‘‘

اس میں مزید کہا گیا ہے ’’PFI کے افسران اور کیڈر دوسروں کے ساتھ مل کر سازش کر رہے ہیں اور ہندوستان کے اندر اور بیرون ملک سے بینکنگ چینلز کے ذریعے فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں۔‘‘

مرکز نے کہا کہ تنظیم پر پابندی لگانے کی سفارش اتر پردیش، کرناٹک اور گجرات کی ریاستی حکومتوں نے کی تھی۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ مختلف معاملات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کے کارکن بار بار پرتشدد اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔

دریں اثنا تنظیم کی کیرالہ یونٹ کے جنرل سکریٹری عبدالستار نے صحافیوں کو بتایا کہ تنظیم کو تحلیل کر دیا گیا ہے اور یہ کہ ملک کے قانون پسند شہری ہونے کے ناطے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے عہدیداروں نے پابندی کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم اس سے پہلے دن میں تمل ناڈو پاپولر فرنٹ آف انڈیا یونٹ کے صدر محمد شیخ انصاری نے کہا تھا کہ تنظیم نے پابندی کو عدالتوں میں چیلنج کیا ہے۔ انھوں نے کہا تھا ’’اس غیر قانونی اور غیر جمہوری پابندی کو ہم قانونی طور پر چیلنج کریں گے۔‘‘

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے اس پابندی کو جمہوریت اور لوگوں کے حقوق کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔ پارٹی کے قومی صدر ایم کے فیضی نے کہا ’’جس نے بھی بی جے پی حکومت کی غلط اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف بات کی، اسے گرفتاریوں اور چھاپوں کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘