مسلمانوں سے متعلق نریندر مودی  کے متنازعہ بیان کی غیر ملکی میڈیا میں بھی گونج

نیویارک ٹائمز،سی این این اور  دی گارجین نے مسلمانوں کے تعلق سے بیان کو عالمی سطح پر وزیر اعظم کی تصویر کے خلاف قرار دیا ہے

نئی دہلی ،23ا پریل :۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ گزشتہ دنوں اتوار کو راجستھان میں عوامی جلسے کے دوران مسلمانوں کو درانداز کہے جانے اور ملک کی املاک پر قبضہ کر لینے والے انتہائی اشتعال انگیز تقریر پر صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ غیر ملکی میڈیا میں بھی گونج سنائی دے رہی ہے ۔ نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جیسے معتبر اخبارات نے نریندر مودی کے متنازعہ بیان کو اہمیت کے ساتھ شائع کیا اور اس کی مذمت بھی کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ کے مشہور اخبار نیویارک ٹائمز  نے خبر کو کوریج کرتے ہوئے سرخی لگائی کہ ‘مودی نے مسلمانوں کو ‘درانداز’ کہا جو ہندوستان کی املاک چھین لیں گے۔ اخبار نے لکھا  مزید لکھا کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف جو راست  زبان استعمال کی گئی ہے وہ عالمی سطح پر وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کے خلاف ہے۔

نیویارک ٹائمز نے لکھاکہ جب مودی اپنی تیسری مدت کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں، تو انہوں نے خود ایسی زبان استعمال کی جس سے یہ خدشات پیدا ہو گئے کہ اس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے والے گروہ کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔  اور یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ ان کی بات چیت میں تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟

خیال رہے کہ عام طور پر، مودی لفظ "مسلم” کا استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔


دی گارڈین نے اس حوالے سے سرخی لگائی کہ  ہندوستان میں نریندر مودی پر انتخابات کے دوران کشیدگی پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ اخبار نے مودی کی مکمل تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا  "جب سے بی جے پی 2014 میں ہندو قوم پرست ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، اس پر ایسی پالیسیوں اور بیان بازی کا الزام لگایا گیا ہے جو اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں، خاص طور پر مسلمانوں کو جو مبینہ طور پر بڑھتے ہوئے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔

دریں اثنا سی این این  نے لکھا کہ  مودی  کا مسلمانوں پر تبصرہ ‘نفرت انگیز تقریر’ کے زمرے میں آتا ہے ۔ سی این این نے لکھا کہ اس نے مودی کی تقاریر پر الیکشن کمیشن آف انڈیا سے تبصرہ مانگا ہے۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اس نے مزید لکھا کہ   پچھلی دہائی کے دوران، مودی اور ان کی بی جے پی پر اپنی ہندو قوم پرست پالیسیوں کے ساتھ مذہبی پولرائزیشن کا الزام  عائد کیا گیاہے، جس سے دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت میں اسلاموفوبیا کی لہر اور  فرقہ وارانہ جھڑپوں کو ہوا دی ہے ۔ ان کے علاوہ واشنگٹن پوسٹ، وال اسٹریٹ جرنل، دی ٹائمز، الجزیرہ وغیرہ نے بھی مودی کی تقریر کو فرقہ وارانہ قرار دیتے ہوئے رپورٹس شائع کی ہے۔