آئی آئی ٹی بمبئی میں 37 فیصد ایس سی-ایس ٹی طلبا سے ان کی ذات جاننے کے مقصد سے داخلہ امتحانات میں ان کا رینک پوچھا گیا، ایک داخلی سرورے کی رپورٹ میں خلاصہ

نئی دہلی، مارچ 12: دی ہندو کی خبر کے مطابق گذشتہ سال انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بمبئی کے ایک داخلی سروے کے مطابق 37 فیصد سے زیادہ دلت اور آدیواسی طلبا سے ان کے ساتھی طلبا نے ان کی ذات جاننے کے ارادے سے ان کے داخلے کے امتحان میں حاصل نمبروں کے بارے میں پوچھا۔

IIT میں داخلے کے امتحانات میں کٹ آف نمبر ان طلبا کے لیے کم ہوتے ہیں جو درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے طلبا کے لیے مخصوص نشستوں پر داخلہ لیتے ہیں۔ ذات پات پر مبنی ریزرویشن کے مخالف اکثر اس شق کا استعمال یہ تجویز کرنے کے لیے کرتے ہیں کہ دلتوں اور آدیواسیوں کو اعلیٰ ذات کے طلبا سے کم نمبر حاصل کرنے کے باوجود داخلہ مل جاتا ہے۔

یہ معلومات درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے طالب علم سیل نے کالج میں دلت اور آدیواسی برادریوں سے تعلق رکھنے والے طلبا سے متعلق ایک سروے کے حصے کے طور پر جمع کی تھیں۔ تاہم اس سروے کے نتائج 12 فروری کو دلت طالب علم درشن سولنکی کی خودکشی کے بعد سامنے آئے ہیں۔

احمد آباد سے تعلق رکھنے والا 18 سالہ سولنکی IIT-Bombay میں بیچلرز ان ٹیکنالوجی (کیمیکل) کورس کے پہلے سال کا طالب علم تھا۔ اس کی موت کے بعد سولنکی کے خاندان نے کالج میں ذات پات کے امتیاز کا الزام لگایا، جس کے بعد اس معاملے کی انکوائری کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔

2 مارچ کو انکوائری کمیٹی نے سولنکی کی خودکشی کے پیچھے ممکنہ وجہ کے طور پر ذات پات کی تفریق کو مسترد کر دیا تھا اور اس کے اس قدم کی وجہ کے طور پر ’’تعلیمی کارکردگی کی خرابی‘‘ کا اشارہ دیا تھا۔

تاہم فروری 2022 میں کیے گئے اس سروے کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے زمرے کے کئی طلبا کو کیمپس میں ذات پات پر مبنی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دی وائر کی خبر کے مطابق ایس سی-ایس ٹی اسٹوڈنٹ سیل نے دلت یا آدیواسی برادریوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2,000 طلبا کو اپنا سروے کا سوالنامہ بھیجا تھا جن میں سے 388 نے جواب دیا تھا۔ 388 طلبا میں سے 77 نے کہا کہ کیمپس میں فیکلٹی ممبران اور ساتھی طلبا نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے۔

دی وائر نے رپورٹ کیا کہ 93 طلبا نے بتایا کہ اونچی ذات کے طلبا نے کھلے عام کیمپس میں ذات پات یا ریزرویشن مخالف لطیفے، میمز یا گانے شیئر کیے۔ کم از کم نو طالب علموں کو فیکلٹی ممبران کی طرف سے ذات پات پر مبنی میمز اور لطیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔

وہیں سروے کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 26 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ان سے ان کی ذات جاننے کی نیت سے ان کا مکمل نام پوچھا گیا۔

سروے کرنے کے علاوہ ادارے کے ایس سی-ایس ٹی اسٹوڈنٹ سیل نے ایک اوپن ہاؤس کا انعقاد بھی کیا تھا جس میں دلت اور آدیواسی برادریوں کے طلبا نے ذات پات پر مبنی امتیاز کے بارے میں اپنے تجربات کو شیئر کیا۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق شیڈول ٹرائب کیٹیگری کے ایک طالب علم نے جون 2022 میں اوپن ہاؤس میں کہا تھا کہ ایک فیکلٹی ممبر نے اس کا پیپر چیک کرنے سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ وہ مینا ذات سے تعلق رکھتے تھے۔