بھارت میں مساجد پر تنازعہ: دہلی کے قطب مینار کمپلیکس کی مسجد میں نماز پر پابندی لگا دی گئی

نئی دہلی، مئی 22: بھارت میں واقع قدیم مساجد پر تنازعہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ایک بنیاد پرست نظریہ کے لوگ مساجد کو تباہ کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جہاں وارانسی کی گیانواپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کا تنازعہ عدالت تک پہنچ گیا ہے، حال ہی میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے قطب مینار کمپلیکس کے اندر واقع مغل مسجد کو اچانک بند کر دیا ہے اور 13 مئی سے اس میں نماز پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

اے ایس آئی قدیم یادگاروں اور قومی اہمیت کے آثار قدیمہ کے مقامات کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ یہ وزارت ثقافت، حکومت ہند کے تحت ایک سرکاری ادارہ ہے۔

اگرچہ قطب مینار اور اس کے احاطے میں موجود یادگاریں ہندوستان کے 40 عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں، تاہم مغل مسجد کے اندر نماز پر کبھی پابندی نہیں لگائی گئی۔

قطب مینار کمپلیکس کو 1993 میں عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد دہلی وقف بورڈ کی نگرانی میں اس میں موجود مسجد میں نماز پڑھی جاتی رہی۔

مولانا شیر محمد کو 10 ستمبر 1976 کو وقف بورڈ نے مسجد کے امام کے عہدے پر مقرر کیا تھا۔ مولانا اپنی تعیناتی کے بعد سے مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے۔ انھوں نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ }}تاہم 1986 کے دوران قطب مینار کمپلیکس کے باہر اکثریتی برادری کے بنیاد پرست عناصر کی طرف سے کئی مواقع پر مظاہرے ہوئے۔ لیکن اس مغل مسجد میں ’نماز‘ کبھی متاثر نہیں ہوئی۔ اکثریتی برادری کے بنیاد پرستوں کا دعویٰ ہے کہ قطب کمپلیکس ایک مندر کی جگہ پر ہے اور اسے افغان حکمران محمد غوری کی قائم کردہ دہلی سلطنت کے دور میں مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

امام شیر محمد بیان کرتے ہیں کہ ’’میری تقرری سے پہلے بھی اس مسجد میں ایک امام ہوا کرتا تھا اور وہ جمعہ سمیت پانچ وقت کی نمازیں پڑھاتا تھا۔ 1976 میں میری تقرری سے پہلے بھی مسلمان اس مسجد میں نماز ادا کرتے رہے ہیں۔‘‘

مولانا شیر محمد کو وقف بورڈ نے 40 روپے ماہانہ تنخواہ پر مقرر کیا تھا، اب تک ان کی تنخواہ کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ وقف بورڈ، مسجد میں نماز کے لیے تمام ضروری چیزوں کا انتظام کر رہا ہے۔ مسجد کی دیکھ بھال اور بجلی اور پانی کے بل بھی بورڈ ادا کرتا ہے۔

مسجد کے امام نے انڈیا ٹومارو کو بتایا ’’مجھے جمعہ 13 مئی کو دوپہر ایک بجے کے قریب اے ایس آئی قطب کمپلیکس کے دفتر میں بلایا گیا۔ مقامی تھانے کے کچھ پولیس افسران کے علاوہ مقامی اے ایس آئی افسران بھی موجود تھے۔ مجھے اے ایس آئی افسران اور پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ اب سے مسجد کے اندر نماز کی اجازت نہیں ہے۔ جب میں نے کہا کہ مسجد میں کئی دہائیوں سے نماز ہوتی ہے اور اسے روکا نہیں جانا چاہیے تو حکام نے مجھے بتایا کہ پابندی کے احکامات سینئرز کی طرف سے آئے ہیں۔ جب میں نے اے ایس آئی افسر مصباح نوری سے کہا کہ وہ آج دوپہر 1.30 بجے نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دیں تو انھوں نے بھی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پابندی کے احکامات اوپر سے آئے ہیں، یعنی سینئر افسران کی طرف سے۔‘‘

مولانا نے ہمیں بتایا کہ ’’جب میں اے ایس آئی کے دفتر سے نکلنے لگا تو مجھے آخری مرتبہ مسجد میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، یہاں تک کہ اپنے حجرے (مسجد میں امام کے لیے کمرے) میں موجود میرے ذاتی سامان لینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ جب میں اے ایس آئی کے دفتر سے باہر آیا تو مسجد کے باہر پولیس کی بھاری نفری کو تعینات دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ نماز کے لیے آنے والے لوگوں کو بھی وہاں سے ہٹایا جا رہا تھا۔‘‘

امام نے کہا ’’میں نے جمعہ کی نماز چند کلومیٹر دور ایک دوسری مسجد میں ادا کی۔‘‘

امام نے الزام لگایا کہ کچھ دن پہلے مقامی تھانے کے پولیس اہلکار ان سے کئی بار ملے اور ان سے نماز جمعہ کے اوقات اور جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں پوچھ گچھ کے علاوہ اور بھی کئی سوالات پوچھے۔

انھوں نے پولیس کو بتایا کہ بمشکل 60 سے 70 لوگ جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں کیوں کہ آس پاس کوئی مسلمان آبادی نہیں ہے۔ امام نے کہا ’’صرف قریبی نجی اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے مسلمان اور قطب مینار دیکھنے کے لیے آنے والے مسلمان سیاح مسجد میں جمعہ کی نماز میں شرکت کرتے ہیں۔‘‘

مولانا شیر محمد نے بتایا کہ ایک پولیس والے نے مذاق میں کہا کہ وہ اگلے جمعہ سے 150 لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دے گا۔ امام نے کہا ’’تاہم میں اس وقت نہیں سمجھ سکا کہ اس نے یہ کیوں کہا۔‘‘

امام صاحب نے مزید بتایا کہ ’’پولیس پہلے کبھی مسجد میں نہیں آئی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کبھی ایسے سوالات نہیں کیے تھے۔ انھوں نے کبھی نماز کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد اور ان کی شناخت کے بارے میں بھی نہیں پوچھا تھا۔‘‘

اے ایس آئی افسر مصباح نوری، جو قطب کمپلیکس کی نگرانی کرتے ہیں، بھی مسجد میں نماز ادا کرنے والوں میں شامل ہیں۔ جب ان سے فون پر مسجد میں نماز پر پابندی کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ میں اس موضوع پر بات کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔

مسجد سے ہٹائے جانے کے بعد امام صاحب نے اوکھلا کے ایم ایل اے اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان اور وقف کے دیگر عہدیداروں سے ملاقات کی۔ خان نے انھیں بتایا کہ وہ اس سلسلے میں بورڈ کی جانب سے عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے۔

امام صاحب نے مغل مسجد میں نماز دوبارہ شروع کرنے کے لیے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (آئی آئی سی سی) کے صدر سراج الدین قریشی سے ملنے کی بھی کوشش کی۔

امام صاحب نے بتایا کہ ’’کچھ لوگوں نے مجھے بتایا کہ وزیر داخلہ امت شاہ مسجد کو دوبارہ کھول سکتے ہیں۔ اس لیے میں قریشی سے ملنے کی کوشش کر رہا ہوں، کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ وہ امت شاہ کے قریبی ہیں۔ تاہم خبر لکھے جانے تک ان کی قریشی سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔‘‘

مولانا شیر محمد نے جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری سے بھی مدد لینے کی کوشش کی لیکن فی الحال کوئی مدد نہیں مل سکی۔

اس سے قبل نومبر 2021 میں دہلی کی ایک عدالت نے ہندوؤں اور جینوں کے لیے قوۃ الاسلام مسجد کے اندر پوجا کرنے کا حق مانگنے والی درخواست کو مسترد کر دیا۔

درخواست گزاروں نے دلیل دی تھی کہ قوۃ الاسلام مسجد اور قطب کمپلیکس 12ویں صدی میں دہلی پر قبضہ کرنے والے افغان حکمران محمد غوری کے فوجی جنرل قطب الدین ایبک نے جین مندر کے ملبے پر تعمیر کیا تھا۔