آسام این آر سی کوآرڈینیٹر نے ’’ملک دشمن سرگرمیوں‘‘ کے لیے سابق این آر سی کوآرڈینیٹر کے خلاف ایف آئی آر درج کی

نئی دہلی، مئی 22: نیوز 18 کی خبر کے مطابق آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کوآرڈینیٹر ہتیش دیو سرما نے جمعرات کو ایک پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی جس میں ان کے پیش رو پرتیک ہجیلا پر مجرمانہ اور ’’ملک دشمن سرگرمیوں‘‘ کا الزام لگایا گیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق پہلی معلوماتی رپورٹ میں دیگر حکام کا بھی نام لیا گیا ہے، جو ریاست میں شہریوں کے قومی رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرنے میں ہجیلا کے ساتھی تھے۔

آسام میں 25 مارچ 1971 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہونے والے افراد کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ اگست 2019 میں آسام نے شہریوں کا ایک قومی رجسٹر شائع کیا تھا جس کا مقصد ہندوستانی شہریوں کو ریاست میں مقیم غیر دستاویزی تارکین وطن سے ممتاز کرنا تھا۔

سرما نے، جنھوں نے اکتوبر 2019 میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ہجیلا کی جگہ لی تھی، الزام لگایا کہ ان کے پیش رو نے جان بوجھ کر 64,247 میں سے 33,794 ایسے افراد کی دوبارہ تصدیق سے گریز کیا جو آسام کے اصل باشندوں کے طور پر نشان زد ہوئے تھے۔

آسام کے اصل باشندے کے طور پر لیبل لگانا فہرست میں شامل کرنے کے لیے ایک تیز رفتار راستہ ہے۔

شرما نے الزام لگایا کہ ان ناموں کی دوبارہ تصدیق نہ کرنے سے غیر اہل افراد کو فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس نے یہ بھی شکایت کی کہ ہجیلا نے غیر شہریوں کے داخلے میں سہولت فراہم کی، جو کہ فرائض سے غفلت ہے اور ’’غداری‘‘ اور ’’قومی سلامتی کے لیے خطرے‘‘ کے مترادف ہو سکتا ہے۔

سرما نے الزام لگایا کہ شہریوں کے قومی رجسٹر کی تازہ کاری کی مشق کے دوران ’’فیملی ٹری میچنگ‘‘ کا طریقہ کار اپنایا گیا تاکہ 1971 سے پہلے آسام میں رہنے والے کسی فرد کو جھوٹے طریقے سے جوڑنے کی کوشش کرنے کی دھوکہ دہی پر قابو پایا جا سکے۔

اس کے متعارف ہونے سے پہلے، جھوٹے یا غلط اندراجات سے بچنے کے لیے معیار کی جانچ پڑتال کا انتظام تھا۔ NDTV نے رپورٹ کیا کہ سرما نے دعوی کیا کہ ہجیلا نے فیملی ٹری سرٹیفیکیشن کے لیے ایک سافٹ ویئر استعمال کیا جو معیار کی جانچ سے بچنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، تاکہ کچھ اہلکاروں کو فہرست میں ’’غیر شہریوں‘‘ کو شامل کرنے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔

سرما نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ’’غلطی سے پاک شہریوں کے قومی رجسٹر کے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پرتیک ہجیلا نے جان بوجھ کر لازمی معیار کی جانچ سے گریز کیا۔ اسے قومی سلامتی کو متاثر کرنے والے ملک مخالف عمل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ آسام میں 19 لاکھ سے زیادہ افراد نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کی حتمی فہرست سے باہر رہ گئے ہیں، جو آسام کی پوری آبادی کا تقریباً 6 فیصد ہے۔

ریاستی حکومت نے شہریوں کے قومی رجسٹر کے حتمی مسودے کو ’’غلط‘‘ قرار دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ اس میں سے آسام کے کئی مقامی لوگوں کو خارج کر دیا گیا ہے۔ غیر ملکیوں کے ٹربیونلز کو اخراج کے خلاف ان کی اپیلوں کی سماعت کا کام سونپا گیا تھا۔ ان میں سے جن کے دعوے مسترد کر دیے جاتے ہیں انھیں نظر بندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔