تاج محل کی مسجد میں نماز ادا کرنے پر چار افراد کو گرفتار کیا گیا، پولیس نے بتایا

نئی دہلی، مئی 28: ٹائمز آف انڈیا نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ آگرہ میں تاج محل کمپلیکس کے اندر واقع مسجد میں نماز ادا کرنے پر بدھ کو چار سیاحوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں انھیں جمعرات کو عدالت میں پیش کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ایک اہلکار نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ کے مطابق عقیدت مندوں کو صرف جمعہ کے دن احاطے میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔

آگرہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وکاس کمار نے بتایا کہ ڈیوٹی پر موجود سینٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے بدھ کی شام چھ آدمیوں کو مسجد کے اندر نماز ادا کرتے دیکھا۔ ان میں سے چار کو حراست میں لے لیا گیا جب کہ دو فرار ہو گئے۔

ان میں سے تین کا تعلق تلنگانہ سے تھا اور ایک کا تعلق اتر پردیش کے اعظم گڑھ شہر سے تھا۔ پولیس نے کہا کہ ان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 153 (فساد پیدا کرنے کے ارادے سے اشتعال انگیزی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

بھارتیہ مسلم وکاس پریشد کے چیئرمین سمیع آغائی نے جمعرات کو انڈیا ٹوڈے کو بتایا کہ سیاحوں کو صرف تحریری معافی کے ساتھ چھوڑ دیا جانا چاہیے تھا کیوں کہ وہ آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا کے اصول سے واقف نہیں تھے کہ صرف جمعہ کے دن نماز کی اجازت ہے۔

دریں اثنا ہندوستان کے آثار قدیمہ کے سروے کے سپرنٹنڈنگ ماہر آثار قدیمہ برائے آگرہ راج کمار پٹیل نے ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیا۔

پٹیل نے کہا ’’تاج محل جیسی یادگار پر کوئی نیا عمل شروع نہیں کیا جا سکتا اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی اس نظریے کی تائید کی ہے کہ تاج محل میں صرف جمعہ کی نماز کی اجازت ہے۔‘‘

وہیں تاج محل مسجد انتظامیہ کمیٹی نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے کہا کہ وہ انھیں سپریم کورٹ کے اس حکم کی کاپی فراہم کرے۔

کمیٹی کے چیئرمین سید ابراہیم زیدی نے کہا کہ ہمیں ایسی کوئی کاپی فراہم نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی تاج محل کی مسجد یا نوٹس بورڈ پر اس کا کوئی ذکر ہے۔