یوگا ایک مذہبی عمل۔۔تاویلات درست نہیں

اسلام نے ہر اس چیز سے روکا ہے، جس میں شرک کا شائبہ ہو

سالم برجیس ندوی
اسکالر: ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ

اس حقیقیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کے تمام مذاہب میں عبادات کے سلسلہ میں کچھ خاص تصورات پائے جاتے ہیں، لیکن اسلام کے علاوہ جو تصورات عبادت ہیں، ان میں شرک کی آمیزش پائی جاتی ہے ۔خواہ وہ یہود و عیسائی ہوں یا ہندو و زرتشت۔ اس کے برعکس اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے وحدانیت پر زور دیاہے۔ چنانچہ یہی وہ عقیدہ ہے جو اسلامی فکر کے حاملین کو استقامت عطا کرتا ہے۔ اسی عقیدے کی بنا پر وہ تمام سرکشوں کے سامنے بے خوف ڈٹا رہتا ہے اور معبودان باطل کا کھل کر انکار کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’وأنا بریئ مما تشرکون‘‘ میں تمہاری مشرکانہ حرکتوں سے خود کو بری سمجھتا ہوں۔
اس مضبوط عقیدے کے بعد کوئی بھی مسلمان شرک کا ساتھ نہیں دے سکتا ہے اور نہ ہی دینا چاہیے۔ لیکن آج ہمارے ملک کا ماحول نہایت خطرناک ہوچکا ہے۔ اس کے نتیجہ میں مسلمان اس پوزیشن میں آچکے ہیں کہ وہ ہر چیز کو بلا کسی تحقیق کے قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ پچھلے دنوں کے واقعات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور حالیہ ’’عالمی یوم یوگا‘‘ منانے کا معاملہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ہندوستان کے بعض بڑے بڑے مدارس میں یوگا منایا گیا اور اسے لے کر طرح طرح کی تاویلات کی گئیں۔ اسی لیے شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ اس پر قلم اٹھایا جائے اور اس سلسلہ میں در آمد غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔
یوگا کی تحقیق:
ہندوؤں کی مقدس کتابوں خاص طور پر وید، گیتا اور اپنشد میں ’’یوگا‘‘ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے اوریہ ہندومت میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ یوگا دراصل سنسکرت زبان کے لفظ ’’یوج‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی میل ملاپ کے ہیں۔یعنی انسانی روح کا خداسے ربط و و تعلق قائم کرنا۔ یوگا کے ذریعہ انسان میں یہ کمال پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مختلف دیوی دیوتاؤں کی خصوصیات ایک یوگی کے اندر حلول کرجائیں۔ اسی لیے جو لوگ انسانی تکالیف وآزمائش سے دور ہوکر گوشہ نشیں ہوجاتے ہیں اور اس کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردیتے ہیں، انہیں ’’یوگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ یوگا روح کو پاک کرتا ہے اور اس عمل سے یوگی میں ایک ماورائی طاقت سما جاتی ہے۔ اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یوگا میں اوم اور سوریہ نمسکار اس کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اس کے بغیر یوگاکرنا بے سود ہے۔
عالمی یوم یوگا:
اگر ہم پچھلے سو سال کا جائزہ لیں تو ہم یوگا اور اس کے پیچھے کارفرما مقاصد کو بحسن خوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ہندو مہا سبھا کے افکار و نظریات کے وارث اور آر ایس ایس کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار نے سب سے پہلے یوگا کو عام کرنے کی تحریک چلا ئی تھی۔ کیوں کہ وہ کلچرل نیشنلزم پہ بہت زور دیا کرتے تھے اور کلچرل نیشنلزم کا یہ مکھوٹا صرف اس لیے تھا کہ وہ دنیا کو یہ باور کرا سکے کہ وہ ہندوؤں کی سیاسی نہیں بلکہ ثقافتی تنظیم ہے۔
مدت دراز تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا۔پھر جب ۲۰۱۴ء میں آر ایس ایس کو سیاسی غلبہ حاصل ہوا، تو اسی سال ۱۱؍ دسمبر کو یونائٹیڈ نیشن جنرل اسمبلی (UNO) میں یہ بات پیش کی گئی کہ ۲۱؍ جون کو ہر سال عالمی یوم یوگا منایا جائے گا۔ چوں کہ آر ایس ایس کو عالمی طور پر ہندتوا کا تعارف کرانا تھا، اس لیے اس کے لیے یوگا سے بہتر اور کوئی راہ نہ سوجھی۔ ذہنی سکون کا متلاشی مغرب نے بھی اس یوگا کو ایک اہم ورزش جانا اور اپنے سکون کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کا استقبال کیا اور یہ قرار داد منظور کرلی گئی۔
اگلے سال عالمی یوم یوگا کے موقع پر حکومت نے “Common Yoga Protocol” کے نام سے ایک کتابچہ جاری کیا، جو کہ انڈین ہائی کمیشن اور سبھی کلچرل سینٹرل میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس میں واضح انداز میں یہ کہا گیا ہے کہ یوگا میں ’’اوم‘‘ کا استعمال بالکل نہیں کیا جائے گا۔اس درمیان کئی تلخ واقعات سامنے آئے۔ جب یہ بات باور کرانے کی کوششیں تیز ہوئیں کہ یوگا مثل ورزش ہے، اس میں ’’اوم‘‘ کا کہنا ضروری نہیں، اس لیے ہرکس و ناکس کو یوگا کرنا چاہیے ۔ اس موقع پر وشو ہندو پریشدھ کے لیڈران سخت برہم ہوگئے اور تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اوم اور سوریہ نمسکار‘‘ اس کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یوم یوگا کے لیے ۲۱؍ جون کا انتخاب بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ آر ایس ایس اپنے نظریات کو عملی میدان فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ در اصل آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار کا دیہانت ۲۱؍ جون ۱۹۴۰ء کو ہوا تھا اور وہ یوگا کی تحریک کو عام کرنے کے محرک اول تھے۔ اسی لیے ہیڈگیوار کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ۲۱؍ جون کا انتخاب کیا گیا۔
ان ساری حقیقتوں کو سامنے رکھنے کے بعد یوگا کے سلسلہ میں ہمارا موقف واضح ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ موجودہ حکومت کھلے طور پر فاشزم کی راہ پر گامزن ہے اور اپنے نظریات کے استحکام کے لیے عالمی طور پر خود کو منوانا چاہتی ہے۔ رہی بات صحت کی سلامتی اور ورزش کی تو اس کے لیے برسوں سے بے شمار طریقے رائج ہیں۔ الگ سے یوگا کو منظر عام پر لانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
اسلامی تعلیمات:
یوگا ایک مشرکانہ فعل ہے۔ خواہ اس کا قصد ہو یا نہ ہو۔ جو لوگ اس کو سیکولر بنا کر پیش کر رہے ہیں اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یوگا ایک ورزش ہے اور ورزش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اس کا تعلق ایک خاص قوم سے ہے اوریہ اس کے عقائد کا حصہ ہیں۔ جہاں تک ورزش کی بات ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، لیکن ۲۱؍ جون کو ہی چہ معنی دارد؟
اسلام نے ہر اس چیز سے روکا ہے، جس میں ذرا بھی شرک کا شائبہ پایا جائے۔ نماز جنازہ میں رکوع و سجود نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہی بتائی جاتی ہے اور سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے وقت بھی نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ حالاں کہ اگر ان دونوں میں اجازت دے دی جاتی تو کوئی حرج کی بات نہیں تھی، لیکن یہ مسئلہ اتنا حساس ہے کہ بہت ممکن تھا کہ لوگ شرک کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم ان کے غائبانے میں ذرا سی غفلت کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوگئی تھی۔
اسی سبب سے (شرک سے بچانے کے لیے) نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘۔ (مسند احمد) یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، تو وہ انہیںمیں سے سمجھا جائے گا۔ تشبہ کے ضمن میں علماء نے صراحت سے یہ بات ذکر کی ہے کہ تشبہ جس نوعیت کا ہو، وہ شرک ہے۔ امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں لکھا ہے: ’’کفار کی مشابہت سے بچنے کا مقصد ان کی مخالفت ہے اور تمام معاملات میں ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے، خواہ اس کا تعلق دینی امور سے ہو یا دنیاوی امور سے‘‘۔
تشبہ انسان تب ہی اختیار کرتا ہے جب وہ کسی عمل سے متاثر ہوتا ہے۔ ہم اگر کسی کو دیکھ کر کوئی کام یا فیشن اپناتے ہیں، تو اسے تبھی انجام دیتے ہیں، جب وہ ہمیں اچھا لگتا ہے اور ہم اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک عمل ہمیں اچھا نہ لگے اور ہم اسے کرنے بھی لگیں۔ اس لیے یوگا کرنے میں تشابہ لازم آئے گا، چاہے اس میں ’’اوم اور سوریہ نمسکار‘‘ کیا جائے یا نہ کیا جائے۔
اس لیے ہمیں یہ یاد رہے کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ زندگی کے مختلف گوشوں میں رہنمائی کے لیے ہمارے پاس قرآن اور سنت کی ہدایات موجود ہیں اور ہم خدا کی وحدانیت کا دل و جان سے اقرار کرتے ہیں۔ اس لیے اس طرح کے حالات میں ہمارا موقف واضح ہونا چاہیے۔ اس میں کسی طرح کا کوئی تذبذب نہ پایا جائے۔ جس طرح حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو للکارتے ہوئے جواب دیا تھا: ’’قال یقوم أرأیتم إن کنت علی بینۃ من ربي وآتاني منہ رحمۃ فمن ینصرني من اللہ إن عصیتہ، فما تزیدونني غیر تخسیر‘‘۔ (ھود: ۶۳) یہی جواب ہمارا بھی ہونا چاہیے۔ یوگا کے سلسلہ میں ہمیں سوچنا چاہیے اور دو ٹوک انداز میں یہ کہنا چاہیے: وأنا بریئ مما تشرکون۔
[email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022