بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری: سیاسی توازن میں تبدیلی کی آہٹ !

پہلی بار مسلم برادریوں کی بھی ہوگی گنتی۔ دور رس سیاسی اثرات متوقع

افروز عالم ساحل

ذات شماری سے انکار ذات پات کے مسئلہ کا حل نہیں۔ علاج کے لیے بیماری کی تشخیص ضروری: ماہرین کی رائے
طویل سیاسی رسہ کشی اور انتظار کے بعد اب حکومت بہار نے ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اس ’مردم شماری‘ کے لیے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے باضابطہ اعلامیہ جاری کردیا ہے۔توقع کی جارہی ہے کہ بہار میں زات پات پر مبنی مردم شماری کی کوکھ سے ایک نئے طرزکی سیاست جنم لے گی اورملک کی دیگر ریاستوں میں بھی ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ زور پکڑسکتا ہے ۔
حکومت بہار کے اعلامیے کے مطابق مردم شماری کا کام فروری 2023 تک مکمل کرلیا جائے گا۔ یہ ذمہ داری ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو دی جائے گی۔ ڈی ایم اس کے نوڈل افسر ہوں گے اور مردم شماری مکمل ہونے تک مکمل انچارج ہوں گے۔ اس مردم شماری کے دوران معاشی صورتحال کا سروے بھی کرایا جائے گا۔
اس اعلان سے قبل یکم؍ جون 2022 کو ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کی ’آل پارٹی میٹنگ‘ بلائی گئی تھی۔ اس میٹنگ میں اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کابینہ کے اگلے اجلاس میں مقررہ مدت کے اندر ذات پر مبنی مردم شماری کو منظوری دی جائے گی۔ اس کے بعد 6؍جون کو ہی بہار کے گورنر کے حکم سے حکومت کے ڈپٹی سیکرٹری رجنیش کمار کے ذریعہ اس مردم شماری کے لیےنوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔
نتیش حکومت یہ مردم شماری اپنے وسائل سے کرائے گی۔ حکومت کا کہناہے کہ اس مردم شماری کے لیے 500 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ بتادیں کہ نتیش حکومت گزشتہ چار سالوں سے ذات پر مبنی مردم شماری کروانے کے لیے کوششیں کر رہی تھی۔ فروری 2019 اور 2020 میں بہار اسمبلی میں اس کے حق میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی تھی۔ اس کے بعد 23 اگست 2021 میں بہار کا ایک وفد، جس میں بہار کی 10 سیاسی جماعتیں شامل تھیں اور اس وفد کی قیادت نیتیش کمار کررہے تھے، نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
ہفت روزہ دعوت نے ذات پر مبنی اس مردم شماری پر نظر رکھنے والے متعدد سماجی کارکنوں سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اسے کیسے دیکھتے ہیں، اس سے عوام کو کیا فائدہ حاصل ہوگا اور اس کے کیا نقصانات ہوں گے۔
ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں ’ڈاکٹر امبیڈکر راشٹریہ ادھیوکتا سنگھ‘ کے قومی کنوینر نند کمار ساگر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے تعلق سے حکومت بہار نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے، اس میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کس طرح سے ہوگا اور اس میں کیا کیا ہوگا؟
وہ مزید کہتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے یہ بیان تو ضروردیا ہے کہ ’یہ مردم شماری نہیں ہے، بلکہ ذات پر مبنی سروے ہے۔ اس سے لوگوں کے اقتصادی حالات کا بھی اندازہ ہوگا۔‘ لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے حکومت کی جانب سے اس پر اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے۔
نند کمار ساگر ایڈووکیٹ کہتے ہیں میرا ماننا ہے کہ ذات پر مبنی اس مردم شماری میں مختلف ذاتوں کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ ان کے سماجی و اقتصادی حالات کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بہار میں کون سی ذات اقتصادی طور پر کتنی مضبوط ہے۔ کس ذات سے تعلق رکھنے والوں کے سماجی حالات بہتر ہیں۔ سرکاری اسکیموں کا فائدہ کس طبقے کو زیادہ مل رہا ہے۔ کتنے لوگ زمین کے مالک ہیں، اور ان کاتعلق کس ذات سے ہے۔ کتنے لوگوں کے پاس ان کا اپنا مکان ہے۔ اگر ان پہلوؤں کو حکومت ذات پر مبنی مردم شماری میں شامل کرے، تب ہی اس مردم شماری کی اہمیت ہے، ورنہ ہر دس سال میں مردم شماری ہوہی رہی ہے۔ صرف تعداد گننے سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
غورطلب بات ہے کہ گزشتہ دنوں نتیش کمار نے واضح کیا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری میں تمام مذاہب اور فرقوں کی ذات پات کا شمار کیا جائے گا، جس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ یعنی مسلمانوں کے اندر موجود ذاتوں کی بھی گنتی کی جائے گی۔
اس بارے میں ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے ’دلت مسلم سماج‘ کے کنوینر اور ’بھارت کے دلت مسلمان‘ کتاب کے مصنف و محقق ڈاکٹر ایوب راعین حکومت بہار کے اس قدم کو تاریخی قدم بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت بہار کا یہ اچھا اور قابل خیرمقدم قدم ہے، بلکہ اسے نتیش کمار کا تاریخی قدم کہا جانا چاہیے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ بہار میں ہونے والے ذات پر مبنی مردم شماری سے مسلمانوں کا بھی فائدہ ہوگا۔ سب سے پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی مختلف ذاتوں کا پتہ چلے گا۔ بہت سارے لوگ اپنے طور سے بھی یہ بات کہتے رہتے ہیں کہ فلاں ذات کی اتنی آبادی ہے، فلاں کی اتنی۔ جبکہ اس تعلق سے سرکاری مردم شماری کے اعداد موجود ہیں اور نہ ہی کسی تنظیم نے اس طرح کے کوئی اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ پہلی بار کھل کر یہ اعداد و شمار لوگوں کے سامنے آئیں گے کہ بہار میں مسلمانوں کی کتنی ذات برادریاں ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے۔ یعنی اب تک جس طرح سے مسلمانوں کو اقلیت کہہ کر ان کی پسماندگی کو بھلا دیا جاتا تھا، وہ شاید اب نہیں ہوسکے گا۔
یہ پوچھنے پر کہ آیا اس سے مسلمانوں کا نقصان بھی ہوگا؟ اس سوال پر ڈاکٹر ایوب راعین کہتے ہیں کہ سماجی طور پر اس سے نقصان کچھ بھی نہیں ہے۔ ہندوستانی سماج میں مختلف مذہبوں کی طرح مسلم سماج کے لوگ بھی رہتے ہیں، تو جب دوسرے مذہب کے لوگ اسے فائدہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو ہم اس میں نقصان کیوں تلاش کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس کے باوجود کچھ لوگ نقصان کی بات ضرور کریں گے، بلکہ کچھ لوگ تو بڑی چالاکی کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کے اندر کمزوری آئے گی۔ میری نظر میں یہ سب سیاسی لوگ ہیں۔ ذات پر مبنی اس مردم شماری سے مسلمانوں کے اندر کوئی کمزوری نہیں آنے والی ہے۔ نقصان کی بات میں تب مانتا، جب ایسا ہوتا کہ جو مسلمان آج مسجد جا رہا ہے وہ کل نہیں جا پائے گا۔ دراصل، کچھ لوگوں کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ مسلمانوں کے نام پر جو لوگ اب تک فائدہ حاصل کر رہے ہیں، انہیں ذات کے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد وہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
پٹنہ میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی حالات پر ریسرچ کرنے والے اور ’بہار لیگل نیٹ ورک‘ سے وابستہ سماجی کارکن صفدر علی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ذات پر مبنی مردم شماری سے کچھ حد تک نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے یہاں مسلمانوں میں ’تقسیم کی سیاست‘ بڑھے گی۔ آپسی رشتے تھوڑے خراب بھی ہوسکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود مجھے اس میں فائدہ زیادہ نظر آتا ہے۔
لیکن کیا ’تقسیم کی سیاست‘ سے مسلمانوں کی خود کی شناخت کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ اس سوال پر صفدر علی سوالیہ انداز میں کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ تو ہندوؤں میں بھی ہے، لیکن کیا انہیں ہندو نہیں کہا جاتا؟ کیا جب ایسے حالات آتے ہیں تو وہ سب ایک نہیں ہوتے ؟۔ ایسا ہی مسلمانوں میں بھی ہوگا۔ کیونکہ آپ کو ہندوتوا کے نام پر ٹارگیٹ صرف اور صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا جا رہا ہے نہ کہ وہ آپ کی ذات دیکھ کر ٹارگیٹ کر رہے ہیں۔ پسماندہ یا اشراف کی مہم چلانے والوں کو ان باتوں کو ضرور سمجھنا ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ طویل گفتگو میں وہ مزید کہتے ہیں کہ بہار میں اگر مسلمان صرف اپنی ’مسلم شناخت‘ چاہتا ہے تو اسے نہ تو ریزرویشن ملے گا اور نہ ہی سوشل اسٹیٹس ملنے والا ہے۔ لیکن اگر وہ خود کو تقسیم کرتا ہے تو اس سے کچھ مسلمان ایس سی اور ایس ٹی زمرے میں چلے جائیں گے۔ کچھ اوبی سی زمرے میں آئیں گے تو کچھ ای بی سی کیٹیگری میں شامل ہوجائیں گے۔ باقی بچی تھوڑی سی آبادی تو وہ عام زمرے میں رہ جائے گی۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو تقریباً80فیصد مسلمانوں کو ریزرویشن مل سکتا ہے۔ اور یہ بڑا فائدہ ہے۔ کیونکہ مذہبی طور پر ریزرویشن ملنا مشکل ہے۔ لیکن اس مردم شماری کے بعد آپ کو ذات کے نام پر ریزرویشن ممکن ہے اور اس سے ان کی سماجی و اقتصادی حیثیت کے ساتھ ساتھ ان کی نمائندگی میں اضافہ ہوگا۔
صفدر علی کہتے ہیں کہ بہار میں ہمیشہ سے ذات پر مبنی سیاست ہوتی رہی ہے۔ تمام ذاتوں کے اپنے اپنے قائدینہیں۔ اس میں سے کچھ ذات کے لوگ غلط اعداد و شمار پیش کر تے ہوئے سیاست کرتے رہے ہیں اور اس کا ان کو سیاسی فائدہ بھی ملتا رہا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ چند دن پہلے ایک صحافی سے ملاقات ہوئی، میں ان کے گھر پر دعوت پر گیا تھا۔ ان کا تعلق بھومیہار ذات سے ہے اور سیاسی طور پر اپنے علاقے میں کافی سرگرم ہیں۔ بات بات میں وہ خود ہی کہنے لگے کہ ’اب تو مجھے یہ سب کچھ چھوڑ کر بزنس وغیرہ ہی کرنا پڑے گا۔ ذات پر مبنی مردم شماری کے بعد ایک الگ ہی ہنگامہ کھڑا ہوگا، اس کے بعد سیاست میں ہمارے لیےکچھ نہیں بچے گا ۔‘ مجھے ان کی باتوں سے ان کے اندرڈر صاف نظرآ رہا تھا کہ اب بھومیہاروں کی سیاست بہار میں زیادہ چلنے والی نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بہار میں بھومیہار کم ہیں اور وہ سیاسی طور پر فائدہ زیادہ اٹھا رہے ہیں؟ اس سوال پر صفدر علی کہتے ہیں کہ ’جی بالکل! کچھ دنوں پہلے تک یہ کافی حاوی تھے۔ حالانکہ آہستہ آہستہ سیاست میں ان کا دخل کم ہورہا ہے۔ اس مردم شماری کے اعداد و شمار آنے کے بعد شاید مزید کم ہوجائے گا۔ کیونکہ آپ کی ذات کی آبادی اگر ایک دو فیصد ہی ہے اور آپ پارٹی کے چیف بنے بیٹھے ہیں تو اب آپ کے خلاف آواز تو اٹھے گی ہی ۔ صفدر علی کا ماننا ہے کہ سیاست میں ’کاسٹ لیڈرشپ‘ کافی معنی رکھتی ہے، بھلے ہی اس ذات کو براہ راست زیادہ فائدہ نہیں ملتا، لیکن اخلاقی بنیاد پر اس کا کافی فائدہ ہے۔
بالآخر بی جے پی نے بھی حمایت کردی
ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کی ’آل پارٹی میٹنگ‘ کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ نیتیش کمار نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری پر بی جے پی کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ بی جے پی سمیت سبھی پارٹیوں کے درمیان اس سلسلے میں اتفاق رائے پیدا ہوچکا ہے۔ انہوں نے صحافیوں سے کہا، ’آپ لوگ غلط بات کرتے ہیں کہ بی جے پی احتجاج کر رہی ہے۔ ’احتجاج‘ ایک غلط لفظ ہے، جب کہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ ریاست اپنی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری کرا سکتی ہے۔‘
غور طلب ہے کہ بی جے پی ہی وہ واحد سیاسی پارٹی ہے، جو ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کرتی آرہی تھی۔ بی جے پی ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں صرف مرکز ہی میں نہیں بلکہ ریاستی سطح پر بھی تذبذب کا شکار تھی۔ 13مئی 2022 کو ہی بہار بی جے پی کے ریاستی صدر سنجے جیسوال نے ایک پریس بیان میں کہا تھا، ’’ہمارے لیے تو دو ہی ذاتیں ہیں امیر اور غریب‘‘۔ تب اس بیان پر راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے سنجے جیسوال کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اپنا نام بدل کر ’سنجے امیر‘ یا ’سنجے غریب‘ تحریر کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
اس سے قبل بہار میں بی جے پی کے دو بڑے لیڈروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا ہے کہ جو لوگ ذات پات پرمبنی مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ سماج کو توڑنا چاہتے ہیں اور کسی طرح سے حکومت پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ انگریز بھی معاشرے کو توڑنے کی ایسی حرکت نہیں کر سکے تھے جو اس وقت ملک کی کچھ سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔
وہیں بی جے پی کے بہار کے نائب صدر راجیو رنجن نے کہا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جن کا ترقی پر یقین نہیں رہتا، وہ سماج کو توڑ کر حکمرانی کرتے ہیں۔ ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی کے تحت 1930 میں انگریزوں نے ذات پات کی مردم شماری کروا کر ملک کو ذاتوں کی بنیاد پر توڑنے کی کوشش کی تھی، آج وہی کوشش ملک کی کچھ سیاسی جماعتیں بھی کر رہی ہیں۔ درحقیقت ان جماعتوں کا وجود ہی ذات پات کے امتیاز پر قائم ہے، وہ اس سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بی جے پی کے ان ہی لیڈروں کو ذات پر مبنی مردم شماری سے کوئی پرابلم نہیں ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ان ہی کی حکومت یہ کام کرنے جارہی ہے، کیونکہ بہار میں نتیش کمار کی حکومت میں ان کی پارٹی بھی شامل ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ دس سال پہلے جب بی جے پی مرکز میں اپوزیشن میں تھی، تب اس کے لیڈر خود اس کا مطالبہ کرتے تھے۔ 2018 میں جب راج ناتھ سنگھ مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ تھے تب انہوں نے 2021 کی مردم شماری کی تیاریوں کا جائزہ لیتے ہوئے حکومت کی جانب سے یہ اتفاق کیا تھا کہ نئی مردم شماری میں او بی سی کے اعداد و شمار کوبھی اکٹھا کیا جائے گا۔ لیکن اب یہی حکومت ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے سے انکار کر رہی ہے۔
ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے سے مرکزی حکومت کا انکار
لوک سبھا میں گزشتہ 08 فروری 2022 کومملکتی وزیربرائے امور داخلہ نتیانند رائے نے رکن پارلیمنٹ دیپک بیج کے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی کے مطابق ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں کرائے گی۔ انہوں نے جواب میں صاف طور پر کہا ہے کہ ’حکومت ہند نے آزادی کے بعد سے مردم شماری میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے علاوہ ذات کے لحاظ سے آبادی کو شمار نہیں کیا ہے۔‘ اس سے قبل لوک سبھا میں بیس جولائی 2021 کو رکن پارلیمنٹ ٹی آر بالو کے ایک سوال کے تحریری جواب میں نتیانند رائے نے حکومت کے اس موقف کا برملا اظہار کیا کہ حکومت کا ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں ان ذاتوں اور قبائل کی گنتی کی جاتی ہے جو خصوصی طور پر درج فہرست ذاتوں (ایس سی) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے طور پر معلنہ ہوں اورجس میں (درج فہرست ذات) حکم نامہ 1950 اور آئینی (درج فہرست قبائل) حکم نامہ 1950کی روسے وقتاً فوقتاً ترمیم کی جا تی رہی ہے۔
آئین کے مطابق، پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ایس سی اور ایس ٹی کے لیے نشستیں ان کی آبادی کے تناسب سے محفوظ ہیں۔ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے مرکزی حکومت کے عہدوں پر تقرری اور مرکزی حکومت کے تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لیے ریزرویشن کا بھی التزام ہے اور اس کے نفاذ سے متعلق تمام قانونی مسائل کا دفاع متعدد عدالتوں میں حکومت کے ذریعے مضبوطی سے کیا جاتا ہے۔
لوک سبھا میں 27جولائی 2021 کو دیے گئے ایک تحریری جواب میں نیتانند رائے نے بتایا کہ مردم شماری میں، آبادی سے متعلق اور افراد کی تعلیم، ایس سی / ایس ٹی، مذہب، زبان، شادی، شرح پیدائش، معذوری، پیشے اور نقل مکانی جیسے مختلف سماجی و اقتصادی معیارات اکٹھا کیے جاتے ہیں۔ کام / روزگار اور تجارت جیسی وجوہ سے نقل مکانی اور اس کی خصوصیات بھی اکٹھا کی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ ہمارے ملک میں ہر دس سال میں ایک بار مردم شماری ہوتی ہے اور اس میں عام طور پر پرانے طریقے اور پرانے سوالات کو ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی ڈھانچہ ہونے کی وجہ سے نئے اعداد وشمار کا سابقہ مردم شماری سے موازنہ کرنا اور تقابلی مطالعہ کرنا سہل ہوتا ہے۔ تاہم، مردم شماری میں سوالات کی تعداد مسلسل تبدیل ہوتی رہی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان کی مردم شماری میں ذات کا کوئی کالم نہیں ہوتا ہے، بلکہ ہر مردم شماری فارم میں ذات کا کالم ہوتا ہے، لیکن اسے صرف ان لوگوں کو بھرنا ہوتا ہے جو درج فہرست ذات یا قبائل کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ اس میں پسماندہ اور وہ دیگر طبقات شمار نہیں ہوتے جنہیں مختلف لوگ او بی سی ، عام زمرہ یا اونچی ذات کہتے ہیں۔ لیکن اس بار اسی کو شمار کیے جانے کا جانے مطالبہ کیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ نے قبول کیاتھا مرکز کا حلف نامہ
ذات پر مبنی مردم شماری پر حکومت مہاراشٹر نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی۔ ریاستی حکومت نے مقامی انتخابات میں او بی سی ریزرویشن دینے کے لیے اس ڈیٹا کو عام کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جو سال 2011 کے مردم شماری میں جمع کیا گیا تھا۔ لیکن عدالت میں مرکزی حکومت نے صاف طور پر کہا ہے کہ سال 2011 میں او بی سی کی تعداد جاننے کے لیے ذات پات کی مردم شماری نہیں کرائی گئی تھی، بلکہ خاندانوں کی پسماندگی جاننے کے لیے سروے کیا گیا تھا۔ لیکن یہ اعداد و شمار ناقص اور قابل استعمال نہیں ہیں۔ اس لیے2011 کی مردم شماری میں سامنے آنے والے سماجی و اقتصادی پسماندگی کے اعداد و شمار کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت کی دلیل کو قبول کرتے ہوئے حکومت مہاراشٹر کی عرضی کو مسترد کر دیا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مرکز کے اس حلف نامہ کو بھی قبول کر لیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں بھی ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں کرائی جائے گی۔ مرکز نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایسی مردم شماری عملی نہیں ہے۔ یہ پالیسی 1951 سے ملک میں نافذ ہے۔ اس بار بھی حکومت نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے سے موجود پالیسی کے تحت اس بار بھی صرف درج فہرست ذاتوں، قبائل، مذہبی اور لسانی گروہوں کو ہی شمار کیا جائے گا۔
مرکزی سماجی انصاف کی وزارت نے عدالت میں داخل کردہ ایک تحریری جواب میں کہا ہے کہ سال 2011 میں جب ذاتوں کی آبادی کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ لوگوں نے لاکھوں ذاتوں کو رجسٹر کر رکھا ہے۔ جبکہ مرکز اور ریاستوں کی او بی سی فہرست میں صرف چند ہزار ذاتیں ہیں۔ لوگوں نے اپنا گوترا، ذیلی ذات وغیرہ بھی رجسٹر کروایا۔ اس طرح ذاتوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ مرکزی حکومت کے حلف نامے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ذاتوں کے املا میں اتنا فرق ہے کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ کون او بی سی ہے اور کون نہیں۔ خود مہاراشٹر سے ایک مثال دیتے ہوئے حکومت نے کہا ہے کہ پووار او بی سی ہیں، لیکن پوار نہیں۔ سال 2011 میں ایک ہی گاؤں یا علاقے میں لوگوں نے اپنی ذات کا املا الگ الگ درج کروایا تھا۔ کئی جگہوں پر سروے کرنے والوں نے مختلف املا تحریر کیے تھے۔ ایسے میں اس سروے کی بنیاد پر ذات پات کے اعداد و شمار نکالنے کا سارا عمل عبث ثابت ہوا۔
وہیں سپریم کورٹ میں جسٹس ناگیشور راؤ کی بنچ نے گزشتہ 11 جون 2022 کو مردم شماری سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کردیا کہ ایسی ہی ایک عرضی دوسری بنچ پر بھی زیر التوا ہے۔ یہ رٹ پٹیشن کرشن کنہیا پال، جوالہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں، نے دائر کی تھی۔
اس سے قبل 26 فروری 2021 کو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے دیگر پسماندہ طبقات کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے کے لیے ہدایت کی درخواست کی چھان بین سے اتفاق کیا تھا۔ چیف جسٹس بوبڈے اور جسٹس اے ایس بوپنا اور وی رام سبرامنیم کی بنچ نے مرکز اور قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات کو اس معاملے میں نوٹس بھی جاری کی، لیکن حکومت نے اس نوٹس کے جواب میں سپریم کورٹ کو کیا بتایا ہے، اس کی معلومات فی الحال پبلک ڈومین پر نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں یہ پی آئی ایل تلنگانہ کے ایک سماجی کارکن جی ملّیش یادو کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دیگر پسماندہ طبقات کی بہتری کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری ایک ’’اہم ضرورت‘‘ ہے۔ درخواست گزار نے استدلال کیا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا تعلیم، روزگار کے شعبوں اور بلدیاتی انتخابات میں تحفظات کو نافذ کرنے میں لازمی کردار ہے۔ اس طرح کے اعداد و شمار کی کمی، پسماندہ طبقات کے لیے ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق فیصلے لینے میں مشکلات پیدا کررہی ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے تعلیم، روزگار، معاشی اور سیاسی شعبوں میں متعدد اسکیمیں متعارف کروا رہی ہیں اور اس کے لیے ہر سال ایک بجٹ مختص کیا جارہا ہے۔ تاہم یہ منصوبے مشکلات کا شکار ہیں کیوں کہ ان کو نافذ کرنے کے لیے کافی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومت ذات پات کی مردم شماری کرانے سے گریز کیوں کررہی ہے؟ دراصل اس میں ایک سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان کی آبادی میں او بی سی کے حصے میں کمی بیشی ہوتی ہے تو پھر ریزرویشن بلاکس کی از سر نو تشکیل کا مطالبہ ابھر کر سامنے آجائے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو لازماً اس کا اثر مرکز یا ریاستوں میں حکم راں جماعت پر پڑے گا۔
بھارت میں کب ہوئی پہلی مردم شماری؟
اب تک تاریخ میں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ ہندوستان میں پہلی مردم شماری 1872 میں برطانوی وائسرائے لارڈ میو نے کرائی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں 1786 میں ہی ٹیپو سلطان نے مردم شماری کی شروعات کردی تھی۔ اس سلسلے میں 9 جولائی 1786 کو لکھا گیا فرمان تاریخ کی کئی کتابوں میں موجود ہے۔ کرناٹک کے محمد الیاس ندوی اپنی کتاب ’سیرت سلطان ٹیپو شہید‘ کے صفحہ نمبر 531 پر لکھتے ہیں ’ٹیپو سلطان کا اختراعی ذہن ہمیشہ نئی نئی چیزوں کے بارے میں سوچتا رہتا تھا، اس کی اسی طبیعت نے اس کو اپنی مملکت سے متعلق ایک اور نئی چیز کے آغاز پر آمادہ کیا جس کے مطابق اس نے اپنی پوری سلطنت میں مردم شماری کا حکم جاری کردیا۔ یہ نہ صرف پوری سلطنت خداداد بلکہ پوری ہندوستان کی تاریخ میں پہلی باقاعدہ مردم شماری تھی۔ اس سلسلے میں اس نے اپنے وزیر اعظم میر صادق کے نام پر فرمان جاری کیا جو اس طرح تھا ۔۔۔
فرمان بنام میر صادق (دیوان حضوری)
9 جولائی 1786
حکم دیا جاتا ہے پوری مملکت کی مردم شماری مع اجناس و سامان کی جائے اور اس کی رپورٹ سلطان کو دی جائے۔
دستخط
ٹیپو سلطان
اس کے تحت سلطنت کے تمام قاضیوں کو بھی اس کا مکلف بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کی مردم شماری کرائیں جس میں مردوں، عورتوں، بچوں، مکانات و جائیداد اور ان کے مشاغل وغیرہ کی تفصیلات ہوں اور اس کی رپورٹ سے سرکار کو مطلع کیا جائے، ایک نقل وہ اس کی اپنے پاس بھی رکھیں۔
ٹیپو سلطان کی اس تاریخ کو چھوڑ دیں تو مانا جاتا ہے کہ ہندوستان میں منظم مردم شماری کا آغاز 1881میں ہوا۔ ذات پات کے اعداد و شمار کو 1931کی مردم شماری تک مسلسل جمع کیا جاتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے 1941کی مردم شماری متاثر ہوئی۔ آزادی کے فوراً بعد 1951میں مردم شماری کی گئی، جس کے لیے اس وقت کی حکومت نے فیصلہ کیا تھا درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے علاوہ ملک میں دیگر ذاتوں کے اعداد و شمار کو اکھٹا نہیں کیا جائے گا۔
لیکن 30دسمبر 1980کو منڈل کمیشن کی رپورٹ صدر جمہوریہ کو سونپے جانے کے بعد ملک کے سامنے پھر سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا سوال کھڑا ہوا، کیونکہ کمیشن نے اپنی رپورٹ کی تمہید میں لکھا تھا کہ اگلی مردم شماری میں تمام ذاتوں کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں کیونکہ منڈل کمیشن کو رپورٹ تیار کرتے وقت ذات کے اعداد و شمار کی کمی کی وجہ سے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
1990 میں منڈل کمیشن کی سب سے نمایاں سفارش، یعنی مرکزی حکومت کی سرکاری ملازمتوں میں پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کو نافذ کر دیا گیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ نومبر 1990 میں وی پی سنگھ کی حکومت گر گئی۔ اس کے بعد کانگریس کی حمایت سے چندر شیکھر وزیر اعظم بنے۔ ذات پر مبنی مردم شماری اس حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ اس طرح 1991 میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ 2001کی مردم شماری میں ذات کی گنتی کو شامل کرنے کے بارے میں 8جنوری 1998 کو وزارت سماجی بہبود نے ایک کابینی نوٹ (2011/12/1997-BCC) تیار کرکے اس کی تشہیر کی ۔ اس کے فوراً بعد متحدہ محاذ کی یہ حکومت بھی گر گئی اور مارچ 1998 میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت قائم ہوئی اور ایل کے اڈوانی وزیر داخلہ بنے۔ وزارت داخلہ نے 26 مئی 1998 کو اس تجویز کو مسترد کردیا۔
2011 میں تو ہندوستان ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے بہت قریب پہنچ گیا تھا اور لوک سبھا میں اس بات پر اتفاق رائے ہوتا نظر آیا تھا کہ اس بار ذات پات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے گی لیکن منموہن سنگھ حکومت میں کچھ وزراء، جس میں پرنب مکھرجی اور پی چدمبرم خاص طور پر شامل تھے، اور کچھ بااثر نوکرشاہوں نے تکنیکی مسائل کھڑے کر کے کہا کہ اس سے پوری مردم شماری کی درستگی متاثر ہوگی،اس طرح 2011 کی مردم شماری میں ذات کی گنتی نہیں ہونے دی گئی۔ تب میڈیا نے بھی ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف ماحول بنایا تھا۔ لیکن 29جون 2011کو ملک میں ایک مختلف قسم کی مردم شماری شروع ہوئی۔ اسے ’سوشیو اکنومک اینڈ کاسٹ سنسس‘ کہا گیا۔ یہ 31 مارچ 2016 کو ختم ہوا۔ لیکن آج تک اس کی رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے۔
کیا کہتے ہیں واقف کار؟
ذات پر مبنی مردم شماری کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کے لیےہفت روزہ دعوت نے ملک کے متعدد سماجی کارکنوں اور جانکاروں سے بات چیت کی ہے۔
مشہور مصنف اور سینئر صحافی دلیپ سی منڈل کہتے ہیںکہ ۱۹۵۱ میں ہمارے قومی معماروں نے یہ سوچا کہ ہم ایک ’ماڈرن ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوشن‘ کی طرف جارہے ہیں۔ ذات اگر نہیں گنیں گےتو ملک میں ذات پات ختم ہوجائے گی۔ لیکن سال ۲۰۲۲ تک ملک میں ذات پات کی بنیاد پر ظلم، نچلی ذاتوں کو اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے سے روکنے اور جوڈیشری سے لے کر میڈیا تک نوکریوں میں ان کی موجودگی کے اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ ہمارے قومی معماروں نے جو سوچا تھا، وہ پوری طرح غلط ثابت ہوا۔ اب اس ’بیماری‘ کو دیکھ کر ہی اس کا علاج کیا جائے۔ بیماری سے آنکھیں بند کرلینے سے بیماری دور نہیں ہو گی۔ یاد کیجیے کہ ۲۰۱۹ کی انتخابی مہم میں بی جے پی کے سینیئر لیڈروں نے کیا تقریریں کی تھیں۔ راج ناتھ سنگھ نے بھی کہا تھا کہ مردم شماری کا دائرہ بڑھا رہے ہیں، اب او بی سی کی بھی گنتی ہوگی۔ اس کے بعد اب کام کرنے کی باری آئی تو کہا جارہا ہے کہ نہیں کریں گے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ آپ حکومت سے پوچھیں کہ ملک میں کتنے گدھے ہیں تو وہ بتادے گی لیکن اگر آپ پوچھیں کہ ملک میں کتنے برہمن، کشواہا، کرمی یا دیگر ذات کے شہری ہیں، تو اس کے پاس ان کی آبادی کے کوئی اعداد و شمار نہیں ہوںگے، جب کہ آپ کو ان کے لیے ہی پالیسی بنانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ ملک میں جانوروں اور ان کی مختلف اقسام کو گن سکتے ہیں تو پھر ذات کی بنیاد پر انسانوں کو کیوں نہیں گن سکتے؟
گزشتہ ۱۲ سالوں سے بامسیف اور مول نواسی سنگھ جیسی تنظیموں میں قومی قیادت کے عہدوں پر فائز ڈاکٹر منیشا بانگر ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتی ہیں ’’ اگر آپ حقیقت میں کسی طبقے کی ترقی چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوئی پالیسی یا اسکیم بنا رہے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس اس طبقے کی صحیح اور مکمل معلومات ہوں۔ اگر آپ کے پاس یہ نہیں ہیں تو آپ اس طبقے کا کچھ بھی بھلا نہیں کر پائیں گے۔ اس لیے ذات پر مبنی مردم شماری بے حد ضروری ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ کے پاس ۱۹۳۱ کے بعد او بی سی سے متعلق کوئی اعداد وشمار ہی نہیں ہیں۔
پی یو سی ایل سے وابستہ سماجی کارکن اور آزاد صحافی بھنور میگھ ونشی کا کہنا ہے کہ ’میں تو یہ مانتا ہوں کہ اس ملک میں اس بار ذات پر مبنی مردم شماری بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ملک کی حقیقی ترقی کے لیے اس ملک میں جتنے بھی شہری ہیں ان کے بارے میں یہ معلومات تو ضرور ہونے چاہئیں کہ وہ معاشی اور سماجی لحاظ سے کس طبقے یا برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیڑ پودوں کو گنا جاتا ہے، گاڑیوں اور جانوروں کی گنتی کی جاتی ہے، اس کے لیے باقاعدہ پراجیکٹس بنائے جاتے ہیں تو پھر حکومت کو یہاں کے باشندوں کی سماجی پہچان کی بنیاد پر گنتی کرنے میں کیا دشواری ہے؟ حکومت اس سے کیوں خوف کھا رہی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت ذات پر مبنی مردم شماری نہیں کرانا چاہتی ہے؟‘
بھنور میگھونشی کا ماننا ہے کہ ہمارے ملک کی تمام چیزیں ذات سے طے کی جارہی ہیں۔ لوگ اپنی ذات وراثت میں لے کر پیدا ہوتے ہیں اور مرتے دم تک اسی میں زندہ رہتے ہیں۔ اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ آپ چاہیں دوسرے مذہب میں چلے جائیں، وہاں بھی یہ ذات آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ آپ مر جاتے ہیں تو آپ کا قبرستان کہاں ہوگا، آپ کی شادی کہاں ہوگی یہ سب کچھ آپ کی ذات سے ہی طے ہوتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی ذات پات کے گرد گھومتی ہے۔ لوگوں کے رہنے کا بندوبست ذات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ذات کی بنیاد پر ملک کی فوجیں بنی ہوئی ہیں۔ ذات کی بنیاد پر ملک میں طلبا کے رہنے کے ہاسٹل ہیں، محلے بنے ہوئے ہیں۔ تو پھر مردم شماری میں ذات کی گنتی ہو تو کون سا پہاڑ ٹوٹ جائے گا۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے آخر ایسی کیا مصیبت آنے والی ہے جس کی وجہ سے اس کی مخالفت کی جارہی ہے یا جسے کرانے کے لیے حکومت تیار نہیں ہو رہی ہے؟ لوگوں کے مطالبات کو کیوں نہیں مانا جا رہا ہے؟
***

 

***

 اگر ہندوستان کی آبادی میں او بی سی کے حصے میں کمی بیشی ہوتی ہے تو پھر ریزرویشن بلاکس کی از سر نو تشکیل کا مطالبہ ابھر کر سامنے آجائے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو لازماً اس کا اثر مرکز یا ریاستوں میں حکمران پارٹی پر پڑے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022