ہندوستا نی سنیما: مسلمانوں کی مثبت تصویر سے منفی تصویر تک کا سفر

عبد الواحد

 

آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔ سنیما اس کا ایک اہم جزو ہے اور عوام پر اس کے گہرے اثرات بھی ہیں۔ اکیسویں صدی کی اس تیسری دہائی میں انسانی معاشرے پر اگر کسی شے نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں تو وہ میڈیا اور سنیما ہیں۔ آج رسم و رواج اور رہن سہن سے لے کر افکار و نظریات تک ہر جگہ سنیما کی رسائی ہے۔ حالانکہ فلم سازی کا اصل مقصد تفریح فراہم کرانا ہے اور آج یہ ایک بڑی صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس صنعت کی ترقی کا راز یہی ہے کہ اس نے ہر بدلتے وقت کے ساتھ خود کو اس طرح ہم آہنگ کیا ہے کہ جس سے سماج سے اسکا ربط کبھی کم نہیں ہونے پایا۔ چونکہ یہ شو بزنس ہے اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ ایسی فلمیں بنائی جائیں جو سماج کے قریب تر ہوں اور زیادہ سے زیادہ افراد کی توجہ کا مرکز بنیں۔
ہندوستان میں فلم سازی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سنیما کی سو برس کی تاریخ میں ہم متعدد ادوار کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 3 مئی 1913 کو ریلیز ہوئی ہندوستان کی پہلی فلم راجہ ہریش چندر جو دادا صاحب پھالکے کے ذریعے بنائی گئی تھی۔ یہ ایک خاموش فلم ہونے کے باوجود لوگوں کی توجہ مبذول کرانے میں بے حد کامیاب رہی۔ اس فلم کو خوب پزیرائی حاصل ہوئی یہاں تک اس نے فلم سازی کی صنعت میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور محض 17 سال بعد 1931 میں معروف فلم ساز اردشیر ایرانی نے بولتی فلم ’عالم آرا‘ بنا کر ہندوستانی سنیما میں ایک تاریخ رقم کر دی۔ اس پارسی فلم ساز کی اس تاریخ ساز فلم کا مرکزی کردار ایک مسلم بادشاہ سلطان سلیم خاں کے اردگرد گھومتا ہے جسکی بیٹی عالم آرا سازشوں کی شکار ہو کر مصائب و آلام کا سامنا کرتے ہوئے آخر کار سلطنت کی عظمت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ یعنی ہندوستان کی پہلی بولتی فلم عالم آرا اور اسکا مرکزی کردار ایک مسلم شہزادی تھی۔
چونکہ فلمیں سماج کا آئینہ ہوتی ہیں اس لئے اس دور کی بیشتر فلمیں یا تو مذہبی اور سماجی اقدار پر مبنی ہوتی تھیں یا پھر مسلم سلاطین کے پیار و محبت کے افسانوں یا انصاف پسندی کی داستانوں کی منھ بولتی تصویر۔ جیسے جیسے برطانوی سامراجیت کے خلاف آزادی کی جدوجہد نے شدت اختیار کی، فلموں کا رخ بھی اسی سمت مڑگیا اور پہلی جنگ آزادی کے مجاہدین سے منسوب فلموں نے موجودگی درج کرانی شروع کر دی۔ چونکہ فرقہ وارانہ یک جہتی، جدو جہد آزادی کے لیے انتہائی ضروری تھی اس لیے انہیں امور پر فلمیں بنتی رہیں اور لوگوں میں قومی یکجہتی کا جوش بھرتی رہیں۔ آزادی کے بعد تقسیم ہند، فلموں کا پنسدیدہ موضوع بنا۔ لیکن مسلم منافرت سے کوسوں دور۔ آزادی کے بعد تقریباً 80 کی دہائی تک مسلم معاشرے پر مبنی فلموں کا بول بالا رہا۔ 80 کی دہائی سے پہلے جہاں مغل اعظم، چودہویں کا چاند، میرے حضور، میرے محبوب اور پاکیزہ جیسی فلموں نے دھوم مچائی وہیں 80 کی دہائی میں امراؤ جان، نکاح، قلی جیسی فلموں نے بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اگر مسلم کردار پر مبنی فلمیں نہیں بھی بنیں تو بھی مین اسٹریم کی فلموں میں بھی مسلم کردار مثبت طور پر ہی پیش کئے گئے۔ 80 کی دہائی کے معروف فلم ساز منموہن دیسائی جنہیں کمرشیل سنیما کا چیمپئن کہا جاتا تھا، انکی فلمیں تو مسلم کردار کے بغیر پوری ہی نہیں ہوتی تھیں خواہ وہ امر اکبر انتھونی ہو یا پھر مرد، انکی ہر فلم میں ایک مسلم کردار اور وہ بھی بے حد مضبوط اور مثبت ضرور ہوتا تھا۔
لیکن ایسا کیا ہوا کہ 80 کی دہائی کے بعد مسلمان، ہندوستانی فلموں میں منفی کردار میں آگئے۔ ہندوستان کی تقسیم بھی جس کردار کو منفی شکل نہ دے سکی آخر ایسا کیا ہو گیا کہ آزادی کے 40 برس گزر جانے کے بعد مسلمان منفی کردار بن گئے؟
فلمی تجزیہ نگار اسکے لیے تین اہم تبدیلیوں کی سمت اشارہ کرتے ہیں۔ سیٹیلائٹ ٹی وی کی آمد، ہندوستانی فلموں کے لیے بین الاقوامی بازار کا کھلنا اور بابری مسجد کی شہادت۔ 90کی دہائی ہی وہ دور تھا جب ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کا ظہور ہوا۔ اسکا براہ راست اثر فلموں اور ٹیلی ویژن ڈراموں پر پڑا اور اسکے بعد تو منظرنامہ ہی بدل گیا۔ مسلم مرکزی کردار پر مبنی فلمیں تو دور، مسلم کرداروں کا رول بھی تبدیل ہو کر رہ گیا۔ مین اسٹریم کا سنیما مسلمانوں کو ولن بنا کر پیش کرنے لگا تو دوسری جانب متوازی سینما صرف مفلس مسلمانوں کی زبوں حالی کی داستان تک سمٹ کر رہ گیا۔ مثال کے طور پر، گمن، بازار وغیرہ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی کشیدگی پیدا ہوئی کہ نادانستہ طور پر ہی سہی، مسلم کردار فلموں سے باہر ہوگئے، اور جب لوٹے تو ایک دہشت گرد کی شکل میں۔ رہی سہی کسر 11/9 نے پوری کر دی اور امریکی حملوں کے بعد تو نہ صرف ہالی ووڈ کی فلموں میں بلکہ ہندستانی (بالی ووڈ) فلموں میں بھی مسلمانوں کو ایک خاص طرح سے پیش کیا جانے لگا۔ گلوبلائزیشن نے اس کو مزید ہوا دی ا ور ہالی ووڈ کی طرز پر مسلمانوں کی کردار کشی، بالی ووڈ کا بھی وطیرہ بن گیا۔ اے ویڈنس ڈے جیسی فلمیں اسکی مثال ہیں۔
فلمی تجزیہ نگاروں کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ کھلنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہندوستانی فلموں کا ہدف جو کہ اکثر نچلے یا درمیانہ درجے کا طبقہ ہوتا تھا اب مغرب زدہ نیا تعلیم یافتہ اور مالدار طبقہ ہو گیا جس کو اپنی روایات، اقدار یا تہذیب و تمدن کے بجائے ایسی فلمیں چاہئے تھیں جو صرف ان کے طبقے یا نظریات کی حامل ہوں، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں خاندانوں یعنی گھریلو امور پر مبنی فلمیں بھی بڑے بڑے سیٹ کی نذر ہو گئیں جہاں سماجی اقدار اور روایات کو دولت کے ملمع سے لپیٹ دیا گیا۔ یہ فکری دیوالیہ پن کے دور کا نقطہ آغاز تھا جو اب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ منموہن سنگھ کے دور حکومت میں قبول ہے، سجدہ تیرے پیار میں جیسے ڈرامے ٹیلی ویژن کی زینت بنے اور مقبول ہوئے۔ یہاں تک کہ زی ٹی وی نے زندگی چینل پر پاکستانی ڈرامے دکھانے شروع کئے جنہیں ہر خاص و عام کی خوب پذیرائی ملی۔ لیکن نریندر مودی کے برسر اقتدار آتے ہی زندگی چینل نے نہ صرف ان ڈراموں کی نمائش بند کر دی بلکہ اب چینل ہی بند کر دیا گیا۔ عالم آرا سے مسلم سلاطین اور معاشرے کی کردار سازی کرنے والی انڈسٹری اب منافرت کی صنعت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مسلم سلاطین پر اب بھی فلمیں بنائی جاتی ہیں لیکن صرف کردار کشی کے لیے، جیسے پدماوت اور چند ماہ قبل ریلیز ہوئی فلم تانہ جی۔ حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم پانی پت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔
شاید حفیظ میرٹھی مرحوم نے اسی صورتحال کے لئے کہا تھا:
مورخ تیری رنگ آمیزیاں تو خوب ہیں لیکن
کہیں تاریخ ہو جائے نہ افسانوں سے وابستہ
(کالم نگار، ڈی اے وی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں)