اوقاف کا المیہ: غاصب چست، وقف بورڈ سست!

مقدمات میں اضافہ ۔سنوائی میں تاخیر۔ رشوت خوری کی شکایات۔دعوت کی خصوصی رپورٹ

افروز عالم ساحل

سپریم کورٹ نے سال 1998میں تاریخی فیصلہ دیا تھا کہ ’ایک بار کا وقف ہمیشہ کے لیے وقف‘ اس کی خرید یا فروخت نہیں ہوسکتی اور کوئی بھی وقف املاک کے اصل کردار کو متاثر نہیں کرسکتا۔‘‘ اس کے بعد وقف جائیدادوں کے خردبرد اور عدالتی معاملوں میں کمی آنی چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس سچائی یہ ہے کہ ہماری عدالتوں میں وقف کے مقدموں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

قانون حق اطلاعات (آر ٹی آئی) سے حاصل شدہ اہم دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی عدالتوں میں وقف سے متعلق مقدموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد وشمار اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری عدالتیں وقف کے مسائل حل کرنے میں کافی سست ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ڈاکٹر اے ایس آنند اور وی این کھرے پر مشتمل بنچ کے اس تاریخی فیصلے کے لیے بھی آندھرا پردیش کے سید علی و دیگر افراد کو پورے 13 سال کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ اور یہ انتظار انہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں کرنا پڑا۔ نچلی عدالتوں میں انہوں نے اس کے لیے کتنا انتظار کیا ہوگا، اس بات کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

عدالتوں میں بڑھے وقف کے مقدمے

20 جولائی 2020کو سنٹرل وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت ملنے والی اطلاع کے مطابق اس وقت 26,858مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں اور وقف ٹریبیونل میں زیر دوراں ہیں۔ جبکہ نومبر 2016میں آر ٹی آئی سے حاصل شدہ دستاویزوں کے مطابق اس وقت 23,936مقدمات ملک کے مختلف عدالتوں و وقف ٹریبیونل میں زیر تصفیہ تھے۔ اس طرح سے گزشتہ 4سالوں میں 2922مقدمات کا اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ ان اعداد وشمار میں تلنگانہ اور اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ سے جڑے مقدموں کے اعداد وشمار شامل نہیں ہیں۔

سب سے زیادہ مقدمے مدھیہ پردیش میں

وقف سے متعلق قانونی معاملے سب سے زیادہ مدھیہ پردیش ریاست میں ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق یہاں فی الوقت وقف سے متعلق 5299قانونی معاملے مدھیہ پردیش کی مختلف عدالتوں میں ہیں۔ سب سے زیادہ 4285 معاملے وقف ایکٹ 1995 کے دفعہ 54 کے تحت ہیں۔ وہیں سپریم کورٹ میں ابھی 2 مقدمے، ہائی کورٹ میں 200، وقف ٹریبونل میں 635 اور مدھیہ پردیش کی دیگر عدالتوں میں 177مقدمے چل رہے ہیں۔ اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں مقدموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ نومبر 2106میں یہاں کی مختلف عدالتوں میں 4297مقدمے چل رہے تھے جبکہ اس وقت مقدموں کی تعداد 5299 ہے۔ یعنی گزشتہ چار سالوں میں ایک ہزار سے زائد مقدمے بڑھے ہیں۔ واضح رہے کہ وقف ایکٹ 1995کے تحت مدھیہ پردیش میں کل 14,863وقف اسٹیٹ اور 20,890رجسٹرڈ وقف جائیدادیں ہیں۔ وہیں 3285وقف جائیدادوں پر حکومت اور لوگوں کے ناجائز قبضے ہیں۔ یہ تمام اطلاعات سنٹرل وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل ہوئی ہیں۔

کیرالا میں مقدموں کی تعداد میں آئی کمی

سنٹرل وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل شدہ اطلاعات کے مطابق پورے ملک میں صرف کیرالا ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں وقف سے منسلک مقدموں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ نومبر 2016میں یہاں کی مختلف عدالتوں میں 2393 مقدمے چل رہے تھے لیکن اب یہاں مقدموں کی تعداد 1360ہے۔ ان اعداد وشمار کے مطابق یہاں کے وقف ٹریبونل اور ہائی کورٹ نے دیگر ریاستوں کے مقابلے کافی تیزی سے وقف معاملوں کی سنوائی کر کے ان تمام معاملات کا تصفیہ کیا ہے۔ان اعداد و شمار کے مطابق اس وقت یہاں وقف ایکٹ 1995کی دفعہ 54کے تحت 1034 معاملے چل رہے ہیں تو وہیں وقف ٹریبیونل میں 134مقدمے اور ہائی کورٹ و لینڈ ٹریبیونل میں 192 مقدمے زیرِ دوراں ہیں۔

کیا ہے وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 54؟

وقف ایکٹ 1995کی دفعہ 54موقوفہ جائیدادوں سے غاصبانہ قبضہ ہٹانے سے متعلق ہے۔ اس دفعہ کے تحت جب کبھی چیف ایگزیکٹو آفیسر کو کوئی شکایت موصول ہو یا اس کی خود کی نوٹس میں آنے پر کہ کسی وقف کے تحت رجسٹرڈ زمین پر کوئی تجاوزات ہوئی ہیں تو وہ اس پر دفعہ 54کے تحت ان تجاوزات کو ہٹانے کے لیے حکم نامہ بھیج سکتا ہے۔ آفیسر اس نوٹس کی ایک کاپی متولی کو بھی بھیجے گا۔ اگر کوئی شخص حکم نامہ بھیجنے کے 45 دن کے اندر بے دخلی کا حکم ماننے سے انکار کرتا ہے یا اس کا کوئی جواب نہیں دیتا ہے تو چیف ایگزیکٹو آفیسر اس کو بے دخل کر کے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے سکتا ہے۔

مقدموں میں اضافہ کی کیا ہے اصل وجہ؟

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے عدالتوں میں وقف کے مقدموں کے بڑھنے کی اصل وجہ دریافت کرنے کے لیے مختلف صوبوں کے ان لوگوں سے بات کی جو کسی نہ کسی حیثیت میں وقف سے وابستہ ہیں۔

دلّی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دلّی وقف پر پی ایچ ڈی کر رہے عامر جمال مقدموں میں اضافے کی دو وجوہات بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق پہلے زمین دارانہ دور تھا لوگوں کے پاس زمینیں کافی تھیں اس لیے لوگوں نے وقف کی زمینوں کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ لیکن اب جب زمینوں کی قلت بڑھی ہے تو ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ اس کے پاس بھی زمین ہو۔ اب انہیں وقف کے بارے میں معلوم ہے کہ یہاں زمین بہت زیادہ ہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس پر آسانی سے قبضہ کیا جا سکتا ہے اس لیے وقف کی زمینوں پر غیر قانونی قبضے بڑھے ہیں۔ عامر اس کی دوسری وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اوقافی جائیدادوں کے بارے میں لوگوں میں بیداری بڑھی ہے۔ خاص طور پر بابری مسجد پر فیصلہ آنے کے بعد لوگ اوقافی جائیدادوں کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ اب جب کہ بیداری بڑھی ہے تو لوگ اس کو بچانے کی فکر میں لگ گئے ہیں اور ضرورت بھی اسی بات کی ہے کہ مسلمانوں میں یہ بیداری مزید بڑھائی جائے تاکہ جن وقف جائیدادوں پر قبضہ ہوگیا ہے انہیں پھر سے حاصل کیا جا سکے اور اس کی آمدنی کو قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔

کیرالا وقف بورڈ میں بطور لیگل اسسٹنٹ کام کرچکی جے این یو کی ریسرچ اسکالر صفوی کہتی ہیں کہ وقف ٹریبونل اور عدالتوں کے قاعدے قانون بدلتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتوں کی سنوائی میں تاخیر ہونا اور مقدموں کا بڑھنا فطری ہے۔ آپ نے مشقت اٹھا کر عدالتوں کے دیے ہوئے فارمیٹ میں انفارمیشن مہیا کرائی تھی لیکن چھ مہینے کے بعد جب سنوائی کا موقع آیا تو پتہ چلا کہ فارمیٹ میں تبدیلی کر دی گئی ہے چنانچہ آپ کو پھر سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح سے ججوں کے تبادلے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ ہر جج اپنے حساب سے ان معاملوں کی سنوائی کرتا ہے اس لیے اس میں کافی وقت برباد ہوتا ہے۔ اس پورے معاملے میں کسی ایک کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔صفوی جے این یو سے وقف معاملوں پر ایم فل کر چکی ہیں اور اب اسی عنوان پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ وقف کے پورے سسٹم کی چال بہت دھیمی ہے اس کی رفتار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے زیادہ تر وقف بورڈوں میں اسٹاف کی کمی ہے۔ جبکہ زمین کے معاملے میں پیپر ورک بہت کرنا پڑتا ہے۔ جب درکار تعداد میں عملہ ہی نہ ہو تو پھر کام کا رکنا فطری ہے۔ کئی بار متولی بھی ساتھ نہیں دیتے اور ایک سچ یہ بھی ہے کہ اوقاف کے معاملوں میں عدالتوں کی دلچسپی بہت زیادہ نہیں ہوتی ہے۔

وقف پر کام کرنے والی مہاراشٹر کی سماجی تنظیم ’وقف لبریشن اینڈ پروٹیکشن ٹاسک فورس‘ کے قومی صدر سلیم ملا عدالتوں میں وقف کے بڑھتے معاملے اور سنوائی میں تاخیر کے لیے اصل ذمہ دار وکیل برادری اور وقف بورڈ کو مانتے ہیں۔

انہوں نے ایک تفصیلی گفتگو میں بتایاکہ وقف کے معاملوں میں سنوائی میں ہونے والی تاخیر کے لیے ذمہ دار عدالت نہیں بلکہ ہمارے وکیل ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اکثر یہ وکیل صاحبان دونوں پارٹیوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں اور دونوں طرف سے انہیں پیسہ مل رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ چاہتے ہی نہیں کہ ان کے معاملے میں عدالت کا فیصلہ جلد از جلد آئے۔

وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ عدالت میں کوئی بھی سنوائی پختہ ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی بار ہمارے پاس پختہ ثبوت نہیں ہوتے۔ اس کام میں وقف بورڈ بھی سپورٹ نہیں کرتا۔ اور جو لڑائی خود وقف بورڈ لڑتا ہے انکی بھی کہانی ایسی ہی ہوتی ہے۔ ایک تو اچھے وکیل نہیں رکھے جاتے دوسرا جس وکیل کو بھی رکھا جاتا ہے اس کو مناسب فیس بھی نہیں دی جاتی۔ بس وہی وکیل کام کو بگاڑ دیتا ہے کیونکہ اس کو فریق مخالف سے اچھی رقم کا آفر ہوتا ہے۔ اس لیے عدالتوں سے زیادہ مسئلہ وکیلوں اور وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریشن سے ہے۔

سلیم ملا مزید کہتے ہیں کہ میرے تین معاملے وقف ٹریبونل میں ہیں۔ ایک سال سے زیادہ وقت ہوگیا لیکن آج تک سنوائی کی تاریخ ہی نہیں آئی ہے۔ ان کے مطابق وقف کے بڑھتے قانونی معاملوں کے لیے متولی بھی زیادہ ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ متولی کا خاندان بڑھ رہا ہے تو آپسی جھگڑوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور پھر یہی جھگڑے عدالتوں تک پہنچ رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ٹرسٹیوں کے بڑھتے جھگڑے بھی اس کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔

ممبئی کے فرید تونگیکر کا کہنا ہے کہ وقف ٹریبونل کو مضبوط بنانے اور اس میں اچھے لوگوں کو لانے کی ضرورت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ زیادہ تر جج تو وقف کے قانون سے ہی پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ بعض مرتبہ وکیل خود پورے کیس کو الٹا کر دیتے ہیں۔ وقف ٹریبونل میں ججوں کی تعداد کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔

جب سرکاری افسران ہی آپ کی وقف کی زمین لوٹنے لگیں

وقف کے معاملوں میں سرکاری افسران کا کیا رول ہوتا ہے؟ اس کی بہترین مثال ضلع مغربی چمپارن کے شہر بتیا کے رہنے والے محمد ریاض الدین کی کہانی ہے۔ محمد ریاض الدین بتیا کی مشہور مسجد ’جنگی مسجد‘ کے متولی ہیں۔ بتیا سے دور ان کی ایک وقف جائیداد پر اس وقت کے سرکل آفیسر نے ہی قبضہ کر لیا اور پھر ان سے رشوت مانگی۔ ان کے مطابق اس معاملے میں سب ڈویژنل آفیسر بھی سرکل آفیسر کے ساتھ تھے۔ ایک طویل قانونی جدوجہد کے بعد زمین تو واپس مل چکی ہے لیکن حکومت یا وقف بورڈ نے ان عہدیداروں کےخلاف کچھ نہیں کیا۔

محمد ریاض الدین نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ’’16 مارچ 2008 کو گوناہا کے سرکل آفیسر پرمود کمار خود بتیا میں واقع میری رہائش گاہ پر آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں ان کو 50 ہزار روپے دوں، نہیں تو وہ بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کی گوناہا میں موجود قریب ساڑھے 13 بیگھا زمین پر قبضہ کر لیں گے اور پھر وہ لوگ کسی عدالتی حکم اور دستاویزات کو نہیں مانیں گے۔ پھر میں پوری زندگی ناک رگڑتا رہ جاؤں گا تو بھی مجھے وقف کی یہ زمین نہیں ملے گی۔‘‘ اس واقعے کے بعد میں سب ڈویژنل آفیسر کے پاس گیا لیکن اس نے بھی وہی کہا جو سرکل آفیسر کہ چکا تھا۔ اس کے بعد میں نے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور لوک آیوکت وغیرہ کو شکایت بھیجی۔ آر ٹی آئی کا بھی استعمال کیا۔ بہت سی معلومات اکٹھی کیں اور پھر ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا۔ یہاں بھی جب انصاف نہیں ملا تو پٹنہ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہاں میرے حق میں فیصلہ ہوا، لیکن سب ڈویژنل آفیسر نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ میں ایک بار پھر توہینِ عدالت کا مقدمہ لے کر ہائی کورٹ گیا۔ اس بار عدالت نے اسے پھٹکار لگائی تب جاکر عدالت کے فیصلے کو مانا گیا۔

یعنی آپ کو وقف کی زمین واپس مل گئی؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ ابھی کہاں؟ آگے کی کہانی ابھی باقی ہے میرے دوست! آگے وہ بتاتے ہیں کہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سال 2013 میں آیا تھا۔ پھر کچھ دن بعد ان ہی آفیسروں نے میری زمین کی نیلامی کا اعلان کر دیا۔ اس پر میں نے پھر سے قانونی لڑائی لڑی تب جا کر وقف کی یہ زمین بچی ہوئی ہے۔ اس لڑائی میں مجھے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور پیسہ بھی کافی خرچ ہوا۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وقف کو بلکہ یوں کہیے کہ قوم کے وجود کو اگر بچانا ہے تو ایسی چھوٹی موٹی لڑائیاں لڑنی ہی پڑیں گی۔

یہ پوچھنے پر کہ آپ وقف ٹریبونل کیوں نہیں گئے تو ان کا اس پر کہنا ہے کہ اگر میں وہاں گیا ہوتا تو شاید ابھی بھی میرا مقدمہ چل ہی رہا ہوتا۔ تب تک تو وہ وقف کی اس زمین کو نیلام کر چکے ہوتے۔ تاہم، ریاض الدین کو اب بھی اس بات کا افسوس ہے کہ ہائی کورٹ نے رشوت مانگنے والے ان افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جنہوں نے وقف کی اراضی پر قبضہ کرنے کی مکمل سازش رچی تھی۔

***

اوقافی جائیدادوں کے بارے میں لوگوں میں بیداری بڑھی ہے۔ خاص طور پر بابری مسجد پر فیصلہ آنے کے بعد لوگ اوقافی جائیدادوں کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ اب جب کہ بیداری بڑھی ہے تو لوگ اس کو بچانے کی فکر میں لگ گئے ہیں اور ضرورت بھی اسی بات کی ہے کہ مسلمانوں میں یہ بیداری مزید بڑھائی جائے تاکہ جن وقف جائیدادوں پر قبضہ ہوگیا ہے انہیں پھر سے حاصل کیا جا سکے اور اس کی آمدنی کو قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔