ملک پر اعلیٰ ذات کاطبقہ حکومت کر رہا ہے

کمزوردلتوں پر ظلم، تکبر اور فرسودہ ذہنیت کی علامت

 

اڈیشہ: (دعوت نیوز ڈیسک) کہاجاتاہےکہ سترسالوں سے بھارت پر کانگریس حکومت کررہی ہےلیکن حقیقت یہ ہےکہ ملک پر کانگریس نہیں بلکہ اعلیٰ ذات کے لوگ قابض ہیں جنہوں نےاپنے مفاد کےلیے ذات پات کی ناجائز تقسیم کوفروغ دیاہےوہیں دیگر سیاسی پارٹیوں نےذات پات کوآلہ کار بنا کر ووٹ بینک کی خوب سیاست کر کےآگ میں گھی ڈالنےکاکام کیاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ کے2017میں آئے فیصلے میں جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کہاتھا کہ کوئی بھی سیاست داں ذات پات، عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگ سکتا۔لیکن سیاسی جماعتیں روایتی طور پر امیدواروں کی نامزدگی اور ووٹوں کے حصول کے لیے مذہب اور ذات پات کو معیار کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ اور مسئلہ صرف یہی نہیں ہے بلکہ دلتوں کی عزت و احترام کو ہزاروں سالوں سے پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں موجود ذات پات پر مبنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے پرانی صورت ہے۔ تین ہزار سال سے زائد عرصے سے رائج اس نظام کے تحت ہندوؤں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ ذات پات کا نظام ہندوؤں کو برہمن، شتری، ویش اور شودر کے نام سے چار طبقات میں تقسیم کرتا ہے اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اچھوتوں یا دلتوں کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے لوگوں کے سامنے ان کی حیثیت ایک جانور سے بھی بدتر ہے۔ غور کرنے والی بات ہے کہ بھارت میں جب مسلمانوں کا قتل ہوتا ہے تو وہ نفرت کی بنیاد پر ہوتا ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو اپنے مد مقابل سمجھتے ہیں لیکن جب دلتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو وہ ان کو حقیر و ذلیل سمجھنے کے نتیجے میں ہوتی ہے، انہیں معاشرے کا سب سے بدترین حصہ سمجھا جاتا ہے۔ تبھی تو اعلیٰ ذات کے لوگوں نے ضلع اعظم گڑھ کے بانس گاؤں کے پردھان ستیہ میو جئتے کو صرف اس لیے جان سے مار ڈالا کہ انہوں نچلی طبقہ کے ہوتے ہوئے اعلیٰ ذات کے لوگوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ حال ہی میں اڈیشہ کے ضلع ڈھینکانال میں گزشتہ تین ہفتوں میں 40 دلت خاندانوں کے سماجی بائیکاٹ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ ڈھینکانال کے کانتیو کتینی گاؤں کا ہے، جہاں لگ بھگ دو مہینے پہلے 15 سال کی ایک دلت لڑکی نے اعلیٰ ذات کی فیملی کے گھر کے آنگن سے پھول توڑ لیے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ لڑکی کے والد نرنجن نایک نے فوراً معافی بھی مانگ لی تھی تاکہ اس معاملے کو سلجھایا جا سکے لیکن اس کے بعد کئی میٹنگیں ہوئیں جس میں اعلیٰ ذات والوں نے انکا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ رپورٹس کے مطابق اس گاؤں میں لگ بھگ 800 خاندان ہیں جس میں سے 40 خاندان (ایس سی) نایک کمیونٹی کے ہیں۔ متاثرہ طبقہ نے اس سلسلے میں 17 اگست کو ضلع انتظامیہ اور پولیس تھانے کو میمورنڈم سونپا تھا۔ اسی گاؤں کے جیوتی نایک کا الزام ہے کہ ‘مقامی پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) سے ہمیں راشن نہیں مل رہا اور کرانہ اسٹور مالکوں نے ہمیں سامان فروخت کرنا بند کر دیا ہے جس کے بعد ہمیں ضروری سامان خریدنے کے لیے پانچ کیلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑ رہا ہے اور گاؤں والوں نے ہم سے بات کرنا بھی بند کر دیا ہے۔ وہیں اس معاملے میں گاؤں کے سرپنچ کے مطابق ان کی (متاثر دلت طبقہ) غلطی کی وجہ سے ان کا بائیکاٹ کیا گیا ہے لیکن دیگر الزامات کو بے بنیاد بتایا گیا ہے۔ اس واقعے میں حیرت کی بات یہ ہے کہ متاثرہ طبقے کی شکایت پر ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی بلکہ پولیس اسٹیشن کے انچارج انسپکٹر آنند کمار ڈنگڈنگ کا کہنا تھا کہ وہ سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے کو اور بڑھانا نہیں چاہتے اس لیے ہم نے ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔ یعنی پولیس انتظامیہ کو چالیس خاندانوں کا بائیکاٹ کیا جانا معمولی واقعہ محسوس ہوا۔ دراصل غلطی ان کی نہیں ہے بلکہ اس نظام کی ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور نہ جانے اس کے خاتمے کے لیے کتنی صدیاں لگ جائیں۔ اسی طرح مئی 2019 میں گجرات کے ضلع مہسانہ کے ایک گاؤں میں ایک دلت کے اپنی شادی میں گھوڑی پر بیٹھنے کا خمیازہ پوری کمیونٹی کو بھگتنا پڑا، پورے گاؤں نے اس کمیونٹی کے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کر دیا اور تو اور اس دلت طبقہ کے لوگوں سے بات کرنے یا ان کے ساتھ کسی طرح کا میل جول رکھنے والوں پر 5000 روپے کا جرمانہ لگائے جانے کا بھی اعلان کر دیا گیا۔ اسی طرح ریاست ہریانہ کے حسار میں واقع بھاٹلا گاؤں میں کسی وجہ سے دو سال کے لیے دلتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا جس کے خلاف سپریم کورٹ نے حکومت ہریانہ کی زبردست سرزنش بھی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ آئین، قانون اور نظم و نسق جو اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی طبقہ کو محلے یا گاؤں سے کاٹ دیا جائے کس طرح ملک کی عوام کے اندر فرسودہ اور دقیانوسی ذہنیت بنی ہوئی ہے اور وہ آج بھی پہاڑوں کی طرح جوں کی توں باقی ہے؟ اس کا اندازہ ایک اور واقعے سے لگایا جا سکتا ہے جب جنوری 2018 میں آندھرا پردیش کے شہر کرنول میں واقع ایک گاؤں میں صرف قبر نہ کھودنے پر دلتوں کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا، دلت بستی میں پانی کی پائپ لائن کاٹ دی گئی اور گاؤں کے دکانداروں سے کہ دیا گیا کہ دلتوں کو سامان فروخت کرنے بلکہ ان سے بات کرنے پر بھی 5 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ آخر کس ملک میں ہم جی رہے ہیں اور کس پرانے رسموں رواجوں اور فرسودہ روایات میں سانس لے رہے ہیں؟
***