ہندوستان میں اشاعت اسلام کی تھیوریز کا تنقیدی جائزہ

مورخین کی جانب سے پروپگنڈے کی زبان استعمال کی گئی۔مختلف قسم کے دعووں میں دلیل اور منطقی ربط موجود نہیں

شبیع الزماں ،پونے

ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اکثریت ان ہندوستانیوں کی ہے جن کے آباء و اجداد نے مختلف وقتوں میں اسلام قبول کیا۔ لیکن اشاعت اسلام کی تاریخ جنگوں اور فتوحات کی داستانوں میں کہیں دب گئی ہے The Preaching of Islam میں تھامس آرنلڈ لکھتے ہیں
’’عہد قدیم کے اکثر مورخوں نے ہندوستان پر مسلمانوں کی چڑھائیوں کا ذکر اور اس ملک میں اسلامی سلطنت کے قیام و فروغ پانے کے حالات لکھے ہیں لیکن کسی مورخ نے یہ کوشش نہیں کی کہ میدان جنگ کی فتوحات اور نظم و عدالت سے اشاعت اسلام کی تاریخ کو الگ لکھا جائے‘‘
آرنلڈ آگے لکھتے ہیں:
’’ مورخوں نے دعوت اسلام کی تاریخ اور ان تمدنی خیالات کی طرف بہت کم توجہ کی ہے جن سے اس ملک میں اسلام کی اشاعت ہوئی ہے۔ ہندوستان کی تمام ایسی تاریخوں میں جو آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں خواہ اس ملک کے مورخوں کی لکھی ہوئی ہوں یا یورپی مصنفوں کی تحریریں صرف لڑائیوں کے حالات یا پادشاہوں کے کارنامے درج ہوتے ہیں۔ لوگوں کی مذہبی حالت کا ذکر جو مختلف وقتوں میں رہی ہو ان کتابوں میں نہیں ملتا البتہ اگر اس مذہبی حالت نے کبھی تعصب یا مذہب کی بنا پر ظلم و ستم کی صورت اختیار کی تو ضرور اس کا ذکر کردیا جاتا یے۔‘‘ (The Preaching of Islam- T.W. Arnold)
ہندوستان میں اشاعت اسلام کے حقیقی اسباب دب سے گئے ہیں اور ان کی جگہ مختلف تھیوریوں اور خود ساختہ بیانیوں نے لے لی ہے۔ ہندوستان میں دعوت دین کے ضمن میں دو پہلو بہت اہم ہیں۔ اول یہ کہ یہاں اشاعت اسلام کی رفتار بہت سست رہی ہے اور دوسرے یہ کہ دیگر علاقوں بالخصوص مشرق وسطیٰ کے طرز پراسلام پورے علاقے میں نہیں پھیل سکا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں اشاعت اسلام کے پروسیس کا معروضی مطالعہ کیا جائے اور ان حقیقی اسباب کا پتہ لگایا جائے جن کے سبب اسلام پھیلا۔ اسی طرح ان وجوہات کا جاننا بھی ضروری ہے جن کے سبب اشاعت اسلام اس خطے میں متاثر رہی اور اسلام ایک عمومی مذہب نہیں بن پایا۔ دعوت دین کی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ان اسباب کا جاننا ضروری ہے۔
ہندوستان میں اشاعت اسلام کی مختلف وجوہات پیش کی جاتی رہی ہیں۔ رچرڈ ایٹن نے ان تمام وجوہات کو چار تھیوریوں میں سمیٹ دیا ہے ۔ لیکن ہر تھیوری مکمل طور اس تاریخی عمل کی توجیہ نہیں کر پارہی ہے۔ یہ تھیوریاں درج ذیل ہیں۔

1نقل مکانی یا ہجرت کے ذریعہ اشاعت اسلام(Immigration Theory)
2.اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا (Religion of the Sword Theory)
3- سرکاری سرپرستی کے سبب اشاعت اسلام(Religion of Patronage theory)
4 -سماجی آزادی کے سبب اشاعت اسلام(Religion of Social Liberation thesis )
The Rise of Islam and the Bengal Frontier, 1204–1760
(Richard M. Eaton)
1نقل مکانی یا ہجرت کے ذریعہ اشاعت اسلام
اس تھیوری کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کی بڑی اکثریت ان مسلمانوں کی نسل سے ہے جو ایران کے سطح مرتفع کے میدانی علاقوں سے سفر کرتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے یا پھر ان عرب تاجروں کی اولاد ہے جو سمندر کے ذریعے سفر کرتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ یہ بات درست ہے کہ مسلمان ان راستوں سے ہجرت کرکے ہندوستان میں داخل ہوئے۔لیکن اول تو ان کی تعداد بہت کم تھی اور ان کی نسلوں سے اتنی بڑی مسلم آبادی پیدا ہونا ممکن نہیں دوسرے یہ کہ اسے اشاعت اسلام نہیں کہا جا سکتا۔ اسے مسلمانوں کی ہجرت تو کہی جاسکتی ہے لیکن عقیدے کی تبدیلی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
-2 اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا
ہندوستان میں اشاعت اسلام کی دوسری وہی بدنام زمانہ تھیوری ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ہندوستان اور باقی دنیا میں بھی اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔یہ خیال ویسے تو صلیبی جنگوں کے دوران پنپا لیکن اسے بے پناہ مقبولیت انیسویں صدی میں اس وقت ملی جب یورپ مسلم دنیا پر قابض ہوگیا اور اس کے سامراج کے خلاف احیائی تحریکیں پوری مسلم دنیا میں شروع ہوگئیں۔ ان تحریکات کو نظریاتی سطح پر کمزور کرنے کے لیے یہ تھیوری بڑے پیمانے پر عام کی گئی کہ اسلام کی فیصلہ کن قوت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہی ہے۔ مشہور مستشرق ولیم مورلکھتا ہے :

It was the scent of war that now turned the sullen temper of the Arab tribes into eager loyalty.…Warrior after warrior, column after column, whole tribes in endless succession with their women and children, issued forth to fight. And ever, at the marvelous tale of cities conquered; of rapine rich beyond compute; of maidens parted on the very field of battle ―to every man a damsel or two‖…fresh tribes arose and went. Onward and still onward, like swarms from the hive, or flights of locusts darkening the land, tribe after tribe issued forth and hastening northward, spread in great masses to the East and to the West
. William Muir, The Caliphate: Its Rise, Decline, and Fall
یورپ نے ہمیشہ اسلام کو جنسی انارکی اور تلوار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے اور ایسا کرنا اس کی سیاسی ضرورت تھی ۔ اگر ولیم مور ہی کی مثال لی جائے تو وہ خود آخر کار، نوآبادیاتی ہندوستان میں ایک اعلیٰ برطانوی اہلکار ہونے کے ساتھ ساتھ عیسائی مشنری تحریک کے لیے ایک جارح کارکن بھی تھا۔ اگر یورپی مورخین ہندوستان میں اشاعت اسلام کا سبب تلوار بتاتے ہیں تو وہ ہندوستان میں اسلام کی اتنے بڑے پیمانے پر اشاعت کی کوئی توجیہ نہیں کرسکتے جیسا کی پیٹر ہارڈی نے لکھا ہے:
Those who argued that Indian Muslims were forcibly converted have generally failed to define either force or conversion۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو زبردستی تبدیل کیا گیا تھا وہ عام طور پر زبردستی یا تبدیلی کی تعریف کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ کیا ایک سماج مکمل طور سے اپنا مذہب اور کلچر صرف اس لیے چھوڑ دے گا کہ اس کی گردن پر تلوار رکھ دی گئی تھی۔ جبری قبول اسلام کی کہانیاں تو بہت سنائی گئی لیکن اس عمل کو کبھی بھی دلائل کی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکا ہے صرف پروپیگنڈے کی زبان میں اسے عام کیا گیا ہے۔
اس تھیوری کے پیش کرنے والوں نے ایک بڑی غلطی یہ کی ہے کہ ترکی و فارسی حکومت کی توسیع کو اسلام کی توسیع سے تعبیر کر دیا۔ جیسا کہ یوحنن فرائڈ میں نے لکھا ہے ۔
in these accounts one frequently meets with such ambiguous phrases as they submitted to Islam or they came under submission to Islam in which Islam might mean either the religion, the Muslim state, or the ―army of Islam. But a contextual reading of such passages usually favors one of the latter two interpretations, especially as these same sources often refer to Indo-Turkish armies as the lashkar-i Islām, or army of Islam,and not the lashkar-i Turkān, or ―army of Turks In other words, it was the Indo-Muslim state, and, more explicitly, its military arm, to which people were said to have submitted, and not the Islamic faith
(A Contribution to the Early History of Islam in India- Yohanan Friedmann)
ان تحریروں میں اکثر ایسے مبہم جملے دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے ’انہوں نے خود کو اسلام کے سپرد کردیا‘ یا ’وہ اسلام کے تابع ہو گئے‘ جن میں اسلام کا مطلب یا تو مذہب، مسلم ریاست، یا اسلام کی فوج ہو سکتی ہے۔لیکن اس طرح کے اقتباسات کا سیاق و سباق پڑھنا عموماً بعد کی دو تشریحات میں سے کسی ایک کے حق میں ہوتا ہے، خاص طور پر جیسا کہ انہی ذرائع میں اکثر ہند۔ترک فوجوں کو لشکر اسلام، یا اسلام کی فوج کہا جاتا ہے، نہ کہ لشکرِ ترکان، یا ترکوں کی فوج ۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ہند مسلم ریاست تھی، اور زیادہ واضح طور پر، اس کا فوجی بازو، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ لوگ اس کے آگے سر تسلیم خم کر چکے ہیں، نہ کہ اسلامی عقیدہ‘‘۔
دوسرے لفظوں میں، یہ ہند مسلم ریاست تھی، بلکہ زیادہ واضح طور اس کی فوجی قوت نہ کہ اسلام جس کی اطاعت لوگوں نے قبول کی تھی۔ بلا شبہ ان بادشاہوں میں مذہبی حمیت اور دینی جذبہ موجود تھا لیکن داعیانہ جذبہ مفقود تھا۔ The Preaching of Islam میں تھامس آرنلڈ لکھتے ہیں:
’’ ہندوستان کے ان مسلمان فاتحین کے دل میں کوئی ایسا خیال جس کو’’ دوسروں کی آخرت کی بھلائی چاہنے کا خیال’’ کہتے ہیں موجود نہ تھا جو اسلام کے ہر سچے داعی کے دل میں ہوا کرتا ہے۔ جس نے خود اسلام کی اشاعت میں بڑے بڑے کام کیے ہیں خلجی، تغلق اور لودھی لڑائیوں میں ایسے مصروف رہے کہ اسلام کو ترقی دینے کی ان کو مہلت نہ ہوئی ۔ لوگوں کو مسلمان کرنے کی جگہ ملکوں سے خراج حاصل کرنے کاان کو زیادہ خیال رہا۔‘‘
دوسرے یہ کہ اگر جنوبی ایشیا کی آبادی کا مذہبی اعتبار سے جائزہ لیں تب بھی یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے ۔ اگر اسلام کبھی بھی قوت کے زور سے پھیلا ہوتا تو ان علاقوں میں مسلم آبادی زیادہ ہونی چاہیے تھی جہاں مسلمانوں کی طاقتور حکومتیں زیادہ عرصے تک قائم رہیں۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر معاملہ اس کے برعکس رہا۔ مشرقی بنگال اور مغربی پنجاب جہاں مسلم تلوار سب سے کمزور رہی وہاں ہندوستان کی پہلی مردم شماری کے وقت مسلم آبادی 70 سے 90 فی صد تھی اس کے بالمقابل مسلم سلطنت کا قلب یعنی دہلی اور گنگا کے میدانی علاقے جہاں مسلمانوں کی مضبوط اور طویل عرصے تک حکومتیں قائم رہیں جہاں تاج محل اور لال قلعہ ان کی عظمت اور پرشکوہ حکومتوں کی داستانیں بیان کر رہے ہیں وہاں مسلم آبادی صرف 10 سے 15 فی صد تھی۔ یعنی بر صغیر میں مسلم سیاسی قوت اور اشاعت اسلام کا تناسب ایک دوسرے کے معکوس رہا۔ ستیش چندرا اس کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
On the whole, conversions to Islam were not effected with the strength of the sword. If that was so, the Hindu population of the Delhi region would have been the first to be converted. The Muslim rulers had realised that the Hindu faith was too strong to be destroyed by force. Shaikh Nizamuddin Auliya, the famous Sufi saint of Delhi, observed, ‘Some Hindus know that Islam is a true religion but they do not embrace Islam’. Barani also says that attempt to use force had no effect on the Hindus.

’’مجموعی طور پر اسلام قبول کرنے کا عمل تلوار کے زور سے نہیں ہوا۔اگر ایسا ہوتا تو دہلی کے علاقے کی ہندو آبادی سب سے پہلے مذہب تبدیل کرنے والی ہوتی۔مسلمان حکمرانوں کو احساس ہو گیا تھا کہ ہندو عقیدہ اتنا مضبوط ہے کہ اسے طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ دہلی کے مشہور صوفی بزرگ شیخ نظام الدین اولیاء نے کہا، ’’کچھ ہندو جانتے ہیں کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے لیکن وہ اسلام کو قبول نہیں کرتے‘‘۔ برنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاقت کے استعمال کا ہندوؤں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔‘‘
ان دلائل کی روشنی میں اس تھیوری کا کھوکھلا پن بھی واضح ہوتا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تلوار کے زور سے اسلام نہیں پھیلا بلکہ مسلمانوں کی حکومتیں پھیلی ہیں۔ اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا میں حکومتیں ہمیشہ طاقت ہی کے زور سے پھیلا کرتی ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی حکومت دعوت سے بھی پھیلی ہے؟ سکندر اعظم سے لے کرنیپولین تک، چنگیز خان سے لے کر تیمور لنگ تک اورچندر گپت موریہ سے لےکر اشوک تک سب نے اپنی حکومت طاقت ہی کے زور سے قائم کی۔ موجودہ زمانے میں جو استعماری حکومتیں قائم ہوئی ہیں وہ بھی قوت ہی کے زور سے قائم ہوئیں۔ چاہے عظیم تر برطانیہ ہو، جس کے سامراج میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، یا پھر اشتراکیت کا سرخ فتنہ، ہر ایک نے قوت ہی کے ذریعہ سے غلبہ حاصل کیا ہے۔لیکن کوئی ان کے مذاہب کے بارے میں نہیں کہتا کہ وہ تلوار سے پھیلے ہیں۔ یہی معاملہ ہندوستان میں مسلم حکومتوں کا بھی رہا یعنی حکومتیں تو تلوار سے پھیلیں لیکن اسلام دعوت و تبلیغ اور دیگر وجوہات سے پھیلا۔ان شاء اللہ اگلے مضمون میں دیگر دو تھیوریوں کا تنقیدی جائزہ لیں گے۔(جاری)
***

 

***

 موجودہ زمانے میں جو استعماری حکومتیں قائم ہوئی ہیں وہ بھی قوت ہی کے زور سے قائم ہوئیں۔ چاہے عظیم تر برطانیہ ہو، جس کے سامراج میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، یا پھر اشتراکیت کا سرخ فتنہ، ہر ایک نے قوت ہی کے ذریعہ سے غلبہ حاصل کیا ہے۔لیکن کوئی ان کے مذاہب کے بارے میں نہیں کہتا کہ وہ تلوار سے پھیلے ہیں۔ یہی معاملہ ہندوستان میں مسلم حکومتوں کا بھی رہا یعنی حکومتیں تو تلوار سے پھیلیں لیکن اسلام دعوت و تبلیغ اور دیگر وجوہات سے پھیلا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022