’’ہمیں تو آپ کے غصہ پہ پیار آتا ہے‘‘

سنتوش شندے کے مضمون پر ایک تاثراتی تحریر

محمد ابراہیم خان، آکوٹ، مہاراشٹر

’’مجھے مسلمانوں کی اس اچھائی پر بہت غصہ آتا ہے‘‘ اس عنوان کے تحت جناب سنتوش شندے کا ایک مضمون ہفت روزہ دعوت کے پچھلے شمارہ میں شائع ہواہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں جن احساسات کو پیش کیا ہے اس میں یقیناً ہمارے برادران وطن کے لیے بڑا سبق ہے۔ جو کچھ وہ بچپن سے سنتے اور آنکھوں سے دیکھتے آئے ہیں اسی کی انہوں نے ترجمانی کی ہے۔ اندھے اور بہرے لوگوں کی طرح وہ اندھی بھکتی کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا ضمیر ابھی زندہ ہے جس کا ثبوت انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کر کے دیا ہے ۔ ان کو شکایت ہے کہ مسلمانوں پر بلاتحقیق دہشتگردی کا الزام لگاکر انہیں برسوں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے، میڈیا اپنی لن ترانیوں سے مسلم نوجوانوں کی کردار کشی کرتا ہے ،مساجد اور مدارس کو دہشت گردی کے اڈے ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کرتاہے، کورونا پھیلانے کا مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ ماب لنچنگ میں مسلم نوجوان کو بیس بیس غنڈوں کے ذریعے گھیر کر مارا پیٹا اور ختم کردیا جاتا ہے پھر بھی مسلمان مصیبت کے وقت میں سب سے پہلے مدد کے کیوں لیے آگے بڑھتے ہیں اور کیوں ان لوگوں کی بھی مدد کرتے ہیں جو انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ مسلمانوں کے اس اقدام پر وہ ایک عام انسان کی طرح سوچتے ہیں کہ ہندوؤں کی طرف سے اس طرح کا رویہ اور جوب میں مسلمانوں کا یہ حسن سلوک؟ اسی پر انہوں نے اپنا ردعمل کچھ یوں دیاہے:’’مجھے مسلمانوں کی اس اچھائی پر غصہ آتا ہے‘‘
اگر ایک عام آدمی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ۔۔۔ لوگ ’’ عمل کا رد عمل ‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو اسلام اور اسلامی تاریخ سے واقف نہیں ہیں، جنہیں اسلام کا مزاج نہیں معلوم ۔۔۔ اگرچہ اسلام کے ماننے والے بھی یقیناً انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے وہ بھی سنتوش شندے طرح یہ سوچنے کا حق رکھتے ہیں کہ جو لوگ دشمنی کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ ہمدردی کا اور نرمی کا اظہار کر کے کیا اپنے آپ کو کمزور ثابت کردیں؟ ہم بھی کیوں نہ عمل کا رد عمل دکھائیں؟ لیکن ایسا کوئی ایک واقعہ بھی میڈیا نے آج تک پیش نہیں کیا۔ ابھی تک تقریباً سو لوگوں کے ساتھ مآب لنچنگ کے واقعات پیش آچکے ہیں لیکن پھر بھی مسلم نوجوانوں نے کسی نہتے غیر مسلم کو کہیں گھیر کر نہیں مارا ہے بلکہ ان کی خاموش زبان سے یہی صدا گونجی کہ
اک ایسی خوشگوار سزا ہے ہمارے پاس
گالی تمہارے پاس ، دعا ہے ہمارے پاس
اور پھر انسانوں کے لیے خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے جو قابل تقلید نمونہ چھوڑا ہے اسے شاعر اس طرح بیان کرتا ہے:
اہل ستم کے پتھر کھا کر گل برسانے والا وہ
اور دعائے خیر کی خاطر ہاتھ اٹھانے والا وہ
لہٰذا سنتوش شندے سنتشٹ کرنے کے لیے عرض ہے کہ مسلمانوں کے اس عمل پر آپ کو غصہ آرہا ہے لیکن مسلمانوں کا کوئی کام یا کوئی عمل دنیا کو دکھانے، ان کی ناراضگی سے بچنے یا انہیں خوش کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ انہیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے کسی عمل سے ہمارا خالق، مالک اور رب ناراض نہ ہو جائے ۔۔ پھر جب ملک کی یہ حالت ہے کہ مسلمانوں نے ابھی مکمل طور پر اسلام کے پیغام سے برادران وطن کو آگاہ ہی نہیں کیا جس کے نتیجے میں آج ملک کی ایک بڑی اکثریت لوگوں کے غلط پروپیگنڈے کا شکار ہوچکی ہے اور وہ اسی نادانی میں مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھ رہی ہے اسی لیے گمراہ کن سازشوں کا شکار ہو کر مسلمانوں پر ظلم وستم کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہمارے سیدھے سادھے ہموطنوں کو کچھ لوگ اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان کے اندر نفرت کے جذبات کو پیدا کر کے ان نوجوانوں کو غلط راہ پر ڈال کر انہیں ذہنی مریض بنا رہے ہیں۔ہم نے مسلمانوں میں ایسا منفی رجحان پیدا کرنے والا کوئی قائد نہیں دیکھا۔ مسلمانوں کے علماء اس سلسلے میں اپنے نوجوان کو صبر وتحمل اور کردار کے بلندی کا ہی سبق پڑھاتے رہے ہیں۔ ہاں ظلم کے اور ناانصافیوں کے خلاف دستور کے دائرے میں‌اپنی آواز بھی بلند کرتے رہے اور جلسے جلوس بھی نکالے گئے ، انتہائی شائستگی کے ساتھ احتجاج بھی ہوئے۔ تاریخی احتجاج شاہین باغ کا ہے جس کو بدنام کرنے کی بکاو میڈیا نے بہت کوششیں کیں، لیکن سچائی کو وہ کیسے چھپاتے۔ شاہین باغ کی بچیوں کی زبان ،ان کی تعلیم اور ان کی شائستگی کو سوشل میڈیا پر جو کوریج ملا دنیا بھر میں اسکی شہرت ہوئی ،ملک کی سب سے بڑی عدالت کے نمائندوں نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ شاہین باغ کی بوڑھی دادیوں نانیوں اور جوان بچیوں کی باتوں کو سن کر ان کی آنکھیں نم ہوگئیں اور انہیں سمجھانے کے لیے آنے والے خود ان کے مطالبات کو سمجھ کر چلے گئے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کہیں کوئی معاملہ قانون کے دائرے سے باہر نہیں رہا لیکن کالج کی ان بچیوں کے ساتھ پولیس نےجو رویہ اختیار کیا اسے بھی دنیا نے دیکھا اور پھر یہ منظر دیکھ کر تو لوگ دنگ رہ گئے کہ پولیس کے ڈنڈے کھانے والی بچیوں‌ نے ڈنڈوں کے جواب میں ان کی خدمت میں پھول پیش کیے۔ بچیوں کے ہاتھوں میں پھولوں کو دیکھ کر دیکھنے والی آنکھیں اپنے آنسوؤں کو روک نہیں سکیں ۔
سنتوش بھائی ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے سچائی کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اپنے قلم سے اس کا اظہار بھی کیا۔ مسلمانوں کے رویہ سے ہمیں امید ہے کہ ہمارے ہموطنوں کی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور وہ ہمیں دہشت گرد نہیں بلکہ اپنا خیر خواہ سمجھیں گے۔ پھر ہمارے اس رویہ کا ہمیں کوئی بدل یہاں ملے نہ ملے ہمیں پوری امید ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں اس حسن سلوک کا بدلہ ہمیں رب العالمین ضرور دے گا۔
بہر حال ہمیں تو آپ کے غصے پر پیار آتا ہے۔ اس لیے کہ آپ کے اظہار خیال سے ہمیں توقع نظر آتی ہے کہ ملک میں ابھی سچائی کی قدر باقی ہے جو دھیرے دھیرے رنگ لائے گی اور پھر ایک دن یہاں نفرت کے بجائے محبت کے گیت گائے جائیں گے!!

 

***

 سنتوش بھائی ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے سچائی کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اپنے قلم سے اس کا اظہار بھی کیا۔ مسلمانوں کے رویہ سے ہمیں امید ہے کہ ہمارے ہموطنوں کی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور وہ ہمیں دہشت گرد نہیں بلکہ اپنا خیر خواہ سمجھیں گے۔ پھر ہمارے اس رویہ کا ہمیں کوئی بدل یہاں ملے نہ ملے ہمیں پوری امید ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں اس حسن سلوک کا بدلہ ہمیں رب العالمین
ضرور دے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021