اکیسویں صدی میں مذہب کی اہمیت

جدید ذہن کے شبہات دور کرنے اور اسلام کی طرف رہنمائی کی ضرورت

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

  اکیسویں صدی کا ربع اول ختم ہونے کو ہے۔ جدید ایجادات واختراعات نے مادی طور پر بہت ترقی کی ہے حتیٰ کہ انسان چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے ۔ یقیناً اس طرح کی تمام چیزیں نوع انسانیت کو جدید مسائل اور نئی تحقیقات سے روشناس کراتی ہیں جس کے نتیجہ میں معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ آ ج جس قدر تحدیات کا سامنا ہے اس سے قبل نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ اکیسویں صدی میں مذہب کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے برعکس یہ نظریہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان خواہ کتنی بھی ترقی کرلے اس کا رشتہ مذہب سے الگ نہیں ہوسکتا۔ مذہب کی رہنمائی کے بغیر کسی بھی شعبہ حیات میں انسان ترقی اور کامیابی کے مسلمہ اصولوں سے ہمکنار نہیں ہوسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ترقیاتی منصوبوں اور اکتسابات میں اضافہ ہورہا ہے وہیں عوام کی دلچسپی مذہب سے بڑھ رہی ہے۔ مذہب انسان کی ضرورت ہے۔ جو معاشرہ مذہب اور اس کے روحانی اثر سے دور رہتا یا اس کو اپنے لیے سد راہ سمجھتا ہے اس کا وجود یا اس کی شناخت ختم ہو جاتی ہے ۔ اس لیے مذہب سے وابستگی نہ صرف اعتدال پر قائم رہنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل نیز عدل وانصاف کے قیام کے لیے بھی ضروری ہے۔ مذہب کے بغیر زندگی کا ہر لمحہ اور ہر گوشہ بے کیف اور بے نور ہو جاتا۔ موجودہ صدی میں مذہب کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں نہ صرف مذہب کی ضرورت محسوس کی جائے گی بلکہ اس کا فروغ بھی ہوگا۔ درج بالا حقائق کا انکشاف دی سولائزیشن آف دی ڈائیلاگ کے کمیونسٹ مصنف ’’ہینز کلوپنبرگ‘‘ کو تسلیم کرنا پڑا کہ ’’مذہب معاشروں کے لیے ایک اہم محرک ہے۔‘‘ پولینڈ کا کوئی بھی تذکرہ وہاں پر کیتھولک ثقافت کے اثرات کے ذکر کے بغیر تشنہ ہوگا۔ روس میں بھی روسی تشخص کی تشکیل میں پوٹن حکومت کے اہم اتحادی کے طور پر اب چرچ کی اہمیت تسلیم کی جانے لگی ہے۔ چین جو ہرچند سرکاری طور پر اب بھی ملحد ہے تاہم کبھی عملی طور پر پوری طرح لامذہب نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین میں مقامی مذہبی روایات اور بدھ مت کبھی معطل نہیں ہوئے۔ ماہرین کے مطابق وہاں عیسائیت کی زبردست اشاعت وتبلیغ سے اگلے دنوں میں چین سب سے بڑا عیسائی ملک بن جائے گا۔ لاطینی امریکہ میں عیسائیت کے مختلف فرقے اپنی اشاعت کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ امریکہ میں اگرچہ مذہب سے لاتعلقی کا اظہار عام ہے لیکن اعداد وشمار اشارہ کرتے ہیں کہ ۱۹۵۰ کی دہائی کے مقابلے میں آج وہاں زیادہ تر لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ عبادت گاہوں میں کثیر تعداد میں حاضری ہوتی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عالم عرب میں بھی اسلام ایک متحرک قوت کے طور پر ابھرا ہے اور ایک عام مفروضے کے برعکس اس مذہبی احیا کا بڑا حصہ تشدد پسند نہیں بلکہ امن پسند ہے تاہم آمرانہ قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ جنوبی ایشیا میں مذہبیت کا اس سے زیادہ اظہار تاریخ میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔
امریکی میگزین ’’دی ویک‘‘ کا کالم نگار پاسکل ایمانوئل کہتا ہے کہ اکیسویں صدی مذہبی احیا کی صدی ہو گی۔ مابعد نشاۃ ثانیہ کے سیکولر نظریہ حیات نے مذہب کو انسان کا نجی شوق اور ‘اجتماعی زندگی کے لیے افیون’ قرار دیا تھا۔ اس نظریے میں انسان کی روحانی وقلبی واردات کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ نظریہ ارتقا نے انسان کو محض جنس کا اجتماع قرار دیا جو اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ معاشی نظریے نے ہر سعی وجہد کا محور منفعت کو قرار دیا جبکہ نفسیات کے ماہرین نے جنس کو ساری انسانی تگ ودو کا مرکز قرار دیا۔ ان تمام نظریات نے انسانی سرگرمیوں کو مادیت میں محدود کردیا تھا۔ لیکن انسان محض گوشت پوست اور مادے سے نہیں بنا ہے بلکہ وہ پہلے روح ہے۔ فطری طور پر ما بعد الطبیعیاتی مظاہر کی طرف کھنچتا ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں مذہب انسان کے نظریہ حیات کا صورت گر رہا ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔
جناب سید سعادت اللہ حسینی نے سابق برطانوی وزیر اعظم کے حوالہ سے کہا ہے۔ ’’اکیسویں صدی کی دنیا میں مذہب اور مذہبی عقیدہ کی وہی مرکزی حیثیت ہو گی جو بیسویں صدی میں سیاسی نظریات کی تھی اور یہ کہ آج کی دنیا کو جن قدروں کی ضروت ہے وہ مذاہب ہی فراہم کر سکتے ہیں‘‘ اس سے متعلق ذیل میں ایک اور حوالہ پیش ہے۔ چنانچہ سید سعادت اللہ حسینی نے عالمی شہرت یافتہ مصنف اور بین الاقوامی امور کے ماہر اس کاٹ ایم تھامس کی متداول کتاب "Global Resurgence Of The Religion” کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ ’’مذہب اور مذہبی عقیدہ اکیسویں صدی کے عالمی نظام کی روح ثابت ہو گا۔ یعنی وہ نظریات جنہوں نے صنعتی انقلاب کے بعد کے جدید دور پر حکومت کی تھی اکیسویں صدی میں غیر متعلق ہو جائیں گے‘‘۔ مذکورہ شواہد کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کو مذہب کی ضرورت اب بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز مذہب کے متبعین اور اس سے وابستگی پیدا کرنے والوں کا دائرہ بڑھ رہا۔ اس چشم کشا حقیقت کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک طرف مذہب کی یہ بڑھتی ہوئی اہمیت ہے اور دوسری طرف مختلف عالمی مذاہب کا تیز رفتار زوال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف عالمی مذاہب نے گزشتہ صدیوں میں جدیدیت اور جدید مغربی تہذیب کے آ گے سپر انداز ہو کر اپنی روح کھودی ہے۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اکیسویں صدی میں مذہب کی ضرورت واہمیت سے نوع انسانی بے نیاز نہیں ہوسکتی ہے۔ جہاں مادی ترقی کی منازل طے کی جارہی ہیں وہیں افراد مذہب کی طرف بھی مائل ہو رہے ہیں۔ انسانی زندگی کو اعتدال، متوازن اور سنجیدہ رکھنے کے لیے مذہبی تعلیمات کا بنیادی کردار رہا ہے۔ مذہب نوع انسانی کو جذباتیت اور بے راہ روی کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ اس کے اندر غور وفکر اور تعقل پسندی پیدا کرتا ہے، فہم وفراست سے نوازتا ہے۔ آج لوگ کسی بھی مذہب کے افراد کی ذاتی خامیوں کو مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں جبکہ یہ غلط ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اپنے متبعین کو غیر اخلاقی اعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کوئی شخص بد عنوانی اور تخریب کاری میں ملوث ہوتا ہے تو وہ اس کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ اس کا مذہب اس کے فعل کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اس کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے اس کی تربیت اور کردار سازی میں کمی ہے۔ لہٰذا ایسی چیزوں کو ذاتی طور پر دیکھنا چاہیے مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔
جدید دور کے تقاضے اور ضرورتیں بدلی ہوئی ہیں اس لیے مذہبی رہنماؤں کو جدید چیزوں اور رویوں سے نہ صرف واقفیت حاصل کرنی ہو گی بلکہ انہیں برتنے کے لیے مہارت پیدا بھی کرنی ہو گی۔ اسی کو جناب سید سعادت اللہ حسینی نے یوں لکھا ہے ’’اس وقت اسلام کو درپیش فکری اور علمی چیلنج بہت بنیادی اور گہرا ہے۔ ہماری ضرورتیں نہ سوالات کے فقہی جوابات اور فتووں سے پوری ہوسکتی ہیں اور نہ محض پرانی کتابوں کی باتوں کو نئی زبان میں دہرانے سے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اہل فکر عصر حاضر کے مسائل اور افکار ونظریات کا انتہائی گہرا مطالعہ کریں اور نئے افکار اور نئے آئیڈیاز کے ساتھ سامنے آئیں‘‘۔ جیسے جیسے معاشرتی اور سماجی ضرورتوں میں وسعت پیدا ہو رہی ہے ویسے ویسے انسان کو مذہبی تعلیمات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ انسان خواہ کسی بھی شعبہ یا محکمہ سے وابستہ ہوجائے مذہب کی ضرورت اسے ہر موڑ اور ہر لمحہ پڑتی ہے۔ جدیدیت کا تقاضا یہ ہے کہ مذہبی قائدین اور مذہبی رہنماؤں کو اب اجتماعی طور پر ان تحدیات کا مقابلہ کرنا ہو گا جو مذہبی تعلیم کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں یا مذہب کی شفاف تعلیمات کو مخدوش کرتے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے اس میں ہمیں بہت سی ایسی چیزوں کا مقابلہ کرنا ہوگا جن کا مقابلہ ابھی تک نہیں کیا تھا۔ تمام حقائق وانکشافات اور اعتراضات واشکالات پر گہری نظر رکھنی ہوگی نیز، انسانیت ایسے ہی وقت میں مذہب کی طرف نظریں کرتی ہے اس لیے ہمیں اس طور پر لیسں ہونا ہو گا کہ ہم ان تمام اٹھنے والی شورشوں کا جواب بھی دے سکیں اور نوع انسانیت کو ہر طرح کی ظاہری اور باطنی آلائشوں اور کثافتوں سے بھی بچا سکیں۔
مضمون نگار شعبہ دینیات سنی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہیں
[email protected]
***

 

***

 یہ اکیسویں صدی ہے اس میں ہمیں بہت سی ایسی چیزوں کا مقابلہ کرنا ہوگا جن کا مقابلہ ابھی تک نہیں کیا تھا۔ تمام حقائق وانکشافات اور اعتراضات واشکالات پر گہری نظر رکھنی ہوگی نیز، انسانیت ایسے ہی وقت میں مذہب کی طرف نظریں کرتی ہے اس لیے ہمیں اس طور پر لیسں ہونا ہو گا کہ ہم ان تمام اٹھنے والی شورشوں کا جواب بھی دے سکیں اور نوع انسانیت کو ہر طرح کی ظاہری اور باطنی آلائشوں اور کثافتوں سے بھی بچا سکیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021