افغانستان میں جمہوریت نہیں ہوگی، ایک کونسل کے ذریعے حکومت چلائی جاسکتی ہے: طالبان

نئی دہلی، اگست 19: طالبان کے ایک سینئر رہنما وحید اللہ ہاشمی نے بدھ کے روز رائٹرز کو بتایا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت میں جمہوریت نہیں ہو گی بلکہ ملک میں شریعت یا اسلامی قانون کے تحت حکومت ہو گی۔

نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے ہاشمی نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخندزادہ کی سربراہی میں ایک حکمراں کونسل کے ذریعے حکومت چل سکتی ہے۔

ہاشمی نے کہا ’’ہمارے وزرا ہوں گے… تمام وزراء اس کونسل کی طرف سے مقرر کیے جائیں گے۔ کوئی بھی جمہوری نظام نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘‘

ہاشمی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ابھی تک طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت کے ڈھانچے کے بارے میں کوئی سرکاری اعلان نہیں کیا ہے۔

بدھ کے روز طالبان کے اراکین نے کابل میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی تاکہ حکومت امن سے قائم کی جا سکے۔ الجزیرہ کے مطابق سابقہ ​​حکومت کے اہم امن مندوب عبداللہ عبداللہ بھی ملاقات میں موجود تھے۔ تاہم اس ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

ہاشمی نے انٹرویو میں کہا کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں طالبان قیادت کے ایک اجلاس میں شامل ہوں گے تاکہ گورننس کے معاملات پر بات چیت کی جا سکے۔

انھوں نے مزید کہا کہ طالبان سابق پائلٹوں اور افغان مسلح افواج کے سپاہیوں سے اپنے ساتھ شامل ہونے کے لیے رابطہ کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کو پائلٹوں کی ضرورت ہے کیونکہ انھوں نے ملک پر قبضہ کرنے کے دوران ہیلی کاپٹر اور دیگر ہوائی جہازوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ تاہم طالبان کے پاس تربیت یافتہ پائلٹ نہیں ہیں۔

طالبان رہنما نے کہا کہ ہمارا کئی پائلٹوں سے رابطہ ہے۔ اور ہم نے ان سے کہا ہے کہ وہ آئیں اور اپنے بھائیوں کے ساتھ شامل ہوں، اپنی حکومت میں شامل ہوں۔‘‘

دریں اثنا افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے، جو اتوار کو طالبان کے کابل پہنچتے ہی ملک سے فرار ہو گئے تھے، کہا ہے کہ وہ وطن واپس آنے کے لیے ’’بات چیت‘‘ کر رہے ہیں۔

اس سے قبل بدھ کے روز متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ غنی ان کے ملک میں ہیں اور انھوں نے سابق صدر اور ان کے خاندان کو انسانی بنیادوں پر قبول کیا ہے۔

اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں غنی نے کہا کہ وہ طالبان اور کرزئی کے درمیان بدھ کو ہونے والے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ غنی نے کہا ’’میں اس عمل کی کامیابی چاہتا ہوں۔‘‘

غنی نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ انھوں نے متحدہ عرب امارات فرار ہونے سے پہلے بڑی رقم ملک سے باہر منتقل کی تھی۔

دریں اثنا اے پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز کہا ہے کہ جب تک ہر امریکی کو افغانستان سے نہیں نکال لیا جاتا اس وقت تک امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر فوجی اس مقصد کے لیے 31 اگست کی ڈیڈ لائن سے بھی آگے بھی رکے رہیں گے۔

بائیڈن نے ایک انٹرویو میں کہا ’’امریکیوں کو سمجھنا چاہیے کہ ہم 31 اگست سے پہلے انخلا کی کوشش کرنے والے ہیں۔ اور اگر امریکی شہری وہاں باقی رہے تو ہم ان سب کو نکالنے کے لیے وہاں اور رہیں گے۔‘‘

فی الحال تقریباً 15،000 امریکی افغانستان میں موجود ہیں۔