نوجوانوں میں جذباتیت امت کے لیے سم قاتل

قوم کے بیش قیمت سرمایہ کی صلاحیتوں کو تعمیری رخ دینے کی ضرورت

محمد رضی الاسلام ندوی

 

نوجوان کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اس کی تعمیر وترقی میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ وہ بھر پور صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کے عزائم بلند اور ان کی توانائیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اگر وہ حکمت و دانائی، فہم وفراست اور منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی قوم کی ترقی کے لیے کوشاں ہوں اور اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں تو بآسانی ہر مہم سر کر سکتے اور ہر رکاوٹ کو عبور کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر نوجوان تن آسانی میں مبتلا ہو جائیں، محنت سے جی چرانے لگیں، غیر سنجیدہ کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے لگیں، تعلیم کے میدان میں پیچھے رہیں، ہر معاملے میں فہم وفراست سے عاری ہوں اور ہر وقت ان پر جذباتیت غالب رہے، کسی بھی ایشو پر غور وخوض کرکے لائحہ عمل تیار کرنے کے بجائے فوری رد عمل کے عادی ہو جائیں، چاہے وہ رد عمل کتنا ہی نا معقول، غیر اخلاقی اور نقصان دہ ہو تو ان سے کسی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی بلکہ ان کا یہ رویہ قوم کے لیے سم قاتل ہوتا ہے۔ افسوس کہ مسلم نوجوان آج کل اسی صورت ِ حال سے دوچار ہیں۔ حفیظ میرٹھی نے کہا تھا۔ ؎
میدان کار زار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا جوان آئینہ خانہ میں رہ گیا
مسلم نوجوانوں میں جذباتیت موجودہ دور کا بہت سنگین معاملہ ہے۔ کوئی بھی معاملہ ہو چاہے وہ مذہبی ہو یا سیاسی یا سماجی وہ ہر طرف سے آنکھیں موند کر اپنے جوش وجذبے کا مظاہرہ کرتے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور ذرا پروا نہیں کرتے کہ اس کے عواقب کتنے خطر ناک ہوں گے اور منفی اثرات کتنی دور تک پہنچیں گے۔
تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل ڈاسنہ (غازی آباد اترپردیش) کے مہنت یتی نرسمہانند سرسوتی نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بد زبانی کی، پھر اس کی ہمّت اتنی بڑھی کہ اس نے پریس کلب آف انڈیا دہلی میں پریس کانفرنس کر کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بڑی اشﷺتعال انگیز باتیں کہیں اور آپؐ کی مقدّس اور پاکیزہ زندگی پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر مسلم نوجوانوں نے نِری جذباتیت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے جواب میں اس نام نہاد پجاری کے خلاف طوفان مچایا، اسے بُرا بھلا کہا اور مغلظات بکیں۔ ایک صاحب نے تو اسے رام لیلا میدان میں ایک متعینہ تاریخ میں مباہلہ کا چیلنج دے دیا۔ حالاں کہ یہ ساری کوششیں لاحاصل رہیں۔ اس کے نتیجے میں اس بد باطن پجاری کی شر انگیزی میں مزید اضافہ ہوا۔ اس نے مزید ویڈیوز ریکارڈ کرواکے عام کروائے جن میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو داغ دار کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے فسادی عناصر بھی سرگرم ہو گئے اور سوشل میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سیلاب آگیا۔ اس کے بجائے اگر وہ اس پجاری کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے پر اکتفا کرتے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو مختلف ذرائع سے برادرانِ وطن کے سامنے پیش کرتے تو بہت سے لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوتیں اور اسلام کا مثبت تعارف ہوتا۔
گزشتہ دنوں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ ہوئی تو اس موقع پر بھی نوجوانوں نے بڑے جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیل کا ظلم وستم مسلّم، اس کی چیرہ دستیاں طشت از بام، اہلِ فلسطین کی مظلومیت میں کوئی شک وشبہ نہیں، بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک محترم، اس لیے اگر مسلمانوں اور خاص طور پر ان کے نوجوانوں نے اہلِ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف اپنے جذبات کا مظاہرہ کیا تو کچھ غلط نہیں کیا لیکن بہت سے نوجوان جذبات کی رَو میں بہ کر ایسی باتیں کہہگئے جو ناممکن العمل تھیں۔ ہندوستانی مسلمان موجودہ حالات میں اہلِ فلسطین کی بس اخلاقی حمایت کر سکتے ہیں یا ان کے حق میں دعا کر سکتے ہیں، لیکن بعض نوجوانوں نے جہاد کے نعرے لگائے اور ان کی ہاں میں ہاں نہ ملانے والوں کو بزدلی کے طعنے دیے اور فلسطین بھیجنے کے لیے ریلیف جمع کرنے کا اعلان کیا۔ حالاں کہ یہ چیزیں بظاہر ممکن نہ تھیں۔ ایک نوجوان نے تو ہر گھر پر فلسطین کا جھنڈا لہرانے کی اپیل کر دی، اس کے خلاف پولیس ایکشن میں آگئی اور اسے گرفتار کر لیا۔
موجودہ زمانے میں دنیا کے تمام ممالک اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ اس معاملے میں مسلم ممالک کا بھی استثنا نہیں ہے۔ سعودی عرب ہو یا ترکی، ان کے ہر عمل کو اسلام کا ترجمان اور نمائندہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لیکن ملک عزیز کے مسلم نوجوان ان کے سلسلے میں دو خیموں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً ان کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے۔ ایک گروہ آنکھ بند کر کے سعودی عرب کے صحیح غلط ہر عمل کی حمایت کرتا ہے اور اس پر نقد کرنے والوں کو صلواتیں سناتا ہے تو دوسرا اس کے غلط اقدامات کی بہت سخت الفاظ میں مذمّت کرتا ہے۔ ایک گروہ صدرِ ترکی رجب طیّب اردوان کے حالیہ اقدامات کو سراہتا ہے اور انہیںان کی اسلام پسندی کا مظہر قرا دیتا ہے تو دوسرا ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، چنانچہ ان پر ’خلیفۃ المسلمین‘ کے الفاظ سے طنز وتشنیع کے نشتر چلاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عام ہونے والی ان دونوں گروہوں کی تحریروں پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بالکل اخلاقیات سے عاری ہوتی ہیں۔ ان میں بد گمانی، الزام تراشی، تہمت، بہتان کے تمام عناصر وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ اختلاف کرنے کا ہر ایک کو حق ہے لیکن اسلام نے اختلاف کے بھی آداب سکھائے ہیں۔ دین داری کا دعویٰ کرنے والے نوجوان بھی ان کی رعایت نہ کریں تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ایک برس سے کورونا نے پوری دنیا میں زبردست تباہی مچائی ہے۔ اس کی لپیٹ میں آ کر لاکھوں افراد موت کا شکار ہوئے ہیں اور کروڑوں مختلف آزار کا شکار ہیں۔ خود ہمارے ملک میں بڑی تعداد اس سے متاثر ہوئی ہے۔ وقتاً فوقتاً ہونے والے لاک ڈاؤن نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ لاکھوں افراد بے روز گار ہو گئے ہیں اور بھکمری تک پہنچ گئے ہیں۔ اس صورت حال میں مسلم نوجوانوں نے قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے بے سہارا مریضوں کی تیمار داری کی ہے اور ان کے لیے طبی سہولیات فراہم کی ہیں۔ اسی طرح غریبوں تک مفت غذائی ساز وسامان فراہم کرنے کی انتھک جدوجہد کی ہے۔ لیکن بہت سے نوجوانوں نے اس موقع پر اپنی کارکردگی کی نمائش کرنے کو ضروری سمجھا، چنانچہ راشن کِٹس یا ریلیف کی دیگر چیزیں تقسیم کرتے ہوئے اپنے فوٹو کھینچ کر سوشل میڈیا پر عام کیا، حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام انفاق کے معاملے میں اِخفا کو پسند کرتا ہے۔ حدیث میں اس شخص کو اللہ کا محبوب بندہ کہا گیا ہے جس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔
فوٹو گرافی سے مسلم نوجوانوں کی دل چسپی اتنی بڑھی کہ اس نے وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ہر نوجوان کے ہاتھ میں ملٹی میڈیا کا موبائل ہے اور وہ ہر وقت بلا ضرورت فوٹو کھینچتا رہتا ہے اور اسے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور ٹیوٹر وغیرہ پر اَپ لوڈ کرتا رہتا ہے۔ اس معاملے میں دین دار طبقہ اور دینی مدارس کے فارغین کا بھی استثنا نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں ایک مذہبی شخصیت کا دہلی میں انتقال ہوا۔ ان کے جنازہ کو ان کے وطن لے جایا گیا۔ اس موقع پر ان کی لمحہ بہ لمحہ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی رہی، یہاں تک کہ قبر کی کھدائی کے مناظر بھی عام کیے گئے۔
مسلم نوجوانوں کے ذریعے ایک نا پسندیدہ مظہر یہ عام ہو گیا ہے کہ وہ غیر مصدّقہ معلومات، اطلاعات اور خبروں کو بغیر کسی تحقیق کے پھیلانے میں بہت پُر جوش رہتے ہیں۔ حدیث کے نام سے کوئی پوسٹر ہاتھ لگ گیا تو فوراً اسے فارورڈ کر دیا چاہے وہ ضعیف یا موضوع ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی دل چسپ ویڈیو مل گیا تو فوراً اسے کئی گروپس میں شیئر کر دیا چاہے اس میں کتنی ہی بے بنیاد بات کہی گئی ہو۔ کوئی خبر کہیں دیکھ لی فوراً اس کی پبلسٹی میں لگ گئے چاہے وہ کئی برس پرانی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ جلد از جلد کسی بات کو دور دور تک پھیلانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بزرگ اپنی اہلیہ کے ساتھ اسپتال میں شریک ہوئے۔ چند دنوں کے بعد ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔ پہلی خبر یہ عام ہوئی کہ فلاں شخصیت کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ بعد میں اہلیہ کا لفظ غائب ہو گیا اور ان بزرگ کی وفات خبر عام ہو گئی اور بار بار تردید کیے جانے کے باوجود کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔
ضرورت ہے کہ امت کے سنجیدہ، ذمہ دار اور سربرآوردہ لوگ نوجوان نسل کی دینی واخلاقی تربیت کی فکر کریں اور ان کی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ وہ امت کا بہت قیمتی اثاثہ ہیں ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ اگر ان کی بہتر تربیت ہو گئی تو ان سے امت کی فلاح وبہبودی کے بہت سے کام لیے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق دے، آمین۔
***

نوجوانوں نے اہلِ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف اپنے جذبات کا مظاہرہ کیا تو کچھ غلط نہیں کیا لیکن بہت سے نوجوان جذبات کی رَو میں بہ کر ایسی باتیں کہہ گئے جو ناممکن العمل تھیں۔ ہندوستانی مسلمان موجودہ حالات میں اہلِ فلسطین کی بس اخلاقی حمایت کر سکتے ہیں یا ان کے حق میں دعا کر سکتے ہیں، لیکن بعض نوجوانوں نے جہاد کے نعرے لگائے اور ان کی ہاں میں ہاں نہ ملانے والوں کو بزدلی کے طعنے دیے اور فلسطین بھیجنے کے لیے ریلیف جمع کرنے کا اعلان کیا۔ حالاں کہ یہ چیزیں بظاہر ممکن نہ تھیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021