گجرات میں گؤرکشک کا قتل

میڈیا نے اہمیت کیوں نہیں دی؟۔ غوروفکر کے چند پہلو

نوشاد، بشری، اور نگ آباد، مہاراشٹر

 

مہاراشٹر کے ایک نامی گرامی ہندی اخبار نے 21جون کو گجرات میں ہوئے وی ایچ پی لیڈر ہاردیک کنسارا کے قتل کی خبر شائع کی تھی۔ اس خبر کے مطابق بھیونڈی کے کچھ انصاری اور شیخ نام کے لوگوں نے دھرمیش آہیر سمیت 3ہندووں کے ساتھ مل کر گجرات کے ولساڑ نامی مقام پر ایک گؤ رکشک کا قتل کر دیا اور اتنی بڑی خبر کو اخبار نے کم اہمیت والے صفحہ پر ایک چھوٹی سی سرخی لگا کر شائع کیا ہے۔ اس خبر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں مقتول کا نام بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ جبکہ اخلاق، پہلو خان، جنید، آصف، نجیب وغیرہ ناموں کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس قدر اچھالا ہے کہ وہ زبان زد خاص وعام ہو گئے ہیں۔
اخبار کی پالیسی کے مطابق ان کا یہ رویہ درست ہے۔ ہمارا مقصد کسی ایک اخبار کو غلط ثابت کرنا نہیں ہے اقلیت کے ساتھ مخصوص اور سوچا سمجھا رویہ تو نہ صرف ہندی اور مراٹھی بلکہ علاقائی زبانوں میں شائع ہونے والے بیش تر اخبارات کا بھی ہوتا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اگر خبر اس کے بالکل بر عکس ہوتی یعنی گؤر کشکوں نے مل کر کسی انصاری کا قتل کر دیا ہوتا تو یہ خبر سبھی بڑے اخبارات کے پہلے صفحہ کی ہیڈ لائن بنتی اور نیوز چینل بھی تکرار کے ساتھ بتاتے۔
اس خبر کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس میں انصاری اور اس کا ساتھ دینے والے آہیر کا بھی ذکر ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سارے کارپوریٹ میڈیا کو گؤ رکشکوں سے نفرت ہے اور انصاری سے محبت ہے بلکہ اسکے پیچھے ایک سماج کے دل میں غیر محسوس طریقے سے عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کار فرما ہے۔ اس کیفیت نے ملت کے داعیانہ کردار کو کمزور کیا ہے جسکے نتیجے میں ہمیشہ اپنے اوپر ہوئے مظالم کا مرثیہ پڑھ پڑھ کر اپنی تسکین کرنا امت مسلمہ نے اپنا معمول بنالیا ہے اور وہ اپنا تحفظ خود کو سیکولر بتا کر رہنے میں ہی سمجھ رہے ہیں جسکی وجہ سے ان کا داعیانہ کردار متاثر ہوتا رہا ہے۔
ہندو مسلم سکھ عیسائی۔۔آپس میں ہے بھائی بھائی، تمام مذاہب برابر ہیں، اسلام بھائی چارے کا درس دیتا ہے،، یہ اور اس طرح کے خیالات کے اظہار کو معمول بنالیا گیا ہے۔ سیکولر سوچ کے حامی افراد یہ ماحول پیدا کرتے رہتے ہیں کہ آج حالات خراب ہیں۔ اور شہادت حق کی گواہی خدائے واحد کی بندگی کی طرف بلانے کی ذمہ داری دھندلا نے لگی۔ لیکن الحمد للہ ہر دور میں چاہے کیسے ہی حالات رہے ہو اللہ کے کچھ بندے مختلف طریقوں سے دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔اس لیے ہمیں مایوسی کا شکار نہیں ہونا ہے۔ وہ قوم کیا قوم بنے گی جو ہمیشہ اپنے اوپر ہوئے مظالم کا مرثیہ پڑھ پڑھ کر ماتم ہی کرتی ہے اور باطل پرست اسلام ومسلم مخالف تنظیمیں ظالموں کے حامی ان کے مظالم کو سفاکانہ فعل کی تشہیر کر کے ان کو مزید اقتدار میں لاتے رہے۔اقلیت پر ہونے والے مظالم کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کے اثرات مہلک ثابت ہوتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ اقلیتوں کی حیثیت نہیں ہے ان پر جتنا بھی ظلم کیا جائے جائز ہے۔ وہ کبھی اپنا تحفظ نہیں کر سکتے، وقفہ وقفہ سے ان پر مظالم کیے جاؤ یہ ہمیشہ ماتمی وخوف کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے۔ اس طرح ظالموں کی حوصلہ افزائی اور امت مسلمہ کی حوصلہ شکنی کا بھی امکان ہے۔ اسی لیے ظالم اپنے ظلم کی خود ہی ویڈیو نکال کر اسکو وائرل کرتا ہے اور کچھ بھولے بھالے جذباتی لوگ ہمدردی اور فریاد رسی کے طور پر اس طرح کے ویڈیوز کو وائرل کر کے نا دانستہ طور پر ظالموں کے ایک طرح سے PRO بن کر مدد کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسے سیدھے سادھے لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے والی چیزیں وائرل کرنے کے جرم میں کارروائی بھی کی جاتی ہیں۔
اس لیے یہ غیر حکیمانہ اور غیر قانونی کام ہرگز نہ کریں بلکہ مظلوم چاہے وہ کوئی گؤ رکشک ہی کیوں نہ ہو اس پر ہوئے ظلم کی بھی ہم نے دل کی گہرائی سے کڑی مذمت کرنی چاہیے۔ کڑی مذمت کی بڑی بڑی پوسٹ وائرل کرنی چاہیے۔
کچھ سال پہلے بنگلورو میں ایک گؤ رکشک کو چند قصائیوں نے پنکھے سے ٹانگ کر پھانسی دے دی اسکی ایک چھوٹی سی خبر آئی تھی۔ کچھ ہفتوں پہلے میوات میں کچھ گؤ رکشکوں کو دوڑا دوڑا کر پیٹے جانے کی بھی چھوٹی سی خبر آئی تھی۔
دوسری جانب بے قصور نوجوانوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر کے ان کے کرئیر اور مستقبل کو برباد کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی اقلیت کے ساتھ دوہرا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اندازوں اور شکوک وشبہات کی بنیاد پر ان کے نام بھی منظر عام پر آجاتے ہیں اور اقلیت دفاعی پوزیشن میں آجاتی ہے جبکہ دیگر تشدد پسند تنظیمیں واقعتاً دہشت گردی پھیلا بھی دیں تو نام مخفی رکھے جاتے ہیں۔ یہ ہماری غیر جانبداری اور داعیانہ کردار اور وقت کا بھی تقاضہ ہے اس طرح کے واقعات پر ہمارے کچھ لوگوں کو بھی ایوارڈ واپسی کی تحریک شروع کرنی چاہیے۔
انبیاء کرام نے بھی زیادہ تر غیر مسلموں کے ہی ایشوز اٹھائے ہیں۔
حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں دختر کشی (اپنی بیٹی کا قتل) مسلمان نہیں کرتے تھے۔
مظالم انبیاء پر بھی ڈھائے گئے ہیں لیکن انہوں نے اسکا کبھی ڈھنڈورا نہیں پیٹا اور نہ امت کے سامنے مرثیہ خوانی کی بلکہ نبی آخر الزمان نے تو مظلومی میں بھی قیصر وکسریٰ کے کنگن پہنائے جانے کی حوصلہ افزا خوشخبریاں دی ہیں۔ عرب کے زیر قدم ہونے اور عجم کے جزیہ دینے کی امید دلائی ہے۔
مرثیہ نہ پڑھنے کا مطلب ملت کے مسائل کو نظر انداز کرنا نہیں ہے، یقیناً ان کے زخموں پر مرہم رکھ کر ان کو انصاف دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں، ان کی معاشی وقانونی مدد بھی کریں لیکن اسکو نفرت پھیلا کر polarisation کا ذریعہ ہرگز نہ بننے دیں۔ امت مسلمہ وہ امت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘ (آل عمران، 110)
***

مرثیہ نہ پڑھنے کا مطلب ملت کے مسائل کو نظر انداز کرنا نہیں ہے، یقیناً ان کے زخموں پر مرہم رکھ کر ان کو انصاف دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں، ان کی معاشی وقانونی مدد بھی کریں لیکن اسکو نفرت پھیلا کرpolarisation کا ذریعہ ہرگز نہ بننے دیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021