کیا’سب سے زیادہ خوش مسلمان‘ بھارت میں رہتے ہیں؟

زیادہ تر میڈیا، بھاگوت کے سفید جھوٹ کا ہمنوا بن گیا

ابھے کمار ، دلی

 

ملک میں اصل دھارے کی صحافت ایک بار پھر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے سُر میں سُر ملاتی دکھائی دے رہی ہے۔کچھ روز پہلے بھاگوت نے ایک ہندی ماہ نامہ کو ایک مفصل انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’’سب سے زیادہ خوش مسلمان ہندوستان کے ہی ہیں‘‘۔ ایک جمہوری ملک کے میڈیا سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی دعوے کو شواہد اور دلائل کی روشنی میں تولےگا اور اگر بات حقیقت پر مبنی نہیں ہے تو اس کی تنقید بھی کرے گا، خواہ یہ بات اقتدار پر قابض لوگوں نےہی کیوں نہ کہی ہو۔ میڈیا کا فرض ہے کہ وہ عوام کو سچ بتلائے۔مگر زیادہ تر میڈیا ہاؤسز بھاگوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال پوچھنے کی جرات نہیں کر سکے۔ کچھ ہندی کے اخبارات نے تو اُلٹے بھاگوت کے بیان کو آنکھ بند کرکے قبول کرلیا اور کئی سارے مضامین اس کی حمایت میں چھاپے۔ یہ مضامین صحافتی ضابطوں کی کسوٹی پر بھی کھرے نہیں اترتے ہیں۔ نہ صرف مضامین میں کی گئی باتیں غیر مربوط تھیں بلکہ یہ افسانہ زیادہ اور حقیقت کم معلوم ہورہی تھیں۔مختصر یہ کہ میڈیا نے بھاگوت کے پروپیگنڈہ کو حقیقت بنا کر پیش کیا اور خود بھگوا ایجنڈے کو پھیلانے میں آگے آیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس وقت بھاگوت نے بیان دیا، اس وقت بھارتی مسلمانوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک بڑی نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی تھی۔ یہ مہم زیورات کی مشہور برانڈ ’تنشق‘ (ٹاٹا گروپ) کے اشتہارسے جڑی تھی۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے وہی لوگ تھے جن کے تار کہیں نہ کہیں بھگوا تنظیموں سے جڑےہوئےہیں۔ان میں سے بہت سارے لوگ بھاگوت کے مداح ضرور ہوں گے۔ بھگوا عناصر نے ایک نیا فتنہ چھوڑتے ہوئے الزام لگایا کہ ’تنشق‘ کا مذکورہ اشتہار’ہندو مخالف‘ ہے کیونکہ اشتہار میں مسلم گھر میں بیاہی گئی عورت کو بطور ہندودکھایا گیا ہے اور اس طرح کے اشتہار ’لو جہاد‘ کو فروغ دیتے ہیں۔ ’لو جہاد‘ کی اصطلاح ہندوتوا تنظیموں نے وضع کی ہےجس کا مقصد مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرنا ہے۔ ’لو جہاد‘ سے بھگوا تنظیموں کی مراد ایک ایسا پروپیگنڈا ہے جس کے تحت یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم مرد، ہندوعورتوں سے محبت کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں اور پھر بڑی چالاکی سے انہیں اپنے محبت کے دام میں پھانس لیتے ہیں۔مسلم مرد کا اصل مقصد ہندو عورت سے محبت کرنا نہیں بلکہ ان کا مذہب تبدیل کرنا ہے اور اس سے شادی کرکے بچے پیدا کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھتی چلی جائے اور ہندو اکثریت سے اقلیت بن جائیں۔
سوشل میڈیا پرایک ہندوتوا نظریہ کے حامل شخص نے ’تنشق‘کے اشہار پر ہائے توبہ مچاتےہوئےلکھا کہ ’’مجھے ہر جگہ ہندو بہو کیوں نظر آتی ہے، آپ ہر جگہ مسلمان بہو کو کیوں نہیں دکھاتے؟ میرا بس یہی سوال ہے‘‘۔ اُس شخص نے اپنے پوسٹ میں نہ صرف مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار کیا، بلکہ ’تنشق‘ کے اشتہار کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا۔ یاد رہےکہ یہ سب کچھ اُس وقت چل رہا تھا، جب موہن بھاگوت نے اپنا بیان دیا تھا۔ ’تنشق‘ جیسی پڑی کمپنی بھی ہندوتوا کے ہنگامہ سے اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ اس نے اپنے اشتہار کو واپس لے لیا۔ اتنا ہی نہیں اس نے اس پر افسوس بھی ظاہر کیا کہ کچھ لوگوں کےجذبات اس اشتہار سے مجروح ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ ہندوتوا طاقتوں کے عروج اور سماج میں بڑھ رہی بالادستی کی علامت ہے۔
تنشق تنازعہ آر ایس ایس کے سربراہ کے دعوے کی قلعی کھول دیتا ہے۔اگرکسی اشتہار میں ہندو لڑکی کی شادی مسلم گھرانے میں ہونے کے عمل کو برداشت نہیں کیا جا رہا ہے تو پھر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حقیقت میں کوئی مسلم لڑکاکسی ہندو لڑکی سے نکاح کر لے تو ان پر کیا گزرےگی؟ اگر کسی سماج کی سوچ اتنی تنگ ہو جائے کہ وہ ہندو گھر میں مسلم بہو کے امیج کو تو قبول کر لے مگر مسلم گھر میں ہندو بہو پر مشتعل اور متشدد ہو جائے تو وہ سماج کیسے اقلیتوں کے لیے ’جنت‘ ہو سکتا ہے؟ میڈیا نے ان واجبی سوالات کو اُٹھانےکی ہمت نہیں دکھلائی۔اگر ٹاٹا گروپ جیسی کارپوریٹ کمپنی کو کوئی اشتہار واپس لینا پڑا، جس میں ہندو بہو کو مسلم گھر میں دکھایا گیا ہے تو کیا یہ سب بھارتی سماج میں جڑ جما چکے تعصب اور نفرت کی طرف اشارہ نہیں کرتا؟ اگر معاشرے میں تعصب اور نفرت ایک حقیقت ہے تو کیسے ہندوستانی مسلمان، دنیا کے دیگر مسلمانوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ خوشی محسوس کرسکتے ہیں؟
یہ بدقسمتی ہےکہ مرکزی دھارے کا میڈیا بھاگوت سے یہ سوال کرنے سے ڈر رہا ہے کہ جب ہندوستان میں مسلمان، دیگر مذہبی گروپوں کے مقابلے، تعلیم اور ملازمت کے شعبے میں سب سے پیچھے ہیں تو وہ کیسے یہاں سب سے زیادہ خوش ہو سکتے ہیں؟ یہی نہیں ان کی نمائندگی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں گرتی چلی جا رہی ہے، سیاسی پارٹیاں ان کو ٹکٹ دینے سے کترا رہی ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو کیسے بھاگوت یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بہترحالت میں ہندی مسلمان ہیں؟ بھاگوت کی خود کی سیاسی پارٹی بی جے پی خود مسلمانوں کو ٹکت دینے میں سب سے زیادہ پیچھے رہتی ہے اور اگر دیگرسیاسی جماعتوں نے ان کو کچھ سیٹیں دے بھی دیں اور انتخابات میں اُتار ہی دیا، تو الٹے بھگوا پارٹی اس معاملے کو فرقہ ورانہ رنگ دیتی ہے۔اگر موہن بھاگوت مسلمانوں کے اتنے ہی خیر خواہ ہیں تو وہ کیوں اپنی سیاسی پارٹی سے نہیں پوچھتے کہ اس میں مسلمانوں کو کیوں واجبی نمائندگی نہیں دی گئی ہے؟جب مسلمان گائے کے ذبیحہ اور ’لو جہاد‘ کے بہانے حملوں کا شکار ہوتا رہتا ہے، تو بھلا وہ ہندوستان میں کس طرح سب سے زیادہ خوشی محسوس کرسکتا ہے؟ جب ہندوستان کی جیلوں میں مسلمان کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے اور ان میں سے بہت سے افراد کو انسداد دہشت گردی کے قوانین میں بغیر کسی ثبوت کے ملزم قرار دیاگیا ہے تو وہ ہندوستان میں کس طرح سب سے زیادہ خوشی محسوس کرسکتے ہیں؟ جب بھاگوت کی اپنی سیاسی جماعت بی جے پی کسی بھی سیکولر معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینےکا موقع نہیں گنواتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف سیاست کرتی ہے تو کیسے ان منفی پالیسی کو روکے بغیر بھارتی مسلمان خوشی محسوس کر سکتے ہیں؟مرکزی دھارے میں شامل میڈیا نے ان سوالوں کو اُٹھانے کی جرأت نہیں کی نہ ہی وہ مسلم طبقہ سمیت پسماندہ اور محروم طبقات کی ترجمانی کرنے کے لیے سامنے آیا۔ اس نے حکمران جماعت کے بیانیہ کو آگے بڑھانے اور ’اکثریتی دھارے‘ کے ساتھ بہنے کو صحیح سمجھا۔نوٹ کریں کہ بھاگوت کا انٹرویو اصل میں ایک ہندی ماہنامہ ’وویک‘میں شائع ہوا۔ بعد میں آر ایس ایس کے ہندی ترجمان ’پانچ جنیہ‘ (18 اکتوبر 2020) نے اسے دوبارہ چھاپا۔ اس انٹرویو میں بھاگوت نے متعدد ایس بیانات دیے جو سیکولرازم، اقلیتی حقوق اور تنوع کے آئینی اصولوں کے منافی ہیں۔ وہ بنارس اور متھرا میں مسلم مذہبی مقامات کے خلاف ایودھیا تحریک کی طرز پر، ہندوتوا مہم چلائے جانے کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کرتے ہیں۔انہوں نے ہندوستان کو ’ہندوستھان‘ (ہندوؤں کی سرزمین) بھی کہا اورسیکولر قوم کی صریح خلاف ‘ہندو’ قوم پر زور دیا ہے۔ انہوں نے ڈھٹائی سے کہا ہے کہ ’’ہندوستان کا مطلب ہندو ہے‘‘۔
میڈیا کس طرح زیادہ ہندوتوا بیانیہ کو قبول کرتا جا رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متعدد اخبارات میں مضامین بھاگوت کے بیان کی حمایت میں آئے۔ یہ سارے مضمون ہندی پریس میں پائے گئے۔ 11 اکتوبر کو ہندی روزنامہ ’پنجاب کیسری‘(نئی دہلی) کے پہلے صفحہ پر ایک ادارتی مضمون ادیتہ نارائن چوپڑا نے لکھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھاگوت کے بیان سے ہندوستان کی حقیقت جھلکتی ہے۔ ان کے مضمون نے محمد علی جناح کو ’’غدار‘‘ بھی کہا۔ چوپڑا نے کہا کہ جناح کو برطانوی حکومت نےپیدا کیا تھا جس نے متحدہ ہندوستان کو تقسیم کرکے علیحدہ ملک بنایا۔ چوپڑا کےمطابق اگر تقسیم نہ ہوتی تو بہت بڑی تعداد میں مسلمان اپنا مادر وطن نہ گنواتے۔
دو دن بعد اسی اخبار میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے چانسلر فیروز بخت احمد نے ایک مضمون قلم بند کرکے موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کی تعریف میں ساری حدی پار کردیں۔ ان کے مضمون میں دلائل کم اور ان کی ار ایس ایس کےتئیں وفادای زیادہ نظر آ رہی تھی۔ ان کا مضمون نہ صرف غیر مربوط تھا بلکہ حقائق سے میلوں دور تھا۔ ذرا ان کے چند جملے ملاحظہ کیجیے: ’’اگر ہم 56 اسلامی ممالک کی طرف نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ مسلم ملک میں رہ رہا مسلمان خوش نہیں ہے۔ اس کےعلاوہ اگر ہم ان ملکوں کو پر نظر ڈالیں جہاں مسلم اقلیت میں ہے، جیسے چین، فرانس ، روس وغیرہ، تو معلوم ہوگا کہ چین میں تو اب نوزائیدہ بچے کے نام محمد یا احمد رکھنے کی پابندی ہے اور لاکھوں مسلمان وہاں ’ڈیٹینشن کیمپوں‘ میں جہنم والی زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔
فروز بخت احمد نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ ’’روس میں مسلم شاہین باغ جیسی کوئی مہم سڑک روک کر نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ وہاں کوئی نئی مسجد تعمیر کرسکتے ہیں۔ فرانس میں، مسلمان خواتین کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ پاکستان کی مثال لیجیے جہاں سنی مسلمان شیعہ مسلمانوں کوکاٹ رہا ہے اور شیعہ سنی کو، بلکہ وہاں تو بہت سے مسلک ہیں، جیسے قادیانی، مہدی، احمدیہ، میمن، مہاجر وغیرہ جو ایک دوسرے کا خون پیتے رہتے ہیں اور یہاں تک کہ مسجدوں اور اسکولوں میں بم دھماکے کرتے ہیں‘‘۔
جہاں ایک طرف موہن بھاگوت نے کہا کہ ہندوستان، مسلمانوں کے لیے جنت ہے، وہیں دوسری طرف فیروز بخت احمد یہ ثابت کررہے تھے کہ ہندوستان سے باہر ساری دنیا مسلمانوں کے لیے جہنم ہے۔ دراصل بھاگوت اور بخت دونوں مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں اور دونوں ہی الگ الگ طریقے سے ایک ہی بات ثابت کر رہے ہیں۔ دونوں جنت اور جہنم کی تمثیل کا سہارا لے کر حقیقت بیانی سے بچ رہے ہیں۔ کچھ مہینوں پہلے جب خلیجی ملکوں میںبھارت میں جاری مسلم مخالف مہم جسے ’اسلامو فوبیا‘ بھی کہا جاتا ہے، کے خلاف آواز بلند ہو رہی تھی اور ہندوتوا طاقتوں کی غلطی کی وجہ سے ملک کا نام بدنام ہو رہا تھا، تب بھاجپا نے مرکزی اقلیتی وزیر مختار عباس نقوی کو آگے کیا اور ان سے یہ بیان دلوایا کہ بھارت مسلمانوں کے لیے جنت ہے۔ مگر اگلے ہی روز جب اخبارات کے صفحات مسلمانوں کےخون سے لت پت ہوجاتے ہیں تو پھر جنت کی بات کرنے والے حضرات کہیں نظر نہیں آتے۔
کچھ پیراگراف کے بعد بخت احمد اپنی سیاسی وفاداری کو کھل کر بیان کرنے لگے۔ ’’حزب اختلاف کو شاید یہ نہیں معلوم کہ آر ایس ایس ایک قوم پرست (راشٹر وادی) اور وفادار تنظیم ہے۔ آر ایس ایس کے رہنما جیسے موہن بھاگوت ، ڈاکٹر کرشن گوپال ، اندریش کمار وغیرہ سائنس کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آر ایس ایس کے کارکنان نے 1962 کے بھارت چین جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں، پنڈت جواہرلال نہرو نے 1963 کی یوم جمہوریہ تقریب میں آر ایس ایس کے ایک گروپ کو شامل کیا۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھی آر ایس ایس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم محب وطن ہے اور اس کی تقلید کی جانی چاہیے‘‘۔احمد نے اپنے مضمون میں اس بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے کہ کیسے ہندی مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی حالت دنیا کے دوسرے حصوں میں بسنے والے مسلمانوں سے بہتر ہے؟ اور نہ ہی انہوں نے ہندوستان میں اقلیتوں کا تقابلی مطالعہ دیگر ممالک میں رہنے والے اقلیتوں سے کیا۔ یہی نہیں ان کا مضمون سیکولر حزب اختلاف کی جماعتوں پر بھی بہت زیادہ برسا۔
اگلے دن اُجوال دنیا (رانچی ، 14 اکتوبر) نے دلیپ اگنی ہوتری کا ایک مضمون شائع کیا۔ یہاں بھی انہوں نے بھاگوت کی ساری باتوں کی آنکھ بند کر کے حمایت کر ڈالی۔ ’’ہمارے یہاں مسلمان اور عیسائی ہیں۔انہیں تمام حقوق ملے ہوئے ہیں، لیکن پاکستان نے اپنی اقلیتوں کو تمام حقوق نہیں دیے۔یاد رہے کہ ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے پاکستان کی مثالیں اکثر دی جاتی ہے۔ اس طرح وہ یہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہندوستان ایک جنت ہے۔ بھگوا عناصر پاکستان میں مقیم ہندو اقلیتوں پر ہو رہے مبینہ حملوں کو ایک بڑا اشو بنا کر پیش کرتے ہیں اور خود ہی سیکولر جماعتوں پریہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان حملوں پر خاموش رہتے رہتے ہیں کیونکہ متاثر، مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں۔ بی جے پی اپنی حریف جماعتوں پر یہ بھی الزام لگاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتے ہیں اور ہندوؤں کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہی الزام لگا کر مہاتما گاندھی کا قتل کیا گیا اور اسی جھوٹ کو پھیلا کر آج ہندوتوا طاقتیں اکثریت کی ٹھیکےدار بن بیٹھی ہے۔
تاہم بھگوا طاقتیں دانستہ طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں سیاسی نظام کی نوعیت مختلف ہے اور ہر وقت ان کا موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔اگر یہ قبول بھی کر لیا جائے کہ پاکستان اپنی اقلیتوں کو مساوی حقوق نہیں دیتا ہے تو یہ دلیل نہیں بن سکتی کہ ہندوستان کے اقلیتوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ مگر کچھ آئینی ماہرین کا استدلال ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام اور وہاں کی آئین میں بہت ساری توضیحات اچھی ہیں جن کو دوسرے ممالک اپنا سکتے ہیں۔ ان باتوں کو اکثر ہندتوا طاقتیں چھپانا چاہتی ہیں۔ہندوستان ’جنت‘ہے اور باہر ’جہنم‘ ہے جیسے ڈسکورس چلا کروہ ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی اور ان کے خلاف جاری ناانصافی کو ڈھانکنا چاہتے ہیں۔
(ابھے کمارجے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔ ان کی دلچسپی اقلیتی حقوق اور سماجی انصاف سے وابستہ سوالوں سےہے۔)
[email protected]
***

بھاگوت نے متعدد ایس بیانات دیے جو سیکولرازم، اقلیتی حقوق اور تنوع کے آئینی اصولوں کے منافی ہیں۔ وہ بنارس اور متھرا میں مسلم مذہبی مقامات کے خلاف ایودھیا تحریک کی طرز پر، ہندوتوا مہم چلائے جانے کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کرتے ہیں۔انہوں نے ہندوستان کو ’ہندوستھان‘ (ہندوؤں کی سرزمین) بھی کہا اورسیکولر قوم کی صریح خلاف ‘ہندو’ قوم پر زور دیا ہے۔ انہوں نے ڈھٹائی سے کہا ہے کہ ’’ہندوستان کا مطلب ہندو ہے‘‘۔
میڈیا کس طرح زیادہ ہندوتوا بیانیہ کو قبول کرتا جا رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متعدد اخبارات میں مضامین بھاگوت کے بیان کی حمایت میں آئے۔ یہ سارے مضمون ہندی پریس میں پائے گئے۔ 11 اکتوبر کو ہندی روزنامہ ’پنجاب کیسری‘(نئی دہلی) کے پہلے صفحہ پر ایک ادارتی مضمون ادیتہ نارائن چوپڑا نے لکھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھاگوت کے بیان سے ہندوستان کی حقیقت جھلکتی ہے۔ ان کے مضمون نے محمد علی جناح کو ’’غدار‘‘ بھی کہا۔ چوپڑا نے کہا کہ جناح کو برطانوی حکومت نےپیدا کیا تھا جس نے متحدہ ہندوستان کو تقسیم کرکے علیحدہ ملک بنایا۔ چوپڑا کےمطابق اگر تقسیم نہ ہوتی تو بہت بڑی تعداد میں مسلمان اپنا مادر وطن نہ گنواتے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020