کہیںآپ کی روش ملّت کو کمزور کرنے کاسبب تو نہیں؟

خدارا قوم کی بربادی کے محضرپر دستخط نہ کریں

ڈاکٹر شکیل احمد خان، جالنہ

کہتے ہیں کسی خوشحال کسان کے پاس کئی اعلی نسل کے مویشی (گائے، بیل، بھینس) تھے۔ مناسب ماحول ،غذا اور نگہداشت کے باعث وہ کافی صحت مند اور طاقتور ہوگئے تھے۔ لہذا وقت کے ساتھ ساتھ ان میں سے اکثر لاپروا اور سرکش ہوگئے۔ ایک دوسرے کو سینگیں مارنا، احاطے سے باہر دوڑ جانا ان کا معمول بن گیا۔ مجبوراً کسان نے ان کے گلے میں رسی باندھ کر ایک لکڑی کا ڈنڈا دوسرے سرے پر باندھا اور ان کے پیروں کے درمیان لٹکا دیا۔ (مہاراشٹرا میں لکڑی کے اس ڈنڈے کو لوڑنا کہتے ہیں) اب وہ نہ دوڑ سکتے اور نہ آسانی سے لڑسکتے کیوں کہ ان کی ٹانگیں پیروں کے درمیان زمین پر گھسیٹتے ہوئے لکڑی کے ڈنڈے میں الجھ جاتیں اور وہ گر پڑتے۔ اب وہ صرف آہستہ آہستہ چل سکتے تھے۔ پھر ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کسان موجود نہ تھااور جنگلی کتوں کے گروہ نے انہیں گھیر لیا۔ جسیم اور طاقتور بھینسے بھی پیروں میں لٹکے ڈنڈوں کے باعث کتوں کا مقابلہ نہیں کر پائے کیونکہ وہ نہ تو تیز دوڑ کر خود کو بچاسکتے اور نہ ہی پوری توجہ سے لڑ پاتے۔ وہ لہو لہان ہوتے رہے۔ کسان کو خبر ہوئی۔ اس نے مزدور جمع کیے اور کسی طرح کتوں کو بھگایا۔ لیکن کئی مویشی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی بری طرح زخمی ہوئے۔ کیونکہ ایک طرف انہیں کتوں سے لڑنا تھا تو دوسری طرف خود اپنے پیروں میں پڑے ڈنڈوں سے نپٹنا۔ اس طرح خود اپنی حرکتوں سے خود کے لیے پیدا کردہ اڑچنوں کے باعث وہ حریفوں کا سامنا نہیں کر پائے۔ شاید آپ کچھ کچھ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ کہانی کیوں یاد آئی۔ دراصل اس کہانی میں موجودہ سیاسی منظر نامے اور ملت کی صورتِ حال کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ آج ملت کن حالات سے گزر رہی ہے، اسے کتنے محاذوں پر مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس بات سے اخبارات پڑھنے والا ہر فرد واقف ہے۔ شائع ہونے والا ہر دوسرا مضمون اسی بارے میں ہوتا ہے۔ اچھے مضامین میں مناسب حل بھی تجویز کیے جاتے ہیں کہ کس طرح استحکام پیدا کیا جائے، کس محاذ پر توانائیاں صرف کی جائیں وغیرہ۔ لیکن یہاں ہمارا موضوع حکمت عملی یا توانائی (Energy) کا استحکام نہیں ہے بلکہ توانائی کا ضیاع ہے۔ آج ملت دشمنوں کے نرغے میں گھری ہوئی ہے اور اپنے پیروں کے ڈنڈوں سے پریشان بھی ہے۔ جو طاقت، وقت، پیسہ اورصلاحیت اغیار کے حملوں سے بچنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں ان کا ۸۰ فیصد تو خود ہمارے اپنوں کے پیدا کردہ مسائل سے نپٹنے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ آج ملت کا ہر تیسرا فرد جہاں سیاسی و معاشرتی جبر کا مقابلہ کررہا ہے وہیں دیگر مسلمانوں کی زیادتیوں، ظلم، استحصال اور سازشوں سے بھی پریشان ہے۔ بالفاظِ دیگر بیشتر مسلمان خود دوسرے مسلمانوں کے پیروں میں ڈنڈے اٹکاتے رہتے ہیں اور پھر دن بھر سوشل میڈیا اورواٹس ایپ پر ملت کی زبوں حالی کا ماتم، ظلم و ستم کی داستانیں اور اجتماعی عمل کی ترکیبیں شئیر کرتے رہتے ہیں۔ یعنی خود کے علاوہ دیگر مسلمانوں کا ذہنی سکون و یکسوئی تباہ کرتے رہیں اور یہ توقع و خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ملت ترقی کرے اور اغیار کا مقابلہ کرے۔ اب اسے سادہ لوحی کہیں یا کچھ اور۔ بقول علامہ اقبال
’’سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ‘‘
اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود تقریباً ہر فرد چاہتا ہے کہ ہماری خواتین پڑھیں، لکھیں، ترقی کریں، خود کفیل بنیں، افسر بنیں، CEO بنیں، وزیر بنیں۔ ان کی کامیابیوں پربغلیں بھی بجائی جاتی ہیں، ان پر اغیار کی جانب سے کی جانے والی ناانصافیوں پر احتجاج بھی کیا جاتا ہے اور جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہم انہیں عموماً کیسا ماحول اور کیسی زندگی دے رہے ہیں یہ جاننے کے لیے حال ہی میں کشمیری خواتین کے بارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون کی چند سطور دیکھ لیجیے ۔ ’’ ۔۔۔ایک سروے کے مطابق کشمیر میں ۴۰ فیصد سے زائد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں ۔۔۔ خواتین پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بن گئی ہیں اور انہیں ہر وقت مردوں کی جانب سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔۔۔کشمیر میں روزانہ اوسطاً دو خواتین خودکشی کرلیتی ہیں۔۔۔ معاشرتی نظام ایسا ہے کہ یہاں خواتین گھریلو تشدد برداشت کر لیتی ہیں لیکن کسی سے کہہ نہیں پاتیں اور جب وہ حد سے گزر جاتا ہے تو وہ خودکشی کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتی ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ بیٹی بوجھ بن چکی ہے۔ سماجی خرافات کی قربان گاہ پر لڑکیوں کو بھینٹ چڑھنا پڑتا ہے اور سماج ہے کہ اف تک نہیں کرتا‘‘۔ بقول خورشید ربانی
اپنے مجنوں کی ذرا دیکھ تو بے پروائی
پیرہن چاک ہے اور فکر سِلائی کی نہیں
بلا شبہ یہی صورتِ حال سارے ملک کی ہے۔ ایک اخباری مضمون کے مطابق دارالقضاء ممبئی کی رپورٹ یہ ہے کہ نو سالوں میں ۱۶۰۰ معاملات درج ہوئے جن میں ۸۵ فیصد میاں بیوی کے اختلافات سے متعلق تھے اور ان میں سے بھی ۸۵ فیصد بیویوں کی جانب سے درج کرائے گئے تھے۔ اسباب میں ذہنی وجسمانی اذیت، گالی گلوج، لعن طعن، مارپیٹ کے معاملات کا تعلق ۴۰ فیصد تھا۔ غورکیجیے، ایسے ماحول اور ایسی ذہنی کیفیت میں ہماری خواتین کیا خاک ترقی کریں گی۔ ایسی ذہنی و جسمانی طاقت والی خواتین فسادات میں خود کا کتنا دفاع کرپائیں گی۔ کتنی اپنے بچوں کی معیاری تربیت کر پائیں گی، کتنی ملت کی رہنمائی کر پائیں گی۔ اسی طرح لاکھوں لڑکیاں جہیز، خوبصورتی اور اسٹیٹس کے نام پر بن بیاہی بیٹھی ہیں، سسرال میں بہووں کو مار دیا جارہا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ان بیٹیوں کے باپ، بھائی یکسوئی سے موجودہ حالات پر غور کر سکتے ہیں، بچائو کی ترکیبیں سوچ سکتے ہیں، خود کو مضبوط کرسکتے ہیں، قوم کو سہارا دے سکتے ہیں۔ جی نہیں، ان کے پیروں میں تو اذیت، بے بسی اور معاشی بربادی کے ڈنڈے لٹکے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ڈنڈے ان کے پیروں میں خود قوم کے ہمدردوں نے لٹکائے ہیں۔ کہیں پر خود خواتین نے بھی جہالت، مادہ پرستی اور ناجائز تعلقات سے شوہروں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ بے گناہ پھنسائے گئے نوجوانوں کو بَری کروانے کے بجائے آپسی گھریلو اور خاندانی جھگڑوں کے باعث عدالتوں کے چکر کاٹنا پڑ رہے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جائیداد کے لیے بھائی بھائی سے لڑ رہا ہے، پڑوسی پڑوسی سے ناراض ہے، شرافت کا لبادہ اوڑھ کر ایک پلاٹ دس دس لوگوں کو بیچا جا رہا ہے، جعلی مدرسوں اور رسید بکوں کے ذریعے قوم کا چندہ اور چرم لوٹے جارہے ہیں، انتظامیہ اساتذہ کا استحصال کررہی ہے، اساتذہ آپس میں دست و گریباں ہیں، معمولی مفاد کے لیے اپنوں کے خلاف غیروں کی طرف سے گواہیاں دی جا رہی ہیں۔ اسی لیے بشیر بدرؔ کہتے ہیں : احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں۔
یہ چیزیں دیمک کی طرح اندر ہی اندر ملت کو کمزور کر رہی ہیں۔ حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ ان کا سامنا کرنے طاقت جٹانے کی ضرورت ہے نہ کہ رہی سہی طاقت بھی اس طرح ضائع کرنے کی۔ کیا آپ نے کبھی کسی ایسی فوج کے بارے میں سنا ہے جس کے سپاہی دن بھر آپس میں لڑتے، کٹتے، مرتے ہیں اور رات میں دشمن پر شب خون مارنے نکلتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی طوفان میں گھری ایسی کشتی کے بارے میں سنا ہے جس کے ملاح اسے کنارے پر لانے کی جدوجہد بھی کرتے ہوں اور ساتھ ہی آپس میں ایک دوسرے کے سر بھی پھوڑتے رہتے ہوں؟ کیا آپ نے کبھی کسی ایسی فٹبال ٹیم کے بارے میں سنا ہے جو کھیل کے میدان میں اپنے کھلاڑیوں کو بھی دھکے مارتی رہتی ہے؟ نہ ایسی فوج کبھی جیت سکتی ہے، نہ ایسی کشتی کبھی پار لگ سکتی ہے اور نہ ایسی ٹیم کبھی فتح یاب ہو سکتی ہے۔ یہ ذہن نشین رکھیے کہ جب ہم کسی اپنے کو ذہنی و جسمانی نقصان پہنچاتے ہیں تو بالواسطہ دشمنوں کا تعاون کرتے ہیں۔ گویا قوم کی بربادی کے محضر پرآپ ہی دستخط کرتے ہیں اور قوم ابراہیم ذوقؔ کے الفاظ میں یہ کہنے پر مجبور ہوتی ہے کہ
لائو تو قتل نامہ مرا، میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
اسی طرح اگر آپ اپنے گھر اور معاشرے کا ماحول خوش گوار بناتے ہیں، درگزر کرنا سیکھتے ہیں، امید، اخوت اور اعتماد کی فضا قائم کرتے ہیں تو یہ بھی بالواسطہ ملت کی بقاء کی جدوجہد میں آپ کا contribution ثابت ہوتا ہے۔ یاد رکھیے، اگر ملت کے افراد برباد ہوں گے تو آپ بھی آباد نہیں رہ سکتے۔ لہذا، اگر آپ واقعی ملت اور انسانیت کے خیر خواہ ہیں تو اس کے پیروں کے ڈنڈے نہ بنیں، بلکہ اس کی راہ کی رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ سب مل کر یکسوئی سے حالات کا مقابلہ کر سکیں اور ترقی کی طرف گامزن ہوسکیں۔ بقول فرحت احساس :
راہ کی کچھ تو رکاوٹ یار کم کر دیجیے
آپ اپنے گھر کی اک دیوار کم کر دیجیے
(مضمون نگار ،اے ٹی کالج، جالنہ،مہاراشٹرا میں انگریزی کے پروفیسیر ہیں رابطہ: (8308219804

 

***

 آج ملت دشمنوں کے نرغے میں گھری ہوئی ہے اور اپنے پیروں کے ڈنڈوں سے پریشان بھی ہے۔ جو طاقت، وقت، پیسہ اورصلاحیت اغیار کے حملوں سے بچنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں ان کا ۸۰ فیصد تو خود ہمارے اپنوں کے پیدا کردہ مسائل سے نپٹنے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ ملت کا ہر تیسرا فرد جہاں سیاسی و معاشرتی جبر کا مقابلہ کررہا ہے وہیں دیگر مسلمانوں کی زیادتیوں، ظلم، استحصال اور سازشوں سے بھی پریشان ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022