کووِڈ۔19عالمی وبا : سائنسی اور اسلامی تعلیمات

یہ وبا ہمارے لیے بہت بڑی آزمائش ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم سب زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار اور تعلق باللہ کے ذریعہ اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ بہرحال یہ ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ علاوہ بریں ایثار و قربانی کے انسانی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور احتیاطی تدابیر میں دوسروں کی خیر خواہی کا جذبہ بھی انشاء اللہ وہی مثبت اثر ڈالے گا کہ جس سے خود اس کی قوتِ مدافعت بڑھے گی۔ نفسیاتی قوت (will power) اور قوتِ مدافعت کا رشتہ سائنسی ماہرین کے نزدیک بھی مسلّم ہے۔ لہٰذا تمام احتیاطی تدابیر اور اسلامی طہارت پر عمل پیرا ہونے میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس وبائی فتنہ اور عالمی مصیبت سے تمام دنیائے انسانیت کو جلد از جلد نجات بخشے۔ آمین ثم آمین

پروفیسر سید مسعود احمد

 

کورونا وائرس آج کے علمِ سائنس کی رو سے ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کرونا وائرس کی یہ خاص قسم جو کووِڈ-١٩ نامی عالمی وبا کی ذمہ دار ہے وہ کیسے وجود میں آئی، اس کے متعلق متعدد سائنسی اور غیر سائنسی تھیوریز عوام کے درمیان گشت کر رہی ہیں، البتہ دو نظریات سائنسی لحاظ سے قابل غور ہیں۔ ایک تھیوری اس کو انسانی ہاتھ کا براہِ راست نتیجہ قرار دیتی ہے اور جس میں انسانی بدنیتی کا دخل بھی ہوسکتا ہے اور دوسری تھیوری کے مطابق یہ وائرس انسانی اور حیوانی نظامِ جسم میں تعامل کا نتیجہ قرار پاتا ہے مثلاً چمگادڑ اور چیونٹی خور جانوروں کے وائرس کے انسانی جسم میں نادانستہ داخل ہوجانے کا نتیجہ۔البتہ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ بعض افراد نے اُن جانوروں کا گوشت استعمال کیا جو انسانوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں لہٰذاان کا تعامل فطری طور پر محال ہے اور یہ وہ انسانی غلطی ہے جو اس کی اپنی فطرت اور کائناتی فطرت سے کسی قدر بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔ بہرحال ان دونوں زیادتیوں یعنی بد نیتی اور فطرت سے بغاوت کا خمیازہ اسے اس دنیا میں بھی بھگتنا ہوتا ہے کہ یہی قانونِ فطرت اور قانونِ مکافاتِ عمل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہر انسانی مصیبت کو اس کے اپنے کسب کا نتیجہ قرار دیا تھا (ملاحظہ ہو سورۂ الشوریٰ: آیت نمبر ۳۰) موجودہ سائنس بھی اس دعوے کو جھٹلا نہیں سکتی بلکہ اس کا بھی یہی نظریہ ہے کہ ساری بیماریوں کے انسانی ظہور کے پیچھے اس کی اپنی بد احتیاطیوں کو دخل ہوتا ہے۔ انسان اپنے لذتِ کام و دہن میں بد اعتدالیوں کا شکار ہو کر اپنی ذات پر براہ راست اور اپنے ماحول پر بالواسطہ ظلم کر گزرتا ہے جس کا خمیازہ وہ کسی نہ کسی بیماری کی شکل میں بھگتتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس بلا اور وباکی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ درحقیقت قرآن مجید اس طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ ’’بچو! اس فتنہ سے کہ جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں رہے گی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہے‘‘ (الانفال:۲۵) ۔ قرآن مجید میں یہ ارشادِ الٰہی بھی ثبت ہے کہ نہ صرف بیماریاں بلکہ خشکی و تری میں رونما ہونے والا سارا فساد انسانی کرتوتوں ہی کا نتیجہ ہوتا ہے (الروم: ٤١)
جدید سائنس کائناتی امور و مظاہر کو قوانینِ فطرت کے ذریعہ مؤکد (Affirm) کرتی ہے جبکہ اسلام قوانینِ فطرت کے ساتھ قانونِ مکافاتِ عمل یا قانونِ اخلاق کو بھی شامل کرتا ہے۔ یاد رہے کہ دنیائے انسانیت میں اکثر اوقات قانونِ تعامل (Law of interaction) کار فرما رہتا ہے اور دین و مذہب در اصل اسی قانونِ تعامل یا رشتوں اور رویوں ہی کی تفصیل سے عبارت ہے۔ محدود سطح پر تو اخلاق دو انسانوں کے تعامل کا نام ہے، البتہ اگر اس کا دائرہ وسیع کردیا جائے تو انسان اور مخلوقاتِ خداوندی جس میں انسان اور غیر انسان سبھی شامل ہوجاتے ہیں تو ان کے درمیان مخصوص رشتوں اور رویوں کو اخلاق کہا جاتا ہے، اگر یہ رشتہ مثبت اثرات مرتب کرے تو یہی ’’حسنِ اخلاق‘‘ ہے اور منفی نتائج کو بد اخلاقی پر محمول کیا جاتا ہے۔
اگر ہم پھر کورونا وائرس یا وبائے عالم کووِڈ-١٩ کے ظہور میں ممکنہ عوامل پر غور کریں تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آجائے گی کہ بعض انسانوں نے ان جانوروں کو چھوڑ کر جو اُن کے لیے مسخر کردیے گئے ہیں اور انسانوں کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں، ان جانوروں کے گوشت کو کھایا جو ان کے فطری ماحول سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ چونکہ ماضی میں ان جانوروں کے وائرس سے انسان کبھی قریب نہیں آیا البتہ یہ ممکن ہے کہ کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی انسان میں اس غیر مسخر جانور کے گوشت کے ذریعہ اس کا وائرس انسانی نظامِ جسم میں داخل ہو جائے اور ایسا تبدیل ہو جائے کہ انسان میں بھی کسی بیماری کا سبب بن جائے حالانکہ اللہ کریم نے کچھ ایسا نظام بنایا ہے کہ عام طور سے جنگلی جانوروں میں پائے جانے والے وائرس انسانوں میں پرورش پانے کے اہل نہیں ہوتے۔ اس پر ہمیں قرآن مجید کی وہ آیت یاد آ رہی ہے جس میں ارشادِ ربانی ہے کہ ’’تم لوگوں پر جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے جبکہ بہت سے قصوروں سے وہ درگزر کرتا رہتا ہے (الشوریٰ:۳۰)
اب ذرا وبائی امراض میں انسانی قوتِ مدافعت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی نظامِ مدافعت کئی قسم کا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ کار گر اور قوی نظام وہ ہے جو دشمن کو پہچان چکا ہوتا ہے کہ ’’فلاں جرثومہ‘‘ نے حملہ کیا اور اس کے جسم میں اس بیماری سے لڑنے کی پہلے سے اہلیت ہی نہیں بلکہ تیاری بھی ہوتی ہے لیکن کرونا وائرس کی اس نئی قسم سے بنی نوعِ انسانی ۲۰۱۹ء سے قبل بالکل ناواقف تھی لہٰذا اس مرض کو پہچاننے میں اتنا وقت تو لگے گاہی کہ دو چار بار یہ ایک ہی فرد پر حملہ آور ہوجائے اور وہاس کو جھیل جائے۔اس درمیان میں انسان کے دوسرے مدافعاتی نظام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس مرض کو دفع کرتا رہے گا البتہ اگر مریض پہلے ہی سے کئی امراض کا شکار ہے تو اس نئے اور انجانے دشمن سے بچنا محال ہوگا۔ اور وہ اس کے پہلے نہیں تو دوسرے حملے میں جانبر نہ ہوسکے گا، اِلاَّ یہ کہ قابلِ نمو جرثومہ کے بجائے ناقابلِ نمو جرثومہ خون میں داخل کردیا جائے جو انسانی نظامِ مدافعت کو صحیح رُخ دے کر قابلِ نمو جرثوموں کو خون میں منجمد کرسکے اور یہی پُر اثر ویکسین (Vaccine) کا کام ہے۔ بعض ویکسین ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں وبائی جرثومے انسانی جسم میں اپنی اہلیتِ نمو تو باقی رکھتے ہیں مگر مرض پیدا نہیں ہوتا یا مکمل وائرس کے بجائے اس کا کوئی اہم مگر بے جان حصہ ہی جسم میں داخل کیا جاتا یا بنوایا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر ویکسین سب سے بہتر مانی جاتی ہے۔ اس تجزیہ میں متعدی اور غیر متعدی وبائی بیماریوں کی بحث بھی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اس سے ’’اخلاق‘‘ کا رول مزید واضح ہوسکے گا، مثلاً ایک شخص کسی متعدی وبائی بیماری کا شکار ہوتا ہے تو یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ ا پنے ارد گرد کے تمام افراد کو اس بیماری کے خطرہ میں ڈالتا ہے لیکن ذرا گہرائی میں جائیں تو یہ بات سمجھ میں آسانی سے آجائے گی کہ متعدی وبائی امراض کا شکار مریض ایک ایسے اخلاقی ضابطہ میں بندھ جاتا ہے جہاں پہلے تو اس شخص پر خود اس مرض سے نہ بچنے یا بداحتیاطی کرنے کا جرم عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی صحت کے تئیں اپنے رب کے حضور جواب دہ ہے اور دوسرے یہ کہ اس شخص نے جس میں مرض کی علامات زیادہ واضح نہیں تھیں، کتنے صحت مند لوگوں کو اس بیماری کے خطرہ میں ڈالا جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ہم کسی مریض سے ملاقات کر رہے ہیں تیسرے یہ کہ اس نے کوئی ایسی بد احتیاطی کی جس کی وجہ سے دوسرے لوگ اس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔
قرآن مجید اور احادیثِ نبوی کی تعلیمات اس سلسلہ میں بالکل واضح ہیں کہ حضرت آدم کا وہ بیٹا جس نے پہلا قتل کیا (قابیل) وہ دنیا میں ہونے والے تمام قتل و قتال کا کسی قدر ضرور ذمہ دار ہے جس کو قرآن کریم کی ایک آیت اس طرح پیش کرتی ہے کہ ’’جس نے کسی شخص کو ناحق قتل کیا یا اس دنیا میں فساد مچایا تو اس نے گویا تمام دنیائے انسانیت کو قتل کیا (المائدہ:۲۲) اور حدیث نبویؐ نے اس کو مزید کھولا ہے۔ ایک اور پہلو سے اس مسئلہ کو لیں ،مثلاً اکثر امراض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی علامات بعد میں ظاہر ہوتی ہیں یا وہ خود تو اس مرض کی ایذا سے بچے رہتے ہیں مگر دوسروں کو اس مرض میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ کووڈ-۱۹ بھی اسی قسم کا متعدی وبائی مرض ہے جس میں بوڑھے (Old) اور بعض دوسرے امراض خصوصاً ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا
(Co-morbid conditions) لوگ اس مرض کی ایذا جھیلتے ہیں جبکہ صحت مند جوان لوگ عموماً اس مرض کو دوسرے اشخاص تک پہنچانے کے ذمہ دار تو ہوتے ہیں مگر اس مرض کی ایذا سے بچے رہتے ہیں۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس اخلاقی جرم سے بچنے کا بہترین راستہ یہی ہے کہ تمام ہی لوگ ان تمام احتیاطی تدابیر کو مذہبی فریضہ سمجھ کر پابندی کریں اور مسجدوں میں متولیان اور ائمہ مساجد بار بار اس مذہبی ذمہ داری کی یاد دہانی کراتے رہیں خصوصاً دوسروں کو کہیں انگلی اٹھانے کا موقع نہ دیں۔ یہ احتیاطی تدابیر سوشل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ سب لوگوں کے گوش گزار کرائی جارہی ہیں مگر اکثر لوگ لاپروائی کر رہے ہیں۔ اولاً تو وہ یہ سمجھ رہے کہ ہم اس مرض سے بچ جائیں گے لہٰذا ہم دوسروں کی کیوں فکر کریں۔ ایسے لوگوں کو اللہ عادل و رحیم کبھی معاف نہیں کرے گا جب تک کہ سچے دل سے توبہ کرکے اپنے اعمال کو درست نہ کرلیں۔ ثانیاً یہ حقیقت واقعہ ہے کہ امریکہ و یورپ میں بعض لوگوں نے اس مرض کی احتیاطی تدابیر کا مذاق بنایا تو وہ اس مرض کا شکار ہو کر اس دنیا ہی سے رخصت ہوگئے اور انہوں نے اپنی پشیمانی اور حسرت و افسوس کا اظہار ڈاکٹروں کے سامنے برملا کیا مگر ’’اب پچھتائے ہوت کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کے مصداق یہ لوگ اب ہمارے لیے سامانِ عبرت بن گئے۔ دنیا کا ہر مذہب تمام انسانوں کی ہر قسم کی ایذا دہی کو گناہ بتاتا ہے اور ایذا رسانی سے روکتا ہے اور اسلام تو کسی بھی جانور تک کو بلا وجہ ایذا دینے کو منع کرتا ہے۔ ایذا صرف یہی نہیں ہے کہ ہم کسی کو براہِ راست جسمانی یا نفسیاتی تکلیف پہنچائیں بلکہ کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے مخلوق خداوندی کا کوئی نقصان ہوسکتا ہو تو بھی ہماری یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس سے ا جتناب کریں۔
اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جہاں وبا ہو وہاں نہ جایا جائے اور ا گر کسی جگہ وبا پھوٹ پڑی ہو تو اس بستی کے لوگ وہیں رہیں، وبا اور موت سے ڈر کر تو کجا احتیاط کا تقاضا سمجھ کر بھی اس بستی سے نہ نکلیں۔ حدیثِ رسولِ خاتم محمدﷺ یہ بھی ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو سچا مان کر اس بستی سے قدم باہر نہ نکالا اور وہ اس وبائی مرض میں فوت ہوگیا تو وہ شہیدہے‘‘۔ کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ماننے کے ساتھ ساتھ دنیائے انسانیت کا سچا خیر خواہ اور ہم درد ہے لہٰذا اس کا یہ ایثار رائیگاں نہیں جائے گا۔ امین الامت حضرت عبیدہؓ بن جرّاح جن کے جنتی ہونے کی بشارت نبی آخرالزماںؐ نے ان کی وفات سے سالوں قبل دے دی تھی، طاعون کی وبا میں اور اسی مرض میں شہید ہوئے حالانکہ حضرت عمرؓ نے بہت اصرار کیا کہ اس بستی سے نکل آئیں مگر امین الامت شہیدؓ نے ہادیِ برحق کا یہ فرمان یاد دلایا اور وہاں سے نکلنا گوارہ نہیں کیا۔ ایک وہ لوگ تھے کہ جن کے ایثار و قربانی کی داستانیں اسلامی تاریخ میں سنہری الفاظ میں رقم ہیں اور ایک طرف ہم ہیں کہ ہمیں ماسک لگانے میں الجھن پیش آتی ہے کیونکہ اول تو اس سے ہمیں کوئی خاص طبی فائدہ نظر نہیں آتا اور اگر فائدہ ہوتا بھی ہے تو وہ دوسروں کو ہی ہوتا ہے۔ آج کل ہمارے نوجوان اکثر بغیر ماسک کے اس لیے بھی گھوم رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ مرض ان کو اتنا ہی نقصان پہنچائے گا جتنے دوسرے امراض اور رہے بوڑھے تو وہ اپنی فکر خود کریں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ امتِ مسلمہ تک کا جوان طبقہ اپنے بزرگوں کا اتنا بدخواہ ہوگیا ہے۔
یہ وبا ہمارے لیے بہت بڑی آزمائش ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم سب زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار اور تعلق باللہ کے ذریعہ اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ بہرحال یہ ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ علاوہ بریں ایثار و قربانی کے انسانی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور احتیاطی تدابیر میں دوسروں کی خیر خواہی کا جذبہ بھی انشاء اللہ وہی مثبت اثر ڈالے گا کہ جس سے خود اس کی قوتِ مدافعت بڑھے گی۔ نفسیاتی قوت (will power) اور قوتِ مدافعت کا رشتہ سائنسی ماہرین کے نزدیک بھی مسلّم ہے۔ لہٰذا تمام احتیاطی تدابیر اور اسلامی طہارت پر عمل پیرا ہونے میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس وبائی فتنہ اور عالمی مصیبت سے تمام دنیائے انسانیت کو جلد از جلد نجات بخشے۔ آمین ثم آمین
(مضمون نگار سابق صدر شعبہ و کوآرڈی نیٹربایو کیمسٹری ڈپارٹمنٹ وسابق ڈین لائف سائنس فیکلٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہیں)

درحقیقت قرآن مجید اس طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ ’’بچو! اس فتنہ سے کہ جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں رہے گی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہے‘‘ (الانفال:۲۵) ۔ قرآن مجید میں یہ ارشادِ الٰہی بھی ثبت ہے کہ نہ صرف بیماریاں بلکہ خشکی و تری میں رونما ہونے والا سارا فسادانسانی کرتوتوں ہی کا نتیجہ ہوتا ہے (الروم ۴۱)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020