کورونا کا اقبال ۔۔ مقبولیت کازوال
رائے عامہ کے تازہ جائزے میں جوبائیڈن کو ٹرمپ پر برتری
مسعود ابدالی
امریکہ میں کورونا وائرس یا COVID-19 کی وبا خطرناک رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ مئی کے مہینے میں بحر اوقیانوس کے ساحل پر نیویارک، نیوجرسی، پنسلوانیہ، دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور ورجینیا کی ریاستیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ اسی دوران مغرب میں کیلی فورنیا اور واشنگٹن کو اس نامراد مرض نے اپنا ہدف بنالیا۔ اتفاق سے یہ تمام ریاستیں حزب اختلاف یعنی ڈیموکریٹک پارٹی کاگڑھ ہیں۔ ان ریاستوں کے تمام بڑے شہروں کے رؤسائے شہر (Mayors)بھی صدر ٹرمپ کے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں۔اس دوران وفاق اور ریاستی و شہری حکومتوں کے درمیان کشیدگی بہت کھل کر سامنے آئی۔ صدر ٹرمپ کرنا وائرس کے پھیلاو کا الزام ڈیموکریٹک پارٹی کی بدانتظامی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی (کمیونسٹ) پالیسیوں پر لگاتے رہے۔ ہمارے خیال میں تو ڈیموکریٹس کو بائیں بازو کا کہنا ایسا ہی ہے جیسے اسرائیلی وزیردفاع بینی گینٹز خود کو آزاد خیال سیکولر کہتے ہیں۔
جون کے آغاز سے وبا قابومیں آتی نظر آئی چنانچہ مہینے کے آخری ہفتے میں لاک ڈاون نرم کرنے اور کاروبار زندگی کے دوبارہ شروع ہونے کا بتدریج آغاز ہوا۔ دوسری سرگرمیوں کے ساتھ مئے کدوں کے دروازے کھول دیے گئے اور اسی کے ساتھ تشنہ لب جام وسبو کے لیے دیوانہ وار دوڑ پڑے۔ اس دوران شراب خانوں کے باہر تک رندوں کے ہجوم نظر آئے۔ پینے، پلانے اور پی کر بہکتے ہوئے کس کم بخت کو تن دوری (Social Distancing)کا ہوش رہتا ہے۔ شوق جام و سبو کے ساتھ منچلوں نے ساحل سمندر پر بھی جمگھٹے لگادیے۔ اس تفریح نے جہاں دوستوں کو ہنسنے بولنے کا موقع فراہم کیا وہیں کورونا وائرس بھی تیزی لیکن خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ یعنی مرزا غالب کی فاقہ مستی کی طرح امریکیوں کی بلانوشی اور غسل آبی و آفتابی نے رنگ دکھانا شروع کردیا۔
جولائی کے پہلے ہفتے سے امریکہ کی جنوبی ریاستوں ٹیکسس، فلوریڈا، لوزیانہ اور ایریزوناکے ہسپتالوں میں مریضوں کی آمد بڑھ گئی۔ اتفاق سے ان تمام ریاستوں میں صدر ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی برسراقتدار ہے تاہم اکثربڑے شہروں کے میئر ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیں۔ چنانچہ ریاستی اور شہری حکومتوں کے درمیان چپقلش صاف نظر آرہی ہے۔ ریپبلیکن پارٹی ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن میں علاقائی کنونشن منعقد کرنا چاہتی تھی جس کی گورنر نے منظوری دے دی لیکن شہر کے سیاہ فام میئر نے مرکزی سماعت گاہ کو عارضی اسپتال بنانے کا اعلان کردیا۔ NRGکے نام سے مشہور یہ وہی سماعت گاہ ہے جہاں گزشتہ سال ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی نے صدر ٹرمپ کے ہمراہ بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا تھا۔
اتوار 12 جولائی کو صرف فلوریڈا میں 15 ہزار نئے مریض سامنے آئے۔ ایریزونا کے مردہ خانوں میں جگہ نہ رہی اور لاشیں رکھنے کے لیے خوراک ڈھونے والے منجمد یا Freezing Truckکرائے پر حاصل کیے گئے۔ٹیکسس اور لوزیانہ کے ہسپتالوں میں جگہ تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے ان ریاستوں میں لاک ڈاؤن کو دوبارہ سخت کردینے کی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ شراب خانوں اور ریستورانوں میں بیٹھ کر پینے اور کھانےکی سہولت ختم کردی گئی ہے۔ کئی جگہ ساحل پر پولیس کے ذریعے تن دوری کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ ماسک کو بھی بہت سےشہروں میں لازم کردیا گیا ہے۔
کورونا کی وباکے ساتھ ہی 3نومبر کو ملک میں عام انتخابات بھی ہونے والے ہیں اور سیاست کا اثراس موذی مرض سے بچاؤ کی کوششوں پر نظر آرہاہے۔ صدر ٹرمپ پُراعتماد تھے کہ بہتر اقتصادی صورتحال، بازار حصص کی اعلیٰ سطح اور 3 فیصد سے بھی کم بے روزگاری کی بنا پر ان کے لیے دوبارہ انتخاب جیتنا زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ ملکی معیشت کو انہوں نے اپنی انتخابی حکمت عملی کی بنیاد بنایا تھا لیکن کورونا سے سار ی دنیا کی طرح امریکی معیشت بھی شدید دباؤ میں ہے۔ بیروزگاری کا تناسب 13 فیصد ہے۔ سیانوں کا خیال ہے کہ کورونا کی وباپر قابو پانے کے بعد بھی معیشت کی مکمل بحالی میں کم ازکم دوسال لگیں گے اور اگلے سال کے اختتام تک بیروزگاری کی شرح کے 10 فیصد سے کم ہونے کے امکان بہت کم ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 اتنا خطرناک اور مہلک نہیں ہے جتنا ڈاکٹر حضرات کہہ رہے ہیں۔ ان کےخیال میں ڈیموکریٹک پارٹی اور بیماریوں کے کنٹرول کے قومی ادارے یا CDCنے اسے ایک ہوّا بنادیا ہے جس کی وجہ سے امریکیوں میں غیر ضروری خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے۔ امریکی صدر شبہ ظاہر کررہے ہیں کہ کورونا کا ہنگامہ کھڑا کرکے ان کے مخالفین ملکی معیشت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جسے انہوں نے چار سال کی محنت شاقہ سے بام عروج پر پہنچایا تھا۔ وہ CDCکے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فاوچی پر بھی ’بہت سی غلطیاں‘ کرنے کا الزام لگاچکے ہیں۔
اب امریکی صدر کا اصرار ہے کہ اگست میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اسکول کھول دیے جائیں۔گزشتہ روز سی این این پر گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرتعلیم بیٹسی ڈیواس نے کہا کہ اب ہفتے میں پانچوں دن کلاسیں شروع کرنے کا وقت آگیاہے۔ فاضل وزیر کا کہنا تھا کہ بچوں کا اسکول آنا بالکل محفوظ ہے لہذا آن لائن کے بجائے طالب علموں کو کمرہ کلاس میں بیٹھ کر سبق لینا چاہیے۔ محترمہ ڈیوس کے مطابق سائنس دانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ بچوں کو یہ وائرس نہیں لگتا، اس لیے اسکول بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر بند رہنے والے اسکولوں کی وفاقی مدد معطل کردی جائے گی۔ دوسری طرف سی ڈی سی کو اسکولوں کے کھلنے پر شدید تحفظات ہیں۔ ٖڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے بغیراسکولوں کوکھول دینا سخت خطرناک ہوسکتا ہے۔ماسک کی پابندی تو زیادہ مشکل نہیں لیکن تن دوری کا اہتمام اتنا آسان نہیں اور ہر کلاس کی لیے کم ازکم 3 کمروں کی ضرورت پڑے گی۔یعنی عمارت میں دوتہائی توسیع کے بغیر اسکولوں کو کھولنا ممکن نہیں۔ صحت کے ماہرین کو شدید تشویش اساتذہ کی جانب سے ہے۔امریکہ میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تعداد 15 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے 4 لاکھ کی عمر 60 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ اکثر سینئر اساتذہ ذیابطیس، سانس کے عارضے یا بلند فشار خون میں مبتلا ہیں اور اس وبا کا شکار ہو سکتے ہیں۔والدین کی بڑی تعداد بھی اسکول کھولنے کے حق میں نہیں۔ 13 جولائی سے ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں جب اسکول کے گرمائی سیشن کا آغاز ہوا تو سینکڑوں والدین نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا اور اسکول بسوں کے آگے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ اس کے جواب میں صدر ٹرمپ کے حامیوں نے اسکول کھولنے کے حق میں مظاہرہ کیا۔
صدر ٹرمپ کے سخت رویے سے انسداد کورونا کی کوششیں متاثر ہورہی ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے تک وہ ماسک لگانے پر اپنے حریف جو بائیڈن کا مذاق اڑاتے رہے بلکہ یہ بھی فرماگئے کہ بہت سے مخالفین انہیں چڑانے کی لیے ماسک استعمال کرتے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت صدر کے رویے کو پسند نہیں کرتی۔ حال میں لیے جانے والے ایک جائزے سے اندازہ ہوتا کہ ملک کے 62 فیصد لوگوں کے خیال میں کورونا وائرس کے خلاف کوششوں میں صدر ٹرمپ کا رویہ غیر سنجیدہ نظر آرہا ہے۔ اب جبکہ انتخابات میں صرف 4 ماہ باقی ہیں،ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار پر بھی گرما گرم بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ CDCکے افسران ووٹنگ کے دوران کورونا کے پھیلاو کا خطرہ ظاہر کررہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے ذاتی طور پر حاضر ہو کر ووٹ ڈالنے کے بجائے اس کا متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں آن لائن اور بذیعہ ڈاک ووٹنگ کے طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اگر ووٹروں کا پولنگ اسٹیشن پر آناضروری ہو تو ووٹنگ کا دورانیہ بڑھاکر ہجوم کو کم سے کم کرنے کے طریقے اختیار کر نے کی ضرورت ہے۔
امریکہ میں ووٹنگ کا طریقہ کار طئے کرنا ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔اس بنا پر معاملہ کچھ اور بھی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ ریاست کولوریڈو نے پرائمری انتخابات میں 99 فیصد ووٹروں نے بذیعہ ڈاک یا پوسٹل بیلٹ استعمال کیے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر اقلیتی ووٹروں کو ہراساں کیے جانے کی شکایات بہت عام ہیں اور پوسٹل بیلٹ سے اس شکائت کا ازالہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں قبل از وقت پولنگ کا طریقہ رائج ہے یعنی پولنگ کی تاریخ سے دوہفتہ پہلے ہی بہت سے پولنگ اسٹیشن کھول دیے جاتے ہیں تاکہ پولنگ کے روز ہجوم نہ ہو۔ ایک تجویز ہے کہ اس بار قبل از وقت پولنگ کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔
صدر ٹرمپ بذریعہ ڈاک ووٹنگ کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ طریقہ محفوظ نہیں ہے اور بڑے پیمانے پر جعلی ووٹنگ ہوسکتی ہے۔بہت سے شہریوں کو خدشہ ہے کہ بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے میں ان کی شناخت اور ذاتی نوعیت کی معلومات افشا ہوسکتی ہیں۔
اسی کے ساتھ کورونا وائرس کی وبا نے امیدواروں کی لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ ان حالات میں روایتی جلسے یا انتخابی ریلیاں ممکن نہیں اور 15 کروڑ ووٹروں سے رابطے کا سب سے موثر ذریعہ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، ریڈیو اور ٹیلی وژن ہیں،جن پر خطیر رقم خرچ ہورہی ہے۔ 2016 کی انتخابی مہم پر مجموعی طور پر ڈھائی ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے اور اس بار شائد اس سے ڈیڑھ گنا زیادہ رقم درکار ہو۔ صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن ووٹ سے پہلے نوٹ جمع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انتخابی چندہ جمع کرنے کی مہم میں فی الحال جوبائیڈن کو امریکی صدر پر ایک کروڑ ڈالر کی برتری حاصل ہے۔ سوشل میڈیا میں صدر ٹرمپ صرف ٹویٹر کو استعمال کررہے ہیں جو بالکل مفت ہے اس کے علاوہ وہ محدود پیمانے پر عوامی جلسے بھی کررہے ہیں۔دوسری طرف جو بائیڈن فیس بک اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارم پر خطیر رقم خرچ کررہے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک مضمون میں عرض کیا تھا کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب عام انتخابات میں ڈالے گئے پاپولر ووٹوں کے بجائے ریاستوں کے الیکٹورل ووٹوں سے ہوتا ہے اس لیے نتائج کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں ہے اور اس بارکورونا وائرس نے بے یقینی کو دو چند کردیاہے۔ ماہرین طب کے خیال میں موسمِ خزاں میں کورونا وائرس کی ایک نئی لہر خارج از امکان نہیں۔ نیا حملہ رائے عامہ کی صورت گری کس نہج پر کرے گا اس کے بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے کہ اس کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کا تناسب بھی بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔
اس وقت تک کی صورتحال جو بائیڈن کے حق میں نظر آرہی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں چار ریاستیں صدر ٹرمپ کی کامیابی کا باعث بنی تھیں۔صدر کو مشیگن میں 0.03، پنسلوانیہ میں 0.7، فلوریڈا میں 1.2 اور وسکونسن میں 0.77 فیصد ووٹوں کی برتری پر ان ریاستوں سے مجموعی طور پر 73 الیکٹورل ووٹ ملے تھے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ان تمام ریاستوں میں اس بار جو بائیڈن کو برتری حاصل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار سینیٹر ہیلری کلنٹن سیاہ فام ووٹروں کو گھر سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکیں اور 2012 کے ریپبلکن امیدوار مٹ رامنی سے کم ووٹ لینے کے باوجود صدرٹرمپ کو ان ریاستوں میں اپنی مخالف پر برتری حاصل ہوگئی۔ اس بار سیاہ فاموں میں خاصا جوش و خروش ہے جس کی وجہ سے ٹیکسس جیسے ریپبلکن کے قلعے میں بھی کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
سیاہ فاموں کے علاوہ غیر ملکی تارکین وطن کے ووٹ بھی اہمیت کے حامل ہیں لیکن تارکینِ وطن ان انتخابات کے نتائج پر کس حد تک اثر انداز ہوں گے اس کا دار و مدار کئی عوامل پر ہوگا۔ امریکہ کے غیر جانبدار مرکز دانش (Think Tank)پیو Pewتحقیقی مرکز کے مطابق غیر امریکی نژاد ووٹروں کی دوتہائی کے قریب تعداد کیلی فورنیا، نیویارک، فلوریڈا، ٹیکسس اور نیوجرسی میں آباد ہے۔ ٹیکسس اور فلوریڈا کے سوا باقی تین ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ ہیں اس لیے ان ریاستوں میں تارکین وطن کے ووٹ شائد فیصلہ کن ثابت نہ ہوسکیں لیکن فلوریڈا کے 25 لاکھ غیر ملکی نژاد ووٹر تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسس کے 18 لاکھ تارکین وطن اگر صدارتی انتخابات پر اثر انداز نہ ہوسکے تب بھی کانگریس اور سینیٹ کی نشستوں پر ریپبلیکن امیدواروں کی لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ غیر ملکی تارکین وطن کے بارے میں صدر ٹرمپ کا رویہ توہین آمیز ہے اورگزشتہ چار سالوں کے دوران امیگریشن سے متعلق ان کے فیصلوں اور اقدامات پر تارکین وطن کو خاصی تشویش ہے چنانچہ ماہرین توقع کررہے ہیں کہ تارکین وطن بلاک کی صورت میں ریپبلیکن پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔
سیاسی ماہرین کے خیال میں اس بار مشی گن اور وسکونسن سے جو بائیڈن کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو فلوریڈا اور پنسلوانیہ میں سے کسی ایک ریاست میں بھی کامیابی قصر مرمریں کی کنجی ان کے قدموں میں ڈال دے گی۔
معزز قارئین، ماہرین کی رائے سر آنکھوں پر لیکن یہ تجزیہ رائے عامہ کے جائزوں اور اس مفروضے پر مبنی ہے کہ 2020 کے نتائج 2016 کے مطابق ہوں گے۔ شماریات اور تجزیاتی ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد رائے عامہ کے جائزے خاصے معتبر ہیں لیکن یہ بہر حال رائے عامہ کا جائزہ ہے اور پھر ابھی انتخابات میں چار مہینے باقی ہیں یعنی پلوں کے نیچے سے ابھی بہت سارا پانی بہنا باقی ہے اس لیے نتائج کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ انشاء اللہ اس موضوع پر آنے والے دنوں میں مزید گفتگو ہوگی۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ
www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں ۔
رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت صدر کے رویے کو پسند نہیں کرتی۔ حال میں لیے جانے والے ایک جائزے سے اندازہ ہوتا کہ ملک کے 62 فیصد لوگوں کے خیال میں کورونا وائرس کے خلاف کوششوں میں صدر ٹرمپ کا رویہ غیر سنجیدہ نظر آرہا ہے۔