کورونا وائرس کا قہر اور ہماری بیمار معیشت

صنعتی پیداوار میں تخفیف سے روزگار بری طرح متاثر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کی حالیہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ بے روزگاری کی شرح جنوری 2020 میں 7.16 سے بڑھ کر فروری 2020 میں 7.78 فیصد ہوگئی ہے۔ اس طرح بے روزگاری کا ہیولا کچھ دنوں سے 7 فیصد سے اوپر براجمان ہے۔ سی ایم آئی ای کے سروے کے مطابق شہری بے روزگاری میں قدرے کمی آئی ہے لیکن دیہی بے روزگاری میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ دیہی آمدنی میں تنگی آرہی ہے کیوں کہ روزگار کے مواقع کا فقدان ہے جس سے بہت ساری غذائی اجناس کی طلب میں کمی آئی ہے اور صنعتی پیداوار میں تخفیف نے روزگار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دیہی روزگار کی کمی کی ایک وجہ نوٹ بندی ہے۔ اس نے دیہی نجی سیکٹر کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ بڑے بلند بانگ دعووں کے ساتھ روزگار کی فراہمی کے لیے سالانہ مرکزی بجٹ میں بڑے بڑے منصوبوں کو ہری جھنڈی دکھائی گئی۔ سب سے بڑا بنیادی مسئلہ ہے بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت کا جو اس اہم مسئلے کی شدت کو قبول کرنے سے ہی انکار کرتی آرہی ہے۔ وہ کہتی آئی ہے کہ حسب وعدہ وہ ہر سال 2 کروڑ افراد کو روزگار کی فراہمی کو سہل الحصول بنائے گی لیکن اس کے برخلاف حکومت کے غلط منصوبوں کی وجہ سے 3 کروڑ 16 لاکھ جوان بے روزگار ہوگئے۔ ایسی صورت میں رکز نے 25-2024 تک حقیقت سے کوسوں دور 5 ٹریلین ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے جو محض خواب ہے کیونکہ مجموعی شرح نمو لگاتار گھٹ رہی ہے مگر ملکی معیشت کی ابتری کو مرکزی حکومت کئی تلخ وجوہات سے سنجیدگی سے لینے سے قاصر نظر آرہی ہے۔ اولاً حکومت سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعے اپنے خود ساختہ تابندہ و روشن ماضی کی طرف لوٹنا چاہتی ہے۔ اس میں عوام الناس کو الجھا کر رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ روٹی، کپڑا اور مکان جیسے بنیادی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے۔ دوم حکومت کی طرف سے لڑکھڑاتی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے کوئی سنجیدہ منصوبہ بند کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے تاکہ ملک کی اکثریت کی بگڑی ہوئی اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جاسکے۔ اگرچہ وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ ہماری معیشت مستحکم ہے۔ موجودہ حالات میں بیمار معیشت کو بہتر بنانے کے لیے حکومت پر کسی کو تنقید کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور کم آمدنی ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ فی الوقت ملک معاشرتی عدم مساوات اور معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہا ہے۔ بھارت میں معاشی بحران برابر بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بینک بھی اس بحران کے زد میں آنے والا ہے اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مالی ادارے بینک کو 2.54 لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہوسکتا ہے۔ اگر آئندہ 3 سالوں میں معیشت میں بہتری نہیں آتی ہے تو کارپوریٹ گھرانوں پر بینک کے کل بقایا رقم کا 6 فیصد حصہ ڈوب سکتا ہے۔ انڈیا ریٹنگس اور ریسرچ کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ 500 نجی سیکٹر اپنے قرض میں سے تقریباً 10.5 لاکھ کروڑ روپے ادا کرنے میں لڑکھڑا سکتی ہے۔ بینکنگ سسٹم کا کل کارپوریٹ قرض 64 لاکھ کروڑ روپے کا ہے۔ اس وقت جو سیکٹر غیر محفوظ اور متاثر ہے ان میں ریزیڈینشیل رئیل اسٹیٹ، ائرن اینڈ اسٹیل، انجینرنگ پروکیورمنٹ اینڈ کنسٹرکشن (ای پی سی)، ٹیلی کام اور روایتی پاور جنریشن شامل ہیں۔ مودی جی کے دوست انل امبانی اور سبھاش چندر نے یس بینک کو کنگال کردیا ہے۔کورونا وائرس کا قہر چار دانگ عالم میں برپا ہوگیا۔ ایشین ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ایشیائی معیشتوں کو ایک بڑا دھکا لگ سکتا ہے اس سے مالی معیشت کو 77 سے لے کر 347 بلین ڈالر کے نقصان کا امکان ہے۔ اس وائرس سے ترقی پذیر معیشتوں کو بہت سے طریقوں سے نقصان ہوسکتا ہے۔ ان میں سیاحت اور کاروبار کے لیے سفر میں کمی، گھریلو طلب میں زبردست گراوٹ، تجارت اور پیداوار میں کمی رسد کی رکاوٹیں اور صحت کے اثرات شامل ہیں۔ اے ڈی بی کے مطابق معیشت کو کتنا نقصان ہوگا اس کا انحصار اس وائرس کے پھیلاو کی شدت پر ہے۔ تجزیہ کے حساب سے اے ڈی پی کا تخمینہ ہے کہ عالمی معیشت جی ڈی پی کا 0.4-0.1 فیصد کا خسارہ ہوگا۔ اے ڈی پی کے چیف ماہر معاشیات یاسو کی سوڈا نے کہا ہے کہ چین کو اپنی جی ڈی پا کا 103 بلین ڈالر یا 0.8 فیصد کا نقصان ہوگا۔ بقیہ ترقی پذیر ایشیائی ممالک کو 22 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 0.2 فیصد نقصان ہوگا۔ دنیا بھر میں اس وائرس سے 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ بے لاکھوں لوگ متاثر ہیں۔ فچ سلوشنس نے حالیہ دنوں میں بھارت کی موجودہ مالی سال کی مجموع شرح نمو کے پہلے تخمینہ کو 5.1 فیصد سے کم کرکے 4.9 فیصد کر دیا ہے۔ اس کی وجہ ایجنسی نے کورونا وائرس کو بتایا ہے جس سے چین سے سپلائی متاثر ہونے اور گھریلو طلب کو کمزور ہونا قرار دیا ہے۔ ایجنسی کا خیال ہے کہ متعدی کورونا وائرس کی وجہ سے بھارت میں آٹو موبائل اور الکٹرانک اشیاء کی سپلائی چین سے بری طرح متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اس کا اثر ملک کے برآمدات پر مبنی مینو فیکچرنگ سکٹر پر پڑے گا۔ اس کے علاوہ وسیع البنیاد خدمت کے شعبوں کو بھی متاثر کرے گا۔ دوسری طرف ہمارا ملک بڑے پیمانے پر چین کو خام لوہے کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ نتیجتاً چین میں کارخانے بند ہونے کی وجہ سے برآمدات مکمل طور پر ٹھپ ہوجائیں گے۔ سی ایم آئی اے نے بھی اسی طرح کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ ایس بی آئی کی اکانومک ریسرچ رپورٹ کے مطابق (Covid-19) کی شکایت بھارت میں گرچہ کم ہے۔ مگر چین میں اس طرح کے خطرے کے مد نظر فرماسیو ٹیکل برآمدات متاثر ہو سکتے ہیں۔ وائرس کے اثر سے بازار میں مصنوعات کی قیمتوں میں اچھال آئے گا۔ خدشات کے عین مطابق کورونا وائرس نے عالمی معیشت کو نگلنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس وائرس نے حصص بازار کو سر کے بل لا دیا ہے۔ بھارت کے لیے اس ہفتہ کا آخر دن جمعہ ’’بلیک ڈے‘‘ ثابت ہوا۔ ممبئی اسٹاک ایکسچینج کا اہم ترین انڈیکس سنسیکس میں 3.64 فیصد اور نیشنل اسٹاک ایکسچینج کے نفٹی میں 3.5 کی تاریخی گراوٹ درج کی گئی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے 5.4 لاکھ کروڑ روپے ڈوب گئے۔ اس وائرس کے تباہ کن اثرات نے سرمایہ کاروں میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا سرمایہ واپس نکالنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ سرمایہ نکالنے کا یہ عمل ملک کے معاشی بحران کے لیے مزید خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اس لیے حکومت اس وائرس سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی اپنائے اور درآمد کے نئے قوانین وضع کر کے چین پر انحصار کم سے کم کرے۔

اس وائرس کے تباہ کن اثر نے سرمایہ کاروں میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا سرمایہ واپس نکالنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ سرمایہ نکالنے کا یہ عمل ملک کے معاشی بحران کے لیے مزید خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اس لیے حکومت اس وائرس سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی اپنائے اور درآمد کے نئے قوانین وضع کرکے چین پر انحصار کم سے کم کرے۔