انسان کی ذاتی شناخت کی آفاقی حیثیت

متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے تناظر میں۔ ایسا عہد حکومت جس میں شہریت کے خلاف پہلے سے کوئی مفروضہ موجود ہو، غیرملکیوں سے متعلق قانون کمزور ترین افراد کو ان کے حقوق سے محروم کردیتا ہے۔

سہرتھ پارتھ سارتھی

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران گوہاٹی ہائی کورٹ کے ذریعہ سنائے گئے فیصلوں کی پوری ایک سیریز ہے جس سے آسام میں فارین ٹرائیبونلس کو چلانے والی حکومت کی انتہائی درجے کی سفاکی نمایاں ہوتی ہے۔ ان فیصلوں نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے غیر ملکی سمجھ لیے گئے انہیں لوگوں پر غیر معقول بوجھ ڈالنے کا کام کیا ہے جنہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے ایسے معیار کے مطابق شواہد پیش کرنے کو کہا گیا، جو حتمی نتائج کے لحاظ سے پوری طرح سے غلط اور نامناسب ہے۔ بیشتر معاملوں میں حتمی نتائج ڈٹنشن کیمپوں کے لیے کھیپ تیار کرنے اورلوگوں کی شہریت سے محرومی کی صورت سامنے آئے۔ فیصلوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ درخواست دہندگان کے سامنے شہریت کے معاملے میں حصول ِ شہرت کے لیے جو معیارات رکھے گئے وہ بہت ہی نامناسب تھے۔ درحقیقت ایسی صورت میں کامیابی کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے ذریعہ 2010سے 2019کے درمیان دیئے گئے 787 احکامات اور فیصلوں کا جائزہ لیا ہے دکش انڈیا کے لیہ ورگھیز اور شروتی نائک نے، جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 97فیصد معاملوں میں درخواست دہندگان کو غیرملکی قرار دے دیا گیا۔
ایک شخص کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے جن دستاویزات کو موزوں سمجھا گیا ان کی لسٹ کافی حیرت انگیز ہے۔ انتخابی فوٹو شناختی کارڈ، ووٹر لسٹ جس میں درخواست دہندگان کے نام شامل ہوں، لینڈ ریونیو کی رسیدیں، مقامی پنچایت کی جانب سے جاری سرٹیفکیٹ، بینک پاس بک، پرماننٹ اکاؤنٹ نمبر (PAN) کارڈ اور راشن کارڈ جیسے ان میں سے کسی بھی دستاویز کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا گیا۔ غور کیا جائے تو ان کے علاوہ اب بچا ہی کیا۔ کورٹ کے مطابق، ہر درخواست دہندہ کو دستاویزی شواہد کے ذریعہ یہ ثابت کرنا تھا کہ اس کے والدین یا آباء و اجداد 25مارچ 1971سے قبل ہندوستانی سرزمین میں موجود تھے۔ آسام کے معاملے میں ایک حتمی تاریخ بھی اس کے لیے دی گئی تھی۔ ساتھ ہی انہیں دستاویزات جاری کرنے والے حکام کی شہادت حاصل کرتے ہونے آزادانہ طور پر ان کے جواز کو بھی ثابت کرنا تھا۔ مثال کے طور پر کسی خاتون نے اپنے رشتوں کی لڑی ثابت کرنے کے لیے اپنی شادی کی سرٹیفکیٹ پیش کی اور چاہا کہ ٹرائیبیونل اس کے اس سرٹیفکیٹ کو تسلیم کر لے تو درخواست دہندہ پر یہ بھی بوجھ ڈال دیا گیا تھا کہ وہ اس سب کے ساتھ ہی حکام کے سامنے سرٹیفکیٹ کی توثیق کے لیے بھی شواہد پیش کرے۔ ہم خود سے بھی یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز اور پیچیدہ عمل کوئی ہو سکتا ہے؟
آسام اور ٹرائیبیونل
فارینر ٹرائیبیونلز(ایف ٹی)، جو نیم عدالتی اداروں کے طور پر کام کرتے ہیں، اصل میں انہیں 1964میں مرکزی حکومت کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تشکیل دیا گیا تھا۔ ان کا کام اس بارے میں رائے پیش کرنا تھا کہ آیا جن افراد کو ان کے پاس بھیجا گیا ہے وہ فارینرز ایکٹ 1946کے تحت غیر ملکی ہیں یا نہیں۔ یہ قانون سازی جو درحقیقت نوآبادیاتی حکومت کے ذریعہ ہندوستان میں نقل مکانی کو ریگولیٹ کرنے کے نظریہ سے کی گئی تھی، اس کے تحت ایک غیر ملکی کی تشریح اس اس شخص کے طور پر کی گئی ہے جو ہندوستان کا شہری نہیں ہے۔ یہ قانون حکومت کو ملک کے اندر غیر ملکیوں کے آنے، جانے اور چلنے پھرنے کو کنٹرول کرنے کے لیے وسیع اختیار عطا کرتا ہے۔
آسام میں فارینرز ٹرائبیونلز نے ریاست کی تاریخ میں ایک انوکھا کردار ادا کیا ہے۔ عام طور پر یہاں ٹرائیبیونلز دو طرح کے معاملات دیکھتے ہیں، ایک تو ایسے لوگوں کے جن کے بارے میں سرحدی پولس نے ریفرنس دائر کیا ہے اور دوسرے الیکٹورل لسٹ میں جن کے نام کے سامنے ‘‘ڈی’’ یا ‘‘ڈاؤٹ فل’’ یعنی مشکوک کا نشان لگا دیا گیا ہو۔ فارینر ٹرائیبیونلز کے سامنے 1985 میں ہوئے آسام معاہدے کی بنیاد پر ریفرنس دائر کیا گیا۔ یہ معاہدہ 26مارچ ، 1971کو بنگلہ دیش کی آزادی کے اعلان کے بعد، ریاست میں داخل ہونے کے مسئلے پر دوسری چیزوں کے ساتھ طلبا تحریک کا نتیجہ تھا۔ اس نے متعدد شرائط مرتب کیں، جن میں حکومت کو یکم جنوری 1966اور 24مارچ 1971کے درمیان آسام میں داخل ہونے والے کسی بھی شخص کی شناخت اور غیر ملکی قرار دینے کی ہدایت بھی شامل ہے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ شناخت ہو جانے کے بعد ایسے افراد کا نام الیکٹورل رول سے ہٹا دیا جائے۔ مزید برآں، اس معاہدے میں حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مذکورہ سال کی 25مارچ کو یا اس کے بعد آسام میں آنے والے افراد کی شناخت کی جائے اور ان کا نام ہٹا دیاجائے اور انہیں باہر نکال دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ہی 1997میں ریاست میں انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی کی گئی اور تین لاکھ سے زیادہ افراد کو مشکوک رائے دہندگان کے طور پر نشان زد کیا گیا۔ یہ نظر ثانی بغیر کسی پیشگی اور آزادانہ تصدیق کے کی گئی تھی۔ باقی رہ جانے والوں میں سے، تقریبا دو لاکھ افراد کو پہلے ہی ایف ٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔
ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری
عام طور پر 1872کے انڈین ایویڈنس ایکٹ کے تحت، کسی بھی عدالت میں ثبوت کا بوجھ اس شخص پر پڑتا ہے جو دعویٰ کرنے یا کسی حقیقت پر زور دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ہی ہے جو ایف ٹی کے سامنے کسی شخص کے غیر ملکی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لھٰذا اسی پر ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ لیکن فارینرز ایکٹ کی دفعہ 9 اس ذمہ داری کو پلٹ دیتی ہے۔ اس میں ریاست کے ذریعہ کسی ایف ٹی میں بھیجے گئے شخص کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ٹرائیبیونل کے سامنے یہ ثابت کرے کہ وہ حقیقت میں ہندوستان ہی کا شہری ہے۔
1983 میں، مرکزی حکومت نے، اس بوجھ کی جابرانہ نوعیت کو محسوس کرتے ہوئے، غیر قانونی تارکین وطن (ٹرائبیونل کے ذریعہ طے شدہ) ایکٹ متعارف کرایا۔ اس قانون نے فارینرز ایکٹ کو خارج کرتے ہوئے شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری پوری طرح سے فرد کی جگہ حکومت پر ڈال دی۔ لیکن جولائی 2005 میں سربانند سونووال بنام یونین آف انڈیا مقدمے میں سپریم کورٹ نے اس قانون سازی کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ کورٹ نے تاریخ اور حقائق کا تقریبا سرسری جائزہ لیتے ہوئے پایا کہ آسام میں نقل مکانی اسٹیٹ کے خلاف بیرونی حملہ ہے اور اس طرح مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 355کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس طرح سے کورٹ نے شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ہمیشہ کے لیے پوری طرح سے فرد کے اوپر ڈال دیا۔
سربانند سونوال بنام یونین آف انڈیا مقدمہ کے اسی فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے گوہاٹی ہائی کورٹ نے فارینر ٹڑائیبیونلز کے فیصلوں کے خلاف دائر مختلف مقدمات میں فیصلے سنائے۔ لیکن فرد پر اپنی شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے ان فیصلوں سے ابھی تک کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے، جیسا کہ مادھو کھوسلہ نے حالیہ دنوں ایک قابل فہم ٹسٹ کی بنیاد پر خاکہ کشی کرتے ہوئے بتایا تھا کہ شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری کس سطح اور کس نوعیت کے شواہد کو پیش کرکے ادا کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، جن افراد پر غیرملکی ہونے کا شبہ ہے، انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے نہ صرف دستاویزی شواہد پیش کرنے ہوں گے بلکہ دستاویزات جاری کرنے والے حکام سے انہیں اٹیسٹ بھی کرانا ہوگا، اس طرح کورٹ نے درخواست گزاروں پر ایک ایسی شرط عائد کردی جس کو پورا کرپانا ناممکن ہے۔
گوتم بھاٹیہ نے اپنی ایک تحریر میں ہیومن اینڈ پیپلز رائٹس پر افریقی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شاید اس کا حل پیش کرنے کی کوشش ہے کہ اگر فارینرز ایکٹ کے تحت کوئی فرد اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے ایک بار دستاویزات پیش کر دیتا ہے تو اب یہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہو جاتی ہے کہ وہ فراہم کردہ شواہد کی تردید کا دعویٰ کرے۔ بالآخر، جیسا کہ گوہاٹی ہائی کورٹ نے خود فیصلہ دیا کہ افراد سے یہ امید نہیں کی جاتی ہے کہ وہ معقول شک سے پرے یہ ثابت کریں کہ وہ ہندوستان کے شہری ہیں۔ ان سے صرف یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ امکانات کے توازن پر ہی یہ دکھائیںکہ وہ باہری نہیں ہیں۔ اس طرح کے حالات میں معقول جواب یہی ہو سکتا ہے کہ جب لوگوں نے اپنی شہریت کے ابتدائی ثبوت فراہم کر دیئے تو اب بقیہ ذمہ داری حکومت کے اوپر ڈال دی جانی چاہئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے جیسے ملک کے لیے بہت زیادہ پرفیکٹ حل نہیں ہے۔ جہاں غریب اور کمزور ترین افراد اکثر و بیشتر بنیادی چیزوں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں وہاں لوگوں سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات پیش کرنے کا مطالبہ اپنے آپ میں ایک مشکل ترین مطالبہ ہے۔ عام طور پر ہم حقوق کو آفاقی تصور کرتے ہیں لیکن ماہر سیاسیات ہنّا ارینٹ کا دی اوریجن آف ٹوٹالیٹیرینزم میں کہنا ہے کہ، حقیقت میں حقوق حاصل ہونے کے لیے افراد کا ایک سیاسی کمیونٹی سے ہونا ضروری ہے۔ بہ الفاظ دیگر ’’حقوق رکھنے کا حق‘‘ کو شہریت کے مسئلے میں اتفاق کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ایسا عہد حکومت جس میں شہریت کے خلاف پہلے سے کوئی مفروضہ موجود ہو، غیرملکیوں سے متعلق قانون ہم میں سے کمزور ترین افراد کو حقوق رکھنے کے اس حق سے بھی محروم کردیتا ہے۔ یہ ایسے لوگوں کے ساتھ غیر مساوی انسانوں جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ اس نقصان کی بھرپائی کے لیے ہمیں سائلہ بن حبیب کے اس مشورے پر عمل کرنا چاہئے کہ ہمیں ہر انسان کی اس کی شہریت سے بالاتر اس کی ذاتی پہچان کی ایک آفاقی حیثیت کو تسلیم کرنا چاہئے۔
(سہرتھ پارتھ سارتھی مدراس ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ ہیں)

بہ الفاظ دیگر ’’حقوق رکھنے کا حق‘‘ کو شہریت کے مسئلے میں اتفاق کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ایسا عہد حکومت جس میں شہریت کے خلاف پہلے سے کوئی مفروضہ موجود ہو، غیرملکیوں سے متعلق قانون ہم میں سے کمزور ترین افراد کو حقوق رکھنے کے اس حق سے بھی محروم کردیتا ہے۔ یہ ایسے لوگوں کے ساتھ غیر مساوی انسانوں جیسا برتاؤ کرتا ہے۔