کورونا وائرس: غور و فکر کے چند پہلو

 

خان یاسر

فیکلٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، دہلی

سیکریٹری، شعبہ فروغِ فکر اسلامی و اسٹڈی سرکل، جماعت اسلامی ہند،حلقۂ دہلی

Instagram @yasiriiis

وسطی چین میں واقع (صوبہ ہوٗبے کے صدر مقام) ووہان کے چار باشندے 26دسمبر 2019 کو بخار، کھانسی، اور سانس لینے میں تکلیف کی شکایت لے کر ڈاکٹر ژھینگ جکسیان کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر ژھینگ نے ان مریضوں میں ایک پراسرار قسم کے نمونیہ کی دریافت کی۔ انہی دنوں ووہان سینٹرل ہاسپٹل کے ڈاکٹر لی وینلیانگ نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو ایک نئے وائرس سے خبردار کیا۔ چین اگر ڈاکٹر لی وینلیانگ کو ہراساں کرنے کے بدلے ان کی تنبیہہ پر کان دھرتا تو کیا حالات بہتر ہوتے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب فی الحال حتمی طور پر نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے بعد سے جو ہورہا ہے وہ ہمارے لیے نیوز اور آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ بنتا جارہا ہے۔

نئے وائرس سے متاثر مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ زیادہ تر متاثرین کا سمندری غذاؤں کے ایک بازار سے تعلق تھا جہاں مچھلیوں و دیگر بحری حیوانوں کے گوشت کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے بھالو، چوہے، سانپ، گلہری، چمگادڑ، مگرمچھ، کتے، گدھے، لومڑی، خنزیر، اور بھیڑیے وغیرہ کا گوشت بھی ملتا تھا۔ بازار بند کیا گیا۔ چین نے، دیر ہی سے سہی، کئی موثر قدم اٹھائے لیکن یہ وائرس بلائے جان بن کر دنیا پر ٹوٹ پڑا۔ مشرق سے لے کر مغرب تک شاید ہی کوئی ملک ہو جو اس کی زد سے محفوظ ہو۔26مارچ تک کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کا انفکشن 198 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اب تک تقریباً پانچ لاکھ افراد اس مرض سے(جسے بعد میں COVID-19 کا نام دیا گیا) متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں پھیلے ہوئے ان متاثرین میں سے اکیس ہزار سے زائد ملکِ عدم سدھار چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں ہر آن اضافہ ہورہا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ اس مختصر سے مقالے کا مقصد اس بیماری کے تعلق سے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔ یہاںصرف اس وبا اور اس سے پیداشدہ حالات پر چند بکھرے ہوئے خیالات کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقالے کے چھوٹے بڑے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں، تحدیث نعمت کے طور پر، اس بات کا مختصر ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو جو دفاعی نظام عطا کیا ہے وہ کیسے کیسے دشمنوں سے کس کس طرح ہماری حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ انسان اپنی ساخت پر غور کرے اور اس کے دل میں اللہ کے شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ کورونا وائرس کے ذریعہ پیدا شدہ بیماری کے تعلق سے چند بنیادی باتوں کے خلاصے کے ساتھ یہ حصہ اختتام پذیر ہوتا ہے۔ دوسرے حصے میں، جو ہمارا اصل موضوع بھی ہے، زور اس بات پر ہے کہ ان پریشان کن حالات کا سامنا مومنانہ کردار اور مثبت طرز فکر کے ساتھ کیسے کیا جائے۔

pnununp

جسم کی مستعد اور طاقتور فوج

اُس ملک میں امن و امان اور خوشحالی کا ڈیرا نہیں ہوسکتا جہاں اندرونی و بیرونی دشمن اپنی ریشہ و دوانیوں کے لیے آزاد ہوں۔ ملک کی بقا اور سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ اندرونی دشمن سے نپٹنے کے لیے پولس اور بیرونی دشمنوں کے قلع قمع کے لیے فوج مستعد ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پولس اور فوج دشمن اور دوست میں تمیز کرنا جانتے ہوں کیونکہ پولس اگر چور، ڈاکو اور قاتلوں کو چھوڑ کر شہریوں کی دشمن بن جائے اور فوج دہشت گردوں اور دشمن افواج کو چھوڑ کر بغاوت یا ملکی سیاست میں دخل اندازی کا راستہ اختیار کرے تو ایسے ملک کی خیر نہیں۔ جسمِ انسانی کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اندرونی و بیرونی حملوں سے حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو جو صلاحیت دی ہے اسے قوت مدافعت (Immune System)کہتے ہیں۔ آئیے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں۔

ہمارے جسم میں کوئی بن بلایا بیرونی عنصر داخل ہونا چاہے تو ہماری جلد اسے اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ناک کے راستے دھول یا کوئی ذرہ داخل ہوجائے تو وہ بلغم اور چپچپے مادے میں الجھ کر رہ جاتا ہے، اندر داخل ہوکر نقصان نہیں پہنچا پاتا، بعد ازاں اسے چھینک کے زور سے دھکے مار کر باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ذرات آنکھوں میں پڑ جائیں تو بھی انہیں تباہی مچانے کی اجازت نہیں ملتی، کچھ ہی دیر میں آنسو انہیں گرفتار کرلیتے ہیں اور اپنی سرحدوں سے باہر پہنچادیتے ہیں۔ کھاتے وقت ہم فائدہ مند چیزوں کے ساتھ ساتھ بہت سی مضر اشیاء بھی کھالیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو توڑ پھوڑ کر کام کی چیزوں کو الگ کرلینا اور فضول چیزوں کو جسم سے خارج کردینے کا ایک پورا نظام پیٹ میں موجود ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہوگا کہ مچھر وغیرہ کے کاٹنے پر وہ جگہ تھوڑی سی سوج جاتی ہے، لال لال نشان سا پڑ جاتا ہے۔۔۔یہ مچھر کی جانب سے داخل کیے گئے کیمیائی مادے پر جسم کے مدافعتی نظام کا ردعمل ہے۔ جسم کے خلوی سپاہی جب تک مرمت کے اس کام سے فارغ نہیں ہوجاتے چین سے نہیں بیٹھتے۔ کوئی زخم ہوجائے اور خون بہنے لگے تو بھی یہ نظام حرکت میں آتا ہے اور زخم کے مقام پر خون جم جاتا ہے تاکہ زیادہ مقدار میں خون کے نکل جانے سے جسم کو کوئی خطرہ نہ لاحق ہو۔

بالفرض محال اگر کوئی وائرس جسم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو بہت دیر تک رنگ رلیاں نہیں منا پاتا۔ جسم کا مدافعتی نظام فوراً حرکت میں آتا ہے اور ایمرجنسی ڈکلیئر کردیتا ہے۔ اسے آپ بخار، نزلہ و زکام کہتے ہیں۔ جسم کا درجۂ حرارت زیادہ ہو تو وائرسس کو اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں میں پریشانی ہوتی ہے اور جسم کے سپاہیوں کو انہیں ڈھونڈ کر ٹھکانے لگادینے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہی وجہ نزلہ و زکام کی بھی ہے؛ بہتی ناک دراصل اس جنگ کا نتیجہ ہے جو جسم کی افواج کی نقصاندہ جرثوموں سے ہوتی ہے۔ بس اتنا ہی نہیں، جسم کے اس مدافعتی نظام کی ایک بہترین خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے پرانے دشمنوں کو یاد رکھتا ہے۔ چنانچہ جب وہی دشمن دوبارہ حملہ کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے انہیں کھدیڑ دیا جاتا ہے اور کسی نئی خونیں جنگ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ وہ اصول ہے جسے سائنسدانوں نے بہت سی خطرناک بیماریوں کے ٹیکے بنانے میں استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر چیچک کی وبا جب پھیلتی تھی تو پہلے پہل ہزاروں لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوجاتے تھے لیکن اب اس کا ٹیکہ لگادیا جاتا ہے۔ اس کا ٹیکہ گائے میں پائی جانے والی (نسبتاً کم خطرناک) چیچک کے پس سے بنایا جاتا ہے۔ جب اسے متعین مقدار میں انسان کے جسم میں پہنچایا جاتا ہے تو جسم کا مدافعتی نظام بڑی آسانی سے اس کا مقابلہ کرلیتا ہے اور پھر یہ نظام(یا متعین الفاظ میں Memory Cells ) اس ’حملے‘ کو یاد کرلیتے ہیں اور آئندہ اگر کبھی چیچک کے وائرس کا حملہ ہوتا بھی ہے تو جسم بڑی آسانی سے اسے شکست دے دیتا ہے۔

انسانی جسم کے ننھے دشمن

جسم کا یہ مدافعتی نظام لگاتار کام کرتا ہے۔ اس کے خاص دشمن جن کا تذکرہ یہاں مقصود ہے چھوٹے۔۔۔ بہت چھوٹے۔۔۔ بلکہ بہت ہی زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں۔۔۔ اتنے چھوٹے کہ وہ انسانی آنکھوں سے نظر بھی نہیں آتے۔ جسامت کی بات کریں تو بیکٹیریا کی جسامت (مختلف قسموں کے اعتبار سے)0.3 سے لے کر 5 مائکرومیٹر تک ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ ایک میٹر میں دس لاکھ مائکرو میٹر ہوتے ہیں۔ یہ اتنی چھوٹی جسامت ہے کہ مٹی کے ایک گرام میں عام طور پر 4 کروڑ بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ وائرس کو ناپنے کے لیے مائکرو میٹر کی یہ چھوٹی اکائی بھی بہت بڑی ہے۔ چنانچہ انہیں نینو میٹر میں ناپا جاتا ہے۔ ایک میٹر میں ایک ارب (یعنی ایک کے بعد نو صفر) نینو میٹر ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ایسے وائرسس کا پتہ بھی لگایا ہے جن کی جسامت صرف 17 نینو میٹر ہوتی ہے۔ سارس کے وائرس کی جسامت، جو کورونا وائرس سے کافی مماثل ہے، 120 نینو میٹر ہوتی ہے۔ یہ اتنی چھوٹی جسامت ہے کہ اگر بیکٹیریا کی آنکھ ہوتی تو بھی اسے وائرس نظر نہیں آتے۔ اس چھوٹی سی جسامت کا تصور کرنے کے لیے اپنے ناخنوں پر ایک نظر ڈالیے۔ آپ کے ناخن ہر سیکنڈ میں تقریباً ایک نینومیٹر بڑھ جاتے ہیں۔

وائرس دراصل ایک متعدی عامل (infectious agent) ہے جس میں کسی زندہ وجود میں داخل ہوکر افزائش کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے۔ دمتری ایوانووسکی (Dmitri Ivanovsky)، روس کے عالمِ نباتیات، نے سب سے پہلے 1892 میں تمباکو کے پودوں کی ایک بیماری کا مطالعہ کرتے ہوئے بتایاکہ اس بیماری کا سبب بیکٹیریا سے بھی چھوٹے جراثیم ہیں۔ بعد میں انہیں وائرس کا نام دیا گیا۔

وائرس بذات خود زندہ ہے یا کسی زندہ مخلوق میں داخل ہونے پر اس میں جان پڑجاتی ہے؟ اس سوال پر سائنسدانوں کے درمیان اختلاف ہے۔ احتیاط کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وائرس میں زندگی کی واضح علامات اس وقت دکھائی پڑتی ہیں جب وہ کسی جاندار میں داخل ہوکر اپنی افزائش شروع کرتا ہے۔ وہ اتنی کثیر تعداد میں بڑھتا ہے کہ اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو اس جاندار کی زندگی کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے جس کے تمام وسائل پر دھیرے دھیرے یہ طفیلی وائرس قبضہ کرتا چلا جاتا ہے۔ وائرس انسان اور جانوروں کے علاوہ نباتات، حتیٰ کہ جراثیموں جیسی انسانی آنکھوں سے نظر نہ آنے والی مخلوقات پر بھی تسلط حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

کورونا وائرس سے متعلق چند باتیں

جس وبا سے پوری دنیا پریشان ہے اسے COronaVIrus Disease 2019 (COVID-19)کا نام دیا گیا ہے۔ جو وائرس اس وبا کے لیے ذمہ دار ہے اسے، سارس کے وائرس سے مماثلت کی مناسبت سے، Severe Acute Respiratory Syndrome CoronaVirus 2 (SARS-CoV-2) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جو باتیں اب تک منظر عام پر آئی ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

سب سے پہلے اس وائرس کا پتہ چین کے ووہان شہر میں چلا۔ سائنسدانوں کی ابتدائی تحقیق کے مطابق یہ وائرس چمگادڑوں اور سانپوں سے انسانوں میں آئے ہیں۔ انسانوں سے انسانوں میں یہ وائرس کھانسی یا چھینک میں خارج ہونے والے تنفسی قطرات (Respiratory Droplets) کے ذریعہ منتقل ہوتے ہیں۔ یہ وائرس پلاسٹک یا اسٹیل پر تین دن، دفتی یا کاغذ پر ایک دن، اور تانبے پر چار گھنٹوں تک ’زندہ‘ رہ سکتا ہے۔ تیز بخار کے ساتھ سوکھی کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف کچھ واضح علامات ہیں جو کورونا وائرس کے انفکشن کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکی و صفائی کا خیال رکھا جائے تو وائرس کے انفکشن سے بچا جاسکتا ہے۔ انسانی جلد پر وائرس ہو تو بھی وہ اپنی افزائشی عمل کو شروع نہیں کرسکتا۔ لیکن انسان جب اپنے ہاتھ کو آنکھ، ناک، یا منہ تک لے جاتا ہے تو وائرس کو جسم میں داخلے کی راہ مل جاتی ہے۔ اس لیے ہاتھوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دلائی جارہی ہے۔ اسی طرح کھانستے اور چھینکتے وقت بھی اگر اسلامی آداب کا خیال رکھا جائے تو انفکشن کے پھیلنے پر بڑی حد تک روک لگائی جاسکتی ہے۔

موجودہ اعداد و شمار کے مطابق 84 فیصد لوگ جو کورونا وائرس کے انفکشن کا شکار ہوئے تھے، صحتیاب ہوچکے ہیں۔ جنہیں اس وقت انفکشن ہے ان میں سے صرف چار فیصد کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار آپ https://www.worldometers.info/coronavirus/ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح دو سے چار فیصد ہے۔ بری خبر البتہ یہ ہے کہ کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک بہت بڑی تعداد کا دو سے چار فیصد بھی بڑی تعداد ہوتی ہے لہذا اس معاملے کو ہلکے میں نہیں لیا جاسکتا۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر کورونا وائرس تیزی سے پھیل جائے تو دنیا کے کئی ممالک کا طبی و شفائی نظام اس بوجھ کو برداشت نہیں کرسکے گا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے فرض کیجیے کہ ایک شہر میں صرف دس اسپتال اور ہر اسپتال میں اوسطاً پچاس مریضوں کو بھرتی کرنے کی گنجائش ہے۔ اس شہر میں اچانک تین ہزار لوگ بیمار ہوجائیںتو شہر میں اسپتال، بستر، ڈاکٹر، نرس سے لے کر دواؤں تک کا قحط پڑ جائے گا کیونکہ اس شہر کا طبی نظام بیک وقت صرف پانچ سو مریضوں کی نگہداشت اور علاج کی لیاقت رکھتا ہے۔ اب یہ اضافی مریض، چاہے کسی عام سے مرض میں ہی کیوں نہ مبتلا ہوں مگر، علاج نہ ملنے کی صورت میں (یا کماحقہ نہ ملنے کی صورت میں) بڑا نقصان اٹھائیں گے۔ لیکن یہی تین ہزار مریض اگر ایک ہی دن بیمار ہونے کے بجائے ایک مہینے کے نسبتاً طویل عرصے میں بیمار ہوئے ہوتے تو سبھی کو علاج میسر آتا اور سماج کو مجموعی طور پر ہونے والا نقصان بہت کم ہوتا۔ اسے اصطلاحی زبان میں flattening of the curve کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے بڑے پیمانے پر اکٹھا ہونے اور سفر کرنے پر جو پابندیاں لگائی جارہی ہیں اس کا ایک بنیادی مقصد یہی ہے کہ وائرس کو تیزی کے ساتھ پھیلنے سے روکا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بیک وقت ملک کے طبی نظام پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

ہمارے کرنے کا کام

٭ اللہ کی نشانیوں پر غور کریں۔ ساری کائنات اللہ کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک مومن ان نشانیوں پر غور کرتا ہے اور سبق حاصل کرتا ہے۔ جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ ابابیلوں کے ایک جھنڈ نے ہاتھیوں کے ایک عظیم لشکر کا صفایا کردیا تو اس واقعے میں ہمیں اللہ کی نشانی نظر آتی ہے؛ جب واعظ ہمیں نمرود کی مچھر سے شکست کا قصہ سناتا ہے تو ہمیں اس میں اللہ کی نشانی نظر آتی ہے؛ آج دنیا بھر کے انسان، وقت کے سوپر پاورز سمیت، جس طرح اس چھوٹے سے وائرس سے پریشان ہیں۔۔۔ کیا اس میں ہمارے لیے کوئی نشانی نہیں ہے؟ یہ ’حقیر‘ وائرس ہمیں اللہ کی قوتِ تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے؛ سائنس کی تمام تر ترقیوں کے باوجود خالقِ کائنات کی مشیت کے سامنے انسان کی بے بسی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔۔۔ اور انسان کا سر بے اختیار احکم الحاکمین کے سامنے عجز ونیاز سے جھک جاتا ہے۔

؎ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

جو انسان دوسرے انسانوں کو اس آفت سے بچانے کے لیے دن رات لگے ہوئے ہیں ان کے کردار کی عظمت پر بھی غور کیجیے۔ جو انسانی اذہان اس وائرس سے لڑنے کی تدبیریں کررہے ہیں، تجربات کررہے ہیں، ان کے ذہن و صلاحیت پر رشک کیجیے۔ ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت و مغفرت کی دعائیں کیجیے۔ یہ رجوع الی اللہ کا وقت ہے۔ انسانوں پر آنے والی یہ مصیبتیں ان کی اپنی کمائی ہیں۔ اللہ تو بہت سے گناہ یونہی معاف فرمادیتا ہے لیکن کبھی کبھی انہیں ان کے اعمال کا مزا بھی چکھادیتا ہے (ملاحظہ فرمائیے: سورہ الروم: 41، سورہ الشوریٰ: 30)۔ توبہ کیجیے۔ استغفار کیجیے۔ روئیے، گڑگڑائیے۔ اللہ کی ان نشانیوں کو اپنے ایمان میں اضافے کا سبب بنالیجیے۔ ہمارے دل کا حال اس چٹان کا سا نہ ہو جس پر بارش کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ اس زرخیز زمین کا ساہو جس پر بارش ہو تو فصلیں لہلہا اٹھتی ہے۔

٭ اعتدال کا دامن تھامیں۔ ایسے واقعات جب رونما ہوتے ہیں تو بہت سے لوگ دو قسم کی انتہا پسندی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ موت برحق ہے اور ہم اللہ سے ڈرتے ہیں، کسی وائرس سے نہیں۔۔۔ اور پھر ان بذاتِ خود صحیح باتوں سے احتیاط نہ کرنے کا غلط جواز برآمد کرلیتے ہیں۔ موت بالکل برحق ہے لیکن سڑک پر جب کوئی گاڑی آپ کی طرف آتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ جی ہاں!ہٹ جاتے ہیں۔ آپ کا یہ ہٹنا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ قرآن کی تعلیم ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو (سورہ البقرہ: 195)۔ رزق اللہ دیتا ہے۔۔۔ اس بات پر ہمارا ایمان ہے۔ مگر کون بیوقوف ہے جو حصولِ رزق کے لیے کوشش نہیں کرتا؟ رزق کے لیے کوشش کرنا، اللہ کے رازق ہونے پر ایمان کے منافی نہیں ہے۔

اس کے برخلاف کچھ دوسرے لوگ ہیں جو حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ گھبرا کر عجیب و غریب فیصلے لینے لگتے ہیں۔ خود ڈرتے ہیں اور دوسروں میں بھی خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر یوں بھی کچھ احتیاط کے ساتھ بتائی جاتی ہیں لیکن یہ اس ’احتیاط‘ میں بھی ’اجتہاد‘ کرکے دس درجہ زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں۔ یوں دودھ سے جلے بغیر چھاچھ کو ابال کر پیتے ہیں۔ چنانچہ سڑکوں اور بازاروں میں جانے کی ممانعت ہو تو یہ کمرے سے باتھ روم کا سفر اختیار کرنے میں بھی دائیں بائیں دیکھ کر ماسک وغیرہ صحیح کرلیتے ہیں۔ بوڑھے اور بیماروں کو مسجد آنے سے منع کیا جائے تو تندرست و توانا ہوکر بھی باجماعت نماز نہیں پڑھتے۔

پہلے گروہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ مسبب الاسباب پر ایمان لاکر یہ بھول جاتا ہے کہ اسی خدا نے سبب پیدا بھی کیے ہیں، دنیا کو دارالاسباب بھی بنایا ہے، اور انسان کو اسباب اختیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے چنانچہ غزوۂ بدر میں حضرت محمدﷺ بغیر فوج اور ہتھیاروں کے آکر کھڑے نہیں ہوگئے کہ آج پھونکوں سے معرکہ سر ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سارے اسباب اختیار کیے گئے جو کیے جاسکتے تھے ۔ دوسرے گروہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ سبب کچھ اس طرح اختیار کرتا ہے مانو سبب ہی پر ایمان لایا ہو۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ سبب کو پیدا کرنے والا مسبب الاسباب بھی ہے جو چاہے تو آگ گرمی اور جلانے کا نہیں بلکہ ٹھنڈی و سلامتی کا سبب بن جائے (سورہ الانبیاء: 69 )۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ غزوۂ بدر میں اللہ کے رسولؐ نے سارے اسباب اختیار کیے لیکن بھروسہ اللہ پر کیا، دعائیں اور مناجات اللہ سے کیں، اور فتح بھی یوں حاصل ہوئی کہ مومنین کو اللہ کی تائید اور اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ اعتدال کی روش ہے۔ ہمارا ایمان اور یقین اللہ پر ہو، اس کی بنائی ہوئی تقدیر پر ہو، اس بات پر ہو کہ مصیبت اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے (سورہ التغابن: 64، سورہ الحدید: 22)۔۔۔ لیکن یہ ایمان ہمیں تدبیر اور عمل سے غافل نہ کرے بلکہ اس کے لیے مہمیز ثابت ہو۔ یقین اس بات پر بھی ہو کہ مصیبت کو دور کرنے والا بھی اللہ ہی ہے، وہی علیم و خبیر ہے، اور ایمان والوں کے دلوں کو مصیبت میں سکون و طمانیت اور ہدایت بھی اسی سے حاصل ہوتی ہے (سورہ الفتح: 4،سورہ التغابن: 64)۔ مختصراً یہ کہ رسول اللہؐ کے ارشاد کے مطابق ہم اونٹ باندھ کر اللہ پر توکل کریں۔ اسلام کے فلسفۂ توکل کے خلاف صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ پر توکل کرنے کے بدلے رسی پر توکل کیا جائے بلکہ یہ بھی ہے اونٹ کو باندھے بغیر سمجھا جائے کہ اللہ پر توکل کیا جارہا ہے۔

٭ بکواس، لایعنی و لاحاصل باتوں سے بچیں۔ انسانوں میں ایک گروہ ایسا ہے جسے باتیں بگھارنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ بات جتنی بیکار ہو، بے سر پیر کی ہو، بے مقصد ہو اس میں انہیں اتنا ہی لطف آتا ہے۔ چنانچہ کورونا وائرس کے حوالے سے ہم سنتے ہیں کہ یہ یہودی سازش ہے۔ یہ چین کی سازش ہے۔ یہ چین کے خلاف امریکہ کی سازش ہے، وغیرہ۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ اخلاق و کردار سے عاری حکمراں و پالیسی ساز اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں لیکن بات مستند بھی تو ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کونسا ذریعۂ علم آپ کے پاس ہے جس کے ذریعہ حکمت کے یہ موتی چائے کی چسکیوں کے ساتھ بکھیرے جارہے ہیں؟ اگر ایسا کوئی مستند ذریعۂ علم ہے جو کسی اور کے پاس نہیں تو مہربانی کرکے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیجیے تاکہ ان حقائق سے پردہ اٹھ سکے۔ لیکن اگر ایسا کوئی مستند ذریعۂ علم نہیں ہے تو خود بتائیے محض وہم و گمان اور وہاٹس ایپ کے فارورڈز کی بنیاد پر ہونے والی ان خوش گپیوں کی کیا حیثیت ہے؟ آئیے اس بات پر ایک دوسرے طریقے سے غور کریں۔ آپ کے کہنے سے وہ تین چار لوگ، جن سے آپ گفتگو فرمارہے ہیں، وہ مان بھی گئے کہ یہ امریکی (یا یہودی یا چینی) سازش ہے تو آپ کو اور ان کو کیا حاصل ہوگیا؟ یہ لاحاصل گفتگو وقت کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے؟

اسی طرح کچھ لوگ (جب تک ان کے شہر یا ملک پر آفت نہ آجائے) حکم صادر کردیتے ہیں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ میرے بھائی! آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ جس شدت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بولنے والے کو حضرت جبرئیل ؑ خود اطلاع دے کر گئے ہیں۔ ہم اپنی زبان کی اہمیت کیوں نہیں سمجھتے؟ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس سے نکلی ہوئی باتوں کا قیامت میں حساب دینا ہوگا؟ سامری اور ابولہب کو جو بیماری لاحق ہوئی وہ اللہ کے غیض و غضب کی ایک شکل تھی؛ حضرت ایوبؑ کو جو بیماری لاحق ہوئی وہ اللہ کی ایک آزمائش تھی جس سے وہ سرخرو نکلے۔۔۔ آج یہ باتیں ہم یقین سے اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولؐ کے واسطے سے یہ باتیں ہمیں بتائی ہیں۔ لیکن آج کوئی بیماری، کوئی وبا، کوئی حادثہ عذاب ہے یا آزمائش ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہ کسی کے لیے عذاب بھی ہوسکتا ہے؛ کسی کی آزمائش بھی ہوسکتی ہے؛ کسی کو غوروفکر پر آمادہ کرنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے؛ کسی کے لیے تنبیہ ہوسکتی ہے؛ کسی کے گناہوں کے جھڑنے کا اور کسی کے درجات کی بلندی کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ لاحاصل بحثوں میں پڑے بغیر ہماری توجہ اس بات پر کیوں نہیں ہوتی کہ جن حالات سے بھی ہمیں سابقہ ہے ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ذاتی طور پر میری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اسلام مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ میں ایسا کیا کروں کہ رضائے الٰہی کے نصب العین سے کچھ اور قریب ہوسکوں؟ وغیرہ وغیرہ۔

٭ فراغت کے ان لمحات سے بھرپور استفادہ کریں۔ ہم میں سے ہر ایک کو بزی رہنے کا ملال رہتا ہے۔ ایسے میں حکومتوں کی جانب سے احتیاطاً کیے گئے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ہمیں جو فرصت کے لمحات ملے ہیں وہ نعمت غیر مترقبہ ہیں۔ جس طرح ہر نعمت کا خدا کو حساب دینا ہے اسی طرح فرصت و فراغت کے لمحات کا حساب بھی دینا ہوگا۔ خدارا ان قیمتی لمحات کو موبائل میں ویڈیوز دیکھنے میں اور پوسٹ لائیک شیئر کھیلنے میں ضائع نہ کیجیے گا۔ ہر ایک نے کبھی نہ کبھی یہ منصوبہ بنایا ہے کہ فرصت ہوتی تو فلاں تفسیر کا مطالعہ کرلیتا، فلاں سیرت کی کتاب پڑھ لیتا، فلاں حدیث کی کتاب پڑھتا۔۔۔ مگر کالج کی پڑھائی سے یا آفس کی ہنگامہ آرائی سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ کبھی چھٹی ہوتی بھی تھی تو اس کے الگ منصوبے ہوتے تھے۔ اب یہ جو فرصت و فراغت کے لمحات بالکل غیرمنصوبہ بند طریقے پر میسر آئے ہیں، انہیں غنیمت جانیے۔ مطالعہ کیجیے۔ اپنے علم میں اضافہ کیجیے۔ کیا پتہ ان چند دنوں کے مطالعہ سے آپ کی شخصیت میں کوئی بہتر تبدیلی آجائے۔ قرآن و حدیث کے لگاتار مطالعہ کا جذبہ اور توفیق میسر آجائے۔ پھر دینی کتب سے فیض حاصل کرنے کا یہ سلسلہ عام دنوں تک بھی دراز ہوجائے۔

اسی طرح نوافل کا اہتمام کیجیے۔ تسبیح و تہلیل کا اہتمام کیجیے۔ اگر ہم سے کوئی ایسا بدنصیب ہے جو روزمرہ کی مصروفیات کے چلتے پنج وقتہ نمازوں کی پابندی نہیں کرپاتا تو وہ فرصت کے ان لمحات میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور نمازوں پر اپنے دل کو آمادہ کرے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں اگر مسجد جانا ممکن نہ ہو تو گھروں میں باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔ عورتوں کو اور بچوں کو بھی شریک کریں۔ نمازیں پڑھنے والے کوشش کریں کہ وہ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا کریں، نئی سورتیں یاد کریں، قرآن پر غور و فکر کریں، لمبی نمازیں پڑھیں اور اس بات پر غور کریں کہ اپنے خدا سے کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ قیام اللیل کا خیال عام طور پر جب آتا ہے تو شیطان صبح کی مصروفیات کے حوالے سے بہکاتا ہے، اب شیطان کے کسی نئے حربے کا شکار بننے کے بجائے جی کڑا کرکے قیام اللیل کا اہتمام کریں۔ رمضان کا مبارک مہینہ آنے والا ہے، اس کے استقبال کی تیاری کریں۔ اس ضمن میں نفل روزوں کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس طرح سے ہم نے اپنے آپ کو تیار کیا اور پھر آنے والے رمضان میں اپنی ذہنی کیفیات پر، اپنے علم پر، اپنی عبادات اور نمازوں پر سنجیدگی سے کام کیا تو انشاء اللہ اپنی شخصیت میں دوررس مثبت تبدیلیوں کو پیدا ہوتا ہوا دیکھیں گے۔

اسی طرح گھروالوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ بچوں کی تربیت کے لیے انہیں انبیاء و صحابہ کے قصے سنائیں۔ دسترخوان پر انہیں ساتھ کھلائیں۔ مختلف دعائیں یاد کرائیں۔ موقع غنیمت جان کر بڑوں کی خدمت کریں۔ ان کی دعائیں لیں۔

٭ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے اخلاق میں بلندی پیدا کریں۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر بہت سے لوگ مشکلات و مصائب میں خود غرضی اور کمینگی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں اپنے عدو مبین کے جھانسے میں نہیں آنا ہے۔ اس وبا کے دوران دنیا بھر میں انسانوں نے جہاں بلند اخلاقی کے نمونے پیش کیے وہیں پست اخلاقی کے شرمسار کردینے والے نمونے بھی سامنے آئے۔ لوگوں نے آنے والی پریشانی کی بو سونگھتے ہی جس طرح روزمرہ کی ضروری اشیاء کا ذخیرہ کرنا شروع کردیا، اس سے کئی مقامات پر نہ صرف یہ کہ اشیائے ضروریہ کی قلت محسوس کی گئی بلکہ خوف و ہراس کا ماحول بھی پیدا ہوا۔ کئی لوگ افواہوں کی آگ میں تیل ڈالنے کا کام کرتے رہے۔ بہت تو ایسے تھے جنہوں نے اپنے بھائیوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اپنی جیبیں بھرنے کی اسکیمیں سوچیں۔ چنانچہ ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ماسکس اور سینیٹائزرس کا ذخیرہ کرکے ان کی قیمتیں آسمان پر پہنچادیں، اور لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر ان اشیاء کی اصل سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر انہیں فروخت کیا۔ اخلاق کی ایسی پستی اشرف المخلوقات کے شایان شان نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مصیبت کے اس وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کام آئیں۔ حتی المقدور انفاق فی سبیل اللہ کریں۔ ماتحت کام کرنے والوں کو کام نہ کرپانے کے باوجود تنخواہیں دیں۔ کسی کو نقد رقم کی یا قرض کی ضرورت ہو تو اس کی ضرورت پوری کریں۔ اپنے آس پاس رہنے والے ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں جو یومیہ کماتے تھے اور اب ان ہنگاموں نے ان کی روزی روٹی کو متاثر کردیا ہے۔ اسی طرح ان طلبہ اور نوکری پیشہ افراد کے کھانے و دیگر ضروریات کا خیال رکھیں جو اپنے گھروالوں سے دور رہتے ہیں۔ اگر وہ فاقہ کریں گے اور آپ پیٹ بھر کر کھائیں گے تو قیامت میں اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ یہاں تو معاملہ یہ ہے لوگوں نے اپنی ضروریات سے زائد ذخیرہ کررکھا ہے لیکن تب بھی دوسروں کو نہیں پوچھتے حالانکہ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ’’ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔‘‘ (سورہ الحشر: 9) ہمیں جانچنا ہوگا کہ اخلاقی بلندی کے اس قرآنی معیار پر ہم کہاں تک پورے اترتے ہیں؟

٭ طہارت و نظافت کا خیال رکھیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ رسولؐ نے پاکی و صفائی پر اتنا زور دیا کہ اسے نصف ایمان قرار دیا لیکن ان کی امت آج گندی سندی رہنے کے لیے مشہور ہے۔ خدارا رسول اکرم ﷺ کے الفاظ کا کچھ تو پاس و لحاظ رکھیں۔ پاک و صاف رہیں۔ ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کریں۔ طہارت کے اسلامی آداب کا تفصیلی مطالعہ کریں اور اپنی زندگی میں ان آداب کی مکمل پاسداری کی کوشش کریں۔ گھر والوں کو بھی ان پر کاربند کریں۔ اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو ان باتوں کی طرف متوجہ کریں۔ گھروں اور محلوں میں بھی پاکی و صفائی کا خیال رکھیں۔ اور صرف اس ہنگامی موقع سے نہیں، ہمیشہ رکھیں۔ اس سلسلے میں مل جل کر کوشش کریں۔ جسم اور ماحول کی صفائی روحانی پاکیزگی کی پہلی سیڑھی ہے اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا آزمودہ نسخہ بھی۔

٭ دعوت کا کام کریں۔ انبیاء ؑکا اسوہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک مومن ہر حال میں دعوت کا کام کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ جیل میں ہوتے ہوئے بھی فریضۂ دعوت سے غافل نہیں ہوئے۔ ہمیں بھی اس فریضے سے غافل نہیں ہونا ہے۔ موبائل اور مختلف سوشل میڈیا ایپس سے بہت سے بیوقوف صبح و شام صرف گناہ بٹورتے ہیں لیکن عقلمند جانتے ہیں کہ ان کا ڈھنگ سے استعمال کیا جائے تو بہترین انداز میں دعوت و اصلاح کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلنے، بلکہ اس طرح کے تمام تر واقعات، کے نتیجے میں لوگ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ تازیانے لوگوں کو ان کی روزمرہ کی بے فکری والی زندگی سے نکال کر کچھ سنجیدہ سوالات پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ عام دنوں کی بہ نسبت ان اوقات میں ہدایت پر غور کرنے اور اسے قبول کرنے کا داعیہ کچھ بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ موت کا خیال اور خدا کی یاد دلوں کو نرم کردیتی ہے۔ اسلام زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ موقع و محل کی مناسبت سے اسلامی تعلیمات کا تعارف کرایا جائے تو بہت سے ذہن متاثر ہوتے ہیں، اور بہت سی سعید روحوں کو ہدایت قبول کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات دیدۂ بینا رکھنے والے بہت سے شریف النفس لوگوں کو اپیل کرے گی کہ اللہ نے پاک چیزوں کو حلال کیا ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام فرمایا ہے(سورہ المائدہ: 5، سورہ الاعراف: 157)۔ جب انسان ان ناپاک چیزوں کو استعمال کرتا ہے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ کبھی وہ چمگادڑ اور سانپوں کے ذریعہ کورونا وائرس کا شکار بنتا ہے؛ کبھی چوہوں کے ذریعہ ہنتا وائرس کا؛ کبھی خنزیر کے ذریعہ سوائن انفلوئنزا وائرس کا؛ اور کبھی اپنی حرامکاریوں کی وجہ سے ایچ آئی وی وائرس کا۔ اسی طرح طہارت و نظافت کے تعلق سے اسلامی تعلیمات، جو اس وقت دی گئیں جب انسانیت بیکٹیریا اور وائرسوں سے انجان تھی، بہت متاثر کن ہیں۔ استنجا، وضو، غسل، اور تیمم وغیرہ کی ان تعلیمات کو معمولی نہ سمجھیے۔ ان کی حکمتوں پر غور کیجیے۔ انسان اگر ان تعلیمات پر صحیح انداز سے عمل کرے تو بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ وباؤں اور متعدی امراض کے تعلق سے حدیث میں جو رسولؐ کی تعلیمات ملتی ہیں وہ بھی انبیائی حکمت پر مبنی ہیں۔ ایک انسان اگر کھلے ذہن سے ان باتوں پر غور کرے تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہم میں سے جو لوگ سوشل میڈیا پر اپنی تخلیقات کے لیے جانے جاتے ہیں اگر وہ ان موضوعات پر ویڈیوز بنائیں یا شاندار ڈیزائن کے ساتھ کچھ پوسٹرس بنائیں تو شاید یہ باتیں زیادہ لوگوں تک پہنچیں۔

٭ اپنے جسم کی قوتِ مدافعت کو مضبوط کریں۔ جس طرح پیروں کو کنکر سے بچانے کے لیے ساری دنیا سے کنکر ختم کردینا نہ ممکن ہے نہ مطلوب، بلکہ چپل پہن لینے میں عقلمندی ہے بالکل اسی طرح پوری دنیا سے سارے بیکٹیریا اور وائرسس کو ختم کردینا نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے جسم کو اتنا قوی بنائیں کہ ضرررساں جراثیم اگر حملہ آور ہوں تو جسم اپنا دفاع آپ کرسکے۔ اپنے immune system کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صحتمندانہ طرز زندگی اختیار کیا جائے۔

ہمیں چاہیے کہ اچھی اور صحتمند غذا کھائیں۔ ایسی متوازن غذاؤں کا استعمال کریں کہ جسم میں کسی وٹامن کی کمی نہ ہو۔ وقت پر کھانا کھائیں۔ بہت زیادہ نہ کھائیں۔ یوں کھانے کے اسلامی آداب اور دعائیں جو ہم نے بچپن میں سیکھی تھیں، ان پر عمل پیرا ہوں۔ اسی طرح ورزش کریں۔۔۔ اور روزانہ کریں۔ اگر ورزش کی عادت نہیں ہے تو ہلکی پھلکی ورزشوں سے شروعات کریں۔ اس ضمن میں صبح کی چہل قدمی پر خصوصی دھیان دیں تاکہ سورج سے وٹامن ڈی بھی وافر مقدار میں حاصل ہو۔ کانکریٹ کے جنگلوں میں شہری زندگی گزارنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے جس کے جسم کی قوت مدافعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اچھے نظامِ مدافعت کے لیے بہترین نیند شرطِ لازم ہے، لہذا جلد سونے اور جلد اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ نامکمل نیند جسم کی قوت مدافعت کو کمزور کردیتی ہے۔ جلدی سونے کے لیے ضروری ہے کہ سونے سے ایک دو گھنٹے قبل سے موبائل کا استعمال نہ کریں۔ بستر پر لیٹیں تو آدھے گھنٹہ کسی دینی کتاب کے مطالعے کی کوشش کریں۔

کسی مسلمان سے امید نہیں کی جاتی کہ وہ پنج وقتہ نمازیں نہ پڑھتا ہو لیکن اگر کوئی ان فرائض سے غافل ہے تو ان کے اہتمام کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ اسی طرح کسی مسلمان سے اس بات کی توقع بھی نہیں کی جاتی کہ وہ شراب، سگریٹ یا تمباکو وغیرہ کی لت میں گرفتار ہوگا لیکن کوئی اگر شیطان کے نرغے میں ہے تو اللہ کے غضب، آخرت کی پکڑ، اور دنیا میں اپنی صحت و کامیابی کا خیال کرے اور ان ضرررساں چیزوں سے مکمل پرہیز کرے۔ اسی طرح ایک مسلمان سے اس بات کی توقع بھی نہیں کی جاتی کہ وہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ (Stress)جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو۔ کیونکہ مومن تو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اپنی کوششیں کرتا ہے، نتائج اللہ پر چھوڑتا ہے۔ نتیجہ اچھا نکلے تو مشکور ہوتا ہے؛ برا نکلے تو صبر اور نماز سے مدد لیتا ہے، اپنا احتساب کرتا ہے، اور پھر کوشش کرتا ہے۔ یوں مومن ہر حال میں راضی بہ رضا رہتا ہے، کبھی مایوس نہیں ہوتا، صبر و شکر کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اس مومنانہ طرز فکر کو اپنائیں بھی اور فروغ بھی دیں۔ جسم کی قوت مدافعت پر ٹینشن کا غیر معمولی اثر ہوتا ہے لہذا اس سے احتراز ضروری ہے۔ نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی، مسکراتے رہنے کی، اور چیزوں کے مثبت پہلو پر توجہ دینے کی عادت ڈالیں۔ یہ خوشیوں بھری زندگی کی شاہ کلید ہے۔

٭ نظام طب و صحت کا احتساب کریں۔ یہ حالات دعوت دیتے ہیں کہ بحیثیت ہندوستانی شہری کے ہم اجتماعی طور پر اپنے طبی نظام کا جائزہ لیں۔ اس طرح کی ناگہانی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے ملک کا نظام طب و صحت کس حد تک تیار ہے، اس کا احتساب کریں۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان جیسی کثیر آبادی والے ملک میں فی ہزار صرف 0.7 بستر اسپتالوں میںدستیاب ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس تناسب کو پانچ فی ہزار ضرور ہونا چاہیے۔ تقریباً چالیس ملکوں میں یہ تناسب اس سے بڑھ کر ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم اس معاملے میں بنگلہ دیش اور بھوٹان جیسے ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔(تفصیلی اعداد و شمار کے لیے ملاحظہ فرمائیں: https://data.worldbank.org/indicator/SH.MED.BEDS.ZS)۔ فی الحال ہاسپٹل بیڈس کی تعداد ہمارے ملک میں ستر ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے۔اگر یہ تعداد زیادہ ہوتی اور دیگر طبی سہولیات بھی خاطر خواہ ہوتیں تو ہمارے لیے flattening of the curve والا عمل (جس کا ذکر پیچھے گزرا ہے) نسبتاً آسان ہوتا۔

ٹی کے ارون زور دیتے ہیں کہ ہمیں مستقبل کے وبائی حملوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اس تیار رہنے کا مطلب ہے کہ ہمارے نظام صحت میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ دسیوں لاکھ مریضوں کا بیک وقت علاج کرسکے۔ اسپتالوں میں یہ انتظام بھی ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالات میں نارمل وارڈس کو انتہائی نگہداشت یونٹس (Intensive Care Units) میں تبدیل کیا جاسکے۔ اسی طرح پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ کی بھی ضرورت ہے تاکہ صحت کے حوالے سے لوگوں میں بیداری پیدا ہو۔ متوازن اور مقوی غذا، صاف پانی،صحت کے لیے نقصاندہ عادتوں سے اجتناب اور صحت مند طرز زندگی اختیار کرکے ان کی قوت مدافعت میں اضافہ کیا جائے۔

جرمنی، جنوبی کوریا اور بالخصوص تائیوان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ حکمراں اگر بیدار اور دوراندیش ہوں تو آفات کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جیسن وانگ (ڈائرکٹر، سینٹر فار پالیسی آؤٹکمس اینڈ پریوینشن، اسٹینفارڈ یونیورسٹی) کے مطابق تائیوان نے دسمبر کے مہینے ہی سے اس آنے والی بلا سے لڑنے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس صدی کے اوائل میں جب سارس کی وبا پھیلی تو بہت سے ممالک کی طرح تائیوان میں بھی ایک نیشنل ہیلتھ کمانڈ سینٹر بنایا گیا تھا۔ کورونا وائرس کے خلاف اس سینٹر کی خدمات حاصل کی گئیں جس کے ذریعہ ملک کی مختلف ایجنسیوں کے درمیان تعاون میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ تائیوان میں ووہان سے آنے والے مسافروں کی ہوائی جہازوں سے اترنے سے پہلے ہی جانچ کی جانے لگی تاکہ ان میں سے کوئی وائرس سے متاثر ہو تو وہ انفکشن پھیلا نہ سکے۔ اطباء میں اتنی بیداری پیدا کی گئی کہ جب وہ کسی مریض کی عام سی شکایت کا علاج بھی کرتے تو اس سے اس کے سفر اور روابط وغیرہ کے تعلق سے دریافت کرتے؛ اگر پتہ چلتا کہ مریض نے ووہان کا سفر کیا ہے یا وہاں سے حالیہ دنوں میں لوٹے کسی فرد سے ملاقات کی ہے تو اس کے عام بخار کو بھی بہت سنجیدگی سے لیتے اور پوری جانچ پڑتال کرتے؛ ٹیسٹ مثبت ہونے پر اس کے متعلقین کی جانچ بھی کرتے۔ ڈاکٹر وانگ مزید کہتے ہیں کہ تائیوان میں جن لوگوں کو قرنطینہ (Quarantine) کے عمل سے گزرنا تھا ان کی موبائل فون لوکیشن ڈاٹا کے ذریعہ نگرانی کی گئی۔ افسرانِ صحت انہیں دن میں دو تین مرتبہ فون کرکے مرض کی علامات (symptoms)میں مثبت و منفی تبدیلی کے بارے میں پوچھتے۔ اگر کوئی منفی تبدیلی آتی تو انہیں معالجین تک پہنچانے کا نظم کیا جاتا۔ بصورت دیگر وہ گھر ہی میں رہتے اور وہیں ان کے لیے کھانا پہنچایا جاتا۔ اگر وہ قرنطینہ کے خلاف ورزی کرتے تو ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا۔ اتنا ہی نہیں، بعد میں حکومت نے قرنطینہ کے عمل سے گزرنے والوں کو بھتہ دینا بھی شروع کیا۔ یعنی حکومت نے لوگوں کو گھر بیٹھنے کے لیے پیسے دیے تاکہ وہ خاندان کی غذائی ضرورتوں یا مکان کے کرایے وغیرہ کے لیے پریشان نہ ہوں۔ حکومت نے شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے اہم قدم اٹھائے حتی کہ ماسک بنانے اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لی تاکہ کسی قسم کی حقیقی یا مصنوعی قلت نہ پیدا ہو۔ جن مریضوں کے تعلق سے وائرس انفکشن کا خدشہ ہوا، ان کے ٹیسٹ اور علاج کے لیے بالکل علاحدہ انتظامات کیے گئے تاکہ انفکشن نہ پھیل سکے۔ عوامی مقامات پر ایسے اسکینر لگائے گئے جو آنے والوں کے جسمانی درجۂ حرارت کو ناپ لیتے۔ بخار میں مبتلا کسی فرد کو عمارتوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ڈاکٹر وانگ کے الفاظ میں، ’’صحت عامہ کے حوالے سے مستعدی کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں صحت عامہ کا ایسا ڈھانچہ (Infrastructure) ہو کہ اس کے ذریعہ آپ کسی بھی بحران کا سامنا کرسکیں۔‘‘ یہ صحت عامہ کے حوالے سے ایک بیدار مغز حکومت کے اقدامات تھے جس کی وجہ سے چین کے بالکل پڑوس میں واقع ہونے کے باوجود تائیوان نے اس وبا پر قابو پالیا۔ چین میں ہونے والی تین ہزار سے زائد اموات کے بالمقابل تائیوان میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد صرف دو ہے۔

ہمارے ملک کے نیتا اب تک عوام کو ہندو مسلم، ذات پات، اور نفرت کی بنیادوں پر بانٹ کر ووٹ لیتے آئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کا احتساب کیا جائے اور صرف ایسے سیاستدانوں کو حکومت میں آنے کا موقع ملے جو مفاد عامہ میں کام کریں۔اس کے لیے برادران وطن میں بھی بڑے پیمانے پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وائرس کے انفیکشن سے لڑنے کے لیے ہمیں پورے ملک کو بند کرنا پڑ رہا ہے اور ایک لاک ڈاؤن کے ختم ہونے سے پہلے ہی دوسرے لاک ڈاؤن کا اعلان ہورہا ہے۔ طرہ یہ ہے کہ اس کام کو شرمساری سے کرنے کے بجائے دیدہ دلیری کے ساتھ بذات خود وزیر اعظم کررہے ہیں اور اپنی لیڈری چمکارہے ہیں۔ جن باتوں پر سر پیٹنا چاہیے ان پر تالیاں اور تھالیاں پیٹی جارہی ہیں۔ عوام میں یہ بیداری کیوں نہیں ہے کہ وہ پوچھیں کہ اس لاک ڈاؤن کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیوں ہمارا نظام صحت اتنا ناکارہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک طرف انسانی جان اور دوسری طرف انسان کے نقل و حمل، سماجی تعلقات، اداروں کے کام کاج، معاشی سرگرمیوںاور روزمرہ زندگی کے دیگر لوازم میں سے ایک کو چننے کی نوبت آگئی ہے؟ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر ماہرین نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس بیماری کا Asymptomatic transmission بہت کم ہے۔ یعنی زیادہ تر وائرس منتقل کرنے کا کام وہی لوگ کرتے ہیں جن میں مرض کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ یہ خدشہ بہت کم ہے کہ بظاہر صحتمند لوگ وائرس منتقل کرتے رہیں۔ ایسے میں بیمار لوگوں کی ٹیسٹنگ اور انہیں قرنطینہ کے عمل سے گزارنا صحیح حکمت عملی ہے نہ کہ پورا ملک بند کردینا۔ مائیکل اوسٹرہوم (ریجینٹس پروفیسر و ڈائرکٹر، سینٹر فار انفیکشیس ڈیزیز ریسرچ اینڈ پالیسی، یونیورسٹی آف مینی سوٹا) کہتے ہیں کہ اس طرح کے مکمل لاک ڈاؤن کے معاشی نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ یہ امید خام خیالی ہے کہ تمام لوگ گھروں میں بیٹھے بھی رہیں اور لوگوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: https://www.washingtonpost.com/opinions/2020/03/21/facing-covid-19-reality-national-lockdown-is-no-cure/)۔ ایسے میں کیا ہمارا ملک فائنینشیل ایمرجنسی کی طرف جارہا ہے؟ کیا ہماری حکومت اپنی معاشی ناکامیوں کے ساتھ کورونا وائرس کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے؟ لاک ڈاؤن کے بدلے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی حکمت علمی کو کیوں اختیار نہیں کیا جارہا ہے؟ اگر اس حکمت عملی کو اختیار کرنے کے لیے درکار وسائل ہمارے ملک میں نہیں ہیں تو اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ ایسے سوالات کو پوچھنا ضروری ہے، اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے!

آفتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کثرت سے ذکر کریں، مسنون دعاؤں کا بھی اہتمام کریں۔

بِسْمِ اللَّہِ الَّذی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شیْئٌ فی الْأَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَائِ وَ ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ

ترجمہ: اللہ کے نام سے کہ جس کے نام سے زمین یا آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں دے سکتی، اور وہ خوب سنتا اور جانتا ہے۔

(ابوداؤد، ترمذی)

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَ مِنْ سَیِّیِٔ الأَسْقَامِ

ترجمہ: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برص سے، جنون سے، کوڑھ سے اور ہر قسم کی بری بیماریوں سے۔

(ابوداؤد)