کورونا وائرس نشان ِعبرت

خدا سے بے نیاز دنیا کو بیدار کرنے کے لیے قدرت کا تازیانہ

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

کورونا وائرس کی وباء نے حکمت و معرفت کے ایسے ابواب کھولے ہیں جن تک رسائی سہل نہیں تھی۔ مثلاً 6 ماہ قبل یکم اکتوبر2019 کو عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی سترویں سالگرہ کے موقع پر عدیم المثال فوجی پریڈ کے دوران بہت بڑی مقدار میں اسلحے کی نمائش کی گئی۔ بیجنگ کے امن چوک میں ہونے والی فوجی پریڈ میں پندرہ ہزار فوجی اہلکاروں، ایک سو ساٹھ طیاروں اور پانچ سو اسی ٹینکوں نے حصہ لیا۔ اس کے علاوہ متعدد عسکری مصنوعات کی نمائش کی گئی، جن میں جوہری ہتھیاروں کی حمل ونقل کی صلاحیت رکھنے والے بین البراعظمی میزائل بھی شامل تھے۔ اس تقریب میں چینی صدر شی جن پنگ نے فوجی پریڈ کا معائنہ کر نے اور70توپوں کی سلامی لینے کے بعد کہا ’’ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو اس عظیم قوم کی بنیادوں کو ہلا سکے۔ کوئی بھی ایسی طاقت نہیں ہے جو چینی عوام کی پیش رفت اور اس قوم کو آگے بڑھنے سے روک سکے‘‘۔
دنیاوی قوت و حشمت پر نازاں و فرحاں اس خدا فراموش حکمراں کے ہر ہر لفظ سے کبر وغرور ٹپک رہا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ جب 1949ء میں ماؤزے تنگ نے چین کے اندر برپا خانہ جنگی میں فتح کے بعد اس تاریخی چوک پر عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تھا تو وہ ایک غریب ملک تھا۔ تاہم 1980ء کی دہائی میں اصلاحات اور قدرے آزاد سیاسی پالیسیوں کے باعث چینی معیشت مستحکم ہوتی چلی گئی۔ آج یہ ملک امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن گیا ہے۔ سال 2018اپریل میں شائع شدہ اعداد وشمار کے مطابق قوت خرید میں مساوات کے اعتبار سے جی ڈی پی کے پیش نظر 25.24ٹریلین امریکی ڈالر کے ساتھ چین پہلے نمبر پر پہنچ گیا تھا۔ سن 2017 کے مقابلے میں چینی اقتصادی نمو نو فیصد رہی۔ اس غیر معمولی ترقی کے لیے پاک پروردگار کے تئیں شکر وانابت کے بجائے اس نے فخر ورعونت کا راستہ اختیار کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذکورہ اعلان کے 70دن بعد 10دسمبر کو چین ہی کی سرزمین پر کرونا وائرس کے پہلے مریض کی تشخیص ہوئی۔ 6دن بعد اسے اسپتال میں داخل کیا گیا اور 27دسمبر کو حکومت چین نے اس وباء کا اعتراف کرلیا۔ اس طرح 90 دن کے اندر کورونا نے چین سمیت ساری دنیا کو بے بس کر کے ثابت کر دیا کہ ان سب کے گھمنڈ کو ملیامیٹ کرنے کے لیے تو معمولی وائرس ہی کافی ہے۔ چین کے اندر 81 ہزار سے زیادہ لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور 3225 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے۔ اس وباء کے آگے ساری اقتصادی وحربی قوت دھری کی دھری رہ گئی۔ اس وباء پر قابو پانے میں چین کو تین ماہ کا عرصہ لگ گیا۔
کورونا سے متاثرین میں چین کے بعد اٹلی، اسپین، جرمنی اور اس کے بعد ایران کا نمبر آتا ہے مگر اموات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پہلے نمبر پر اٹلی، دوسرے پر چین اور تیسرے پر ایران ہے۔ 1500 سے زائد ہلاکتوں کے بعد ایران میں ہرطرف خوف طاری ہے۔ اس موذی بیماری کے خوف سے لوگ لاشوں کے قریب جانے سے بھی ڈر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں ایرانیوں کو درپیش مشکل حالات کو دکھایا گیا ہے۔ ان کے سبب بیداری کے ساتھ خوف دہشت پھیل گیا ہے۔ ایک ویڈیو کلپ میں قم شہر کے اندر ایک شخص روتے ہوئے کہتا ہے کہ کرونا کی وجہ سے اس نے اپنی ماں کو کھو دیا ہے۔ سڑک پر روتے ہوئے وہ شخص ایران کے روحانی پیشواء علی خامنہ ای، صدر حسن روحانی اور ایرانی ٹیلی ویژن پر کرونا سے متاثرین کی تعداد کو چھپانے کا الزام لگاتا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ ویڈیو دشنام طرازی کے لیے کسی امریکی اسٹوڈیو میں بنائی گئی ہو لیکن یہ حقیقت ضرور سامنے آئی ہے کہ ایران میں ایک 103سالہ خاتون کورونا وائرس کا شکار ہونے بعد صحت یاب ہوگئی حالانکہ بزرگ افراد کو اس مرض سے موت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ہندوستان میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں سے زیادہ تعداد ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والے نت نئے علاجوں اور ٹوٹکوں کی ہے۔ ان کو پڑھ کر بیک وقت ہنسی اور رونا دونوں آتا ہے۔ مثلاً ہریانہ حکومت کے برانڈ ایمبیسیڈر بابا رام دیو نے جڑی بوٹیوں کے ذریعے گھر پر ہینڈ سینیٹائزر بنانے کا مشورہ دے دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے جیلوئے نامی آیورویدک جڑی بوٹی، ہلدی اور تلسی کے پتے کے ذریعہ بھی کورونا وائرس سے بچاو کا انکشاف کیا جبکہ لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی پروفیسر سیلی بلوم فیلڈ کے مطابق سارے گھریلو ہینڈ سینیٹائزر بے فائدہ ہیں۔ بابا رام دیو جیسے جاہل شخص کو قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اپنی تقریبات میں مدعو کرتے ہیں۔ ہریانہ کے وزیرِ صحت انیل وِج نے کورونا سے بچنے کے لیے سبزی خوری اختیار کرنے کی ترغیب دی جبکہ انہیں کی جماعت سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے اس کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی افواہوں کے سبب انڈوں اور مرغی کی فروخت میں کمی ہو رہی ہے، انڈین حکومت کی فیکٹ چیکنگ سروس نے بھی اس دعوے کو مسترد کردیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکنِ پارلیمان سمن ہری پریا نے بابا رام دیو اور انیل وِج سے آگے نکل کر کہا کہ ’گائے کے گوبر سے کئی فوائد ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کورونا وائرس کو یہ ختم کر سکتا ہے۔ گائے کا پیشاب بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔‘جبکہ انڈین وائرولوجیکل سوسائٹی کے ڈاکٹر شیلندر سکسینا کے مطابق ’گائے کے پیشاب میں وائرس مخالف خصوصیات موجود ہونے کے حوالے سے کوئی طبی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس گوبر میں خود کورونا وائرس موجود ہو سکتا ہے اس لیے وہ خطرناک ہے۔ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے عوام بھی طبی ماہرین کے مقابلے سیاستدانوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اس لیے’مقامی گائیوں سے حاصل کردہ صاف کیے پیشاب‘ کا حامل ہینڈ سینیٹائزر آن لائن فروخت ہو رہا ہے۔ اس کے ڈیمانڈ کا اندازہ ویب پیج پر لکھےاس اعلان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’طلب میں اضافے کے سبب ہم فی صارف تعداد کو محدود کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہکوں تک یہ پروڈکٹ پہنچا سکیں۔‘ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ اگر ان خرافات پر اس قدر فریفتہ ہے تو عام لوگ کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں گئو موتر اور گوبر کے 500 روپیہ کلو کے بھاو سے فروخت ہونے کی خبر آچکی ہے۔
اس طرح کی توہم پرستی کو فروغ دینے کی غرض سے ’اکھل بھارت ہندو مہا سبھا‘ نے نئی دہلی میں ’کورونا وائرس‘ سے بچنے کے لیے ’گائے کا پیشاب پینے‘ کی پارٹی کا انعقاد کر دیا۔ ہندو مہا سبھا کے سربراہ سوامی چکرپانی مہاراج نے 4مارچ کو دعویٰ کیا تھا کہ ’گائے کا پیشاب پینے اور گوبر کھانے‘ سے ’کورونا وائرس‘ ختم ہوجاتا ہے۔ ہولی کے بعد ملک بھر میں ’گائے کے پیشاب‘ پینے کی پارٹیوں کے انعقاد کے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ پارٹی کا انعقاد کیا جس میں 200 مرد وخواتین نے شرکت کی۔ اس تقریب میں شریک لوگوں نے نہ صرف ’گائے کا پیشاب‘ پیا بلکہ یہ حیران کن دعویٰ کیا کہ ان میں سے اکثر گزشتہ 21سال سے ’گائے کے پیشاب پینے سمیت گائے کے گوبر سے نہاتے آ رہے ہیں اور اس وجہ سے انہیں کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی‘۔ اس طرح کے ماحول میں بعید نہیں کہ 2024کے انتخابات سے قبل چائے کے بجائے گوبر پر چرچا ہو اور گئو موتر سے ضیافت کی جائے۔
مغربی بنگال بی جے پی کے مقامی رہنما نارائن چٹر جی کو گائے کا پیشاب پینے کی تقریب سجانا مہنگا پڑ گیا کیونکہ وہاں نہ تو دہلی کی طرح شاہ جی کے تحت کام کرنے والی پولیس ہے اور نہ کیجریوال جیسا بزدل وزیر اعلیٰ ہے۔ بد قسمتی سے نارائن چٹرجی کے جشنِ گئو موتر میں شریک ایک رضا کار گائے کا پیشاب پی کر بیمار پڑ گیا۔ چنانچہ اس نے تھانے میں جاکر شکایت کردی اور چٹر جی کو پولس نے حراست میں لے لیا ۔ مغربی بنگال کو ایک ترقی یافتہ صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہیں سے اپنے تسلط کا آغاز کیا تھا۔ پہلی یونیورسٹی اسی صوبے میں بنائی۔ آزادی کے بعد یہاں پر ایک طویل عرصہ تک اشتراکیوں کی صوبائی حکومت رہی پھر بھی ضعیف الاعتقادی کا یہ حال ہے تو یو پی جیسے پسماندہ صوبوں کی حالتِ زار کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ان حرکتوں کے مقابلے مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے کی’گو کرونا گو‘ والی مضحکہ خیز ویڈیو بے ضرر ہونے کے سبب بہتر لگتی ہے۔اس تناظر میں ذرائع ابلاغ میں مصر کے کسی سابق رکن پارلیمان کا پیغام تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کورونا وائرس کے باعث اخلاقی اقدار کی واپسی نے عوام کو ان کے خالق سے ملایا ہے۔ اس نے نائٹ کلبوں، کوٹھوں اور جوئے خانوں کو بند کرادیا ہے۔ عرب ممالک نے شیشہ (تمباکو) پر پابندی عائد کر دی اور لوگوں کو مردہ اور حرام جانور کھانے سے روک دیا۔ یہ شرح سود میں کمی کا سبب بنا نیز فوجی اخراجات کا ایک تہائی حصہ صحت کی عامہ پر منتقل کر دیا (یہ بات مصر کے حوالے سے ہے)۔ اس سے آمروں کے اختیارات مجروح ہوئے۔ یہ حکام کی توجہ جیلوں اور قیدیوں کی جانب مبذول کر رہا ہے۔ اس نے انسانوں کو چھینک اور کھانسی کا نبوی طریقہ سکھایا ہے۔ ترقی اور ٹکنالوجی کو معبود بنالینے والے معبودِ حقیقی کی عبادت کرنے لگے ہیں۔ کورونا وائرس نے لوگوں کو فحش افعال سے روک کر گھر پر رہنے اور سادہ سی زندگی گزارنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ یہ غفلت سے بیدار کر کے رب کائنات سے مغفرت اور استعانت کے لیے دعا کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ اہل دانش کے لیے اس میں سامانِ عبرت ہے۔ لیکن اس پیغام کو سب لوگ نہیں سمجھ سکتے، وہ موت کو سامنے دیکھ کر بھی راہِ راست کو قبول نہیں کرتے۔ ہاں! کچھ لوگ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو اس قصے میں موجود سامانِ عبرت کو دل کی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور اپنی نجات کا سامان کرنے میں لگ جاتے ہیں۔

کورونا وائرس کے باعث اخلاقی اقدار کی واپسی نے عوام کو ان کے خالق سے ملا دیا ہے۔ اس نے نائٹ کلبوں، کوٹھوں اور جوئے خانوں کو بند کرادیا ہے۔ عرب ممالک نے شیشہ (تمباکو) پر پابندی عائد کر دی اور لوگوں کو مردہ اور حرام جانور کھانے سے روک دیا۔ یہ شرح سود میں کمی کا سبب بنا نیز فوجی اخراجات کا ایک تہائی حصہ صحت کی عامہ پر منتقل کر دیا (یہ بات مصر کے حوالے سے ہے)۔ اس سے آمروں کے اختیارات مجروح ہوئے۔ یہ حکام کی توجہ جیلوں اور قیدیوں کی جانب مبذول کر رہا ہے۔ اس نے انسانوں کو چھینک اور کھانسی کا نبوی ﷺطریقہ سکھایا ہے۔ ترقی اور ٹکنالوجی کو معبود بنالینے والے معبودِ حقیقی کی عبادت کرنے لگے ہیں۔ کورونا وائرس نے لوگوں کو فحش افعال سے روک کر گھر پر رہنے اور سادہ سی زندگی گزارنے کے لیے مجبور کیا ہے۔