کشمیر ایک حزنیہ داستان!

صبح نو کی آس میں تین دہائیاں گزر گئیں

ش م احمد کشمیر

 

اُس روز بھی صبح اپنے وقت پر طلوع ہوئی تھی۔ ابھی سویرا تھا، اس لیے زیادہ تر لوگ گھر کی حصار میں تھے ، کاروبار زندگی کی شروعات بھی مدہم تھی۔ یکایک شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور کے ماڈل ٹاؤن کی فضا میں ایک بڑا ارتعاش ہوا جس سے پوراعلاقہ لرز اُٹھا۔ پلک جھپکتے ہی سکوتِ صبح کا سماں غارت ہوا۔ فائرنگ کے سماعت شکن شور سے لوگ سہم گئے، گھبراہٹ نے دھڑکنیں بڑھا دیں، تشویش کی لہریں اورفکر مندی کی موجیں ہر شخص کو نیم جان کرتی رہیں۔ نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ساتھ بندوق برداروں کی مڈبھیڑاپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، عام کشمیری ایسی خون ریزیوں سے مانوسیت رکھتے ہیں۔ کسی بستی میں مسلح جھڑپ ہونا لوگوں کے واسطے ہمیشہ ایک ہی پیغام لاتی ہے کہ جائے وقوعہ میں اب کسی کی کوئی خیر نہیں۔ عمومی حالات میں وادی کشمیر کی کسی بستی ،بازار ، شہر یا دیہات میں بندوقوں کی گڑ گڑاہٹ سے پتہ چلتا ہے کہ فورسز اور ملی ٹینٹوں کے بیچ جھڑپ چھڑگئی ہے اور ہر جھڑپ اپنے پیچھے ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی ایک بھیانک کہانی ضرور چھوڑ جاتی ہے ۔ دو طرفہ گولی باری چاہے سرحد پر ہو یا کسی میدانی علاقے میں ، ہر حال میں یہ عوام الناس کے لیے اپنے ساتھ شامتیں اور قیامتیں ہی لاتی ہیں ۔
ماڈل ٹاؤن سوپور میں ۳۰/ جون کو اسی درد ناک کہانی کا اعادہ ہوا۔ یہاں کے رہائشیوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اُن کے گھر آنگن میں ایک ایسا المیہ وقوع پذیر ہونا طے ہے جس سے انسانیت کا کلیجہ پھٹ جائے، آدمیت کی چیخیں نکل جائیں ، آنسوؤں کا سیل رواں اُمڈ آئے ، غم والم کی گرم بازاری ہو، سوگواریت کی سیاہی چھا جائے ۔
چشم فلک نے ماڈل ٹاؤن میں صبح قریب سات بجے کشمیر کی خونین تاریخ کا ایک اور لہولہاں باب رقم ہوتا دیکھا ۔۔۔ ایک درد انگیز کہانی،ایک الم ناک منظر ، ایک ناقابل یقین المیہ کہ جس سے پوری وادی سوگواری کی دُھند میں ڈوب گئی ۔ میڈیائی تفصیلات کے مطابق بستی میں عسکریت پسندوں نے ایک مقامی مسجد کے اندرسے فورسز کی گشتی پارٹی پر گھات لگاکر حملہ کیا ۔ حملے میں سنٹرل ریزو پولیس کا ایک اہل کار موقع وارادت پر ہلاک ہوا جب کہ تین اہل کار زخمی ہوئے ۔ ابھی جھڑپ جاری تھی کہ بسُوئے اتفاق جائے وقوعہ سے مصطفیٰ آباد ایچ ایم ٹی سری نگر کے بشیر احمد خان نامی ایک ۶۵ سالہ ٹھیکیدار کا گزر ہو ا ، وہ اپنے کسی نجی کام سے گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ اُن کے ہمراہ فرنٹ سیٹ پر اُن کا تین سالہ پوتا بھی تھا۔ بشیر احمد کے بارے میں سرکاری طور دعویٰ کیا گیا کہ موصوف کراس فائرنگ کی نذر ہو کر ابدی نیند سو گئے ۔ ابھی یہ خون ریزجھڑپ جاری ہی تھی کہ اس کی خبریں اور تصویریں میڈیا اور سوشل میڈیا کے کاندھوں پر برق رفتاری کے ساتھ سفر کرتی ہوئی منٹوں میں پورے عالم میں پہنچ گئیں۔ ان سے اہل عالم کو پتہ چلاکہ سوپور میں کیا نئی قیامت بپا ہوئی ہے ۔
بشیر احمد خان کے حاشیۂ خیال میں نہ ہوگا کہ ماڈل ٹاؤن سوپور اُن کے سفرحیات کا آخری پڑاؤ ہے ۔ متعدد گولیاں لگنے سے وہ برسر موقع شہادت کی خونین قباپہن کر دنیا چھوڑ گئے۔ اس الم ناک واقعے کے بارے میں سرکاری طور کہا گیا کہ ماڈل ٹاؤن سوپور میں سی آر پی ایف کی گشتی پارٹی پر جنگجوؤں نے اچانک دھاوا بولا، اچانک حملے میں سی آر پی ایف کاایک اہل کار برسرموقع کام آگیا اور تین مضروب ہوئے۔ گشتی پارٹی نے پوزیشن سنبھالی اور دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہواجس کی زد میں آکر ایک سویلین بھی جان بحق ہوا ۔ ٹی وی چنلوں پر جھڑپ کی خبر میں یہ بات نمایاں طور فوٹیج کے ذریعے اُجاگر کی گئی کہ زبردست فائرنگ کے باوجود نیم فوجی جوانوں نے جان کی پروا نہ کرکے تین برس کے معصوم بچے کو بچا لیا ۔یہ انسانیت کی ایک اعلیٰ مثال ہے، مگر مارے گئے شہری کے اہل خانہ نے سانحہ کے بارے میں اس موقف کومسترد کر تے ہوئے فورسز پر الزام عائد کیا کہ بشیر احمد خان صاحب کو گاڑی سے اُتار گیا اور پھر اُن کے سینے میں گولیاں پیوست کی گئیں۔ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اس الزام کی سختی سے تردید کی اور سی آر پی ایف کو سوئیلین ہلاکت سے بری الذمہ قرار دیا۔ اپنے ردعمل میں نیشنل کانفرنس اور اپنی پارٹی وغیرہ سیاسی جماعتوں نے سوپور سانحہ کی بابت سرکاری موقف کو صحیح مانا نہ غلط کہا بلکہ گھسی پٹی روایت کی گردان کر تے ہوئے حکومت سے اس کی تحقیقات کر نے کا مطالبہ کیا۔ آج تک کشمیر میں ایسے درجنوں سانحات کی سرکاری انکوائریاں بٹھائی گئیں مگر نہ کبھی اُن کی رپورٹیں منظر عام پر لائی گئیں اور نہ کسی مجرم کی نشاندہی کر کے اسے عدالت کے کٹہرے سے کوئی سزاسنائی گئی ؎
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
بظاہر سوپور المیے کا نفس مضمون اتنا ہی کچھ ہے، لیکن اسے جو چیز حساس دل انسانوں کے زاویہ ٔنگاہ سے انسانیت کے منہ پر کرارا طمانچہ رسید کرتی ہے وہ شہید بشیر احمد کے معصوم پوتےکی وہ دلخراش تصویریں ہیں جنہیں کسی نامعلوم شخص نے کھینچا اور انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔ ان تصاویر نے کشمیری عوام کو اُسی طرح خون کے آنسو رُلا دیا جیسے کئی سال قبل شام کے اُس معصوم مہاجر بچے کی ساحل سمندر پر اوندھے منہ پڑی لاش سے عالم عرب اشک بار ہوا تھا، بلکہ وہ تصویر شامی مہاجرین کی اَن کہی بپتا کا استعارہ بن گئی تھی ۔ بہر صورت سوپور جھڑپ کے متاثرہ کشمیری بچے کی منہ بولتی تصویریں بزبان حال بتاتی ہیں کہ اِدھر گولیوں سے چھلنی اس کے دادا کی بے گور و کفن لاش سڑک پر دراز ہے ، اُدھر اس کا پھول چہرہ پوتا اپنے مرے ہوئے دادا کی چھاتی پر بیٹھاہے، شاید اس کو گہری نیند سے جگانے کے لیے ۔ رنج وغم اس بچے کے چہرے سے جھلک رہاہے ۔ یہ توجانتا ہی نہیں کہ اس کی معصوم دنیا لمحاتی کھیل میں لٹ چکی ہے ۔ معصوم وکم سن بچہ اپنے دادا کی ابدی جدائی کی حقیقت سے ناآشنا ہے۔ موت کیا ہے زندگی کیاہے، اُسے یہ باریکیاں پلے نہیں پڑ سکتیں ۔ بس یہ صرف سہما ہوا سا بچہ ہے جو خوف کے عالم میں لہو لہو منظر دیکھ کر بھی اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہے، تھر تھر کانپ رہا ہے ، بھیڑ میں تنہا ہے، بے دست وپا ہے، اور جو اس کو سینے سے لگا کر سہلاتا، اس کا درد وکرب کم کر تا، وہ زمین پر بے حس وحرکت پڑا ہے۔ ناقابل فہم خونی منظر سے نڈھال بچے کی ہچکیاں اور سسکیاں بند کر نے کے لیے پولیس نے اُسے چاکلیٹ اور ٹافیوں سے بہلایا مگر وہ خشک آنسو بہاتا رہا۔
وادی کشمیر کے بارے میں بھولے سے کبھی ایک بار بھی یہ دل خوش کن خبر نہیں آتی کہ آج یہاں کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہ ہوا ۔ ارباب سیاست اور اہل سلطنت جو چاہیں کہیں مگر عملی دنیا کی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور امن حسب سابق اجتماعِ ضدین ہیں۔ یہاں روز وردی پوشوں اور ملی ٹینٹوں کے درمیان مسلح جھڑپیں اور آتش و آہن کی برساتیں نئی زخم زخم کہانیوں کو جنم دیتی ہیں ، یہاں لاشیں گرتی ہیں ، یہاں جنازے اُٹھتے ہیں ، یہاں ماتم اور مرثیے ہوتے ہیں، یہاں نالہ وفغاں ،آہ وبکا ، چیخ وپکار ایک عام چیز بنی ہوئی ہے ۔ ایسے میں بشری حقوق نامساعد حالات کے بھینٹ نہ چڑھ جائیں یہ سوچنا بھی محال ہے ۔دنیا میں تمام خطہ ہائے مخاصمت کی حقیقت ہوبہو یہی ہوتی ہے اور یہ تلخ حقیقت کبھی سوپور جیسے المیوں کا روپ دھارن کرجاتی ہے اور کبھی برسوں پہلے وقوع پذیر کھٹوعہ کے آصفہ کی دلدوز کہانی کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
تصویر کا ایک رُخ یہ ہے کہ گزشتہ تیس سال سے وادی گلپوش میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ نافذالعمل ہے اوراس کی تنفیذ ہمیشہ خون آشامیوں کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ یہ خون تشنہ حالات کشمیر میں بتمام وکمال اب بھی پائے جاتے ہیں۔ ان گھمبیر حالات سے روز روز سامنا کرتے ہوئے عام کشمیریوں کے لیے یہ تمام ناقابل تصور قیامتیں معمولاتِ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ۔ لوگوں میں یہ ناگفتہ بہ حالات دیکھنے ، سننے اور سہنے کی عادت سی پڑگئی ہے ۔ گزشتہ تیس سال سے کشمیری سماج انہی کے درمیان غیر یقینی زندگی جیتے ہوئے شادی غمی سمیت تعلیمی ، معاشی اور سماجی مشاغل سر انجام دیتے آرہے ہیں ۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ بتاتا ہے کہ یہاں کی بالا دست سیاسی اور اقتداری قوتیں ماہ وسال سے جنت بے نظیر میں لامتناہی خوں بار سلسلہ روکنے اور امن کی بہاریں لوٹانے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے ، افسپا کو واپس لینے کے قول وقرار بھی ہوئے، تعمیر وترقی اور خوش حالی کے وعدے بھی کیے گئے ، نت نئے تجر بات کے دفاتر بھی کھولے گئے۔ ان سب بہلاؤں کے درمیان تاریخ نے وادی میں کئی کروٹیں بدلتی اور بہت ساری چیزیں بنتی بگڑتی دیکھیں مگر جو چیز دیکھنے کی حسرت رہی وہ یہ کہ یہاں مکمل اور پائیدار امن کبھی قائم نہ ہوا۔ سچ میں یہاں قیام امن ایک خواب وسراب ہی بنارہا۔۔۔ گریٹر آٹونومی کا وعدہ ، واجپائی کی لاہور بس یاترا ، انسانیت،کشمیریت اورجمہوریت کا نعرہ ، نوازشریف کا امن اعلامیہ، مشرف کا چار نکاتی فارمولہ، نصر اللہ خان جمالی کی جنگ بندی ، سہ رُکنی مصالحتی کمیٹی کاقیام، منموہن سنگھ کی گول میز کانفرنسیں، آٹھ ورکنگ گروپوں کی تشکیل، نوٹ بندی کا فرمان،’’ گولی سے نہ گالی سے کشمیر مسئلے کاحل کشمیری گلے لگانے میں‘‘ جیسا جاذب نظر نعرہ ، دفعہ ۳۷۰ کی تنسیخ، غیر ریاستی باشندوں میں ڈومسائل اسناد کی تقسیم وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تاریخ نے ہربار سر بر آوردہ لوگوں کی زبانی دل کے کانوں سے یہ دعوے سنے کہ اب کی بار کشمیر میں امن واَمان کی ہریالیاں ہوں گی ‘ تعمیرو ترقی کی پھلواریاں مہکیں گی مگر وائے ناکامی نہ نامساعدحالات کا محور آج تک بدلا، نہ امن وآشتی اور نارملسی کاسورج کبھی طلوع ہوا۔اس کے برعکس حسب سابقہ سلسلہ روز وشب کی گردش میں خون ریزیاں کشمیر یوں کا مقدر بنی رہیں۔ آج تک گردش لیل ونہار کی اسی آتشیں فضا میں کشمیر کی تین دہائیاں بھسم ہو گئیں ، لاتعداد پیر و جوان، خواتین ، بچے ، فورسز اہل کار، پولیس والے ابدی نیند سوگئے ، تباہیاں نوشتہ دیوار بن گئیں، آتش زنیاں اور آبرو ریزیاں اتنی بے حساب گویا یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہی نہیں رہے، عقوبت خانے اور زندان آباد ہوئے ، تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں ، معاشی سرگرمیاں مفقود ہوئیں ، بے روزگاری کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔اورنامساعدت کا یہ بدترین سلسلہ آج بھی ارض کشمیر میں شدومد سے جاری ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بے انتہا خون خرابہ اور بربادیوں کے باوجود آج کی تاریخ میں کشمیر میں امن جاگتے کا سپنا ہے ، کوئی کشمیری یقین اور وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اگلا لمحہ اُس کی زندگی میں کس عنوان سے نیا بھونچال ثابت ہو گا ، کون سی نئی بربادیاں اس کے تختی تقدیر میں رقم ہوں گی، حقوق البشر کی کثیر الاطراف پامالیاں کس کس مہیب شکل میں سامنے آئیں گی ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ماڈل ٹاؤن سوپور کا وہ بدترین المیہ ہے جو شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور میں وقوع پذیر ہوا ۔ قبل ازیں جنوبی کشمیر کے قصبہ بجبہاڑہ میں پیش آئے المیے میں بھی کراس فائرنگ میں ایک آٹھ سالہ بچہ کام آیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر میں امن اور انصاف کا سورج طلوع ہونا آخری کشمیری کے زندہ درگور ہونے تک موخر رہے گا یا کوئی ایسا ٹھوس لائحہ عمل بھی ترتیب پائے گا جو امن اورانسانیت کا پرچم بن کربہشت ارضی میں لہرائے ؟
(مضمون نگار کشمیر کے سینیر آزاد صحافی ہیں)
***

کیا کشمیر میں امن اور انصاف کا سورج طلوع ہونا آخری کشمیری کے زندہ درگور ہونے تک موخررہے گا یا کوئی ایسا ٹھوس لائحہ عمل بھی ترتیب پائے گا جو امن اورانسانیت کا پرچم بن کربہشت ِارضی میں لہرائے ؟