کشمیر:شخصیاتی ٹکراؤ کی رزم گاہ

دوستی سے لیڈروں کی دشمنی

ش م احمد، کشمیر

 

کشمیر کی سیاسی تاریخ کا ہنگامہ خیز دور 1931ء سے شروع ہوتا ہے۔ اس تاریخ کی بالاستیعاب ورق گردانی کیجیے تو آپ کو میر واعظانِ کشمیر کی پرچھائیاں سطر سطر سے چھلکتی نظر آئیں گی۔ شیخ محمد عبداللہ اور میر واعظ محمد یوسف شاہ کشمیر کے ہنگامہ خیز شب وروز کے دو کلیدی کردار تھے۔ کشمیریوں کے لیے ان دو اہم کرداروں کا ملن جتنا اُمید افزاء تھا اُتنی ہی ان کی جدائی خلفشار، ناامیدی اور مایوسی کا پیام بنی۔ ان دو کے ملنے اور بچھڑنے کی سرگزشت لمحوں میں بنی جس نے ماہ وسال تک اپنے کڑوے اثرات کی تخم ریزی کر کے کشمیر کی سیاست کو دو متوازی اور متحارب دھارے عنایت فرمائے۔
قوم سیاسی میدان میں’’شیر بکرا‘‘ کے نام سے موسوم یہ دھارے اہلِ کشمیر کے ماتھے پر ہمیشہ بدنما دھبے بن کر رہیں گے ۔’’شیر‘‘ شیخ عبداللہ کے حامیوں کا عرفی نام تھا اور’’ بکرے‘‘ میر واعظ کے عقیدت مندوں کی جماعت کہلاتی تھی۔ واضح رہے کہ شیخ عبداللہ کی شعلہ بیانی سے متاثر ہو کر اخبار ’’زمیندار‘‘ کے مدیر مولانا ظفر علی خان نے انہیں ’’شیر کشمیر‘‘ کے لقب سے یاد کیا جو آگے اُن کی سیاسی شخصیت کا جزو لاینفک بنا۔ اس دورِ ظلمت میں مسلمانوں کی مذہبی تقسیم بھی ہوئی۔ میر واعظ یوسف کے پیروکاروں کو ’’کوٹہ‘‘ اور میر واعظ مولوی عبداللہ ہمدانی کے مریدوں کو ’’ژیکہ‘‘ کا نام ملا۔ دونوں دھڑوں کو آپس میں لڑوانے کے لیے مہاراجی کارندوں نے خوب چالیں چلیں، حتیٰ کہ اپریل 1933ء کو عیدگاہ سری نگر میں عید نماز کی ادائیگی کا قضیہ کھڑا کر کے ان گروپوں کو آپس میں دست وگریباں کیاگیا۔ میر واعظ کشمیر کو اسی ماہ کی 27 تاریخ کو نقصِ امن کے الزام میں گرفتار کرکے ادھم پور جیل پہنچا دیا گیا۔ اس نازک مرحلے پر کشمیری مسلمانوں کا آپس میں دست وگریباں ہونا، تفرقہ اندازیوں میں پڑنا، منافرتوں اور شکوک و شبہات کا تختہ مشق بننا لیڈروں کے شخصیاتی ٹکراؤ کے چند ایک پھوڑے پھنسیاں ہیں جن پر ریاست کی تاریخ صدیوں کفِ افسوس ملتی رہے گی۔ ان تُند وتلخ حقیقتوں کا ایک سرسری جائزہ لینا یہاں مناسب رہے گا۔
قیامِ علی گڑھ کے بعد نئے خیالات، نئے ولولے، نئے خواب اور نئی اُمنگیں اپنے ساتھ لانے والے بلند قامت شیخ عبداللہ کو پہلے پہل میر واعظِ زمانہ کے ساتھ گرم جوشانہ تعلقات استوار کرنا پڑے۔ صحیح ترلفظوں میں انہیں میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ صاحب (فاضل دیوبند اور قرآن کریم کے کشمیری مترجم) کے دامنِ عقیدت میں پناہ لینا پڑی کیوں کہ کشمیر میں منبر ومحراب ہی ایک وسیلہ تھے جن کو استعمال کر کے وہ مسلمانوں میں متعارف ہو کر اپنی قیادت کا سکہ جما سکتے تھے۔ میر واعظ یوسف شاہ نے بھی بڑی کشادہ دلی کے ساتھ اُن کی پبلک لائف کا والہانہ استقبال کیا۔ شیخ صاحب کو عوام کے سامنے مرکزی جامع مسجد کے منبر سے پیش کر کے میر واعظ کا اُنہیں ’’میرا لیڈر‘‘ کہنا نوواردِ سیاست کو سُرخاب کے پر لگانے کے برابر تھا۔ اتفاقاً شیخ صاحب کو قدرت نے اثر انگیز لحن عطا کیا تھا۔ اس کی بدولت وہ قرآن خوانی اور کلام اقبال سے سامعین کے دل میں واقعی جادو جگاتے تھے۔ جامع مسجد اور خانقاہ معلیٰ کے منبر ومحراب سے آتشیں خطابات کر کر کے بہت جلد ’’ماسٹر عبداللہ‘‘ کے سیاسی بال وپر بڑی سرعت کے ساتھ نکلے۔ ایک بار اُن کی عوامی ساکھ بنی تو مزاج اور ترجیحات نے پلٹا کھایا اور بہت جلد شیخ اور میر واعظ کے مابین سیاسی رقابت، شخصیاتی ٹکراؤ اور نظریاتی اختلافات شروع ہوئے۔ شیخ نے حیلے بہانے کر کے میر واعظ سے اپنی راہ ورسم چھوڑتے ہوئے سیاست کاری کی جداگانہ شاہراہ پکڑ لی۔ مورخین متفق علیہ ہیں کہ شیخ کو عوام میں متعارف ہونے اور لوگوں کا اعتماد جیتنے کے لیے میر واعظ کے ساتھ ہاتھ ملانے کی مجبوری تھی، ورنہ ان دونوں کے طرز عمل اور فکری پرداخت میں پہلے دن سے بعدالمشرقین حائل تھا۔ اپنی آپ بیتی ’’آتشِ چنار‘‘ میں شیخ کا یہ اعتراف کہ ’’میر واعظ صاحبان کشمیر کی مذہبی اور مجلسی زندگی میں اہم مقام رکھتے تھے‘‘ اُن کی اسی مجبوری کا پتہ دیتا ہے۔ کشمیر کی زمینی حقیقت کو بر محل سمجھ کر انہوں نے میر واعظ کے ساتھ بظاہر دوستانہ بلکہ محبانہ رشتہ قائم کر کے جامع مسجد کا پلیٹ فارم اپنے سیاسی اُبھار کے لیے خوب خوب استعمال کیا۔ غور طلب ہے کہ ایک ہاتھ شیخ صاحب کشمیر میں میر واعظینِ کی مجلسی اور مذہبی زندگی میں اہمیت کی تصدیق کرتے ہیں، دوسرے ہاتھ یہ اسی آپ بیتی میں یہ کہہ کر میر واعظ کو بین الطورساقط الاعتبار گردانتے ہیں کہ’’ دربار میں بھی اُن (مراد میر واعظانِ کشمیر) کی پذیرائی تھی‘‘۔
’’دربار میں پذیرائی‘‘ سے یہاں اس کے علاوہ اور کیا مراد لیا جاسکتا ہے کہ میر واعظ مہاراجہ کے تئیں وفاداری کے عوض شاہی نذر ونیاز کا حق دار بنتا تھا۔ یہ بہتان میر واعظِ زمانہ کے ساتھ شیخ کی سیاسی رقابت کا شاخسانہ ہے یا فی الحقیقت کسی تاریخی سچائی پر دلالت کرتی ہے ایک تحقیق طلب موضوع ہے فی الحال ہم اسے کذب وافتراء سمجھنے میں حق بجانب ہیں کیوں کہ اس متنازعہ دعوے پر تاریخ خاموش ہے اور تحقیق ندارد۔ البتہ اس ضمن میں سنی فسانہ طرازی یہ ہے کہ 13؍ جولائی کے کشت وخون سے بیرون ریاست مظلوم کشمیری مسلمانوں کے ہمدرد اخبارات اور کئی معتبر کشمیری الاصل شخصیات نے مہاراجی ظلم و جبر کے خلاف رائے عامہ منظم کرنے کا جو بیڑہ پنجاب بھر میں اُٹھایا تھا اس کا توڑ کرنا شخصی راج کی سیاسی مجبوری تھی۔ اس کے لیے ریاستی انتظامیہ نے میر واعظ یوسف کو اپنے شیشے میں اُتارنے کے لیے تین مقامی رابطہ کاروں، مسمیان عبدالعزیز فاضلی، عمہ پنڈت اور مامہ پنڈت کے ذریعے میر واعظ اور مہاراجہ کے وزیر اعظم ہری کشن کول کے درمیان مؤخر الذکر کی سرکاری کوٹھی پر خفیہ ملاقات کا اہتمام کروایا۔ ہری کرشن نے مبینہ طور پر میر واعظ سے ایک برقیہ بنام وائسرائے ہند لکھوایا جس کا متن مفہوماً یہ تھا کہ کشمیر میں حالات پُرامن ہیں اور عوام الناس مہاراجہ کی حکمرانی سے خوش ہیں۔ اس کے صلے میں مہاراجی دربار کی طرف سے میر واعظ کو سالانہ چھ سو روپیہ نقد وظیفہ منظور اور ایک شال عطیہ دیا گیا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ’’آتشِ چنار‘‘ میں کسی دستاویز کا حوالہ دیے بغیر شیخ صاحب نے یہ حقارت آمیز ’’انکشاف‘‘ کر کے میر واعظ کا سیاسی رقیب ہونے کا ثبوت پیش کیا یا کسی پس پردہ حقیقت کو منصہ شہود پر لایا اس پر وثوق واعتماد سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ بادی النظر میں یہ محض ایک تہمت ہے کیونکہ اور چیزوں کے علاوہ یہ حقیقت دن کے اُجالے کی طرح روشن ہے کہ میر واعظ یوسف صاحب سیم وزر والے نہ تھے بلکہ سادہ اور درویشانہ زندگی میں نمونہ اسلاف مانے جاتے تھے۔ بڑے بزرگوں کی سنیں تو آپ طبعاً قلندر اور مزاجاً بذلہ سنج تھے، البتہ سیاسی تگڈم بازیوں سے ناواقفِ محض تھے۔ بہرکیف شیخ صاحب کی یہ تہمت آج تک متنازعہ فیہ ہے کیوں کہ نہ اس کے پشت کوئی تاریخی سند ہے اور نہ کسی آزاد ذریعے سے اس کی چھان پھٹک ہوئی ہے۔ بنا بریں ایک اہانت آمیز جملہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں کشمیر کہانی کا وہ درد چھپا ہوا ہے جس کی پرتیں کھولیے تو معلوم ہو گا کہ برصغیر کی سیاسی تقدیر سنورنے کے فیصلہ کن مرحلے پر کشمیری مسلمانوں کا ملّی اتحاد کس طرح پارہ پارہ کیا گیا۔ انہیں متحد الفکر ہونے کے برعکس خود قیادت کے ہاتھوں دو متوازی سیاسی دھاروں میں کس طرح سے بانٹ دیا گیا کہ آج تک گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔
شیخ اور میر واعظ کے مابین بدمزگیاں 13؍ جولائی کے صرف چار ماہ بعد ہی منظر عام پر آنے لگی تھیں۔ 12؍ نومبر 1931ء کو مہاراجہ ہر ی سنگھ نے کشمیرکی مسلم رعایا کی شکایات اور مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے گلینکسی کمیشن کا قیام عمل میں لایا۔ شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھی تازہ تازہ ہی جیل سے مچلکہ پر رہا ہوئے تھے اور رہائی کی شرط یہ تھی کہ یہ لوگ سیاست سے خود کو باز کھیں گے۔ میر واعظ نے شیخ کی مدبرانہ فہمائش کی کہ حالات میں بہتری آنے تک وہ خود کو سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھیں۔ اس فہمائش پر شیخ مشتعل ہی نہ ہوئے بلکہ انہوں نے محسوس کیا کہ میر واعظ اور مہاراجہ کے درمیان کوئی اندورنی ساز باز ہے۔ انہوں نے حکومت مخالف آتشیں تقریروں کا سلسلہ جاری رکھا۔ میر واعظ سے شیخ کا یہ ’’باغیانہ‘‘ طور طریقہ برداشت نہ ہوا۔ انہوں نے سری نگر شہر خاص میں واقع گاڑہ یار مسجد میں اپنی ایک مجلسِ وعظ کے دوران سامعین سے کہا کہ کچھ ’’بے داڑھی لوگ‘‘ مرزائیوں کے ایجنٹ بن کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی اگر چہ شیخ نے اپنے چہرے پر داڑھی سجائی مگر ایک قلیل مدت کے بعد یہ پھر ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئی۔ اس صورت حال میں شخصیاتی ٹکراؤ کی سرد جنگ کا آغاز ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ رقابت کی ان آہٹوں کو سنتے ہی میر واعظ کے ایک اور حریف مذہبی رہنما مولانا احمد اللہ ہمدانی نے شیخ عبداللہ کی مکمل حمایت کا پرچم تھاما۔
کشمیر میں میر واعظ ایک اہم ترین مذہبی منصب کا نام ہے جو سکھ اور ڈوگرہ حکومتوں سے لے کر آج تک عزت ومنزلت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ میر واعظ خانوادے کی خدمات وعظ وتبلیغ، اصلاح و تزکیہ، تعلیم وتدریس تک محدود رہی ہیں مگر تحریکِ آزادی ہند کی تیز گام لہروں نے جونہی کشمیر کی خاموش فضاؤں کا سکوت توڑنا شروع کیا تو یہ بات بعید ازفہم تھی کہ جنت نظیر کا ایک اہم دینی گھرانہ اس پیش رفت سے لا تعلق رہے اور عصری سماجی وسیاسی مسائل کے حوالے سے کوئی ٹھوس موقف اختیار نہ کرے؟ یہ اس لیے بھی بالخصوص ناممکن تھا کیونکہ حسنِ اتفاق سے میر واعظ خاندان کے چشم وچراغ مولوی محمد یوسف شاہ صاحب اسی پُر آشوب دور میں بھی ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم رہے تھے جہاں ان کو ملکی سیاست کے زیر وبم سے آشنائی ہوتی رہی تھی۔ وہ اپنے گھرانے کے واحد میر واعظ تھے جنہوں نے دیوبند میں آٹھ سال تک سنداً علوم اسلامیہ کی تحصیل کی۔ انہیں علامہ اقبال کے مربی ومرشد مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا شبیر احمد عثمانی کا شاگردِ رشید ہونے کے علاوہ مولانا قاری طیب، مولانا بدر عالم میرٹھی (صاحبِ ’’ترجمان السنۃ‘‘) مولانا منظور نعمانی جیسی برگزیدہ دینی شخصیات کا ہم درس ہونے کا شرف بھی حاصل رہا۔ دارالعلوم میں اپنے طالب علمی کے زمانے میں میر واعظ یوسف نے جہاں قرآنیات، حدیث، فقہ اور فلسفہ میں عالمانہ وفاضلانہ درک حاصل کیا، وہیں اُن کے ذہن رسا نے آزادی وطن کے حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کی انگریزوں کے خلاف مردانہ وار جدوجہد آزادی کا نظارہ بھی کیا تھا نیز، زمانے کے جید علماء کے ساتھ نشست وبرخواست اور مراسم نے خانوادہ میر واعظ کے فکری اور سیاسی تدبر وبصیرت کو جلا بخشی تھی۔ چنانچہ دیوبند سے فراغت کے بعد واپس وطن مالوف لوٹے تو ریاست کے قد آور مذہبی رہنما ہونے کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سیاسی لہروں کی صدائے بازگشت بھی اپنے ہم وطنوں کو سنائی جو برطانوی ہند میں ان دنوں زوروں پر تھی۔ ان دنوں تحریکِ خلافت ہندوستان میں اپنے عروج پر تھی۔ گاندھی جی کی قیادت میں جاری اس تحریک میں علمائے اسلام اور طلبائے دیوبند بھی شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ اسی کا عیاں وبیاں اثر یہ تھا کہ میر واعظ یوسف شاہ صاحب نے کشمیر میں بھی خلافت کمیٹی کا قیام عمل میں لایا مگر کمیٹی تحریک کی غایت اولیٰ سے لاعلمیت کے سبب کوئی خاطر خواہ نتیجہ پیدا کیے بغیر پس منظر میں چلی گئی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ میر واعظ نے جدید دور کے چلن کا تقاضا سمجھتے ہوئے کشمیریوں کے جذبات واحساسات کو اظہار کی زبان دینے کے لیے ایک پریس خرید لیا اور ’’الاسلام‘‘ کے نام سے ایک جریدہ جاری کیا۔
کشمیر میں شخصی راج کے زیرِ سایہ قتل وغارت گری، قید وبند اور لوٹ مار کی وارداتوں نے مقامی سیاست کا رُخ یکسر بدلا تھا اور عوامی جذبات کو ایک نئی منزل پر گامزن کیا تھا۔ حالات کے اس بدلتے رُخ کے تناظر میں ہندوستان کی تحریک آزادی میں مذہبی گروہ اور سرکردہ سیاسی وعلمی شخصیات نے کشمیر میں گہری دلچسپی لینا شروع کیا تھا۔ خاص کر پنجاب میں رہ رہی کشمیری الاصل آبادی کشمیر کا درد وکرب اُجاگر کرنے تن من دھن سے جھٹ گئی تھی۔ مرزائیوں اور تحریکِ احرار نے بھی پیش قدمی کر کے مسلم اکثریتی کشمیر میں اپنی سرگرمیوں کا جال بچھانے کی منصوبہ بندی کر ڈالی۔ قادیانیوں نے برصغیر میں تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال کو بروقت بھانپتے ہوئے شملہ میں جولائی 1931ء کو ’’کشمیر کمیٹی‘‘ قائم کی۔ اس کا صدر مرزائیوں کا خلیفہ بشیرالدین بنا اور سکریٹری خواجہ عبدالرحیم دردؔ بنا۔ اس میں علامہ اقبال بھی شامل ہوگئے (اقبال کااحوال آگے آئے گا)۔ تحریکِ احرار نے اپنے جتھے کشمیریوں کے دفاع میں عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں احراری سوچیت گڑھ کے راستے کشمیر میں روانہ کیے۔ کانگریس کے چوٹی کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد بھی یکم اگست 1931ء کو واردِ کشمیر ہوئے اور جیلوں میں بند مسلم لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے سیاسی اثر ورسوخ کا یہ نتیجہ نکلا کہ سیاسی قیدیوں کو ان کی آمد کے 21؍ دن کے اندر رہائی ملی۔
( ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں)

کشمیر کی سیاسی تاریخ کا ہنگامہ خیز دور 1931ء سے شروع ہوتا ہے۔ اس تاریخ کی بالاستیعاب ورق گردانی کیجیے تو آپ کو میر واعظانِ کشمیر کی پرچھائیاں سطر سطر سے چھلکتی نظر آئیں گی۔ شیخ محمد عبداللہ اور میر واعظ محمد یوسف شاہ کشمیر کے ہنگامہ خیز شب وروز کے دو کلیدی کردار تھے۔ کشمیریوں کے لیے ان دو اہم کرداروں کا ملن جتنا اُمید افزاء تھا اُتنی ہی ان کی جدائی خلفشار، ناامیدی اور مایوسی کا پیام بنی۔ ان دو کے ملنے اور بچھڑنے کی سرگزشت لمحوں میں بنی جس نے ماہ وسال تک اپنے کڑوے اثرات کی تخم ریزی کر کے کشمیر کی سیاست کو دو متوازی اور متحارب دھارے عنایت فرمائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020