صحافت، جمہوریت، سیاست اور مقدمات

صحافیوں پر ظلم و ستم۔۔سب یاد رکھا جائے گا

ذیشان آزاد۔ دھنباد، جھارکھنڈ۔

 

صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے جس میں ‎آزادی اظہار رائے بنیادی آئینی حق ہے۔ اسے سلب کرنا آئین سے غداری کے مترادف ہے۔ لیکن اس کے برعکس بھارت میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر طرح طرح کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولیس سیاست دانوں کو خوش کرنے کے لیے بغاوت کے قانونی دفعہ کا استعمال کرتی ہے۔ حکومت بھی اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے اسی دفعہ کا سہارا لیتی ہے۔ حال ہی میں ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کی پولیس نے ایک نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹر دھول پٹیل کو ایک مضمون شائع کرنے پر حراست میں لے لیا۔ دھول پٹیل کے خلاف غداری (Sedition) کا مقدمہ درج کیا گیا۔ وہیں نئی دلی پولیس نے دہلی اقلیتی کمیشن کے صدر نشین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف کویت کی حکومت کے ایک خط کی تائید کرنے اور اسے فیس بک پر پوسٹ کرنے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا۔ اس خط میں فروری میں ہونے والے دلی فسادات کے حوالے سے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق آسام کے ایک اپوزیشن رکن اسمبلی امین الاسلام کو قرنطینہ مراکز کے سلسلے میں مبینہ طور پر فرقہ وارانہ بیان بازی کرنے پر گرفتار کیا گیا اور ان پر بھی بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے۔ امین الاسلام نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’آسام میں قرنطینہ مراکز کے حالات حراستی مراکز سے بھی بدتر ہیں‘‘ انہوں نے ریاست کی حکومت پر مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔ گزشتہ 3 ستمبر کو غداری کے الزام میں گرفتار ایک صحافی کو عبوری ضمانت دیتے ہوئے اتر اکھنڈ ہائی کورٹ نے بغاوت کا معاملہ درج کرنے کے تعلق سے ریاستی حکومت کو ایک حلفیہ جواب داخل کرنے کے لیے کہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جسٹس روندر میتھانی کی بنچ صحافی راجیش شرما کی عرضی پر سنوائی کر رہی تھی، جن کے اوپر آئی پی سی کی دفعہ 420 (دھوکہ دہی) 467 (سلامتی کے نظریے سے اہم دستاویز سے جعل سازی) 468 (دھوکہ دہی کے مقصد سے جعلی دستاویزات بنانا) اور 471 (کسی فرضی دستاویز یا الکٹرانک ریکارڈ کو اصل کے بطور پیش کرنا) 120-بی (مجرمانہ سازش) اور 124-اے (سیڈیشن) کے تحت دہرادون کے نہرو کالونی پولیس اسٹیشن میں معاملہ درج کیا گیا تھا جو کہ ‎آزادی اظہار رائے کا خون تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق راجیش شرما کی گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے عدالت نے پوچھا کہ کیا عرضی گزار کے خلاف ایف آئی آر میں کوئی غیر معمولی معاملہ ہے؟ کیا عرضی گزار کے خلاف جعل سازی کے بارے میں کوئی غیر معمولی الزامات ہیں؟ اور اگر ہیں تو وہ کیا ہیں؟ کون سے دستاویز جعلی تھے؟ کون سے جعلی دستاویز اصل کے طور پر استعمال کیے گئے تھے؟ عدالت نے آگے کہا ‘زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کیس میں آئی پی سی کی دفعہ 124-اے (Sedition) کو کیسے جوڑا گیا؟ بحث کے لیے اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ کسی اعلیٰ افسر کے خلاف کچھ الزام لگائے گئے تھے تب بھی کیا یہ غداری ہوگی جو کہ آئی پی سی کی دفعہ 124-اے کے تحت قابل سزا ہے؟ ریاست اتنی جلد بازی میں کیوں تھی؟ کیا یہ ریاست کا ایک ظالمانہ ہاتھ ہے جو کام کر رہا ہے؟ غرض اس ضمن میں کئی سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔
دفعہ 124 کیا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون برطانوی دورِ حکومت میں وضع کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا تھا جو حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ بھارتی آئین میں اسے دفعہ 124 اے کہا جاتا ہے،اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل سے حکومتِ ہند کے خلاف نفرت پیدا کرنے، اہانت کرنے یا مشتعل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف مذکورہ دفعہ کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔ عدم وفاداری اور دشمنی کے جذبات رکھنا بھی اسی دفعہ کے تحت آتے ہیں۔
یہ ایک غیر ضمانتی جرم ہے یعنی اس کے تحت گرفتار کیے جانے والے کی ضمانت نہیں ہوتی۔ دفعہ 124 اے کے تحت اگر کسی کو مجرم گردانا جاتا ہے تو اسے تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔
اس دفعہ کے تحت اگر کسی کو سزا سنائی جاتی ہے تو وہ سرکاری ملازمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کا پاسپورٹ ضبط کر لیا جاتا ہے اور بوقت ضرورت اسے عدالت میں حاضری دینا ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے متعدد فیصلوں میں یہ بات کہہ چکی ہے کہ بھارت کے خلاف کچھ نعرے یا علیحدگی پسندی کے نعرے بغاوت کی دفعہ کے استعمال کا سبب نہیں بن سکتے۔ البتہ اگر کوئی حکومت کو گرانے کے لیے پر تشدد کارروائیاں کرتا ہے تب یہ دفعہ استعمال ہو سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ صرف حکومت پر تنقید کرنا اور اس کے کسی فیصلے کی مخالفت کرنا بغاوت نہیں ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق 2014 میں بغاوت کی دفعہ کے تحت 47 مقدمات درج کیے گئے تھے جو 2018 میں بڑھ کر 70 ہو گئے۔ ریاست جھار کھنڈ اور آسام میں قانون کی اس دفعہ کے تحت زیادہ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
غداری (Sedition) کے الزام پر
ونود دوا کا موقف
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق 2016 سے اب تک صرف چار مقدمات میں ہی عدالتوں نے ملزمان کو سزا سنائی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت میں بغاوت کے الزام کو کوئی ٹھوس قانونی بنیاد حاصل نہیں ہے۔ آئین میں اظہارِ خیال کی آزادی کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت کی جانب سے لگائے گئے الزامات سارے پھسپھسے ثابت ہوتے ہیں فی الحال آپ انگلیوں میں نام گن سکتے ہیں جو حکومت کے خلاف مستقل آواز بلند کرتے رہتے ہیں جن میں ایک نام ونود دُوا کا بھی ہے۔ ہماچل پردیش کے ایک بی جے پی رہنما کی شکایت پر ونود دُوا پر فرضی خبریں پھیلانے اور وزیر اعظم کے خلاف توہین آمیز لفظوں کا استعمال کرنے کےالزام میں سیڈیشن سمیت کئی دفعات میں کیس درج کیا گیا ہے۔ ونود دُوا نے عدالت میں کہا کہ اگر وہ وزیر اعظم کی تنقید کرتے ہیں تو یہ سرکار کی تنقید کے دائرے میں نہیں آتا۔ وہیں ونود دُوا نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ میڈیا کے خلاف ایک نیا رجحان شروع ہوا ہے، جہاں ریاستی سرکاریں اپنے سیاسی نظریات سے میل نہ کھانے والے بالخصوص نشریاتی مواد پر میڈیا کے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کراتی ہیں جو خاص طور پر انہیں ہراساں کرنے کے لیے اور انہیں ڈرانے کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ سرکار کے سامنے جھک جائیں یا پولیس کی کارروائی کا سامنا کریں۔
ونود دُوا کی بات کچھ حد صحیح بھی معلوم ہوتی ہے حال ہی میں ’الٹ نیوز‘ (Alt News) کےشریک بانی کے خلاف بھی یہی ہوا۔ محمد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کی شکایت پر زبیر کے خلاف آئی ٹی ایکٹ اور پاکسو (pocso ) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ جگ ظاہر ہے کہ ’الٹ نیوز‘ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرتا ہے، فرضی خبروں کے بخیے ادھیڑتا ہے اور سب بڑھ کر معاشرے میں افواہوں کے شعلوں کو بجھانے کی پوری کوشش کرتا ہے جو کہ حکومت وقت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ محمد زبیر کے خلاف این سی پی سی آر کو بھیجی گئی شکایت میں نابالغ لڑکی اور اس کے دادا کی تصویر والے ایک ٹوئٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کو چھ اگست کو محمد زبیر نے مبینہ طور پر بچی کے باپ کے ساتھ آن لائن بحث ہونے کے بعد شیئر کیا تھا۔ حالانکہ تصویر میں لڑکی کا چہرہ دھندلا (Blurr) کر دیا گیا تھا لیکن شکایت گزارنے کہا کہ اس کی پہچان اجاگر ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے دادا کا چہرہ پہچانا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ’الٹ نیوز‘ کے شریک بانی پرتیک سنہا کا کہنا ہے کہ ’’ محمد زبیر نے صرف بد سلوکی کرنے والے شخص کی تصویر کو سامنے رکھ کر جواباً کچھ تبصرے کیے تھے جو کہ بالکل جائز تھے لیکن جان بوجھ کر ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔ وہیں پرتیک سنہا نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر #IStandWithZubair کے نام سے ہیش ٹیگ بھی عام کیا جو کہ ایک وقت میں نمبر ون ٹریڈنگ پر چل رہا تھا۔ حال ہی میں محمد زبیر کی ایف آئی آر رد کرنے کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر سنوائی کرتے ہوئے دلی ہائی کورٹ نے عبوری تحفظات فراہم کیا ہے۔ وہیں دلی حکومت نے ڈپٹی کمشنر پولیس اور سائبر سیل کو اس معاملے میں کی گئی جانچ کی اسٹیٹس رپورٹ آٹھ ہفتوں کے اندر داخل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
جمہوریت کی بقا، عوامی مسائل کے حل، مظلوموں، غریبوں اور کمزوروں کی مدد میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ میڈیا کا مطلب ہوتا ہے عوام تک حقائق پہنچانا، صحیح معلومات فراہم کرنا اور سچائی پر مبنی خبروں کو نشر کرنا۔ لیکن خاص طور پر مین اسٹریم میڈیا صحافت کے اصولوں پر کار بند نہیں ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ پرتیک سنہا اور محمد زبیر جیسے انجینئرنگ بیک گراونڈ سے آنے والوں نے نام نہاد صحافیوں کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔ درباری صحافیوں کو الگ کر دیا جائے تو تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ صحافیوں نے ہمیشہ اس پیشے میں ایمانداری سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ میڈیا کو غیر جانبدار رکھا ہے۔ ایمر جنسی کے زمانے میں بھی میڈیا نے اپنے کردار سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ لیکن 2014 کے بعد حالات بدل گئے ہیں آج کل صحافت سے وابستہ اکثر افراد حکمراں طبقے سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے والے کے طور پر اپنے کردار کو نہیں دیکھتے۔ اگر وہ خود سسٹم کا حصہ بن جائیں گے تو وہ ان سے سوال کیسے پوچھیں گے؟
امیش دیوگن اور ارنب گو سوامی
حال ہی میں صحافی کہے جانے والے، ری پبلک ٹی وی چینل کے ایڈیٹر ان چیف اور مالک أرنب گوسوامی پر مہاراشٹر میں دو سادھوؤں کی ماب لنچنگ کے واقعے پر اپنے ٹی وی شو میں ڈیبیٹ کے دوران مذہبی منافرت بھڑکانے اور پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کے خلاف ‘انتہائی نازیبا کلمات‘ استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک کی مختلف ریاستوں میں معاملہ درج کرایا گیا اور گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ادھر ہر ڈیبیٹ میں ارنب گوسوامی مہاراشٹرا حکومت کو چیلنج کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کا نام لے کر للکارتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بولنے کی آزادی میں آئے گا لیکن سوال یہ کہ کھلے عام سونیا گاندھی کے خلاف قابل اعتراض کلمات استعمال کرنا کہاں تک درست ہے؟ جہاں تک رہی بات امیش دیوگن کی تو صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے خلاف اپنے مبینہ ہتک آمیز بیانات پر درج ایک سے زیادہ ایف آئی آرز میں کسی بھی زبردستی کی کارروائی سے ٹی وی اینکر امیش دیوگن کو دی جانے والی عبوری تحفظ میں پھر توسیع کر دی گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے مزید کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات بھی ابھی معطل رہیں گی۔ اس سے قبل 8 جولائی اور 26 جون کو بھی سپریم کورٹ نے امیش دیوگن کے خلاف کسی بھی سخت کارروائی پر روک لگا دی تھی۔ واضح ہو کہ امیش دیوگن کے خلاف دائر ایف آئی آر میں اس پر مسلم برادری کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگایا گیا تھا جب اس نے مبینہ طور پر 15 جون کو اپنے شو میں صوفی بزرگ کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے تھے۔ الزام لگایا گیا تھا کہ امیش دیوگن نے بزرگ صوفی کے لیے لفظ ’’لٹیرا‘‘ استعمال کیا ہے۔ تاہم نیوز اینکر نے 17 جون کو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دراصل مسلم حکمران علاءالدین خلجی کا ذکر کر رہا تھا اور اس نے چشتی کا نام غلطی سے لیا۔سدرشن ٹی وی، ایک ایسا ٹی وی چینل ہے جسے زیادہ تر لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے جو ملک میں باضابطہ نفرت کے کاروبار میں لگا ہوا ہے۔ حالیہ دنوں نوکر شاہی جہاد (UPSCJihad) کے نام سے اپنے ’بنداس بول‘ پروگرام کے لیے جاری کیے گئے پرومو پر دلی ہائی کورٹ نے روک لگا دی تھی جب کہ سپریم کورٹ نے پروگرام پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہیں دس ستمبر کو دلی ہائی کورٹ نے بھی ’بنداس بول‘ کو نشر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے جواب مانگا تھا لیکن حکومت کو اس نفرت انگیز پروگرام سے کوئی شکایت نہیں ہے چنانچہ اس نے اسے گرین سگنل دے دیا ہے۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کے خلاف بولنے والے صحافیوں پر مختلف دفعات کے تحت خاص طور پر سڈیشن چارج کیوں لگائے جاتے ہیں جب کہ حکومت کی آواز سے آواز ملانے والے صحافیوں کو مستقل تحفظات کیوں فراہم کیے جاتے ہیں؟
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
بلکہ دیکھا تو یہ بھی گیا ہے کہ
‘وہ قتل بھی کرتے ہیں تو پا جاتے ہیں انعام

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020