کسان احتجاج: مرکز نے کسان یونینوں کے ساتھ مذاکرات کے دسویں اجلاس کو 20 جنوری تک ملتوی کیا

نئی دہلی، جنوری 19: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق حکومت نے پیر کے روز کسان یونینوں کے ساتھ زراعت کے نئے قوانین پر دسویں دور کی بات چیت 20 جنوری تک ملتوی کردی۔ اس سے قبل یہ اجلاس آج 19 جنوری کو 12 بجے دہلی کے وگیان بھون میں ہونا تھا۔

حکومت اور کسانوں کے مابین گذشتہ نو دور کی بات چیت کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہونے میں ناکام رہا ہے، کیوں کہ کسان یونینیں نئے قوانین کو منسوخ کرنے کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں، جب کہ حکومت نے اس سے انکار کردیا ہے اور صرف ترمیم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

دریں اثنا اس تعطل کو حل کرنے کے تشکیل دیے گئے سپریم کورٹ کے مقرر کردہ پینل کا پہلا اجلاس آج ہوگا۔

اس سے قبل پیر کے روز مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا تھا کہ اس معاملے پر تعطل اس وجہ سے جاری ہے کہ کسان یونینیں نئے قوانین کی ان دفعات پر بات چیت کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں جن کے وہ مخالف ہیں۔

تومر نے مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر میں نامہ نگاروں کو بتایا ’’ہم تینوں قوانین سے متعلق امور پر کھلے ذہن کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن وہ (کسان یونینیں) ان شرائط پر بحث نہیں کر رہی ہیں اور اسی وجہ سے تعطل جاری ہے۔‘‘

وزیر زراعت نے اعادہ کیا کہ مرکز بات چیت اور دفعات میں ترمیم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ دونوں فریقین کے مابین معاملے کے حل کے لیے پرامید ہیں۔

پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق 26 جنوری کو کسانوں کی جانب سے ٹریکٹر ریلی کے اعلان کے بارے میں تومر نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ مظاہرین یوم جمہوریہ کی روایت کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ اگر حکومت نئے قوانین کو منسوخ نہیں کرتی ہے تو کسانوں نے یوم جمہوریہ کی تقریبات کے دوران ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دریں اثنا وزیر مملکت برائے زراعت پرشوتم روپالہ نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ اگر کسانوں نے یونینوں کے ذریعہ نہیں بلکہ حکومت سے براہ راست بات کی تو کوئی حل نکل سکتا ہے۔

دوسری جانب بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ کسان تنظیمیں منگل کو ہونے والی میٹنگ میں کوئی حل نکل آنے کی امید میں نہیں تھیں لیکن وہ احتجاج جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کسان جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ اتنی جلدی حل نہیں ہوگا اور یہ ایک یا دو ماہ مزید طویل ہوسکتا ہے۔