کسانوں کی خودکشیاں اور حکومت کی بے حسی

زرعی شعبہ کی آمدنی میں اضافہ کے ذریعہ معیشت کو سہارا دینے کی ضرورت

زعیم الدین احمد، حیدر آباد

 

کسان کو ہمارے ملک بھارت میں ’ان داتا‘ کہا جاتا ہے یعنی کھانا دینے والا۔ کسان کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی کی محنتوں سے عوام کو اناج بہم پہنچتا ہے۔ انہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ ہمیں آج بڑی آسانی کے ساتھ ہر قسم کی غذائی اشیاء دستیاب ہیں۔ چاہے وہ اناج ہو پھل ہوں یا ترکاریاں ہوں یہی کسان اپنے کھیتوں میں رات دن محنت کرتے ہیں تبھی یہ تمام اشیاء ہمیں بازار میں ملتی ہیں۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق ملک کی جملہ آبادی کی تقریباً 69 فیصد یعنی 833.7ملین آبادی دیہی علاقوں میں بستی ہے جس میں 481.9ملین افراد دیہی مزدور پیشہ ہیں۔ ان مزدور پیشہ افراد میں سے تقریباً 263.1 ملین یا 54.6 فیصد لوگ زراعت پیشہ ہیں۔ ان میں سے اکثر یعنی 144.3ملین یا تقریباً 55فیصد افراد زرعی مزدور ہیں اور باقی 118.8 ملین کاشتکار یا زمین دار ہیں۔ ان اعداد و شمارسے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کا زرعی شعبہ کس قدر وسیع ہے اس بڑے شعبہ کا گراس ویلیو ایڈڈ (جی وی اے) میں زراعت اور اس سے وابستہ چیزوں کا حصہ بہت ہی کم ہے جو صرف 14.82 فیصد ہے۔ درحقیقت یہ اعداد و شمار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس شعبہ کو اولین ترجیح دی جائے۔ کسانوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو روبہ عمل لاتے ہوئے زرعی شعبہ میں مصروف افراد کی آمدنیوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس کے ذریعہ سے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا مل سکے۔
موجودہ بی جے پی حکومت نے اپنے انتخابی وعدوں اور منشور میں کسانوں کی آمدنی اور ان کی پیداواری صلاحیت کو دوگنا کرنے کا ذکر کیا تھا۔ زراعت اور ٹکنالوجی کے مابین ہم آہنگی پیدا کر کے اس شعبہ کو جدید بنانے اور زرعی شعبہ میں 25 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنے کی بات بھی کہی گئی تھی لیکن وقت کا تعین نہیں کیا گیا کہ کتنے سالوں میں یہ سرمایہ کاری کریں گے کس طرح یہ سرمایہ کاری کی جائے گی وغیرہ۔ افسوس کہ بی جے پی ان وعدوں کو بھول گئی اور اپنا کوئی وعدہ وفا نہ کر سکی۔ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے نشہ میں اس قدر مغرور ہو گئی ہے کہ اس کے پاس کسانوں کے بنیادی مسائل سننے کا وقت بھی نہیں ہے۔ گزشتہ چھ سالوں میں کسانوں کی جس قدر بُری حالت ہوئی ہے اس کی سابق میں نظیر نہیں ملتی۔ ہر روز کسان کسی نہ کسی سطح پر احتجاج کر رہے ہیں۔ چاہے وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، شمال کے ہوں یا جنوب کے۔ ملک کے کسان پریشان حال ہیں وہ اپنی تکالیف حکومت کو سنانا چاہتے ہیں لیکن حکومت ہے کہ اقتدار کے نشہ میں بد مست ہو کر کمبھ کرن کی نیند سو رہی ہے۔ ان کے مسائل کی عدم یکسوئی سے ان کے اندر اپنی زندگی کو ختم کرنے جیسے خطر ناک رجحانات پیدا ہو رہے ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسان خود کشی کرتا جا رہا ہے۔
موجودہ حکومت کسانوں کی بڑی مسیحا بنتی تھی لیکن گزشتہ چھ سالوں میں اس نے اس شعبہ کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔حکومت کی شعبہ زراعت پر ناقص منصوبہ بندی، نئے استحصال و جابرانہ انشورنس پالیسی نے زراعت پیشہ افراد، کاشت کاروں اور چھوٹے کسانوں کو مایوسی کی گہری کھائی دھکیل دیا ہے۔ ایسے زرعی قوانین مدون کیے کہ اس سے کسانوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے اور وہ مقروض ہو گئے ہیں۔
بی جے پی حکومت نے انتخابات سے قبل جو بجٹ پیش کیا تھا اس میں 20-2019 میں انکم سپورٹ اسکیم کا اعلان کیا گیا اور اس کو ہر سطح کے کسانوں اور کاشتکاروں کے لیے نافذ کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ منصوبہ چھوٹے اور مزدور پیشہ کسانوں کے حق میں نہیں تھا۔ دوسرا منصوبہ راست نقد منتقلی اور قرض معافی کا تھا۔ اس اسکیم نے صرف زمیندار کسانوں کو کسی حد تک فائدہ پہنچایا لیکن کاشتکاروں یعنی ایسے کسان جو دوسروں کی زمین پر کاشتکاری کرتے ہیں انہیں کسی قسم کا فائدہ نہیں ہوا۔ اس اسکیم نے بھی کسانوں کے ساتھ بڑا بھونڈا مذاق کیا کسی کسان کو محض 1 روپے کا قرض معاف کیا گیا تو کسی کو 5 روپے کا۔ قرض معافی کے نام پر بھی صرف زمینداروں کا ہی فائدہ ہوا۔ ایسے کسان جن کی زمینیں نہیں ہیں اور جنہوں نے بینکوں یا کسی مالیاتی ادارے سے قرض لیا تھا وہ اس اسکیم سے محروم رہ گئے۔ جن کی فصلیں کوئی آفتِ سماوی سے خراب ہوگئیں یا جن کی فصلوں کو استحصالی ساہوکار نے خریدنے سے انکار کر دیا، جن کے اناج کو کم از کم قیمت خرید (ایم یس پی) پر بھی حکومت نہیں خرید سکی ان کی تکلیف کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔ ان پریشانیوں میں انہیں ایک ہی راستہ نظر آیا اور وہ خود کشی کی صورت میں ہمارے سامنے ظاہر ہوا۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2019میں 42ہزار 480کسانوں اور یومیہ مزدوروں نے خود کشی کی ہے جس میں پچھلے سال 2018کے مقابلے میں تقریباً 6 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ یہ کوئی جمع یا تفریق کا حساب نہیں ہے بلکہ یہ ان کسانوں کے اعداد و شمار ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں ختم کر دیں۔ یہ امر ہمارے لیے تشویش ناک ہے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں کسان خود کشی کیوں کر رہے ہیں؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر خود کشی کرنے والوں میں مرد کسانوں/مزدوروں کی تعداد خواتین کسانوں/مزدوروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ماہر معاشیات پروفیسروکرم پٹیل نے کہا کہ بھارت کی جنوبی ریاستوں میں شمالی ریاستوں کے مقابلے میں خود کشی کی شرح دس گنا زیادہ ہے۔جنوبی بھارت میں خود کشی کی عام وجہ معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ مالی مشکلات کو قرار دیا ہے۔ ان کی خود کشی کی سب سے اہم وجہ بینکوں اور مالیاتی ادروں کا قرض اور اس پر بڑھتا ہوا سود ہے۔
مختلف بینک کسانوں کو 7فیصد سے 10فیصد شرح سود کے ساتھ قرض فراہم کرتے ہیں جو ایک سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے اگر ایک سال کے اندر وہ قرض کی رقم واپس کرتا ہے ہو تو اس پر اسی شرح سود کا اطلاق ہوتا ہے لیکن رقم کی عدم واپسی کی صورت میں اس پر مزید سود بلکہ جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اگر کسان کسی ناگہانی صورتِ حال جیسے آفاتِ سماوی، خرابی فصل اور کساد بازاری کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر اس کی مصیبتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ قرض کی رقم واپس نہیں کر پاتا اور بینک کی جانب سے دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے ایسی صورت میں اسے خود کشی کے سوا دوسرا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یہ تو بینکوں سے لیے گئے قرض کی بات ہے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو انفرادی طور پر کسی سود خور سے قرض لیتے ہیں جس کی شرح سود تو ناقابل بیان حد تک بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اس کا استحصال بھی شدید ہے۔
بھارت میں اس سال خود کشیوں کی کل تعداد ایک لاکھ 39ہزار ایک سو تیئس ہوگئی ہے جو سال 2018کے مقابلے میں زیادہ ہے جب کہ گزشتہ سال ایک لاکھ 34ہزار پانچ سو سولہ افراد نے خودکشی کی تھی۔ یہ تعداد جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
حکومت کی غیر سنجیدہ پالیسیاں خود کشیوں کا ایک اہم سبب ہیں اس کا رویہ کسانوں کے تئیں بے رحمانہ اور ظالمانہ رہا ہے۔ وہ کارپوریٹ کمپنیوں کے ہزاروں لاکھوں کروڑ روپیوں کے قرض کو ایک لحظے میں معاف کر سکتی ہے، ان آقا سرمایہ داروں کے قرضوں کو ین پی اے کے نام دے کر معاف کر سکتی ہے، ہزاروں کروڑ کی مقروض کمپنیوں کے مالکان کو راجیہ سبھا کی نشست دے کر رکن پارلیمان بنا سکتی ہے، لاکھوں کروڑ روپے لے کر فرار ہونے والے بھگوڑوں پر کوئی کارروائی نہیں کرتی لیکن اپنے ہی غریب کسانوں کا قرض معاف نہیں کر سکتی۔ ان کی پیداوار کو خرید نہیں سکتی۔ حکومت کا یہ دوہرا معیار اور اس کی یہ منافقانہ پالیسی ملک میں معاشی عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ صاحبِ عقل اہل خرد اس مسئلے پر حکومت سے سوال کریں اور اپنے سارے جمہوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ فوری طور پر کسانوں کے مسائل کو حل کرے۔ اور حکومت نے جو جلد بازی میں آرڈیننس پاس کیا ہے جس سے کارپوریٹ کمپنیاں کنٹراکٹ فارمنگ کے تحت اس شعبے میں داخل ہوسکتی ہیں جس سے کسانوں کو شدید نقصان ہوگا منسوخ کرے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک جامع و ہمہ گیر منصوبہ بنائے تاکہ وہ ملک میں زرعی انقلاب کی نقیب بن سکے اور کاشت کاروں کو ان کی پیداوار پر مناسب قیمتیں مل سکیں۔ پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن کی سفارشات پر عمل ہو۔ قیمتیں کم از کم قیمت خرید (ایم یس پی) سے شروع ہوں، نہ کہ اس پر ختم۔ حکومتی ادارے پیداوار کو خریدیں۔ بہتر آب پاشی نظام ہو، دیہی انفراسٹرکچر، جس میں بازاروں، شہروں کو جوڑنے کے لیے اچھی سڑکیں ہوں، کسانوں کی پیداوار کو ذخیرہ کرنے کی سہولتیں موجود ہوں، مناسب بجلی کی فراہمی کا انتظام ہو اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کے ذریعہ عوامی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ تب ہی یہ شعبہ اور اس سے وابستہ لوگ خوش حال رہ سکتے ہیں۔

قومی نیشنل کرائم ریکارڈ (این سی آر بی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2019میں 42ہزار 480کسانوں اور یومیہ مزدوروں نے خود کشی کی ہے جس میں پچھلے سال 2018کے مقابلے میں تقریباً 6 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ یہ کوئی جمع یا تفریق کا حساب نہیں ہے بلکہ یہ ان کسانوں کے اعداد و شمار ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں ختم کر دیں۔ یہ امر ہمارے لیے تشویش ناک ہے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں کسان خود کشی کیوں کر رہے ہیں؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020