کساد بازاری سے نکلنے کے لیے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت

کورونا کی تباہی کے دوران بنگلہ دیش کی بہتر معاشی پالیسی

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

جن ریاستوں پر ملکی معیشت کا دارومدار تھا وہی کورونا سے بیمار ہیں۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق ملک میں 10ریاستیں ایسی ہیں جن کی جی ڈی پی میں شراکت داری 67 فیصد ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی لپیٹ میں پھنسی ریاستوں میں اترپردیش، بہار، پنجاب، مغربی بنگال، آندھراپردیش، تلنگانہ، تمل ناڈو، کرناٹک، گجرات اور مہاراشٹرا خاص ہیں۔ ان ریاستوں میں اَن لاک 3.0 سے قبل 70 فیصد پر پہنچانے کے لیے معاشی تگ و دو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

کورونا وائرس سے متاثر ان ریاستوں کے کچھ اضلاع میں صنعتی پیداوار کا کام چل رہا ہے لیکن شعبہ خدمت کی تمام تر سرگرمیاں تقریباً بند ہیں۔ ان میں ہوٹل، سیاحت، مالی خدمت، سینما اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبے شامل ہیں۔ حکومت کے مطابق ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (GDP) میں شعبہ خدمت کی شراکت 61.5 فیصد ہے اور روزگار میں ان کی حصہ داری 25 فیصد ہے۔ مینو فیکچرنگ کی جی ڈ،ی پی میں 23 فیصد اور کل روزگار میں 22 فیصد حصہ داری ہے۔ کورونا کے دوران زراعت اور اس سے جڑے شعبوں میں تگ و دو شروع ضرور ہوئی لیکن معاشی ترقی کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جی ڈی پی میں زراعت کی شراکت داری محض 15.4 فیصد ہے۔ ماہرین کے مطابق خدمت سے جڑے 25 فیصد روزگار مکمل طور پر ٹھپ ہیں۔ ان 10 ریاستوں کے متاثر ہونے کا اثر دوسری ریاستوں میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ مہاراشٹرا اور گجرات سے ملک کے سبھی علاقوں میں مینو فیکچرنگ سے جڑے خام مال کی سپلائی ہوئی ہے جو کورونا کی وجہ سے بری طرح متاثر ہیں۔ مہاراشٹرا 14.11 فیصد، تامل ناڈو 8.55 فیصد، اترپردیش 8.05 فیصد ، کرناٹک 7.90 فیصد، گجرات 7.69 فیصد، مغربی بنگال 5.85 فیصد، تلنگانہ 4.41 فیصد، آندھراپردیش 4.74 فیصد، بہار 2.84 فیصد تو پنجاب 2.8 فیصد کے ساتھ شامل ہیں۔

عالمی لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کے درمیان دوریاں ہوں گی تو معیشت میں سکڑاؤ کا ہونا لازمی ہے۔ فی الوقت 2020 میں عالمی جی ڈی پی میں 3.5 فیصد تک سکڑاؤ کا امکان ہے۔ یہ عالمی کساد بازاری دوسری جنگ عظیم کے بعد کی سب سے بڑی کساد بازاری ہوگی۔ باقی ایشیائی ممالک کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔ مگر بھارت کی حالت انتہائی ابتر ہیں۔ یہاں لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد سے کورونا وبا کے پھیلاؤ میں تیزی آئی ہے۔ اب تو روزآنہ 60 ہزار سے زائد نئے کیس سامنے آرہے ہیں۔ اب تک 50 ہزار لوگ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 25 لاکھ سے زیادہ متاثر ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے علاوہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی کورونا قہر کے پھیلنے کا خطرہ برقرار ہے۔ جیسے ہی معیشت کو دوبارہ کھولا جاتا ہے، پابندیاں ہٹائی جاتی ہیں، ترقی کی رفتار پر منفی اثر دکھائی دینے لگتا ہے۔ بھارت میں لاک ڈاؤن شہریوں کی پریشانی اور مصیبت میں اضافہ کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اس سے معاشی تگ و دو بھی بری طرح بگڑ جاتی ہے۔ اس لیے ایک اندازہ کے مطابق بھارت کو 1980 کے بعد کے سب سے بھیانک کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس اقتصادی کساد بازاری سے نمٹنے کے لیے سابق وزیر اعظم اور ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس بڑی مندی پر قابو پانے کے لیے حکومت سے فوری کارروائی کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے ای میل کے ذریعے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے بغیر سوچے سمجھے غیر سنجیدگی سے جلد بازی میں ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کیا حالانکہ اس ذمہ داری کو ریاستیں زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتی تھیں۔ ڈاکٹر سنگھ کا حکومت کے لیے مشورہ ہے کہ لوگوں کے وہ روز مرہ اخراجات کو نقد رقم فراہم کرے۔ دوسرا مشورہ ہے کہ کاروبار کے لیے لوگوں کو سرمایہ فراہم کرے۔ حکومت کی امداد سے کریڈٹ گارنٹی اسکیم چلائی جائے اور تیسرا مشورہ ہے کہ ادارتی خود مختاری اور بہتر طریقہ کار سے مالیاتی شعبوں کو بہتر کیا جائے۔ وبا سے قبل ملکی معیشت سستی کے لپیٹ میں تھی۔ 20-2019 میں ملک کی جی ڈی پی کی شرح محض 4.2 فیصد تک بڑھی ہے۔ یہ ایک دہائی میں سب سے کم شرح نمو رہی ہے۔ طویل عرصے کے بعد بھارت نے لاک ڈاؤن کو کھولنا شرع کر دیا ہے۔ ایسے میں مستقبل کے تعلق سے غیر یقینی کیفیت پائی جارہی ہے۔ ماہرین اقتصادیات پہلے سے ہی خبردار کررہے ہیں کہ مالی سال 21-2020 میں ملک کے جی ڈی پی کے شرح نمو میں گراوٹ آسکتی ہے، اس کی وجہ سے 1970کے بعد کی سب سے بڑی سستی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ ڈاکٹر سنگھ کہتے ہیں کہ میں ڈپریشن لفظ کا استعمال نہیں کرنا چاہتا مگر گہری اور لمبی چلنے والی معاشی سستی طے ہے اور یہ انسانی آفت کی وجہ سے آئی ہے۔ ایسے میں اعداد و شمار کے بجائے عوام کے احساسات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اقتصادی ماہرین کے درمیان یہ آراء مشترک ہے کہ بھارت میں معیشت کے سکڑاؤ کی وجہ سے سستی کا آنا طے ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو اس قسم کا اقتصادی بحران بھارت میں آزادی کے بعد پہلی بار ہوگا اور معیشت بدترین حالت سے دوچار ہوگی۔ چونکہ عالمی معیشت بھی چرمرائی ہوئی ہے اس کا اثر ہمارے ملک پر بھی پڑنا فطری ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ان کے مشوروں پر عمل آوری سے حکومت پر قرض کا بوجھ بڑھے گا جس سے ملک کے قرض اور جی ڈی پی کا تناسب بھی بڑھ جائے گا۔ مگر قرض سے کسی کی جان بچائی جائے تو وہ معیشت میں ترقی کا باعث ہوگی اور لوگوں کی زندگی معمول پر آسکتی ہے۔

حکومت کو قرض لیتے ہوئے شرم نہیں کرنی چاہیے اگر اس کے لیے جی ڈی پی کا 10 فیصد بھی خرچ کرنا ہو تو اس سے حکومت کو گریز نہیں کرنا چاہیے۔ پہلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض لینے کو کمزوری سمجھا جاتا تھا مگر فی الوقت بھارت کسی دوسرے ترقی پذیر مضبوط ملکوں کی طرح قرض لے سکتا ہے ۔ قرض لینے والے ملکوں میں بھارت کا شاندار ٹریک ریکارڈ ہے۔ مگر نوٹ چھاپنے سے بچنا ہوگا کیونکہ اس سے مہنگائی بڑھنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اس لیے اسے آخری حربہ کے طور پر ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔ 90 کی دہائی کے مقابلے میں ہماری معیشت کی حالت بہتر ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے علاوہ انفوسیس کے شریک بانی این آر نارائن مورتی نے بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وبا تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے بھارت کی جی ڈی پی آزادی کے بعد بدترین حالت سے دوچار ہوگی۔ کیونکہ تمام ریٹنگ ایجنسیوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا قہر کی وجہ سے ملک کی جی ڈی پی میں 3 سے 9 فیصد تک کی کمی کا امکان ہے۔ فچ ریٹنگ نے کہا ہے کہ 21-2020 میں بھارتی معیشت میں 5 فیصد تک کی گراوٹ آئے گی۔ ریٹنگ ایجنسی کرسیل نے بھی خبردار کیا ہے کہ آزادی کے بعد یہ چوتھی کساد بازاری آنے والی ہے خود آر بی آئی نے اس مالی سال زبردست کمی کا اشارہ دیا ہے۔ مسٹر مورتی نے کہا کہ معیشت کو جلد از جلد پٹری پر لانے کے لیے مناسب قدم اٹھایا جانا چاہیے اس کے لیے نئے نظام کی تیاری کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی معیشت کے ہر شعبہ جات میں تاجروں کو پوری صلاحیت سے کام کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی جی ڈی پی میں بے حد کمی آچکی ہے۔ عالمی تجارت خراب ہے اور وہ تقریباً ٹھپ پڑی ہوئی ہے۔ اس لیے لوگوں کو کورونا وائرس کے ساتھ رہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ اس کی کوئی دوا نہیں ہے جس سے اس کا علاج ہو سکے کیونکہ ملک طبی بحران سے گزر رہا ہے۔ معیشت کو روکا نہیں جا سکتا ورنہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ اس طرح ہنڈالگو انڈسٹریز کے چیرمین کمار منگلم برلا نے کہا ہے کہ کووڈ19 اور اس کے ساتھ لگائے گئے سخت لاک ڈاؤن نے سماجی اور معیشت کے ساتھ صدی میں ایک بار آنے والی بڑی مصیبت کھڑی کردی ہے۔ اس سے 21-2020 میں بھارتی جی ڈی پی کا حجم چھوٹا ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہر شعبے میں معاشی تگ و دو متاثر رہی۔ اس جاریہ مالی سال میں جی ڈی پی میں بڑی گراوٹ آئے گی اور ایسا چار دہائیوں میں پہلی بار ہوگا۔ ایسے حالات میں بہتر رہنمائی مستحکم کاروباری بنیاد، بنیادی ڈھانچے والی کمپنیاں ہی اس چیلنج سے بھرے وقت میں چمپیئن کے طور پر ابھریں گی۔

کورونا قہر کے وجہ سے ساری دنیا معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔ برطانیہ کے ایکسچیکر کے چانسلر (Chancellor of the Exchequer) نے اقرار کیا ہے کہ معیشت میں گہری کساد بازاری ہے۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے کہا ہے کہ اس مالی سال میں بنگلہ دیش کا بدترین دور ختم ہو کر صحت شرح سے اس کی معیشت ترقی کررہی ہے۔ بنگلہ دیش نے جون کی اخیر تک اپنی جی ڈی پی کے شرح نمو میں 5.24 فیصد کی ترقی درج کی ہے۔ اس کے قبل عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے بنگلہ دیش کا شرح نمو بالترتیب 1.6 فیصد اور 3.8 فیصد بتایا تھا جبکہ اسٹین چارٹ نے اس مالی سال میں 5.6 فیصد کی پیش گوئی کی تھی۔ مگر حکومت نے اپنی جی ڈی پی کے شرح نمو کو 8.2 فیصد کے حساب سے وی شکل کی ریکوری کا نشانہ رکھا تھا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس ملک کے لیے بڑی بات ہوگی۔ جو بڑی خاموشی سے اور آہستہ آہستہ اپنی بگڑی ہوئی معیشت کو سنبھال لے گا۔ جون اور جولائی میں معیشت میں بڑھوتری اور اوپر کی طرف گئی اور برآمدات جس پر حکومت انحصار کرتی ہے وہ بھی بڑھا۔ ماہرین اقتصادیات کو یقین ہے کہ یہ ترقی وہاں کی مالی اور معاشی پالیسی کی وجہ سے ہوئی۔ بنگلہ دیش کی غیر ملکی کرنسی ریزرو 40 بلین ڈالر ہے۔ اس لیے ماہرین اقتصادیات کو یقین ہے کہ کم قرض اور مجموعی گھریلو پیداوار کے تناسب کی وجہ سے حکومت نے اس طوفان کا مقابلہ ہنر مندی اور ہوشیاری سے کیا ہے کیونکہ اس کا خارجی قرض کم اور عوامی قرض نچلی سطح پر تھا اور اس کا غیر ملکی ایکسچینج ریزرو بھی کم تھا، اس لیے اس کی معیشت میں ریکوری تیز ہوئی۔ کل ملا کر اس ملک نے کورونا وبا کو بہتر طور پر قابو میں کیا۔ 16 کروڑ 4 لاکھ کی آبادی والے ملک میں متاثرین کی کل تعداد ڈھائی لاکھ تھی اور 3500 افراد ہلاک ہوئے اور دو ماہ میں ڈھاکہ اسٹاک اکسچینج میں 680 پوائنٹس کا اچھال آیا گویا 17.2 فیصد کی بڑھوتری ہوئی۔ اس مدت میں بازار میں سرمایہ کاری 13.6 فیصد بڑھی۔

اس نمایاں اور شاندار کارکردگی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیش حکومت نے اپنی پالیسی کے تحت شریر صنعتکاروں پر جرمانہ بھی عائد کیا۔ واقعی یہ ایک بہترین اور مثالی معاشی کہانی ہے جو ہماری مشرقی سرحدی ملک میں ہی دیکھی گئی ہے۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو بنگلہ دیش کی چشم کشا اور مثالی معاشی ریکوری کے طریقہ کار سے سبق لے کر ملک کو کساد بازاری سے نکالنے کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے اور مذکورہ ماہرین اقتصادیات اور صنعت کاروں کے مشوروں کو بروئے کار لاتے ہوئے فوری ضروری اقدام کرنا چاہیے۔ مگر وزیر اعظم مودی کو رام مندر اور ہندتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے فرصت نہیں ہے۔ محض نعرہ بازی سے ترقی کی بلیٹ ٹرین تو نہیں دوڑے گی۔ وزیر اعظم مودی ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے متبادل نظام زیرو انٹریسٹ بینکنگ سسٹم کو بھی آزما کر دیکھیں کیونکہ موجودہ بینکنگ سسٹم میں بہت سارے گھوٹالوں کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔

***