’’ رام کوئی تاریخی کردار نہیں‘‘: گاندھی جی

علامہ اقبال کا رام کو ’امامِ ہند‘کہنا ایک شاعرانہ طرز اظہار

پروفیسر احمد سجاد، رانچی

۵؍اگست ۲۰۲۰ء کو دو ہزار مذہبی مقامات کی مٹی اور ایک سو دریاؤں کے پانی کے ساتھ ساڑھے چار سو سال پرانی مسمار شدہ مشہور تاریخی بابری مسجد کی زمین پر ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پورے طمطراق کے ساتھ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع کو حکمراں طبقے کی جملہ ذیلی تنظیموں، گودی میڈیا اور عالمگیر پروپیگنڈے کے ذریعہ انتخابی جذباتی اور گرما گرمی کا ماحول بنا دیا گیا۔ ’’رام سب کے اور رام سب میں‘‘ کے نعروں کے درمیان بعض زر خرید مسلمان مردوں اور عورتوں کو بھی رام کی آرتی اتارتی ہوئے دکھایا گیا۔ اس طرح کے ہر چھوٹے بڑے موقع پر حکمراں طبقے کو ملک گیر فضا بندی کی جو تکنیک معلوم ہے اس کا اعتراف ہر شخص کو ہے۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کا قہر برپا ہے ہر شخص ایک عالمی جیل میں پچھلے ۵۔۶ ماہ سے مقید ہوکر رہ گیا ہے۔ ملک بھر میں ۴۰ لاکھ سے زیادہ اس مرض میں مبتلا ہیں اور ۴۰ ہزار سے زائد افراد کی موت واقع ہو چکی ہے، کروڑہا لوگ بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں اور لاکھوں مزدور مہینوں کی بے روزگاری اور بھکمری سے پریشان ہو کر پیدل ہزاروں میل چلتے مرتے کھپتے اپنے اپنے مقامات پر پہنچے مگر ان کی امداد اور ریلیف سے بے رحمانہ طور پر بے رخی برتی گئی۔ آخری دور میں عوامی احتجاج اور دباؤ میں آکر کچھ نام نہاد ریلیف کے مد میں سرکاری راحت رسانی کا کام ہو سکا۔ یہی نہیں اس وقت بے روزگاری، بھکمری، سیلاب، زلزلے، تعلیمی اداروں میں تالہ بندی اور اقتصادی صورت حال انتہائی بھیانک ہو چکی ہے۔ ان میں سے کسی مسئلہ پر کوئی مثبت قدم رام مندر کے پاسنگ برابر بھی نہیں اٹھایا گیا۔ بلکہ رافیل جہاز کی آمد پر ایسی ماحول سازی کی گئی جیسے چین اور پاکستان وغیرہ پر فتح حاصل کی جاچکی ہے۔ رافیل کے بعد رام مندر کے سنگ بنیاد کو رام راج کے آغاز کار کے طور پر باور کرایا جا رہا ہے اور CAA نیز کشمیر کا تیاپانچہ کرکے جس طرح متکبرانہ انداز سے بیانات دیے جا رہے ہیں ان سب کے نتیجے میں پورے ملک کی گنگا جمنی تہذیب، دستور ہند اور ملک کے امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سخت خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ متعدد دانشوروں کے خیال میں پورے ملک کو رام بھکتی کے نام پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ آدیباسی آبادی کا ایک بڑا طبقہ سناتن دھرم سے بالکل مختلف سرنا دھرم کا معتقد ہے مگر ان کے سرنا استھلوں سے بھی کہیں بہلا پھسلا کر تو خفیہ طریقے سے مٹی حاصل کی گئی جس پر آج تک ان کے درمیان مباحثے جاری ہیں۔ پانچ سو سالہ جنگ کے بعد رام مندر کو آزادی دلانے کی جذباتی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ان کو یہ کہ کے بھی بھڑکایا جا رہا ہے کہ ’’پربھو رام کو برسوں ٹاٹ میں رہنا پڑا جو ہندو سماج کے لیے ایک چنوتی سے کم نہیں تھا‘‘۔ ان کے بعض ذمہ داروں نے اس تقریب سنگ بنیاد کو پھر سے رام راجیہ کی آدھار شیلا رکھنے کے برابر تسلیم کیا ہے۔

اس پورے ہائے و ہو کے ماحول میں کانگریس سمیت متعدد نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور شخصیات کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کسی نے زبان کھولی بھی تو اس ملک گیر دھند بھری فضا میں انہوں نے سُر میں سُر ملا کر انہی کے حق میں بیانات دیے۔ کانگریس نے تو یہ بھی اعلان کیا کہ رام مندر کے اصل ہیرو تو راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ سابق کانگریسی وزیر اعظم تھے۔ اور ملک گیر پیمانے پر پارٹی دفتروں میں چراغاں کیے گئے۔ یوں فی الواقعہ بہت جلد ملک کا دستور نظری طور پر نہ سہی تو عملی طور پر ماہرین کی نظر میں تقریباً مسخ ہوچکا ہے۔ جس کے نتیجے میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی معطلی، CAA کی منظوری، دہلی کی نسل کشی اور بابری مسجد مقدمے میں عدا لتی نظام کی ٹریجڈی پر انصاف پسند لوگوں کے تاثرات مسلسل شائع ہو رہے ہیں کہ کورٹ ایک طرف بابری مسجد کی مسماری کو غیر قانونی اور جرم کہہ رہا ہے اور اس مقدمہ کی ابھی بھی سماعت جاری ہے پھر بھی مسجد کی پوری زمین مسجد ڈھانے والوں کو دے دی گئی اور فیصلے کے انعام کے طور پر سابق چیف جسٹس کو راجیہ سبھا کی ممبری کا تحفہ بھی پیش کر دیا گیا۔ اس طرح اب رام راجیہ کے قیام کے لیے راستے تقریباً ہموار ہوتے جا رہے ہیں اور حکمراں طبقہ اپنی دور رس منصوبہ سازی کے تحت قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں تاریخ اور بعض تاریخی شخصیات کے بیانات کو یا تو توڑ مروڑ کر کے پیش کیا جا رہا ہے یا متضاد انداز میں پیش کر کے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔

اس ضمن میں علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’رام‘‘ کے بعض اشعار اور الفاظ کی من مانی ترجمانی کی جا رہی ہے۔ خاص کر درج ذیل شعر کو مسخ کیا جارہا ہے۔

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

رام یا گرو نانک پر ان کی نظمیں کسی قومی جذبےیا اس کے متعلق کسی غیر اسلامی نظام فکر کی عکاسی نہیں کرتیں بلکہ رام کو وہ پاکیزگی اور محبت کی علامت مانتے تھے۔ ؎

تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں،جوش محبت میں فرد تھا

اور نانک کے ہاں ان آفاقی نظام اقدار کے مرکز یعنی توحید کی گونج سنائی دی۔؎

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اس مرد کامل نے جگایا خواب سے

جس نے اقبال کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کیا ہے وہ اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے کہ اقبال نے اپنی اردو فارسی شاعری میں تاریخ عالم کی مشہور شخصیات و نظریات اور ان کے کارناموں کے مثبت پہلوؤں کی تائید و توثیق کی ہے اور منفی پہلوؤں پر طنز وتنقید۔؎

نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ

خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات

جرمنی کا مشہور فلسفی نطشے جس نے نعوذ باللہ خدا کی موت کا اعلان کر دیا تھا اس کے بارے میں اقبال کا یہ شعر زبان زد عام ہے:؎

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں

تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

مشہور اشتراکی نظریہ ساز کارل مارکس کے بارے میں اقبال کا یہ مشہور شعر ہے کہ؎

وہ کلیم بے تجلی ! وہ مسیح بے صلیب

نیست پیغمبر و لیکن دربغل داروکتاب

ان کے علاوہ اقبال نے بعض دیگر اہم تاریخی شخصیات میں ابدالی، تیمور، ٹیپو سلطان، نپولین، مسولینی اور شاہ ہمدان وغیرہ کے ساتھ ہی ساتھ مولانا جلال الدین رومی اور ’’جاوید نامہ‘‘ میں زندہ رود کی توسط سے فلک الافلاک پر مختلف ارواح سے بھی قارئین شناسائی حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً خضر، یزداں، جبرئیل، ابلیس، زندہ رود اور زروان وغیرہ۔ ان کے علاوہ حالی، شبلی، غالب، ذوق، شیکسپیئر، آدم، آرنلڈ، ابوذرؓ، ابوبکرؓ، ابراہیم ؑ، ابوالعلا معری، بھرتری ہری، چنگیز، حسینؓ وغیرہ کے علاوہ پچاسوں اہم شخصیات کا کسی نہ کسی انداز میں تذکرہ آیا ہے۔ اقبال کو دانتے، ملٹن اور ایلیٹ کے قبیلے کے شاعر کے طور پر دنیا تسلیم کرتی ہے مگر عظیم شاعر کے علاوہ وہ ایک معروف فلسفی بھی تھے۔ جن کے فلسفہ خودی کی اہمیت کو ایک دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اقبال کی وسیع القلبی اور مثبت فکر کا اندازہ ان کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے:

’’فلسفیانہ ژرف نگاہی کے اعتبار سے ہمیں ہندو ذہن کی برتری کا اعتراف ہے‘‘۔ (بحولہ اقبال۔جدید تنقیدی تناظرات۔مرتب پروفیسر اسلوب احمد انصاری۔ص۶۶)

اتنا ہی نہیں، اقبال کی مفکرانہ ہمہ جہتی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ابلیس کو ایک اساطیری کردار بنا کر اس کی ’’نافرمانی‘‘ کی کئی تہوں کو واشگاف کیا ہے اور اس ضمن میں کئی بہترین نظمیں تخلیق کی ہیں۔ مثلاً ’’ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندان کے نام‘‘ ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ ’’مکالمہ جبرئیل و ابلیس‘‘ وغیرہ۔ بعض ناقدین نے ابلیس کے انکار کو ’’انکشاف ذات کی پیہم جدوجہد سے تعبیر کیا ہے جو کائنات کی تزئین و ترتیب کی اساس ہے اور بقول ابلیس یہ خود اس کی اپنی زائیدہ ہے کہ اس آرائش کو رنگ اس کے لہو نے مہیا کیا ہے‘‘۔ ابلیس کی گمراہی پر جبرئیل کے تاسف کا طنزیہ جواب ابلیس اس طرح پیش کرتا ہے۔؎

دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر وشر

کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو؟

اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال نے ابلیسیت کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے ابلیسی کردار کو ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کی کئی پرتیں کھولی ہیں۔

لہذا رام کو ’’امام الہند‘‘ سے تعبیر کرنے کا اقبال کے یہاں یہ جواز ہے کہ ملک کی بڑی اکثریت رام کی معتقد اور بھکت ہے کیونکہ اس اساطیری کردار کو کالی داس اور تلسی داس نے ایسے موثر تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے کہ اس کا قاری ان کے بلند کردار اور اخلاقی برتری کا قائل ہوجاتا ہے اور انہیں اپنا رہنما و امام تسلیم کرتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے ان کی عوامی مقبولیت کو بجا طور پر شاعرانہ طرز اظہار میں پیش کیا ہے تاکہ ان کی انصاف پسندی، انسانیت دوستی اور اخلاقی برتری واضح ہو۔ کاش کہ ان کے بھکتوں کو ان کے نقش قدم پر بھی چلنے کی توفیق میسر ہو۔

رامائن کی تخیلی و تخلیقی کردار نگاری اور قصے کے اتار چڑھاؤ کا کمال یہ ہے کہ ہزاروں برس سے رام کا کردار قابل تقلید سے آگے بڑھ کر قابل پرستش ہو گیا۔ اس کے بعض حصوں کا ڈرامائی اظہار چوک چوراہوں پر رام لیلا کے نام سے ہونے لگا جس میں بلا تفریق مذہب و ملت لوگ آج بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ رامائن چالیسہ ایک دھارمک عمل قرار پا چکا ہے۔ مہاتما گاندھی جو پکے ہندو ہوتے ہوئے سیاسی زندگی میں مخلص سیکولرسٹ تھے اپنے روزانہ صبح کی پرارتھنا سبھا میں ان کے عقیدت سے لبریز یہ منتر مشہور زمانہ ہیں:’’ایشور اللہ تیرو نام، سب کو سنمتی دے بھگوان‘‘

اس حقیقت کے باوجود جو لوگ گاندھی جی کے رام راجیہ کو رامائن کے ہیرو رام چندر جی کی تقلید میں قائم کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں وہ جھوٹ بکتے ہیں۔ ہندتوا وادی گروہ نے اپنا طریقہ کار چونکہ ہٹلر کے فسطائی نظام کے طرز پر قائم کرنے کا عزم مصمم کیا ہے اس لیے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے اور گودی میڈیا کو پروپیگنڈا مشینری بنا کر وہ خود کو بہت مستحکم اور اقتدار کو نہایت پائیدار سمجھتے ہیں اس لیے آل انڈیا سائنس کانفرنسوں تک میں اساطیری قصوں کی بنیاد پر جدید ترین پلاسٹک سرجری، میزائیل سازی اور ہوائی جہاز کی ایجاد تک کا کھوکھلا و مضحکہ خیز دعویٰ کرنے سے نہیں شرماتے۔ ہندوستانی تاریخ اور تعلیمی نظام کو تیا پانچہ کرنے کا ہنر کوئی ان سے سیکھے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جب ۱۹۳۷ میں کانگریس نے ملک میں اپنی حکومت قائم کی تو انہوں نے اس موقع پر اپنی کابینہ کے ارکان کو سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ :

’’میں تمہیں رام چندر اور کرشن کی مثال نہیں دے سکتا کہ وہ تاریخی کردار نہیں تھے۔ میں مجبور ہوں کہ تمہیں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کی مثالیں دوں کہ وہ کس قدر سادگی پسند تھے۔ وہ ایک عظیم ملک کے حکمراں تھے لیکن پھر بھی سادہ زندگی بسر کرتے تھے‘‘۔(ہریجن ۲۷ جولائی ۱۹۳۷ء)

۱۹۴۶ء کے ایک اجتماعِ جماعت اسلامی ہند پٹنہ، منعقدہ انجمن اسلامیہ ہال بانکی پور پٹنہ میں گاندھی جی اپنی پوتیوں اور بعض عقیدت مندوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی تقریر کو بغور سننے کے بعد اپنی تاثراتی تقریر میں گاندھی جی نے جو کہا اس کو مختصراً اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ’’ ملک کو جب آزادی حاصل ہوجائے گی تو ہم لوگ رام راجیہ اصلاً حضرت عمرؓ کے دور خلافت کے نمونے پر قائم کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔ اس تقریر کی روداد اس زمانہ کے اردو، ہندی اور انگریزی اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھی۔ ان حقائق کے باوجود اگر کوئی منووادی تخیلی ’’رام راجیہ‘‘ کو قائم کرنے کے سلسلے میں اس کا تار اقبال کی نظم، گاندھی جی کی دھارمک آستھا اور بعض زرخرید مسلمانوں کے کچھ بیانات سے جوڑ کر تخیلی کہانی کو تاریخی صداقت تسلیم کرنے کا پروپیگنڈا کرتا ہے تو خود کو طنز و تضحیک کو موضوع بناتا ہے۔؎

اتنا نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

کاش کہ برسر اقتدار طبقہ شاعر کے اس مشورے پر عامل ہو۔؎

شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریم میں ہے

٭٭٭٭