کتابستان: پنڈت چمو پتی کی کتاب ’رنگیلا رسول‘ کا جواب ’مقدس رسولؐ ‘

تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات ( قسط 12)

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ جب کبھی کوئی شخص یا تنظیم و تحریک سے وابستہ کوئی فرد کسی مذہب و دھرم کی توہین کرتا ہے، کسی بھی مذہب کی مقدس و محترم شخصیات کی بے عزتی کرتا ہے تو لازمی طور پر اس مذہب و دھرم اور فکر و نظریہ سے وابستہ افراد کی دل آزاری ہوتی ہے، بے چینی بڑھتی ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی مذہب یا مذہبی شخصیت پر رکیک حملے معاشرے کی تباہی اور بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دنیا کی کوئی تہذیب یا دھرم کسی کو بھی بد تہذیبی یا دشنام طرازی پر انگیختہ نہیں کرتا۔ مذہب اسلام نے اس بابت نہایت سخت رخ اختیار کیا ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا ہے کہ کسی مذہب و دین کی شخصیات کو اپنی ہرزہ سرائی یا سب وشتم کا نشانہ نہ بنایا جائے کیوں کہ رد عمل میں دیگر تہذیبوں یا ادیان کے علمبردار افراد اپنی جہالت و نادانی کی بنا پر خالق کائنات کی شان اقدس میں گستاخی پر اترآ ئیں گے۔ یقیناً معاشرے اور سماج میں پرامن روایات کے فروغ کے لیے لازمی ہے کہ ہم کسی بھی دین و دھرم کے خلاف بد گوئی یا سخت و سست الفاظ استعمال نہ کریں بلکہ احترام کریں۔ ہمارا کام دعوت ہے اور حق بات کی تبلیغ و تلقین کرنا ہے چنانچہ یہ فریضہ ہم بحسن و خوبی انجام دیتے رہیں۔ لیکن معاندین ومخالفین نے ہمیشہ اسلام کی مقدس تعلیمات پر کیچڑ اچھالا اور برا کہا اور رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں بخشا۔ یہ سلسلہ ابھی بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اگر عالمی منظر نامہ پر نظر ڈالی جائے تو اسلام کی مخالفت میں زبان و قلم کے ذریعے اسلام کے مسلّمات کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش آج بھی جاری ہے۔ ہندوستان میں آریہ سماج نے بھی اس معاملے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہر طرح سے اسلام پر حملے کیے تقریروں اور تحریروں کے توسل سے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش رچی۔ مگر بحمد اللہ یہ گروہ اپنے منفی پروپیگنڈہ اور باطل مقصد کے حصول میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن مسلم کمیونٹی کو اپنی بدزبانی کے ذریعے آزار ضرور پہنچایا۔ اسی مناسبت سے ایک کتاب ’رنگیلا رسول‘کے نام سے ترتیب دی گئی۔ اس کتاب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ اس طرح کا ایک اور زہریلا رسالہ ’پنڈت کالی چرن‘ نے ناگری زبان میں ’وچتر جیون‘ کے نام سے شائع کیا۔ البتہ رنگیلا رسول کے جواب میں مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے ’مقدس رسول‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔ اس کو مکتبہ الفہیم مئوناتھ بھنجن نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں درج ذیل مضامین کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ علماء کرام کی رائیں، اخباروں کی رائیں، دیباچہ، آریوں کی دل آ زار تحریروں کی تفصیل، آریوں میں طرز نکاح، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، شردھا نند کی اخلاقی موت، حضرت زینب رضی اللہ عنہا، بہتان نئے رنگ میں (حضرت ریحانہ) حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا، حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا، رنگیلے مصنف کا نیا رنگ، (قصہ تحریم ماریہ) تعدد ازواج (محمد بیبیوں والا) یہ وہ اہم مباحث ہیں جن پر’ رنگیلا رسول‘ کے مصنف نے الزامات و اتہامات کیے ہیں۔
سبب تالیف
مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے اپنی اہم کتاب ’مقدس رسول‘ کے دیباچہ میں گویا ہیں ’’مہاتما گاندھی نے بھی سوامی دیانند کی کتاب ’ستیارتھ پرکاش‘ کی نسبت لکھا ہے کہ ”سوامی دیانند نے اسلام اور دیگر مذاہب کی غلط تصویر دکھائی ہے۔ ان کی کتاب ستیارتھ پرکاش بڑی مایوس کن ہے‘‘ مہاتما گاندھی کا مذکورہ اقتباس آریہ اخبار پرتاب لاہور سے اخذ کیا گیا ہے۔ تاریخ یہ درج ہے 4 جون/ 1924، علاوہ ازیں گاندھی جی نے موجودہ آریوں کی نسبت بھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ’’آریہ سماجی تنگ نظری اور لڑائی کی عادت کی وجہ سے یا تو دیگر مذاہب کے لوگوں سے لڑتے رہتے ہیں یا اگر ایسا نہ کرسکیں تو آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں‘‘ بس پھر کیا تھا جو دعویٰ گاندھی جی نے زبانی کیا تھا اس کی دلیل بیان کردی چنانچہ سماج کے چاروں طرف سے گاندھی جی پر آوازے کسے گئے۔ اس کے بعد ہندوستان کے ایک سربر آوردہ نیم سرکاری انگریزی اخبار پایونیر الہ آباد میں ایک نوٹ 23 جون 1924 کو شائع ہوا جس کا ترجمہ ذیل میں نذرِ قارئین ہے ’’مسٹر گاندھی اور آریہ سماج کے باہمی اختلاف کا حوالہ دیتے ہوئے ٹائمز آف انڈیا میں رقم طراز ہیں کہ آریہ سماجی اس قومی مخاصمت کی، جو اب ملک میں پھیل رہی ہے بڑی حدتک ذمہ دار ہے۔ مسٹر گاندھی کے بیان نے نکتہ چینیوں کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ تمام ہندوستان میں آریہ سماجی، مسٹر گاندھی کے خلاف بڑے زور سے احتجاج کر رہے ہیں مگر ان کا یہ احتجاج بے ریا اور خالص نہیں ہے کیونکہ آریہ سماجی اور دیگر ہر ایک کو اس بات کا علم ہے کہ ان کا یہ تبلیغی کام مسلم حلقوں میں کس طرح دیکھا جاتا ہے‘‘ مولانا آگے رقم طراز ہیں کہ جب اس پر بھی آریہ سماجیوں کا جوش ٹھنڈا نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آریوں میں ایک معتبر گواہ پیدا کردیا۔ پنجاب کے بہت بڑے لیڈر لالہ لاجپت رائے نے سوئٹزر لینڈ سے ایک مضمون اپنے اخبار بندے ماترم لاہور میں شائع کرایا جس کا اقتباس یہ ہے ’’میں 1882 نومبر میں آریہ سماج کا ممبر بنا اور 1920 میں اپنا تعلق ایک گونہ علیحدہ کرلیا۔ میں اپنے 38 سال کے اندرونی تجربہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ مہاتما گاندھی نے آریہ سماجیوں پر جو نکتہ چینی کی ہے وہ ان کی محبت پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں بہت کچھ سچائی ہے۔ آریہ سماجیوں پر واجب ہے کہ بجائے خفگی کے ریزولیوشن پاس کرنے کے شانتی اور ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں‘‘ اس کے بعد پھر گاندھی جی نے یہ بھی لکھ دیا "اسلام چھوٹا نہیں ہے۔ ہندوؤں کو بھکتی کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پھر وہ اس کے ساتھ اسی طرح محبت کریں گے جس طرح میں کرتا ہوں‘‘ اس کے بعد آریوں نے گاندھی جی سے فرصت پا کر اسلام اور پیغمبر اسلام پر حملے شروع کر دیے۔ ان حملوں میں سے ایک حملہ کتاب کی صورت میں یہ ہے جس کا نام ’رنگیلا رسول‘ ہے اس کتاب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خانگی حالات ایسے برے لہجے اور بد ترین دل آزاری سے لکھے گئے کہ ملک میں کہرام مچ گیا یہاں تک کہ مہاتما گاندھی جیسے شخص نے بھی اس کتاب پر اظہارِ نفرت کیا۔ گورنمنٹ نے اس کتاب کو قابل اعتراض ٹھہرایا۔ مگر چونکہ بزدل مصنف نے اس پر اپنا نام نہیں درج کیا تھا اس لیے گورنمنٹ نے اس کتاب کے شائع کرنے والے پر مقدمہ چلایا۔ گورنمنٹ کا جو فرض تھا وہ اس نے ادا کیا۔ اصل جواب دینا حکومت کا کام نہیں بلکہ ہم اپنا مذہبی فرض ادا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے زخمی دلوں پر مرہم لگ کر تسکین ہو اور ملک میں چین وراحت پیدا ہو‘‘ اس وجہ سے مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ’مقدس رسول‘ نامی کتاب قلمبند کی۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ’رنگیلا رسول ‘ کے مصنف کا نام نہیں بتایا۔ البتہ جب راقم نے Google پر تحقیق کی تو درج ذیل حقائق کا انکشاف ہوا۔ ”رنگیلا رسول“ 1920 میں پنجاب کے آریہ سماجی اور مسلمانوں کے درمیان برپا ہونے والے مناقشے کا نتیجہ ہے۔ یہ متنازعہ کتاب پیغمبر اسلام کی خانگی زندگی پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف ایک آریہ سماجی پنڈت چمو پتی ایم اے یا کرشن پرشاد پرتاب ہیں جنہوں نے 1927 میں اسے پہلی بار شائع کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اس پمفلٹ کا ردعمل تھا جسے ایک مسلمان نے شائع کیا تھا اور جس میں ہندوؤں کی مقدس دیوی سیتا کو فاحشہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا۔
مسلمانوں نے اس کتاب پر اپنا سخت ردعمل دکھایا۔ ان کی شکایت پر اس کتاب کے پبلشر راج پال کو گرفتار کرلیا گیا لیکن پانچ سال بعد اپریل 1929 کو اسے رہا کر دیا گیا کیوں کہ اس وقت توہینِ مذہب کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا۔ کئی ناکام حملوں کے بعد جرأت تحقیق کے پلیٹ فارم سے اس کا اردو ترجمہ پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درج بالا اقتباس کے مطابق ’رنگیلا رسول‘ کو پہلی بار 1927 میں شائع کیا گیا لیکن مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس کے جواب میں ’مقدس رسول‘ جو کتاب حوالہ قرطاس کی ہے۔ اس پر 1924 درج ہے۔ یہاں دونوں باتوں میں فرق ہے۔ چنانچہ اب یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ’رنگیلا رسول‘ 1924 سے قبل کی تصنیف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس کتاب کے مصنف کو بھی مجہول بتایا ہے۔ جب کہ جو امیج اس کی Google پر دستیاب ہے اس میں صاف لکھا ہوا ہے ’پنڈت چموپتی ایم اے‘۔ یا ہوسکتا ہے اس وقت کتاب پر مصنف کا نام نہیں لکھا گیا ہو بلکہ بعد میں لکھ دیا گیا ہو۔
مقدس رسول پر علماء کی آراء
جب مولانا کی یہ کتاب منظر عام پر آئی تو اس وقت کے بڑے بڑے اور جید مذہبی علماء و اسکالرس نے انتہائی اہم اور توصیفی کلمات سے نوازا۔ جن علماء نے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا اقرار کیا ان میں مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا سراج احمد، مولانا حبیب الرحمن، مولانا مرتضی حسن، ماہر منطق مولانا اعزاز علی، علماء دارالحدیث مدرسہ رحمانیہ دہلی، خواجہ حسن نظامی دہلوی، مولانا عبد الباری لکھنوی، مولانا حافظ ابراہیم سیالکوٹی، مولانا محمد مبارک حسین میرٹھ، سید غلام بھیک صاحب ناظم جمعیت مرکز یہ تبلیغ اسلام انبالہ، مولانا ابوالقاسم سیف محمدی بنارسی، مولانا عبد الماجد قادری بدایونی، مولانا محمد کفایت اللہ صدر جمعیت العلماء دہلی، مولانا عبد الشکور، مولانا حافظ احمد سعید، مولانا عبد الحمید صدیقی، مولانا عبد القیوم وکیل درجہ اول حیدر آباد دکن، مولانا محمد عثمان مبلغ انجمن اہلحدیث سکندر آباد دکن اور مہاراجہ سرکشن پرشاد یمین السلطنت حیدر آباد دکن جیسی اہم شخصیات نے مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کے اس کارنامے کو سراہا۔ بالائی سطروں میں مذکور اصحاب علم کی کیا آراء ہیں ان سب کا یہاں احاط کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔ بناء بریں ذیل میں مہاراجہ سر کشن پرشاد کے الفاظ کو قلم بند کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ’مقدس رسول‘ کو فقیر نے بالاستیعاب دیکھا۔ آریہ سماج نے ’رنگیلا رسول‘ چھاپ کر جو اپنی تہذیب اخلاق کا نمونہ پیش کیا ہے وہ سماجی لٹریچر کی دل آزار سخت کلامی کی خصوصیات میں سے ہے۔ اس سے آریہ کے بانی مبانی، سوامی دیانند کی اخلاقی تعلیم پر دھبہ لگتا ہے۔ آپ نے ’رنگیلا رسول‘ کا جواب جس تہذیب و متانت سے لکھا ہے وہ پیغمبر اسلامؐکے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ آپ نے کذب و دروغ اور تعصب وعناد کے پردے چاک کر دیے جن کے پیچھے مہاشہ نے مقدس رسول کی پاک اور بے عیب زندگی کو پوشیدہ کرنا چاہا تھا۔ آپ نے واقعات کی تحقیق میں اپنی جن وسیع معلومات سے کام لیا ہے حق تو یہ ہے کہ یہ آپ ہی کا کام تھا۔ آپ نے اسلام کا وہ فرض ادا کیا ہے جس کی اشد ضرورت تھی‘‘ یہ اقتباس اس دور میں ان تمام اہل علم کے لیے ہدایت ہے کہ اگر اشتعال انگیز بیانات کا جواب بھی دیا جائے تو سنجیدگی متانت سے دیا جائے علمی اعتبار سے زیر کیا جائے۔
رنگیلا رسول کے مصنف کے اعتراضات
’رنگیلا رسول‘ نامی کتاب میں یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری خانگی زندگی کو قابل اعتراض بتایا گیا ہے لیکن اصل غصہ تعدد ازدواج پر تھا چنانچہ اس نے شان اقدسؐ میں انتہائی گستاخانہ زبان استعمال کی ہے جس کو یہاں کوٹ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ کریں صفحہ نمبرات 28, 49 اور 51۔ تعدد ازواج کے مسئلہ پر آریہ سماجی ہی نہیں بلکہ متشرقین کی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے اعتراض کیا ہے۔ لیکن اس مسئلہ کا تشفی بخش جواب ہمارے علماو فضلا نے دیا ہے۔ اس مسئلہ پر انتہائی وقیع اور علمی گفتگو مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب رحمة للعالمين میں کی ہے۔ اس کے علاوہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تحقیق کو ملاحظہ کیجیے۔
تعدد ازواج کے مسئلے کی فلاسفی ہم تفسیر ثنائی جلد دوم میں زیر آیت مثنیٰ وثلاث مفصل لکھ چکے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ کہ قدرتی طور پر مرد اور عورت میں ایک نسبت ہے کہ مرد عورت کو استعمال کرنے والا اور عورت مستعملہ چیز ہے۔ اس کے سائنٹیفک (فلسفیانہ) دلائل اسی جگہ موجود ہیں۔ آگے تحریر کرتے ہیں کہ آریوں اور ہندوؤں میں منوجی ایک ایسے مذہبی پیشوا گزرے ہیں جن کی خدمت میں اس زمانے کے بڑے بڑے رشیوں نے حاضر ہو کر درخواست کی تھی۔’’اے بھگوان ان سب ورنوں (ذاتوں) اور ورن سنکروں کا دھرم ٹھیک ٹھیک ہم سے کہیے‘‘۔ ان کا نظریہ تعدد ازواج کے متعلق یہ ہے کہ یہ اپنی کتاب منو دھرم شاستر کے باب 7، فقرہ 221 میں تحریر کرتے ہیں ’’راجہ کھانا کھا کر عورتوں کے ساتھ محل میں بہار کرے‘‘ باب 9 (شلوک 122) میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک کی دو زوجہ ہیں اور چھوٹی زوجہ سے لڑکا پہلے پیدا ہوا اور بڑی زوجہ سے پیچھے ہوا۔ پس اس مقام پر تقسیم حصہ کس طرح کرنا چاہیے۔ منو دھرم شاستر میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ایک آ دمی کی چار پانچ عورتیں ہوں اور ان میں سے ایک صاحب اولاد ہو تو باقی صاحب اولاد ہوتی ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں کے بنیادی مصادر اور مذہبی منابعات میں تعدد ازواج کی خود اجازت ہے۔ لہٰذا اس بابت اسلام کو مورد الزام ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہے۔
کتاب کی افادیت
معترض کے تمام الزامات اور ان کے جوابات نقل کرنا باعث طوالت ہے۔ اس میں راقم نے ’رنگیلا رسول‘ کے مصنف کی منشاء اور اس کے مقصد کو بیان کر دیا ہے جس سے اس موضوع پر دلچسپی رکھنے والے افراد اصل کتاب سے رجوع کر سکیں گے اور اپنی علمی تشنگی بجھا لیں گے۔ رہا مقدس رسول کی افادیت و اہمیت کا مسئلہ تو یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہوگا یہ کتاب کئی اعتبار سے قابل مطالعہ اور لائق دادو تحسین ہے۔ ایک یہ کہ اس کتاب کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی حیات یا تعدد ازواج کو ’رنگیلا رسول‘ کے مصنف نے اٹھایا تھا ان کے نقلی اور عقلی جواب دینے کے ساتھ ساتھ اس مہاشہ کی علمی جہالت اور تنگ نظری و علمی بخل کو بھی فاضل مصنف نے بیان کیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب اس دور کی بہت سی اہم اور بنیادی معلومات پر محیط ہے۔ اسی کے ساتھ کتاب کے مطالعہ سے اردو داں طبقہ کو یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ ہندو ازم یا آریہ سماجیوں کے کونسے نظریات ہیں جو قابل اعتراض ہیں۔ موجودہ عہد میں گونا گوں معلومات کے لحاظ سے اس کتاب کی اہمیت مزید دو بالا ہوجاتی ہے۔ اب ہماری ذمہ داری یہ کہ ہم اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا تشفی بخش جواب دیں۔ علاوہ ازیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پیش کیا جائے۔ آج جو طبقہ اسلام پر حملہ آور ہے یا شکوک وشبہات میں مبتلا ہے اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری توانائی اب مخالفین کے شکوک رفع کرنے میں کم صرف ہو رہی ہے اور باہمی تنازع میں زیادہ۔ اس لیے اسلام کی صحیح اور واضح تعلیمات سے عوام اور معترضین کو واقف کرانا نہایت ضروری ہے۔ اس سے دعوتی حق بھی ادا ہوگا۔ اگر ہم نے اس فریضے کو بحسن وخوبی انجام نہیں دیا تو یقیناً کل قیامت میں ہم سے اس کا مواخذہ ہوگا۔
[email protected]
***

آج جو طبقہ اسلام پر حملہ آور ہے یا شکوک وشبہات میں مبتلا ہے اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری توانائی اب مخالفین کے شکوک رفع کرنے میں کم صرف ہو رہی ہے اور باہمی تنازع میں زیادہ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020