ڈائلیسس کروانے والے 28 فیصد ہندوستانیوں کی 10 ماہ کے اندرہو جاتی ہے موت

معروف طبی جریدے دی لیسنٹ ریجنل ہیلتھ کی رپورٹ ،193 پرائیویٹ ڈائلیسس کلینکس کے مطالعے کے بعد دعویٰ

نئی دہلی ،چنئی، 17 مارچ :

ایک حالیہ تحقیق میں ہندوستان میں گردے کی دائمی بیماری کے لیے ڈائلیسس کروانے والے مریضوں کی ایک خوفناک تصویر سامنے آئی ہے۔ 13 مارچ 2024 کو معروف طبی جریدے دی لیسنٹ ریجنل ہیلتھ، کے ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے شمارے میں شائع ہونے والے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً دس میں سے تین مریض (28 فیصد) ڈائلیسس کروانے والے علاج شروع کرنے کے ایک سال کے اندر ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ زیادہ آمدنی والے ممالک میں اموات کی شرح دوگنی ہے۔

اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 193 پرائیویٹ ڈائلیسس کلینکس کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈائلیسس کے مریضوں میں چھ ماہ کے اندر اموات کی شرح 83 سے 97 فیصد تک پائی گئی۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ چھ ماہ میں شرح اموات دیہی کلینکوں میں شہری کلینکس کے مقابلے میں تقریباً 32 فیصد زیادہ تھی۔

تاہم، سائنسدانوں نے تسلیم کیا ہے کہ ڈائلیسس کے مریضوں کی شرح اموات پر مزید مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تشویشناک اموات کی شرح کو روکنے کے لیے ڈائلیسس کی ٹیکنالوجی اور انتظام میں معیاری بہتری کی ضرورت ہے۔

بھارت میں ڈائلیسس تک رسائی میں اضافے کے باوجود، ڈائلیسس پر بقا کے لیے قومی معیار کی عدم موجودگی کے نتیجے میں منفی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ فی الحال محققین نے مشورہ دیا ہے کہ اس موضوع پر غور کرنے اور اس مسئلے کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

جارج انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وویکانند جھا نے شرح اموات کو متاثر کرنے والے سماجی و اقتصادی عوامل کو تلاش کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ مریض کی تعلیم اور معاشی حالت کا ڈائلیسس کے معیار پر اثر پڑتا ہے۔ بھارت میں ڈائلیسس کے مریضوں میں 10 ماہ کی شرح اموات 28 فیصد رہی، جبکہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں اوسطاً 16 ماہ کے دوران شرح اموات 14 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

ڈاکٹر جھا نے حکومت پر زور دیا کہ وہ گردوں کی بیماری سے بچاؤ کے لیے مریضوں کی مالی مدد اور ڈالیسس کے انتظام کو بہتر بنائے۔