چھاپہ نہیں پڑے گا تو کیا اشتہار ملے گا ؟

اخبار اور چینل کے خلاف انکم ٹیکس کی کارروائی بزدلانہ اقدام میڈیا برین واش اور پروپیگنڈہ کی بھی کھل رہی ہے پول ۔ بھاسکر کا سروے

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

حکومت کے ستارے بتدریج گردش میں آرہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئے دن حزب اختلاف کو نت نئے ہنٹر پکڑا کر کہہ رہی ہے کہ ’آبیل مجھے مار‘۔ پیگا سس جاسوسی کا مایا جال دنیا بھر کے پچاس ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور وہ پچاس ہزار سے زائد لوگوں کی جاسوسی کرتا ہے ۔ اسرائیل کی ایک کمپنی این ایس او دنیا کے کسی بھی ملک کی حکومت کو کروڑوں روپیوں کے عوض اپنی خدمات دیتی ہے۔ اپنی پارسائی کوثابت کرنے کی خاطر اس کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ صرف حکومتوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں ۔ ’اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا‘ کہ اتنی بڑی جاسوسی کمپنی کونہیں معلوم آج کل بیشتر جمہوری حکومتوں نے سرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کررکھی ہے اس لیے اگر کوئی دھنا سیٹھ اپنے کسی حریف کی جاسوسی کرانا چاہتا ہو تو احسان مند حکومت کے ذریعہ اس سے مستفید ہوسکتا ہے خیر جب یہ انکشاف ہوا کہ اس 1571 معاملات میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً بیس فیصد حصہ ہندوستان کا ہے تو مرکزی حکومت کے خلاف ہنگامہ برپا ہوگیا ۔
اس کے بعد اپنی روایت کے مطابق وزیر اعظم مونی بابا بن گئے اور اپنے خاص چیلے امیت شاہ کو میدان میں اتار دیا ۔ انہوں نےحسب توقع کہا کہ ’مخالفین اور گڑبڑ پھیلانے والوں کی سازش سے ملک کی ترقی نہیں رکےگی‘۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں ترقی ہو کہاں رہی ہے جو رکے گی؟ اور اس کے لیے مخالفین ذمہ دار نہیں ساری گڑبڑ تو وہ خود وزیر اعظم کے اشاروں پر ہوتی ہے۔ شاہ جی کا اگلا جملہ تو اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ تھا ، انہوں نے کہا’ میں ہندوستان کی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مودی سرکار کی ترجیحات قوم کی بھلائی ہے‘۔ جس حکومت کی ساری توجہات اپنا اقتدار مضبوط کرنے اور مخالفین کی سرکار کو گراکر ہتھیانے پر مرکوز ہوں اس کی تمام منصوبہ بندی انتخابی کامیابی کے لیے وقف ہو اس کو یہ ’جملہ ‘ زیب نہیں دیتا۔
شاہ جی کے مطابق پیگاسس رپورٹ جاری کرنے کا مقصد ملک کو بدنام کرکے ترقی کی پٹری سے اتارنا ہے حالانکہ یہ بدنامی خود ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ کانگریس پر الزام لگاتے ہوئے وہ بولے بے سمت کانگریس کا اس پر اچھلنا غیر متوقع نہیں ہے۔ اسے جمہوریت کو کچلنے کا تجربہ ہے۔ یہ بات تو درست ہے مگر بی جے پی نے اس میدان میں کانگریس کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے کیونکہ ایسی پھوہڑ حرکات کا ارتکاب کانگریس نے کبھی نہیں کیا ۔ شاہ جی کے پاس کوئی نئی بات نہیں تھی تو انہوں نے وہی پرانا ملک کے خلاف بین الاقوامی سازش کا راگ الاپنا شروع کر دیا ۔ اپنے دعویٰ کے حق ان کی دلیل بھی گھسی پٹی کرونولوجی تھی کہ آخر یہ انکشاف عین ایوان پارلیمان کے اجلاس کی ابتداء میں کیوں ہوا؟ ویسے یہ معاملہ جب بھی منکشف ہوتا تو اس کی دھمک سرکار کی چولیں ہلا دیتی ۔ یہ ضرور ہے کہ پارلیمانی اجلاس کے سبب اس کو تقویت ملی ۔
پارلیمانی اجلاس کے سبب پیگاسس کو قومی بدنامی کی کی سازش قرار دینے والے شاہ جی کی نگرانی میں کام کرنے والے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ ( آئی ٹی) نے ہندوستان کے دوسرے سب سے بڑے اخبار روزنامہ بھاسکر کے چالیس دفاتر پر چھاپے مارے اور اترپردیش کے ہندوستان ٹیلی ویژن کے دفتر کو بھی نشانہ بنایا۔ یہ غلیظ حرکت بھی چونکہ پارلیمانی اجلاس کے دوران ہوئی اور اس لیے چہار دانگ عالم میں ملک بدنام ہوگیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سازش کس نے کس کے خلاف کی؟ مزے کی بات یہ کہ اس پر بھی ایوان پارلیمان کا اجلاس روکنا پڑ گیا ۔ وزیر داخلہ نے اگر یہ حرکت وزیر اعظم کو بدنام کرنے کے لیے کی ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے بچنے کی خاطر ان کو وزارت سے محروم کرکے بلی کا بکرا بنایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن اور روی شنکر پرشاد کے ساتھ یہ ہوچکا ہے۔ ویسے اس بات کا امکان مفقود ہے کہ وزیر داخلہ اس طرح کا خیال بھی اپنے دل میں لائیں اس لیے قوی امکان تو یہ ہے کہ بھاسکر پر شکنجہ کسنے کا فیصلہ وزیر اعظم کے ایماء پر یا انہیں اعتماد لے کر کیا گیا ہوگا لیکن اس کے بہت دور رس نتائج مرتب ہوں گے ۔
اول تو اس چھاپے نے حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف متحد ہوکر حملہ کرنے کا نادر موقع عنایت کردیا ۔ پیگاسس میں جو کچھ ہوا وہ تفتیش طلب معاملہ ہے لیکن بھاسکر کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور اس کا ذمہ دار اظہر من الشمس ہے۔ ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ موجودہ حکومت مخالفت کو برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے۔ اس کے لیے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو چھپانا ناممکن ہوگیا ہے اور وہ گھبرا کر اس طرح کی بزدلانہ اقدامات پر اتر آئی ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دلیر کو ڈرانے پر وہ بے خوف ہوکر حملے کرتا اور بھاسکر یہی کرےگا ۔ مرکزی حکومت کی اس حماقت نے تمام ذرائع ابلاغ کو (بشمول جانبدارمیڈیا )حکومت کی مخالفت پر مجبور کردیا۔ موجودہ ذرائع ابلاغ کے بڑے حصے کو جس طرح مرکزی سرکار نے اپنےمایا جال میں جکڑ رکھا ہے اس کے سبب یہ کارنامہ تقریباً ناممکن ہوگیا تھا ۔
حکومت کے اس چھاپے کے خلاف میڈیا نے جس یکجہتی کا ثبوت پیش دیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس حکومت کو اگر تھوڑی بھی عقل ہوتی تو ایسی جرأت رندانہ کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرتی ۔ آج کل آر ایس ایس بہت متحرک ہوگئی ہے۔ یہ مشورہ اگر اس نے دیا ہے تو اس کی دانشمندی پر بیک وقت ہنسنے اور رونے کو جی چاہتا ہے۔ سرکاری احسان کے تلے دبے اے بی پی نے اپنے من کی بات حزب اختلاف کے حوالے سے لکھی۔ اس نےلکھا کہ روزنامہ بھاسکر کے خلاف متحد ہونے والے اپوزیشن نے کہا ایسی حکومت کا زوال لازمی ہے ۔ یہ اس کے اپنے دل کی آواز ہے لیکن عظیم تر مالی مصالح کے پیش نظر اس کو دوسروں کے حوالے سے یہ کہنا پڑا۔
اے بی پی نے جہاں کانگریس کے دگ وجئے سنگھ کی بیساکھی تھامی وہیں ہندوستان ٹائمز نے اروند کیجریوال کے بیان کا سہارا لیا۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نےکہا کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا یہ چھاپہ میڈیا کو ڈرانے کی کوشش ہے۔ ان (سرکار) کا پیغام صاف ہے۔ جو بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بولے گا ،اسے بخشا نہیں جائے گا۔ اس طرح کی سوچ بے حد خطرناک قرار دے کر کیجریوال نے فوراً اس چھاپے کو روکنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب سیاسی رہنما جن باتوں کو کہنے سے ہچکچاتے تھے وہ اخبارات کے نڈر صحافیوں کی جانب سے سامنے آجاتی تھیں ۔ اب اس کے الٹ ہوگیا ہے۔ فی الحال اخبارات والے اپنا مطمحِ نظر بیان کرنے کی خاطر بدعنوان سیاستدانوں کے بیانات کی مدد لے رہے ہیں ۔ علامہ اقبال نے اس صورتحال کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے ملاحظہ فرمائیں ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
وطن عزیز میں میڈیا کا ضمیر تبدیل نہیں ہوا بلکہ بک گیا ہے۔ شیکھر گپتا کے دی پرنٹ نامی پورٹل کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ سرکار پر تمام تر تنقید کے باوجود اس کی حرکات کو جواز فراہم کردیتا ہے ۔ سرکاری کوتاہیوں کی شدت کو کم کرنے کی خاطر اس کا کانگریس کے ماضی یا پاکستان سے موازنہ کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ایسا پہلے سے ہوتا رہا ہے اور دیگر مقامات پر بھی ہورہا ہے۔ اس لیے گویا اس کے خلاف شور شرابہ کرنے کے بجائے چپ چاپ برداشت کرو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دی پرنٹ نے بھی کانگریس کے حوالے اسے ’مودی فائیڈ‘ چھاپہ اور غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا نام دیا ہے۔ اس معاملے میں بڑی حد تک انڈین ایکسپریس کی استثنائی حیثیت ہے حالانکہ اس پر بھی وقتاً فوقتاً شکوک وشبہات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں ۔ انڈین ایکسپریس نے چھاپوں کی اطلاع دینے کے بعد وجوہات پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا چونکہ روزنامہ بھاسکر نے کورونا کی دوسری لہر میں ہونے والی اموات اور گنگا میں تیرتی لاشوں پر سلسلہ وار خبریں شائع کی تھیں اس لیے اسے ہدف بنایا گیا۔
مرکزی حکومت کی تشویش کا سبب قومی ذرائع ابلاغ کی ڈھکی چھپی تنقید نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھاسکر کے اثرات ہیں ۔ پچھلے دنوں دنیا کے ایک بہت بڑے اخبار ’دی نیویارک ٹائمز‘ نے بھاسکر کےقومی مدیر اوم گوڑ کی رپورٹ ’گنگا جھوٹ نہیں بولتی‘ کو ترجمہ کرکے اپنے ادارتی صفحے پر شائع کردیا ۔ اس نے سرخی لگائی ’گنگا لاشوں کو لوٹا رہی ہے۔ وہ جھوٹ نہیں بولتی‘۔ گنگا کا جھوٹ نہ بولنا وزیر صحت من سکھ ماڈواویہ کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جنہوں نے کذب گوئی کی چوٹی سے اعلان کیا کہ ہندوستان میں آکسیجن کی کمی سے کوئی موت نہیں ہوئی۔ ویسے تو دنیا بھر کے اخبارات نے بھاسکر کی رپورٹس سے استفادہ کیا مگر نیویارک ٹائمز نے اسے سند عطا کردی ۔ یہ اخبار گزشتہ 170 سالوں سے آزادانہ صحافت کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہے اور پہلی مرتبہ کسی ہندی اخبار کی رپورٹ کو اس میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نیویارک ٹائمز نے بھاسکر سے یہ رپورتاژ تیار کرنے کی درخواست کی تھی۔ یہ معمولی بات نہیں کیونکہ صحافت کی دنیا میں نوبیل انعام سمجھا جانے والا پولٹزر پرائز اسے 133 مرتبہ مل چکا ہے۔ حکومت نے چھاپے مارکر بھاسکر کی عالمی عزت وتوقیر میں زبردست اضافہ کیا ہے۔
حکومت کے اس غیر دانشمندانہ اقدام کا تیسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بہت جلد روزنامہ بھاسکر ہندوستان کا دوسرا سب سے کثیرالاشاعت اخبار نہیں بلکہ سب سے بڑا اخبار بن جائے گا اس لیے کہ سارے لوگ جان چکے ہیں کہ روزنامہ بھاسکر کو سچائی پیش کرنے کی سزا مل رہی ہے اور عام آدمی سچ پڑھنے کے لیے اخبار خریدتا ہے۔ ان چھاپوں کے بعد روزنامہ بھاسکر نے اپنے قارئین کی رائے جاننے کے لیے ایک سروے کیا ۔ اس میں لوگوں نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ اسے احتیاط برتنا یا حکومت کی محاذ آرائی سے بچنا چاہیے بلکہ 92.5 فیصد نے اپنے پسندیدہ اخبار کی بے خوف صحافت کا ساتھ دیا۔ وہ حضرات جو کہتے ہیں کہ سنگھ پریوار نے سارے ہندووں کا برین واش کردیا ہے ان کے لیے اس خبر میں نشانِ عبرت ہے۔
اس کے علاوہ عام سوشل میڈیا میں آزاد بھاسکر کے عنوان پر جب جائزہ لیا گیا تو 83.5 فیصد صارفین نے کہا ڈٹے رہیں ، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ جن لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ لوگ ان کا ساتھ نہیں دیتے انہیں جان لینا چاہیے کہ رونے دھونے والوں کو حمایت کوئی نہیں دیتا ۔ ان نڈر لوگوں کا ساتھ دیا جاتا ہے جو بے خوف ہوکر مقابلہ کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے چند ٹویٹ پر ایک غائر نظر ڈال لینا مفید ہے جن میں قارئین بین السطور یہ کہتے نظر آئے کہ مجھے بھاسکر کا قاری ہونے پر فخر ہے۔ راہل سینی نے لکھا ’بچہ بچہ جانتا تھا روزنامہ بھاسکر پر چھاپہ پڑے گا۔ بچہ بچہ اس سرکار کو سمجھتا ہے۔ اس بیان سے صحافت کی ذمہ داری کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا کام محض اپنی مظلومیت کا شکایت کا پلندہ کھول کر بیٹھے رہنا نہیں بلکہ قارئین کے اندر سیاسی شعور اور عزم وحوصلہ پیدا کرنا ہے۔
انکت پرتاپگڈھی ٹویٹ پر رقمطراز ہیں کہ جو بی جے پی کی اور مودی و یوگی کی کمیاں اجاگر کرے گا وہ ناپ دیا جائےگا ۔ ہنگامی حالات کا اعلان چاہے نہ ہوا ہو لیکن جو حالات ہیں وہ ایمرجنسی سے بھی زیادہ خوفناک ہیں ۔ بابا کیسری نے لکھا بھاسکر سے عزت نفس کی خوشبو آتی ہے۔ محمد فاروق لکھتے ہیں آج بھاسکر کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ روزنامہ بھاسکر پر قارئین کے اعتماد کا اندازہ ان مختصر سے جملوں میں ہوسکتا ہے مثلاًامیت جھاجھریہ کا ٹویٹ کہ بھاسکر ہمیشہ سچ دکھاتا ہے۔ کسی بھی سرکار کے سامنے جھکا نہیں ہے۔ میڈیا کو اسی طرح کام کرنا چاہیے۔ رویندر سین لکھتے ہیں ’جاب نہیں ہے، بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے۔ روزنامہ بھاسکر نے سچ دکھایا تو انکم ٹیکس کے درشن ہوجاتے ہیں۔
اس موضوع پر گورو سنچیتا کے قلم کی جنبش ملاحظہ فرمائیں وہ لکھتے ہیں’آپ صحافت کے لیے کھڑے نہیں ہوسکتے اور کہتے ہیں کہ میڈیا بک چکا ہے‘۔ یعنی دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے انسان اپنے گریبان میں جھانک کردیکھے تو اس کا نقطۂ نظر اور طرز عمل دونوں بدل سکتاہے۔ ایک فحاشہ کی مانند بھرے بازار میں اپنی عزت وناموس کے سوداگر صحافیوں کو عار دلانے کے لیے یہ ایک جملہ کا فی ہے۔ عمار اختر نے کیا خوب لکھا ’ روزنامہ بھاسکر آج کی صحافت کررہا ہے‘۔ اس سے پتہ چلتا ہے آج کا قاری کیا پڑھنا چاہتا ہے اور اس دور کا صحافتی مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران بھاسکر نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا وہ بھی قابلِ توجہ ہیں لیکن یہ کام دیوان خانے میں بیٹھ کر نہیں ہوسکتا ۔ اس کے لیے میدان عمل کی خاک چھاننا پڑتا ہے۔
روزنامہ بھاسکر اپنے تیس نامہ نگاروں کو اتر پردیش کے ستائیس ضلعوں کے دورے پر بھیجا ۔ ان لوگوں نے جملہ 1140کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اپنی زمینی رپورٹ مرتب کی۔ اس میں انکشاف کیا گیا کہ اناو میں ریت کے اندر دو مقامات پر نو سو لاشیں دفن ہیں اور گنگا میں دو ہزار لاشوں کو بہایا گیا ہے۔ بھاسکر صرف بی جے پی کے پیچھے نہیں پڑی رہی بلکہ اس نے راجستھان کے آٹھ ضلعوں کا دورہ کرواکے ڈھائی ہزار ویکسین ڈوز کے ضائع ہونے کی خبر دی جبکہ مرکزی حکومت کے مطابق پانچ ماہ میں راجستھان کے اندر گیارہ لاکھ پچاس ہزار ڈوز برباد ہوئے۔ اس نے اتر پردیش کے للت پور ضلع کے تیرہ گاوں سے خبر دی کہ وہاں اموات میں غیر معمولی اضافہ تو ہوا ہے مگر ٹسٹ کی سہولت نہ ہونے کے سبب کورونا کا اندراج نہیں ہورہا ہے۔
گجرات سرکار کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بتانے میں جھوٹ بول رہی تھی تو اس نے احمدآباد اور جام نگر کووڈ اسپتالوں کے باہر اپنے نامہ نگار تعینات کردیے اور صبح سے شام تک لاشوں کی تعداد گن کر سرکار کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اب کوویڈ اسپتال میں مرنے والا تو کورونا کا مریض ہی ہوگا۔ سورت میں شمشان کا دورہ کرواکر تعداد نکال لی ۔ بہار ویکسی نیشن مہم میں آٹھ لاکھ ترانوے ہزار فرضی آنکڑوں کا راز فاش کردیا۔ پٹرول ڈیزل میں سرکاری لوٹ کو بے نقاب کیا۔ ساری دنیا کی نظر میں ہندوستانی اعداو شمار کی وقعت اور ان کے اندازے جو کئی گنا زیادہ تھے پیش کردیے۔ ان موضوعات سے پتہ چلتا ہے کہ کیا لکھنے سے سرکار کی نیند اڑتی ہے اور اس کے ہوش ٹھکانے آتے ہیں ۔
پیگاسس کا معاملہ آیا تو بھاسکر نے بتایا کہ سن 2005 میں بی جے پی کے اندر مودی کے مخالف گوردھن جھڑپیا نےجاسوسی کا الزام لگایا تھا ۔ آگے چل کر کانگریسی موڈواڈیہ ، شکتی سنگھ اور شنکر سنگھ واگھیلا نے مودی اور شاہ کے خلاف یہی الزام لگائے۔وزیر اعلیٰ وجئے روپانی اس وقت بی جے پی گجرات کے سربراہ تھے۔ انہوں نےاس اہانت آمیز اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھاکہ مرکزی حکومت کو اس کا حق ہے ۔ ایسی ہی غیر مشروط چاپلوسی نے انہیں وزیر اعلیٰ بنادیا۔ وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد 2016میں کیجریوال نے حقوق نسواں کے کمیشن سے مودی جی کے ذریعہ ایک خاتون کی جاسوسی کرنے کی شکایت کی تھی۔ انہوں نے اس سے متعلق ڈیجیٹل ثبوت منسلک کرتے ہوئےلکھا تھاکہ مودی جی کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے۔یہ ایک ایسی خبر تھی جس نے شاہ جی کے تن بدن میں آگ لگا دی اور انہوں نے چھاپہ مار کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی ۔ اس طرح کام کرنے والے لوگ دشمن کی ضرورت سے بے نیاز ہوتے ہیں ۔ وہ ایک ایسا بھسماسورا بن جاتے ہیں جو اپنی تباہی کے لیے خود کفیل ہو ۔ اس معاملے میں وہ کسی کے محتاج نہیں ہوتے اور اپنی تباہی کا سامان خود کرتے ہیں ۔
***

اول تو اس چھاپے نے حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف متحد ہوکر حملہ کرنے کا نادر موقع عنایت کردیا ۔ پیگاسس میں جو کچھ ہوا وہ تفتیش طلب معاملہ ہے لیکن بھاسکر کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور اس کا ذمہ دار اظہر من الشمس ہے۔ ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ موجودہ حکومت مخالفت کو برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے۔ اس کے لیے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو چھپانا ناممکن ہوگیا ہے اور وہ گھبرا کر اس طرح کی بزدلانہ اقدامات پر اتر آئی ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دلیر کو ڈرانے پر وہ بے خوف ہوکر حملے کرتا اور بھاسکر یہی کرےگا ۔ مرکزی حکومت کی اس حماقت نے تمام ذرائع ابلاغ کو (بشمول جانبدارمیڈیا )حکومت کی مخالفت پر مجبور کردیا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021