چوکنا رہنے کی ضرورت

اداریہ۲

بالآخر تلنگانہ کی قانون ساز اسمبلی میں بھی متنازعہ قانون سی اے اے،این پی آراور این آر سی کے خلاف قرار داد منظور کرلی گئی ہے۔ ملک کی 7 ریاستوں کی اسمبلیوں میں ان قوانین کے خلاف پہلے ہی کم و بیش اسی نوعیت کی قرار دادیں منظور کی جا چکی ہیں اور اب تلنگانہ ملک میں اس طرح کی 8ویں ریاست بن گئی ہے۔ وزیراعلی چندرشیکھرراو نے اسمبلی میں بحث کا آغازکرتے ہوئے مرکز سے اس انتہائی متنازعہ و متعصبانہ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیاہے۔مجلس اتحاد المسلمین کے فلور لیڈر اکبرالدین اویسی نےتلنگانہ کی اس قرارداد کو تمام ریاستوں میں سب سے جامع و یکتا قرار دیا ہے، لیکن مختلف سماجی کارکنان اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ قرارداد میں یکم اپریل سےشروع ہونے والی مردم شماری کے بارے میں حکومت نے کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ قرارداد فوری طور پر این پی آر کو روکنے کی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ یہ محض علامتی اپیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب کہ اس وقت سب سے اہم اور قابل توجہ مسئلہ این پی آر کو روکنا ہی ہے جو بنیادی طور پر این آر سی سے منسلک ہے۔
اسی طرح دلی تشدد کے دوران حکمراں عآپ کا جو طرزعمل رہا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے بھی آنے والے دنوں میں مختلف ریاستوں کے موقف اور قومی سیاستدانوں کے بیانوں پر نظر رکھنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ کہیں مختلف سیاسی جماعتیں قوم و ملک کو دھوکے میں رکھتے ہوئے مرکزی حکومت سے پینگیں بڑھانے کا عمل تو جاری نہیں رکھی ہوئی ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ مبہم قسم کی قراردادوں اور بیان بازیوں سے احتجاجیوں کو گمراہ کیا جاتا رہے تاکہ اپنی امیج کو صاف ستھرا رکھنے کا مقصد متواز ی طور پر حاصل کیا جاسکے۔ دوسری طرف کورونا وائرس کے سلسلے میں احتیاطی تدابیر کے تحت دلی حکومت نے ۵۰سے زائد افراد کے اکٹھا ہونے پر پابندی لگادی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اس کااطلاق احتجاجوں پر بھی ہوگا، حالانکہ شادیوں وغیرہ پر اس کااطلاق نہیں ہورہا ہے۔ ایسے میں احتجاجیوں کی جانوں کے تحفظ اور شاہین باغ دھرنوں کے طویل میعادی اغراض کے حصول کے بیچ کسی متوازن حکمت عملی کے تحت بہترین راہ اختیار کرنے پر بھی سوچا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک مسلم تنظیم کی قانونی کوششوں کی ستائش کی جا سکتی ہے۔ اس کی درخواست پر جاری کردہ ایک نوٹس میں، دہلی ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کو تشدد سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے شمال مشرقی دلی کے متعدد علاقوں میں تشدد کے معاملے میں دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس تنظیم کی درخواست پر پیر کو جاری کردہ اس نوٹس میں، ہائی کورٹ نے دلی پولیس کو تشدد سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔
ادھراترپردیش کی حکومت نے عدالت میں جواب داخل کیا ہے کہ چوراہوں سے ’غیر قانونی‘ پوسٹر ہٹانے کے لیے اسے مزید مہلت درکار ہے۔ الہ آباد ہائیکورٹ کے واضح حکم کےباوجود سپریم کورٹ کی ذرا سی راحت کی آڑ میں حکومت اترپردیش ضد اور ہٹ دھرمی کی جس راہ پر چلنا چاہتی ہے وہ حکومت کے معلنہ ’بدلے‘ والے موقف پر ہر حال میں قائم رہنے کی سوچ کو ظاہر کررہی ہے۔ حکومت نے ان پوسٹروں کا مقصد یہ بتایا تھا کہ ان میں احتجاجیوں کی تصاویر چسپاں کرکے احتجاجوں کے دوران ہوئے مالی نقصان کی بھرپائی کی جائے گی۔ لیکن عدالتوں نے اس عمل کو سراسر کسی بھی قانون سے پرے قرار دیا۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ کالے قانون کے خلاف میدان میں اترے مختلف محاذ اور الائنس اس طرح کی قانونی باریکیوں کا جائزہ لیں اور سامنے آنے والی دشواریوں کا سد باب کرنے کے لیے ایک جامع لائحہ عمل پر کام کریں۔