پونے کے سلیم مُلا، وقف جائیدادوں کے جہد کار

مہاراشٹرا وقف لبریشن اینڈ پروٹیکشن ٹاسک فورس‘ کا قیام دیگر ریاستوں کے لیے قابل تقلید

افروز عالم ساحل

وقف کی جائیدادوں سے مسلمانوں نے آنکھیں پھیرلیں تو قوم کے دشمنوں نے اپنی گدھ جیسی نظریں ان پر گاڑدیں۔ آج عالم یہ ہے کہ غریبوں اور مظلوموں کو حق دینے کے لیے وقف کردہ بیش قیمتی جائیدادیں اب رئیل اسٹیٹ بنتی جا رہی ہیں اور ہم خاموش ہیں۔

لیکن اسی خاموشی کو توڑتے ہوئے مہاراشٹرا کے شہر پونے کے سلیم مُلا نے یہ محسوس کیا کہ وقف جائیدادوں کی تحفظ کے لیے کسی کمیشن، کونسل یا بورڈ پر انحصار کرنے کے بجائے ہمیں خود اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی۔ وقف جائیدادوں کے بارے میں واقفیت حاصل کرنا ہر مسلمان کو اپنا فرض سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم اب بھی بیدار نہیں ہوئے تو نہ نماز پڑھنے کے لیے مساجد ہوں گی، نہ مرنے کے بعد دفن ہونے کےلیے دو گز زمین ہمیں آسانی سے مل سکے گی اور نہ ہمارے بزرگوں کی درگاہیں و قبریں ہی بچیں گی… بس اسی سوچ نے انہیں ’مہاراشٹرا وقف لبریشن اینڈ پروٹیکشن ٹاسک فورس‘ بنانے کی ترغیب دی۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سلیم مُلا کہتے ہیں کہ ہمیں وقف کو دیکھنے کا نظریہ بدلنا ہوگا۔ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں یہ بات رہتی ہے کہ وقف بورڈ ہی ہماری وقف جائیدادوں کے مالک ہیں۔ لیکن یہ پوری طرح سے حقیقت نہیں ہے۔ وقف بورڈ کی حیثیت ایک ایسے ادارے کی ہے جس کا کام وقف جائیدادوں کو غیر قانونی قبضوں سے بچانا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ٹرسٹی یا متولی کے ذہن میں بھی یہی رہتا ہے کہ وہ وقف جائیدادوں کے مالک ہیں جبکہ ان کی حیثیت صرف ایک کیر ٹیکر (نگہبان) کی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

سلیم مُلا کے مطابق وقف جائیدادوں کے بدتر حالات مسلمانوں کے کمزور ہو رہے ایمان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کیونکہ مسلمان ہونے کا مطلب ہی لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے نظر پھیر لینے کی وجہ سے ہماری وقف جائیدادیں غلط ہاتھوں میں پہنچ رہی ہیں اور غریبوں و مظلوموں کا حق مارا جارہا ہے۔ لیکن شاید ہم یہ بھول رہے ہیں کہ غریبوں اور مظلوموں کے حق کے لیے لڑنا اور ظلم و زیادتی کے آگے خاموش نہ رہنا بھی مسلمان ہونے کا ایک اہم فریضہ ہے۔

ملک کی پہلی ’مائناریٹی اسکِل ڈیولپمنٹ یونیورسٹی‘ کے قیام کی کوشش

سلیم مُلا اور ان کے ساتھیوں کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ سال 2018 میں اس وقت برسر اقتدار بی جے پی حکومت نے اورنگ آباد میں ’مائناریٹی اسکِل ڈیولپمنٹ یونیورسٹی‘ کھولنے کے لیے 100 ایکڑ زمین اور سو کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔ اگرفی الواقع ایسا ہوا تو یہ ہندوستان کی پہلی ’اسکِل ڈیولپمنٹ یونیورسٹی‘ ہوگی۔ حالانکہ حکومت کا یہ اعلان ابھی تک زمین پر نہیں اتر سکا ہے۔ لیکن سلیم مُلا اسے زمین پر اتارنے کی مستقل کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ سلیم مُلا کا صاف طور پر کہنا ہے کہ یہ میری اکیلے کی کوشش نہیں ہے۔ اس کام کا اصل کریڈٹ ریٹائرڈ آئی آر ایس آفیسر اے جے خان اور میرے دوست ولاست احمد واسلے کو جاتا ہے۔

ہفت روزہ دعوت سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم مُلا بتاتے ہیں کہ اب تک ہم لوگ اورنگ آباد کے ضلع کلکٹر کو وقف کی چار جائیدادیں اور سرکاری زمین دکھا چکے ہیں لیکن یہاں کے ضلع کلکٹر کی اس میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے۔

سلیم مُلا کہتے ہیں کہ انہوں نے لاک ڈاؤن سے پہلے اس تعلق سے ایک خط میں مرکزی وقف کونسل، مرکز اور ریاست کی اقلیتی وزارت کو لکھا کہ اگر اورنگ آباد میں زمین نہیں مل رہی ہے تو ہم نے پونے میں آپ کے لیے زمین تلاش کر کے رکھی ہے۔ آپ پونے آئیے اور اس پر اپنا کام شروع کیجیے۔ اگر پونے میں آپ کی دلچسپی نہیں ہے تو ہم مہاراشٹرا میں کہیں بھی زمین دلانے کو تیار ہیں جو وقف کی ہی زمین ہوگی۔

ایک ہزار کروڑ روپے مالیت کی وقف زمین کا گھوٹالہ

سلیم مُلا بتاتے ہیں کہ سال 2015 میں معلوم ہوا کہ میرے علاقے یعنی کونڈوا میں 46.4 ایکڑ کی ایک وقف جائیداد ہے جس پر کچھ لوگوں کا ناجائز قبضہ ہے جو کل ملا کر قریب ایک ہزار کروڑ روپیوں کا وقف زمین گھوٹالہ ہے۔ میں نے اس کو بچانے کی بات لوگوں سے کہی ہے لیکن یہاں کے مقامی لوگ یہی کہتے رہے کہ کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے کیونکہ یہ جائیداد وقف بورڈ میں تو درج ہے لیکن ریوینو آفس کے دستاویزوں سے غائب ہے۔ میں نے اس زمین سے متعلق تمام دستاویزات جمع کیں۔ اس زمین پر لوٹ کے تمام شواہد اکٹھے کیے۔ حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) میرے کام میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ دستاویزات جمع کرنے کے بعد وزیر اعظم، سنٹرل وقف کونسل، وزارت اقلیتی امور، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور وقف بورڈ کو خط لکھتا رہا۔ اس کے بعد میں نے نئی دہلی میں اس ’کونڈوا وقف زمین گھوٹالہ‘ کی داستان کے ساتھ قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین غیورالحسن رضوی اور وزارت اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی سے ملاقات کی۔ کچھ خاص فائدہ حاصل نہیں ہو رہا تھا لیکن میں مستقل طور پر لگا رہا۔ ایک دن یہ محنت رنگ لائی اور مہاراشٹرا کے چیف منسٹر کے حکم پر اس کی سی آئی ڈی تحقیقات شروع ہوئی اور آخرکار اس سال لاک ڈاؤن کے پہلے مارچ مہینے میں یہ زمین ریوینو آفس کے دستاویزوں میں بھی مہاراشٹرا وقف بورڈ کے زمین کے طور پر درج ہوچکی ہے۔

اس پورے معاملے میں وقف بورڈ کا رویہ کیسا رہا؟ اس سوال پر سلیم مُلا کہتے ہیں کہ وقف بورڈ کافی مددگار ثابت ہوا لیکن پونے میونشپل کارپوریشن اور مقامی ایڈمنسٹریشن کا رویہ بے حد خراب رہا۔

توصیف شیخ کے کام کو آگے بڑھانے پر ملی کامیابی

احمد نگر کے کرجت میں توصیف شیخ نے وقف کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کے تعلق سے مقامی انتظامیہ کے پاس کئی شکایتیں داخل کیں لیکن جب ان کی بات نہیں سنی گئی تو وہ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ چھ مہینے بیٹھے رہنے کے بعد بھی ان کی بات نہیں سنی گئی تو انہوں نے 21 دسمبر، 2018 کو احمد نگر ضلع کلکٹر آفس کے سامنے تحصیلدار آفس میں خود پر پٹرول چھڑک کر خود سوزی کر لی۔

توصیف شیخ اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے کام کو آگے بڑھانے کا ذمہ سلیم مُلا اور ان کے ساتھیوں نے اپنے کاندھوں پر لیا اور اس میں انہیں کامیابی ملی۔ سلیم مُلا کے مطابق کرجت میں 102 ایکڑ کی وقف زمین پر غیر قانونی قبضہ تھا۔ یہ زمین وقف کی تھی لیکن مقامی انتظامیہ کی وجہ سے وقف بورڈ میں درج نہیں ہو سکی تھی۔ ہم نے اب اس زمین کو مہاراشٹرا وقف بورڈ میں رجسٹرڈ کرادیا ہے اور اس زمین پر جو دکانیں غیر قانونی طریقے سے بنائی گئی تھیں انتظامیہ نے ان تمام دکانوں کو گرادیا ہے۔ سلیم مُلا اس پورے کام کا سہرا توصیف شیخ کے سر باندھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کام کا کریڈٹ مجھے نہیں بلکہ توصیف شیخ کو جانا چاہیے کیوں کہ اس وقف جائیداد سے متعلق تمام تفصیلات انہوں نے ہی جمع کر رکھی تھیں۔

ممبئی کی لال شاہ بابا درگاہ معاملے کو پھر سے کیا زندہ

ممبئی کی لال شاہ بابا درگاہ جس کو ’لال باغ‘ کہتے ہیں اور جو گنیش پوجا کے لیے پورے ممبئی میں مشہور ہے۔ اس درگاہ کے آس پاس کی پوری زمین وقف کی ہے اور اس زمین پر غیر قانونی قبضے ہیں۔ آج سے کئی سال پہلے یہ معاملہ ممبئی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو واپس وقف ٹریبونل میں بھیج دیا۔ لیکن وقف ٹریبونل میں آنے کے بعد ایک الزام کے مطابق اس معاملے سے جڑے تمام وکیل ایک ساتھ ہوگئے جس کی وجہ سے وقف ٹریبونل بھی خاموش بیٹھ گیا۔ لیکن اب اس معاملے کو سلیم مُلا اور ریٹائرڈ آئی آر ایس اے جے خان نے مل کر پھر سے کھلوایا ہے۔ سلیم مُلا بتاتے ہیں اس معاملے کی اگلی سنوائی وقف ٹریبونل میں 12 اکتوبر کو ہوگی۔

وقف کے معاملے میں مسئلہ کہاں ہے؟

سلیم مُلا کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دستاویزات کو سنبھال کر رکھنے کا کلچر نہیں ہے اور جو رکھتے ہیں وہ زیادہ تر اس میں خود کا فائدہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وقف انتظامیہ میں حکومت کا دخل زیادہ ہے۔ 11 افراد کی کمیٹی میں 6 لوگ سرکاری ہوتے ہیں، ان 6 میں دو رکن اسمبلی، ایک رکن پارلیمنٹ، دو بار کونسل ممبر ہوتے ہیں۔ باقی 5 لوگ بھی ویسے ہی ہوتے ہیں جنہیں سیاست کرنا ہوتا ہے یا پھر وہ اقتدار سے فائدہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ زیادہ تر صوبوں میں سی ای او کا عہدہ بھی مستقل نہیں ہے۔ وقف بورڈ کو ایڈیشنل چارج کی شکل میں دے دیا جاتا ہے۔ وقف بورڈ میں اسٹاف کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ زیادہ تر وقت جان بوجھ کر ان کی بحالی نہیں کی جاتی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اپنے لوگوں کی تاریخ میں دلچسپی بہت کم ہے جبکہ ضرورت ہے کہ ہر مسجد و درگاہ کی تاریخ لکھی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد ہم اپنے آبا واجداد کو بھول گئے۔ شیواجی مہاراج کی حکومت مہاراشٹرا کے کافی چھوٹے سے حصے میں تھی لیکن اس کی تاریخ کو اتنا بڑھا چڑھا کر لکھا گیا کہ آج ملک کے ہر کونے میں ان کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن ہماری قوم کی زبردست تاریخ رہنے کے باوجود ہم نے اس کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا۔ وقف سے جڑے تاریخی مقامات اور اس کی تاریخ سے دنیا کو روبرو کرانے کی ضرورت ہے۔

کون ہیں سلیم مُلا؟

57 سال کے سلیم مُلا کی کہانی جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ مہاراشٹرا کے ستارا ضلع کے کننرواڑی گاؤں میں پیدا ہوئے سلیم مُلا کا بچپن کافی مشکلات میں گزرا۔ ان کے پیدائش سے 40 دن پہلے ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ والدہ نے لوگوں کے کھیتوں و گھروں میں مزدوری کر کے انہیں پڑھایا جب کہ لوگوں میں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ دسویں کے بعد ان کا داخلہ انٹر (سائنس) میں کولہا پور کے ایک اسکول میں ہوا۔ لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے گیارہویں کے بعد اسکول جانا بند ہو گیا۔ اس درمیان کسی کے مشورے پر انہوں نے آئی ٹی آئی میں داخلہ لیا۔ ساتھ ہی انٹر (آرٹس) کے بھی طالب علم بنے رہے۔

سلیم مُلا کی ذہانت کا پتہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے اس دور میں جب کہ بچوں کا پاس ہونابھی مشکل ہوتا تھا،69 فیصد نشانات کے ساتھ دسویں کا امتحان کامیاب کیا۔ سلیم مُلا بتاتے ہیں کہ انہوں نے آئی ٹی آئی میں الیکٹریشن کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کام کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔ خود کی دکان بھی کھولی۔ ادھر بارہویں کا امتحان بھی فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ آئی ٹی آئی کے بعد نوکری بھی لگی، لیکن سلیم مُلا کو اپنا کام کرنا ہی پسند تھا۔ پھر وہ اپنے ہنر کے دم پر سعودی عرب چلے گئے۔ تقریباً 7 سال سے زیادہ سعودی عرب و بحرین میں کام کرنے کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ آئے اور پھر پونے میں رہ کر جد وجہد شروع کی۔ فی الحال اپنا ٹینٹ ہاؤس کھول کر ایونٹ مینجمنٹ میں کام کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کا اچھا خاصا وقت سماجی کاموں میں لگ جاتا ہے۔

اس کام نے بدل دی ان کی زندگی

وہ کہتے ہیں کہ ان کے ٹینٹ ہاؤس کے سامنے ایک مدرسہ ہے جس میں روزآنہ خریدا ہوا تین ٹینکر پانی آتا تھا۔ تب انہیں یاد آیا کہ اسی مدرسے کے پیچھے ایک پرانا کنواں ہوا کرتا تھا جس کو لوگوں نے کوڑا کرکٹ سے بھر دیا ہے۔ بس یہیں سے آئیڈیا آیا کہ اگر یہ کنواں دوبارہ کھول دیا جائے تو مدرسے کے ساتھ ساتھ یہاں کے عام لوگوں کو بھی پانی ملنے لگے گا۔ بس پھر کیا تھا وہ لوگوں کی مدد سے کنواں کھودنے میں لگ گئے۔ تقریباً ڈیڑھ دو سالوں کی محنت کے بعد کامیابی حاصل ہوئی۔ آج پائپ لائن کے ذریعے اس کنویں سے مدرسہ کو پانی مل رہا ہے۔ وہیں مسجد، مندر، اسکول اور یہاں کے عام لوگوں کو بھی اس کا فائدہ مل رہا ہے۔

سلیم مُلا کو اس کامیابی کے بعد ایک روحانی سکون ملا اور انہوں نے خود کو سماجی کاموں میں لگانا شروع کر دیا۔ خاص طور پر کئی یتیم لڑکیوں کی شادی میں دل کھول کر مدد کی اور دوسروں سے بھی مدد کروائی۔ بچوں کی تعلیم پر بھی کام کیا۔ اسی درمیان ان کے ایک دوست نے بتایا کہ پاس کی عالمگیر مسجد ٹرسٹ کی زمین جو کہ وقف ہے، اس کو لوگوں نے فروخت کر دیا ہے۔ بس یہیں سے سلیم مُلا اس اوقافی زمین کی دستاویزات کی چھان بین میں لگ گئے۔

سلیم مُلا بتاتے ہیں کہ مجھے وقف کے بارے میں کچھ بھی واقفیت نہیں تھی۔ میں تو یہ تک نہیں جانتا تھا کہ یہ وقف کیا ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کی سمجھ آتی گئی اور معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق وقف جائداد ہمیشہ کے لیے وقف ہوتی ہے، اس کی خرید و فروخت نہیں کی جاسکتی۔ اب جب کہ پوری طرح سمجھ میں آ گیا تب یہ احساس ہوا کہ قوم کے غربا و یتموں کے لیے وقف کردہ ان زمینوں کو بچانا ضروری ہے۔ پہلے تو اکیلے ہی کام میں لگا، لیکن پھر اس بات کا احساس ہوا کہ یہ کام اکیلے کے بس کا روگ نہیں بلکہ ٹیم کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کام کے لیے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی اور آخرکار تمام لوگوں کی مدد سے ’وقف لبریشن اینڈ پروٹیکشن ٹاسک فورس‘ کا قیام ممکن ہوا۔

کیا ہے ’وقف لبریشن اینڈ پروٹیکشن ٹاسک فورس‘؟

سال 2016 میں پونے میں ’مہاراشٹر وقف لبریشن اینڈ پروٹیکشن ٹاسک فورس‘ تشکیل دی گئی۔ اس کا نعرہ تھا ’’ نہ رکیں گے نہ جھکیں گے اور نہ بِکیں گے..‘‘ یہ ٹاسک فورس وقف اراضی کے تحفظ اور اس پر غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کے خلاف کام کرے گی۔

سلیم مُلا بتاتے ہیں کہ ٹاسک فورس کو مضبوط بنانے کے لیے اس میں اساتذہ، ریٹائرڈ پولیس افسران، پالیسی ساز، ریٹائرڈ بیوروکریٹس، انکم ٹیکس حکام اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو اس میں جگہ دی گئی ہے۔ ابھی یہ ٹاسک فورس مہاراشٹر کے 20 اضلاع میں کام کر رہی ہے۔

سلیم مُلا اس ٹاسک فورس کےصدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ٹاسک فورس کا صدر منتخب ہونا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اس ناچیز کو اتنا بڑا اعزاز ملنے کے بعد میری ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔ وقف کے سلسلے میں جتنا کام کیا جائے کم ہے۔ کیونکہ گزشتہ تیس چالیس سالوں میں پڑھے لکھے اور ہمارے نام نہاد لیڈروں نے اس ضمن میں کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔ بلکہ زیادہ تر معاملوں میں یہی لوگ اے سی کمروں میں بیٹھ کر وقف اراضی پر قبضے کرنے کی سازشیں کرتے رہے۔ مگر میری کوشش ہوگی کہ اپنی موت تک غریبوں کے حق کے لیے لڑتا رہوں تاکہ مرنے کے بعد کسی غریب کو دو گز زمین کے لیے ترسنا نہ پڑے۔

سلیم مُلا کے مطابق ٹاسک فورس کی تشکیل کے بعد ہمیں ہر روز وقف جائیدادوں پر غیر قانونی قبضوں کے بارے میں معلومات مل رہی ہیں۔ بہت سے معاملات کافی بڑے ہیں۔ ہماری پوری ٹیم ان وقف جائیدادوں کے دستاویزات اکٹھا کرنے میں مصروف ہے تاکہ ہم پوری تیاری کے ساتھ اس کی لڑائی لڑ سکیں۔

کہنے والے صحیح کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص پُر عزم ہے تو پھر اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ کام کرنے والے سلیم مُلا کو اب کامیابی ملنی شروع ہوگئی ہے۔ سلیم مُلا کا خواب ہے کہ وہ مہاراشٹر میں ایک بڑے اسپتال کے ساتھ ساتھ ایک یونیورسٹی کھولیں جس کو معیاری تعلیم کے لیے پوری دنیا میں جانا جائے۔ اسپتال میں غریب مزدوروں کا علاج مفت ہوسکے اور غریبوں کے بچے اسکول و یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر سکیں کیونکہ وقف کا اس سے بہتر استعمال نہیں ہوسکتا۔ انہیں پورا یقین ہے کہ ان کی محنت ایک دن ضرور رنگ لائے گی اور ان کا خواب پورا ہوگا۔

 

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020