پنجاباور گجرات کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں زمین و آسمان کا فرق

گجرات میں ایم آئی ایم اور عاپ نے کھیل بگاڑا یا کانگریس خود ہی سیاسی پِچ پر پھسڈی ثابت ہوئی؟

(دعوت نیوزڈیسک)

 

پنجاب میں زرعی قوانین بی جے پی کو لے ڈوبے یا کیپٹن امریندر سنگھ کی کرشماتی شخصیت نے کانگریس کو مضبوط کیا؟
فروری 2021 میں دو ریاستوں کے بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے لیکن نتائج دونوں کے یکطرفہ رہے۔ رائے دہندگان کے رجحانات زمین و آسمان کا فرق دکھائی دیا۔ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات پر کانگریس کا تسلط رہا جبکہ گجرات میں ہر جگہ بی جے پی کا پرچم لہرایا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ دونوں ہی ریاستوں میں شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ گجرات میں مودی۔شاہ کی جوڑی رنگ لائی تو پنجاب میں کیپٹن امریندر سنگھ کی کرشماتی شخصیت نے کانگریس کو مضبوط کیا۔
گجرات میونسپل کارپوریشن انتخابات کی بات کی جائے تو بی جے پی نے تمام 6 میونسپل کارپوریشنوں احمد آباد، سورت، وڈودرا، جام نگر، بھاو نگر اور راجکوٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 2015 میں کانگریس کی کارکردگی قدرے بہتر تھی۔ کانگریس کو 2015 میں 174 سیٹیں ملی تھیں لیکن اس بار وہ محض 55 سیٹوں پر ہی سکڑ کر رہ گئی۔ کانگریس کو احمد آباد میں 25 وڈودرا میں 7 سورت میں صفر راجکوٹ میں 4 بھاؤ نگرمیں 8 اور جام نگر میں 11 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ جبکہ بی جے پی جس نے 2015 میں 572 میں سے 389 سیٹوں پر جیت درج کی تھی اس بار 570 میں سے 483 نشستیں اس کی جھولی میں آ گریں۔
کانگریس کی شکست فاش کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن شاید سب سے بڑی وجہ بے راہ روی اور پختہ حکمت عملی کا فقدان ہے کیوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 200 سیٹیں تو کانگریس الیکشن سے پہلے ہی ہار چکی تھی۔ عین وقت پر کانگریس کے کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے تھے اور کئی امیدواروں کی نامزدگیاں مسترد کردی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ کانگریس نے عین وقت پر اپنے کئی امیدواروں کو ہی بدل دیا تھا۔ مثال کے طور پر اگر زید کو ٹکٹ ملا تھا تو آخری وقت میں ابراہیم کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ ایسے میں رائے دہندگان میں عدم یکسوئی لازمی چیز ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ گجرات میں کانگریس نے ہاردک پٹیل کو کارگزار صدر بنایا ہے جو پاٹیدار انامت آندولن سمیتی (PAAS) سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنہوں نے پٹیل تحریک کو کامیاب بنایا تھا لیکن انہیں کچھ خاص کام نہیں دیے گئے۔ وہیں گجرات میں کانگریس صدر امت چاؤڑا ہیں جن کے ذمے پارٹی کے اکثر فرائض سپرد ہیں ایسے میں آخری قت میں کئی پاٹیدار لیڈروں نے کانگریس کو ٹکٹ واپس کر دیے اور یہ الزام لگایا کہ پٹیلوں کے ساتھ کانگریس نے نا انصافی کی ہے۔ کانگریس کی بد ترین ہار کا ایک واضح سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ کانگریس گجرات میں بڑھتے کورونا وائرس کے حوالے سے حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں کو اجاگر نہیں کر پائی جبکہ گجرات ہائی کورٹ نے گجرات حکومت کی سرزنش کی تھی کہ کورونا کے معاملے میں ریاستی حکومت کوئی پختہ قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ میڈیا کی کئی رپورٹس میں بھی کورونا کے خلاف مقابلے میں گجرات سرکار کو کمزور دکھایا گیا تھا لیکن کانگریس نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ خیر یہ تو اصول چلا آ رہا ہے جب کوئی شکست سے دوچار ہوتا ہے تو اس کی کمزوریوں اور خامیوں پر بات کی جاتی ہے اور کرنی بھی چاہیے تاکہ وہ اپنا محاسبہ کرے کیوں کہ اتنی قدیم پارٹی کا اس طرح سے شکست سے دو چار ہونا جمہوریت کے لیے بھی صحیح نہیں ہے۔ شیو سینا لیڈر سنجے راوت نے بھی یہی کہا ہے کہ گجرات میں میونسپل کارپوریشن انتخابات میں کانگریس کی شکست جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ کانگریس کو ایم آئی ایم اور عام آدمی پارٹی سے بھی کافی نقصان پہنچا۔ اس انتخاب میں ایم آئی ایم کی آٹھ سیٹیں تو عام آدمی پارٹی کو ستائیس سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کو سورت سے یہ کامیابی حاصل ہوئی جو گجرات بی جے پی صدر اور بی جے پی رکن پارلیمان سی آر پاٹل کا مقام ہے۔ عام آدمی پارٹی پانچ سال پہلے سے ہی یہاں سیاسی زمین تلاش کرنے میں لگ گئی تھی۔ دوسری طرف بی ایس پی کو جام نگر سے تین سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔
اب اگر پنجاب کے آٹھ میونسیپل کارپوریشنوں کی بات کی جائے تو یہاں کانگریس نے شاندار جیت درج کی ہے۔ بی جے پی کا کھاتہ تک نہیں کھل پایا۔ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی یہاں شروع سے ہی مضبوط نہیں تھی بلکہ شرومنی اکالی دل کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ یہاں پہنچی تھی لیکن اس بار تو زرعی قوانین کی مخالفت میں شرومنی اکالی دل کا بی جے پی سے رشتہ ہی ٹوٹ گیا تھا۔ چنانچہ "ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے” کے مصداق بے جے پی خود بھی ڈوبی ساتھ میں شرومنی اکالی دل کو بھی لے ڈوبی۔ یہ بھی مشہور کیا گیا کہ زرعی قوانین کے خلاف صرف پنجاب کے کسان ہی دہلی کی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے جبکہ اکثرسیاسی تجزیہ نگار اس سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ہے کہ کیپٹن امریندر سنگھ پر ووٹروں نے اعتماد کیا ہے۔ بہر حال پنجاب کے آٹھ میونسیپل کارپوریشنوں کے نتائج کے مطابق کل پچاس سیٹوں میں سے 38 پر کانگریس نے جیت حاصل کی۔ اسی کے ساتھ کانگریس کا سبھی آٹھ کارپوریشنوں پر قبضہ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے سات میونسپل کارپوریشنوں کا نتیجہ سامنے آیا تھا اور سبھی میں کانگریس نے فتح کا پرچم لہرایا تھا۔ اس طرح بی جے پی اور شرومنی اکالی دل کی کشتی اس الیکشن میں پوری طرح سے ڈوب گئی۔ عام آدمی پارٹی، شرمنی اکالی دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کھاتہ تک نہیں کھول سکے۔ شرومنی اکالی دل سے الگ ہوئے سابق میئر کلونت سنگھ کے آزاد گٹ نے 9 سیٹیں حاصل کیں اور 4 دیگر آزاد امیدواروں کی جھولی میں گئیں۔ پنجاب میں آئے نتیجوں نے ثابت کر دیا کہ ووٹروں نے وزیر اعلٰی کیپٹن امریندر سنگھ کی قیادت والی پنجاب حکومت کے وسیع ترقیاتی کاموں کو دیکھتے ہوئے میونسپل کارپوریشن اور مقامی کونسل اور شہر پنچایتوں کی الیکشن میں کانگریس پارٹی کے امیدواروں میں اعتماد ظاہر کیا ہے۔
دونوں ریاستوں کے نتائج دیکھنے کے بعد یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پنجاب کی کامیابی کیپٹن امریندر سنگھ کی کامیابی ہے، اس میں سونیا گاندھی راہل گاندھی کوئی حصہ نہیں ہے۔ جبکہ گجرات کی کامیابی مودی اور امیت شاہ کی کامیابی ہے اس میں وجے روپانی کا حصہ نہیں ہے۔ دراصل اب زمینی سطح پر کام بہت کم ہی ہونے لگا ہے بس ٹویٹر پر ٹویٹ کر کے اپوزیشن اپنا احتجاج درج کرتی ہے ایسے میں زمینی سطح پر کام کرنے والوں کی جیت ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ الیکشن میں دھاندلی بھی ہوتی ہے اور غلط طریقے سے انتخابات کو متاثر بھی کیا جاتا ہے۔ بس یہ ہے کہ:
کہیں چھاؤں ہے کہیں دھوپ ہے کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کئی چہرے اس میں چھپے ہوئے اک عجیب سی یہ نقاب ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021