شام پر فضائی حملہ، امریکہ اپنا استعماری انداز بدلنے پر تیار نہیں

جو بائیڈن نےایران کی جانب شاخ زیتون لہراتے لہراتے اچانک خنجر تھام لیا!

مسعود ابدالی

 

صدر جو بائیڈن نے اپنے اقتدار کے 36 ویں دن ایک آزاد و خود مختار ملک کی سرحدوں کو پامال کر کے دنیا کو پیغام دے دیا کہ امریکہ اپنا استعماری انداز بدلنے پر تیار نہیں ہے۔ اس سے پہلے جناب بائیڈن مسلسل یہ تاثر دے رہے تھے کہ ان کا دورِ اقتدار مہذب، پر امن اور جنگ و جدل کے بجائے روارداری و سفارتکاری پر یقین رکھنے والے امریکہ کا نقطہ آغاز ہوگا۔ ان کے بیانات اور تقاریر سے بھی اسی عزم کا اظہار ہو رہا تھا۔
مشرق وسطیٰ میں امن کے سلسلے میں انہوں نے دو ریاستی حل یعنی اسرائیل و فلسطین خود مختار و با اختیار ریاستوں کی تجویز کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا تو اسی کے ساتھ امریکی صدر نے ایرانی جوہری تنازعے کے پرامن حل کیلیے 2015 میں طئے پانے والے عالمی معاہدے برنامہِ جامع اقدامِ مشترک المعروف ’برجام‘ یا JCPOA میں دوبارہ شمولیت کا عندیہ دیا۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان اور جرمنی کا ایران سے یہ معاہدہ جولائی 2015 میں طئے پایا تھا جس کے تحت ایران نے معاشی پابندیوں کے خاتمے کے عوض اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کر دینے کے ساتھ یورینیم کی افزودگی اس سطح تک گرا دینے پر رضا مندی ظاہر کی تھی کہ اس سے جوہری ہتھیار نہ بن سکیں۔
دو سال قبل صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو یہ کہہ کر نکال لیا کہ JCPOA ناکافی اور کمزور معاہدہ ہے۔ جس کے بعد انہوں نے ایران پر پابندیوں کی تجدید کر دی۔ عسکری و سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ فیصلہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے اصرار بلکہ دباؤ پر کیا تھا۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ امریکہ اور سلامتی کونسل کے ارکان کو ایران نے بیوقوف بنا کر اس معاہدے پر راضی کیا ہے اور وہ در پردہ جوہری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی IAEA نے 2015 میں جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد چار مرتبہ ایران کی جوہری تنصیبات کا دورہ کیا اور ہر بار ان کی رپورٹ میں ایران کی جانب سے معاہدے پر مخلصانہ عمل کی تصدیق کی گئی۔اقتدار سنبھالتے ہی سابق صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے جناب جو بائیڈن نے کہا کہ جوہری معاہدے سے یک طرفہ نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تناؤ کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا اور 2015 کے مقابلے میں ایران آج جوہری ہتھیار تیار کرنے کے زیادہ قریب ہے۔ امریکی صدر نے عندیہ دیا کہ کہ اگر ایران JCPOA کی شرائط پر مخلصانہ عمل درآمد کی یقین دہانی کروادے تو امریکہ معاہدے میں واپس آ جائے گا۔ جوہری معاہدےکے حوالے سے اپنی سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے جو بائیڈن نے ممتاز سفارتکار جناب رابرٹ ملے (Robert Malley) کو نمائندہ خصوصی برائے ایران نامزد کر دیا۔ ’برجام‘ کو جناب رابرٹ ملے کی کامیاب سفارتکاری کا کمال قرار دیا جاتا ہے۔
ایران کی جانب شاخ زیتون لہراتے لہراتے 25 فروری کو چچا سام نے اچانک خنجر تان لیا اور مشرقی شام میں عراق کی سرحد پر ایران نواز ملیشیا کو زبردست بمباری کا نشانہ بنایا۔ پنج گوشہ (امریکی وزارت دفاع المعروف Pentagon) کے ترجمان جان کربی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صدر جو بائیڈن کے حکم پر امریکی بمباروں نے شام میں ایران نواز عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنایا ہے۔ حملے کے دوران 500 پونڈ کے 7 منضبط (Guided Precision) بم گرائے گئے۔ فوجی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی کارروائی دو ہفتہ قبل عراق کے ایربیل ایئرپورٹ پر امریکی فوج اڈے کو ایران نواز ملیشیا حشد الشعبی اور ان کے حاشیہ بردار اولیا الدّم کی جانب سے نشانہ بنانے کا ردعمل ہے۔ اس حملے میں امریکی فوج کا ایک سویلین ٹھیکیدار ہلاک اور ایک امریکی فوجی سمیت کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔ ایرانی حکومت نے اس حملے سے لا تعلقی کا اعلان کیا تھا۔ امریکی حملے سے تین دن قبل بھی بغداد کے ایک فوجی اڈے پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا جہاں امریکی سپاہی بھی موجود تھے، تاہم حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ان واقعات کی تحقیقات کے بعد عراقی حکام کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں چھوٹے چھوٹے گروہ ملوث ہیں جن کا مقصد امریکیوں کو خوف زدہ کرنا ہے۔
عسکری ذرائع کے مطابق شام وعراق کی سرحد پر ایران نواز حشد الشعبی، کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی۔امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ اس مقام سے عراق میں سرگرم امریکہ مخالف شیعہ ملیشیا کو اسلحہ پہنچایا جاتا ہے۔ امریکی حکومت نے نقصان کی تفصیل نہیں بیان کی لیکن بشارالاسد کی مخالف تنظیم، شامی مبصرین برائے حقوق انسانی یا SOHR کا کہنا ہے کہ امریکی حملے میں کم ازکم 15 ایران نواز چھاپہ مار ہلاک ہوئے جبکہ حشد الشعبی کے اسلحے اور گولہ بارود کے ذخائر کو بھاری نقصان پہنچا۔
حالیہ کارروائی گزشتہ سال بغداد ایئرپورٹ پر ڈرون حملے کے بعد ایرانی تنصیبات پر امریکہ کا پہلا بڑاحملہ ہے۔ جنوری 2020 کے حملے میں پاسدارن انقلابِ اسلامی کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشدالشعبی کے کمانڈر ابو مہدی المہندس مارے گئے تھے۔
حملے پر ایران اور شام کا ردعمل خلاف توقع کافی ملائم ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے حملے کو شام کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی کارروائیوں سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ شامی صدر کی ترجمان محترمہ بوثینہ شعبان نے ’وحشیانہ جارحیت‘ کے نتیجے میں ہلاکتوں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہم کشیدگی نہیں چاہتے اور امریکی فوج نے اُسی شیعہ ملیشیا کو نشانہ بنایا ہے جو ہمارے اڈوں، سپاہیوں، تنصیبات اور مفادات پر حملوں میں ملوث ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں کہا کہ بمباری صدر بائیڈن کی ہدایت پر کی گئی ہے جس کا مقصد ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو سزا دینا تھا تاہم امریکہ علاقے میں کشیدگی نہیں چاہتا۔ جناب کربی نے کہا کہ صدر بائیڈن امریکیوں اور اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھائیں گے۔ یہ ایک جوابی کارروائی تھی۔ امریکہ، مشرقی شام اور عراق میں کشیدگی کو کم کرنا چاہتا ہے۔
جمعہ 26 فروری کو بد ترین برفانی طوفان سے متاثر ہونے والے شہر ہیوسٹن کے دورے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی رد عمل جارحیت نہیں بلکہ دشمن کو یہ بتانا مطلوب تھا کہ ہم اپنی فوج پر حملے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے لہذا احتیاط لازمی ہے۔ انہوں نے جوہری معاہدے میں واپسی کے سوال پر ایک بار پھر کہا کہ اگر ایران معاہدے کی پاسداری کا عملی ثبوت فراہم کرے تو وہ JCPOA میں امریکہ کی واپسی پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔
حملے کے بارے میں امریکیوں کے تبصرے بہت زیادہ جارحانہ نہیں لگتے اور پنج گوشہ یہی تاثر دے رہا ہے کہ کارروائی کا مقصد حشد الشعبی کے ان عناصر کو متنبہ کرنا تھا جو عراق میں امریکی مفادات کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایران یا بشارالاسد سے براہ راست تصادم مطلوب نہیں ہے۔ قصرِ مرمریں کی ترجمان جین ساکی نے اپنے بیان میں کہا کہ باوجودیکہ بشار الاسد ایک قاتل ڈکٹیٹر ہیں، امریکہ شام کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔
امریکی حکام کے بیانات سے لگتا ہے کہ واشنگٹن معاملے کو بڑھانا نہیں چاہتا اسی لیے بمباری سے پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں واشنگٹن کی جانب سے کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی مستقبل میں مزید حملوں کی کوئی دھمکی جاری کی گئی ہے۔ لیکن اسرائیل نے اس کارروائی پر غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے۔اسرائیلی خبر رساں ایجینسی Walla نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے حملے سے پہلے اسرائیلی وزارت دفاع کو اعتماد میں لیا تھا۔ اس خبر کی پنج گوشہ نے تصدیق یا تردید نہیں کی۔ اسرائیلی حکام نے حملے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اوباما نہیں بلکہ جو بائیڈن کا دور حکومت ہے اور اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ اسرائیل میں یہ تاثر عام ہے کہ صدر اوباما ایران کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔
حملے کے بعد بھی جوہری معاہدے میں واپسی کی خواہش سے تاثر ملتا ہے کہ جو بائیڈن ایران سے کشیدگی ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یمن کے ایران نواز حوثیوں پر امریکی پابندیاں نرم کرنے سے بھی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے لیکن چند ہفتہ پہلے امریکی حکومت وینیزویلا جانے والے ایرانی جہازوں پر لدے تیل کو بحق سرکار ضبط کر کے تہران کو کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 2018 میں جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایرانی تیل پر پابندی لگا دی تھی۔ گزشتہ سال اگست میں امریکی بحریہ نے گیارہ لاکھ سولہ ہزار بیرل ایرانی پٹرول (Gasoline) سے لدے چار جہازوں پر قبضہ کر لیا تھا جب کہ منزل مبینہ طور پر وینیزویلا تھی۔
امریکی وزارت انصاف نے گزشتہ ماہ پٹرول فروخت کر کے اس سے حاصل ہونے والی رقم ریاستی دہشت گردی سے امریکی متاثرین کے فنڈ یا U.S. Victims of State Sponsored Terrorism Fund میں جمع کرادی۔ یہ فنڈ 2015 میں قائم کیا گیا تھا جس سے ان امریکیوں کو مدد فراہم کی جاتی ہے جو کسی دوسرے ملک کی سرپرستی میں کی جانیوالی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔ خیال ہے کہ پٹرول کی فروخت سے امریکی حکومت کو دس کروڑ ڈالر کے قریب رقم ہاتھ لگی ہے۔ امریکی بحریہ نے 10 فروری کو بحر غرب الہند (کریبین) Caribbean Sea سے ایک اور تیل بردار ٹینکر Achileas پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے جس پر 20 لاکھ بیرل خام تیل لدا ہوا تھا۔ امریکی حکومت کے مطابق یہ ٹینکر بھی وینزویلا جا رہا تھا۔ لدائی کی دستاویز (Bill of Lading) پر تیل کا ماخذ عراق درج ہے لیکن امریکی دعوے کے مطابق یہ ایرانی تیل ہے۔ امریکی کسٹمز کی کشتیوں کے پہرے میں اس ٹینکر کو خلیج میکسیکو کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے جہاں لوزیانہ کی کسی بندرگاہ پر تیل اتار لیا جائے گا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ایرانی تیل کی ترسیل امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ خام تیل کی شکل میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کے لاکھوں ڈالر مالیت کے اثاثوں پر قبضہ کر کے دہشت گردوں کو قیمتی وسائل نے محروم کر دیا گیا ہے۔ لیکن وینزویلا میں ایرانی سفیر ہوجات سلطانی نے امریکی دعوے کو سفید جھوٹ اور نفسیاتی حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بحری جہاز اور نہ ہی ان پر لدا تیل ایران کی ملکیت ہے۔مہذب دنیا کو سوچنا چاہیے کہ کیا بین الاقوامی قانون کے تحت ایک ملک کسی بھی دوسرے ملک کو دہشت گرد قرار دے کر اس کی حمل و نقل پر پابندی لگا سکتا ہے؟ پہلے تو اس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اجازت ضروری تھی لیکن اب لگتا ہے کہ اس دنیا میں لا قانونیت ہی قانون بن چکی ہے۔ امریکہ کے ان اقدامات کو نظیر بنا کر ایرانی بحریہ نے بھی آبنائے ہرمز میں مغربی ممالک کے جہازوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے۔ کچھ عرصے سے آبنائے ہرمز سے گزرتے ہوئے کئی تیل ٹینکروں اور جہازوں میں دھماکے ہو چکے ہیں۔
جمعہ 26 فروری کو آبنائے ہرمز کے قریب خلیج عمان میں اسرائیل کے ایک تجارتی جہاز پر بارودی مواد سے حملہ کیا گیا جس سے جہاز کو معمولی نقصان پہنچا تاہم عملے کے کسی فرد کے زخمی یا ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔ ذرائع کے مطابق گاڑی بردار جہاز MV Helios دمام، سعودی عرب سے سنگاپور جا رہا تھا کہ آبنائے ہرمز کے قریب خلیج عُمان میں اسے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی حکام اسے ایران کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔
صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی مشرق وسطٰی میں پائیدار امن اور ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس ضمن میں ان کے بعض اقدامات انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ جیسے رابرٹ ملے کی بطور خصوصی نمائندہ برائے ایران تقرری، جوہری امن معاہدے میں امریکہ کی واپسی پر مشروط رضا مندی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحے کی فراہمی پر وقتی پابندی، حوثیوں پر پابندیوں میں نرمی وغیرہ۔ ان اقدامات سے یہ امید بندھ رہی تھی کہ شائد واشنگٹن اور تہران کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد اپنے تعلقات کو بہتر بنالیں لیکن ایران کی بحری حمل و نقل پر پابندی، اس کے اثاثوں کی لوٹ مار اور اب براہ راست بمباری سے لگتا ہے کہ شاہراہ امن پر خفیہ بارودی سرنگیں بڑی مہارت سے نصب کی گئی ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

مہذب دنیا کو سوچنا چاہیے کہ کیا بین الاقوامی قانون کے تحت ایک ملک کسی بھی دوسرے ملک کو دہشت گرد قرار دے کر اس کی حمل و نقل پر پابندی لگا سکتا ہے؟ پہلے تو اس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اجازت ضروری تھی لیکن اب لگتا ہے کہ اس دنیا میں لا قانونیت ہی قانون بن چکی ہے۔ امریکہ کے ان اقدامات کو نظیر بنا کر ایرانی بحریہ نے بھی آبنائے ہرمز میں مغربی ممالک کے جہازوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021