پردہ کی اہمیت اور حدود

اصلاح معاشرہ کی بنیاد اورپاکیزہ وخوش گوار زندگی کا راز

مولانا ابو سلیم محمد عبدالحئی

 

عام طور پر ہمارے گھروں میں جو غیر اسلامی باتیں گھس آئی ہیں ان میں ایک اہم بات پردے کے بارے میں شریعت کے بتائے ہوئے احکام کی خلاف ورزی بھی ہے۔ آپ کو اپنے گھروں کی اصلاح کرنے اور ان میں اسلامی فضا پیدا کرنے کے لیے اس طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ پردے کے جو احکام قرآن پاک میں ملتے ہیں ان میں سے ایک تو وہ ہیں جن سے اس پردے کے بارے میں ہدایات ملتی ہیں جو گھر کے باہر کرنا چاہیے۔ دوسرے احکام وہ ہیں جو گھر کے اندر سے متعلق ہیں۔ کچھ لوگ اندر اور باہر کے حکموں کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے سامنے صحیح اسلامی پردے کی شکل نہیں آتی اور پھر وہ الجھنے لگتے ہیں۔
کچھ لوگ تو وہ ہیں جو یورپ کی تقلید میں پہلے یہ طے کر لیتے ہیں کہ پردہ کرنا ٹھیک نہیں اور یہ تہذیب کے خلاف ہے۔ پھر اس کے بعد وہ اپنی رائے کی تائید میں قرآن سے یہ بات نکال لاتے ہیں کہ وہاں کوئی صاف حکم موجود نہیں ہے یہ بعد کو ایجاد ہوا ہے۔ جن لوگوں پر ایسے لوگوں کی باتوں کا اثر پڑا ہو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پردے کے بارے میں تفصیل کے ساتھ معلومات حاصل کریں اور اس سلسلے میں ضروری کتابوں کا مطالعہ کریں۔
پردے کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اگر اسے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ گھریلو زندگی کی خوشیوں اور خاندانوں کے نظم کی مضبوطی کا براہ راست اس مسئلہ سے تعلق ہے۔ عام طور پر لوگ اس مسئلے کی پوری اہمیت سے واقف نہیں ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اس کا تعلق عورت کی شرم و حیا، اس کی پاک دامنی اور عزت سے ہے لیکن بات اتنی ہی نہیں ہے۔ کوئی ایسی سوسائٹی جس کے اندر خاندانوں کا نظم ٹھیک نہ ہو کبھی کسی مضبوط بنیاد پر قائم نہیں ہو سکتی۔ خاندانوں سے مل کر ہی سوسائٹی یا معاشرہ بنتا ہے۔ اگر خاندانوں میں انتشار ہو تو سوسائٹی میں بھی انتشار ہوگا۔ اگر خاندانوں کا نظم ڈھیلا ہے تو اس معاشرے میں بھی کسی مضبوط نظم کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس لحاظ سے پردے کا مسئلہ ان اہم مسئلوں میں سے ہے جن کا تعلق براہ راست کسی معاشرے کی تنظیم اور اس کی مضبوطی سے ہے۔
گھریلو اصلاح کے سلسلے میں گھر کے باہر اور اندر کے پردے کے لیے جو ہدایات ملتی ہیں ان کی پابندی ضروری ہے۔ عام طور پر پردے کے بارے میں جو غیر اسلامی روش مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوچکی ہے وہ ان ہدایات سے بے پروائی کا نتیجہ ہے جو گھر کے اندر کے پردے کے بارے میں اسلام نے دی ہیں۔ آپ کو گھریلو اصلاح کے سلسلے میں ان ہدایات پر پوری توجہ دینا ہوگی اور اس بارے میں ضروری تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔ رہ گیا گھر کے باہر کے پردے کا مسئلہ تو اگرچہ وہ بھی کافی اہم ہے اور اس بارے میں بھی مسلمانوں کی بے پروائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے لیکن ابھی یہ مرض اتنا عام نہیں ہے جتنا کہ پہلا مرض عام ہے۔ ابھی تین چوتھائی یا اس سے بھی زائد مسلم گھرانے ایسے موجود ہیں جو گھر کے باہر والے پردے کے احکام کی پابندی ضروری سمجھتے ہیں لیکن ایسے گھرانے شاید مشکل سے ہی سو میں دس نکلیں گے جہاں پردے کے ان احکام کی بھی پابندی کی جاتی ہو جن کا تعلق گھر کے اندر سے ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ شریعت کے احکام کی پیروی پر ابھارنے والی اصل چیز تو ایمان کی مضبوطی، اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کی خواہش اور اس کی نا راضی سے بچنے کی فکر ہے۔ لیکن چونکہ آج کل یہ باتیں کم ہو گئی ہیں اس لیے مسلمانوں کے اندر بہت سی غیر اسلامی باتیں گھس آئی ہیں۔ پردے کے احکام کا بھی یہی حال ہے۔ گھر سے باہر کا پردہ بھی مسلمان سوسائٹی کے دباؤ اور لوگوں کی انگشت نمائی کے خوف سے نباہ رہے ہیں۔ لیکن گھر کے اندر کا پردہ چونکہ خاندان کے رواج اور گھریلو طریقوں کے بھی خلاف پڑتا ہے اس لیے اس کی پابندی کرنے والے بہت ہی تھوڑے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہیں جو آگے بڑھ کر یہ ہمت کریں کہ وہ لوگوں کی مخالفت کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کریں۔
قرآن پاک میں پردے کے بارے میں جو احکام آئے ہیں وہ تین طرح کے ہیں:
(۱) وہ احکام جو خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی پاک بیویوں کو خطاب کرکے دیے گئے ہیں۔ ان احکام میں اگرچہ بات تو امت کی ماؤں سے کہی گئی ہے لیکن ان ہدایات کی پابندی مسلمان عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے۔
(۲) وہ احکام جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھرانے کی خواتین کے ساتھ ساتھ عام مسلمان عورتوں کو بھی ہدایات دی گئی ہیں۔
(۳) وہ احکام جو عام مردوں اور عورتوں کو گھروں کے اندر آنے جانے کے متعلق دیے گئے ہیں وہ سورہ احزاب میں بیان ہوئے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
اے پیغمبر کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو (تمہارا درجہ ان سے اونچا ہے اور تمہاری ذمہ داریاں بھی ان سے زیادہ ہیں) اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی سے ڈرنے والی ہو تو اس بات کا لحاظ رکھو کہ جب تمہیں کسی غیر مرد سے بات کرنا ہی پڑ جائے تو بات اس طرح نہ کرو کہ اس میں کسی
طرح لگاوٹ کی بُو آئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے سن کر ایک شخص جس کے دل میں نفاق کی بیماری ہے کسی قسم کی غلط امید لگا بیٹھے۔ البتہ بات جو کہو وہ اچھے اور معقول طریقے سے کہو۔ اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور پچھلے زمانہ جاہلیت کے رواج کے مطابق اپنی زینت اور آرئش کو دکھاتی نہ پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اے نبیؐ کے گھر والو! اللہ چاہتا ہے کہ ہر قسم کی (اخلاقی ومعاشرتی) گندگی کو تم سے دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک اور ستھرا بنا دے‘‘۔
پھر اس سورۃ میں آگے چل کر مردوں کو کچھ ہدایات دی گئی ہیں کہ جب نبی کے گھر جائیں تو کن باتوں کا لحاظ رکھیں۔ فرمایا: ائے ایمان لانے والو! تم نبی کے گھروں میں یوں ہی بلاوجہ نہ جایا کرو۔ البتہ اگر وہ تمہیں کھانے کے لیے بلائیں تو بہ اجازت جاؤ، مگر اس طرح نہیں کہ کھانے کی تیاری کے انتظار میں وہاں جا کر پہلے سے بیٹھے رہو بلکہ جب بلایا جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھاچکو تو منتشر ہو جاؤ۔ بلا وجہ باتوں میں نہ لگ جاؤ۔ یہ باتیں نبی کو دکھ پہنچا رہی تھیں لیکن وہ تمہارے لحاظ سے کچھ کہتے ہوئے جھجکتے تھے مگر اللہ کو تو حق کے ظاہر کرنے میں کوئی جھجھک نہیں۔ اگر تم کو پیغمبر کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔ یہ طریقہ تمہارے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اور ان کے لیے بھی۔ اور تمہارے لیے یہ مناسب نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو دکھ پہنچاؤ اور نہ تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم ان کے بعد ان کی بیویوں سے کبھی نکاح کرو۔ یہ باتیں اللہ کے نزدیک بڑے گناہ کی باتیں ہیں تم چاہے کسی بات کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ البتہ نبی کی بیویوں پر ان کے باپوں، بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں، دینی بہنوں اور غلاموں کے بارے میں کوئی الزام نہیں ہے۔ اور ائے نبی کی بیویو! اللہ کی ناخوشی سے ڈرتی رہو۔ اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے‘‘۔
آگے چل کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر والوں اور عام مسلمان عورتوں کے بارے میں پردے کے احکام دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ائے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دے دیجیے کہ (جب وہ گھر سے باہر نکلیں تو) اپنے چہروں پر اپنی بڑی چادر کا حصہ لٹکا لیا کریں یہ اس لیے کہ اس طرح وہ پہچان لی جائیں (کہ وہ شریف گھرانوں کی شریف زادیاں ہیں) اور انہیں ستایا نہ جائے۔‘‘
ان سب آیات میں جو احکام دیے گئے ہیں ان میں سے کچھ تو نبی کریمؐ کے گھر کی عورتوں کو خاص طور پر خطاب کرکے دیے گئے ہیں اور کچھ میں دوسرے مسلمانوں کی عورتوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سب احکام کا تعلق عام مسلمان عورتوں سے نہیں ہے۔ جو احکام امت کی ماؤں کو دیے گئے ہیں وہ امت کی سب عورتوں کے لیے عام ہیں لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں امت کی تمام عورتوں کے لیے نمونہ ہیں اس لیے کچھ احکام انہی کو خطاب کرکے دیے گئے ہیں۔ ان سب حکموں کو سامنے رکھ کر جو ہدایات ہمیں ملتی ہیں وہ یہ ہیں:
(۱) عام طور پر عورتوں کو نا محرم مردوں سے بات چیت نہ کرنا چاہیے، اگر کسی ضرورت سے بات کرنا ہی پڑ جائے تو اچھے اور معقول طریقے سے بات کی جائے لیکن اس بات میں کچھ اس قسم کی لوچ نہ ہو کہ اس سے کسی قسم کی لگاوٹ کی بو آئے اور اس طرح جس شخص کے دل میں کچھ کھوٹ ہو وہ خواہ مخواہ تمہارے بارے میں کچھ غلط قسم کی امیدیں قائم کر لے۔
(۲) مسلمان عورتوں کا اصلی میدانِ عمل ان کا اپنا ہی گھر ہے اس لیے انہیں بلا کسی خاص ضرورت کے گھر سے باہر نہ جانا چاہیے۔ تفریح، سیر سپاٹے اور نمائش کے لیے بن سنور کر گھر سے نکلنا ان کے لیے کسی طرح مناسب نہیں۔ یہ سب جاہلیت کی روش ہے اور کسی مسلمان شریف زادی کے لیے کسی طرح موزوں نہیں۔
(۳) اگر کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کے گھر دعوت وغیرہ کے سلسلے میں جائے تو اسے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ بلا اجازت گھر میں نہ جائے اور کھانا کھانے کے بعد خواہ مخواہ باتیں بنانے کے لیے بیٹھا نہ رہ جائے اس طرح گھر کی عورتوں کو اور دوسر گھر والوں کو بلا وجہ تکلیف کا سانا کرنا پڑتا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔
(۴) اگر گھر کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگی جائے۔
یہ پابندیاں ان عزیزوں کے لیے نہیں ہیں جو محرم ہوں۔ مثلاً باپ، بھائی، بھتیجے، بھانجے وغیرہ یا گھر کے غلام۔ عورتوں میں سے بھی اسلام کو صرف دینی بہنوں کا ہی گھروں میں بلا تکلف آنا جانا پسند ہے ان کے علاوہ آوارہ بداخلاق اور بے دین عورتوں سے میل جول اور ان کا گھروں میں بلا روک ٹوک آنا ہرگز مناسب نہیں۔ کبھی کبھی ان کی وجہ سے جو فتنے اٹھتے ہیں وہ مردوں کے میل جول سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
(۵) اگر کسی خاص ضرورت سے مسلمان عورتوں کو گھر سے باہر نکلنا ہی پڑے تو اس کی انہیں اجازت ہے لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ وہ ایک ایسی بڑی سی چادر اوڑھ کر نکلیں جس سے ان کی آرائش اور زینت چھپ جائے اور
اس کا حصہ چہرے پر بھی گھونگھٹ کی شکل میں لٹکالیں۔ پردے کا یہ مقصد برقع سے بھی پورا ہو سکتا ہے لیکن ان برقعوں سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا جو آرائش چھپانے سے زیادہ خود آرائشی کا نمونہ ہوتے ہیں اور رنگا رنگ ہونے کے ساتھ طرح طرح سے سجائے جاتے ہیں۔
گھریلو اصلاح کے سلسلے میں آپ کو اپنے گھروں میں جس اسلامی زندگی کا نمونہ پیش کرنا ہے اور جس طرح اپنی زندگی میں ہر قدم پر اسلامی احکام کی پابندی کا خیال رکھنا ہے اس کے لیے پردے کے ان احکام کی پابندی کی اہمیت اس لحاظ سے اور بڑھ جاتی ہے کہ عام طور پر مسلمان گھرانوں کا رواج کچھ ان کے خلاف ہی ہے اور جب آپ ان کی پابندی کا ارادہ کریں گی تو آپ کو طرح طرح کی دشواریاں پیش آئیں گی۔ایک طرف تو اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان گھرانوں کی زندگی بے لطف نہ ہونے پائے، آپس کے میل جول میں کمی نہ آئے اور تعلقات کو خوشگوار بنانے کے سلسلے میں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوسری طرف یہ بھی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی اخلاقی زندگی برباد نہ ہونے پائے اور ان کے گھروں میں بدنگاہی اور بدچلنی کا رواج نہ ہو۔ ان دونوں مقاصد کے لیے اسلام نے مسلمان گھرانوں میں مردوں اور عورتوں کے تعلقات کی حدود مقرر کرتے ہوئے پردے کے کچھ احکام دیے ہیں۔ ان احکام کا تعلق رشتے داروں، عزیزوں، گھر کے اندر کام کاج کرنے والے غلاموں، نوکروں اور گھر کے مردوں کے شریف اور قابل اعتماد دوستوں سے ہے۔ ان احکام کا ذکر سورہ نور میں آیا ہے۔
’’ائے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک نہ جاؤ جب تک تمہارا ان سے انس اور میل جول نہ ہو اور تم ان کو سلام نہ کرلو (سلام کرنا دراصل اجازت طلب کرنا ہے) ایسا کرنا تمہارے لیے اچھا ہے۔ امید ہے کہ اس طرح تم اس حقیقت کو پیش نظر رکھو گے اور فائدہ حاصل کرو گے۔ اگر تم کو گھر کے اندر کوئی نہ ملے تو اس وقت تک گھروں میں نہ جاؤ جب تک تمہیں اجازت نہ ملے اور اگر تم سے کہا جائے کہ تم لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ۔ (برا نہ مانو) اس طریقہ میں تمہارے لیے پاکیزگی اور ستھرائی ہے (اور خوب یاد رکھو کہ) تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تم ان گھروں میں چلے جایا کرو جن میں عورتیں نہیں رہتی ہیں اور ان میں تمہارا کوئی کام ہو۔ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔مسلمان مردوں کو یہ حکم دے دیجیے کہ (جب وہ گھروں میں داخل ہوں تو) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم کی جگہوں کی احتیاط کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ اور ستھرا طریقہ ہے اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اسی طرح مسلمان عورتوں کو حکم دے دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم کی جگہوں کی احتیاط کریں۔ اور اپنی آرائش اور سجاوٹ کی چیزوں میں سے کسی چیز کو ظاہر نہ کریں سوائے اس چیز کے جو مجبوراً ظاہر ہو جاتی ہو اور اپنی اوڑھنیوں کا بکل مار کر سینہ چھپالیا کریں اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں یا اپنے باپوں یا اپنے شوہروں کے باپوں یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی دینی بہنوں یا اپنے غلاموں کے سامنے اپنے ایسے ملازموں کے سامنے جو عورت کی ضرورت سے مستغنی ہو چکے ہوں یا ایسے بچوں کے سامنے جو ابھی سرے سے عورتوں کے بھید بھاؤ سے واقف ہی نہ ہوئے ہوں۔ اور زمین پر اس طرح پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کا وہ سنگھار ظاہر ہو جائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔ اور ائے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کی طرف پلٹو امید ہے کہ اس طرح تم کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔ (سورہ نور آیت ٢٧ تا ٣١)
مذکورہ بالا آیات میں گھروں کے اندر آنے جانے کے بارے میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
(۱) کوئی مسلمان کسی مسلمان کے زنانے مکان کے اندر اس وقت داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ یہ دو شرطیں پوری نہ ہوجائیں:
۱۔ وہ شخص گھر والوں کے لیے اجنبی نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ انس اور میل جول کا تعلق ہو۔ ایسا شخص یا تو کوئی قرابت دار اور رشتے دار ہوسکتا ہے یا گھر والے کا کوئی ایس گہرا دوست جس کے سیرت و کردار پر بھروسہ ہو۔ گھر میں خدمت کرنے والے غلام بھی اس حکم میں شامل ہیں۔
ب ۔ گھر میں جب جائے تو اجازت لے کر جائے۔ یوں ہی بلا اطلاع دندناتے ہوئے گھس جانا درست نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے بموجب اجازت لینے کی سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ آنے والا دروازے پر تین مرتبہ سلام کرے اگر کوئی جواب اور اجازت نہ ملے تو اندر جائے نہیں بلکہ لوٹ آئے۔
(۲) جو مقامات زنانے نہ ہوں ان میں داخل ہونے کے لیے ان پابندیوں کی ضرورت نہیں۔ مثلاً دفاتر، مردانہ بیٹھکیں یا مسافر خانے وغیرہ۔
(٣) گھروں میں جانے والے مردوں کو چاہیے کہ وہ تاک جھانک سے پرہیز کریں۔ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم کی جگہوں کے معاملے میں پوری احتیاط برتیں ۔
(٤) گھر کی بیبیاں اس موقع پر حسب ذیل باتوں کی پابندی کریں:
۱۔ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔
ب۔ اپنی شرم اور احتیاط کی جگہوں کی حفاظت کریں۔
ج۔ اور اس طرح سمٹ سمٹا کر اور کپڑے سنبھال کر سامنے آئیں کہ ان کی زینت کی چیزیں ظاہر نہ ہوں۔ سوائے ان چیزوں کے جو مجبوراً ظاہر ہو جاتی ہیں۔ مثلاً لباس کا ظاہری حصہ یا چہرے اور ہاتھوں وپیروں کا کچھ حصہ۔
د۔ اپنی اوڑھنیوں کے بکل مارلیا کریں تاکہ سینہ چھپ جائے۔ (وہ باریک دوپٹے جو جسم کو ڈھانکنے کے بجائے مزید خوشنما بنا کر چمکاتے ہیں اور جن میں سے سر کے بال اور جسم کے حصے دکھائی دیتے ہیں انہیں لباس سمجھنا ہی غلط ہے۔
ایسے ہی کپڑے پہننے والیوں کے بارے میں حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’بہت سی لباس پہننے والیاں ایسی ہیں کہ انہیں ننگا ہی کہنا چاہیے‘‘۔
(٥) وہ چلنے پھرنے میں زمین پر پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ پاؤں کے زیوارت کی جھنکار سنائی دے۔
(٦) عورت کی زینت کی چیزیں ظاہر کرنے سے جو منع کیا گیا ہے تو اس حکم کا تعلق شوہر اور محرم اعزا، مثلاً باپ، خسر، بھائی، بھتیجے، بھانجے وغیرہ سے نہیں ہے۔ اسی طرح اس حکم کا تعلق بہت بوڑھے ملازموں، غلاموں اور لڑکوں سے بھی نہیں ہے۔
(۷) عورتوں میں وہ عورتیں جو بے دین ہیں، آوارہ ہیں یا جن کے چال چلن درست نہیں ہیں وہ بھی غیر مردوں کے حکم میں شامل ہیں۔ اسلام اپنے سماج میں ایسی عورتوں کو غیر مردوں سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہے۔گھروں کی اصلاح کے سلسلے میں گھروں کے اندر پردے کے احکام کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ آج کل مسلمان گھرانوں میں عام طور پر ان احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اگر کہیں پردے کی طرف توجہ ہے تو پھر یہ عالم ہے کہ قریبی عزیزوں اور رشتے داروں سے بھی وہی پردہ کرایا جاتا ہے جو غیروں سے ہونا چاہیے۔ چنانچہ ایسی صورتوں میں خاندانی میل جول کی مسرتیں بڑی حد تک کم ہوگئی ہیں۔ لیکن اگر اس طرف سے بے توجہی ہے تو پھر یہ حالت ہے کہ محرم اور نامحرم عزیزوں میں کوئی امتیاز ہی نہیں پایا جاتا۔ جو بے تکلفی بھائی کے ساتھ ہے وہی دیور کے ساتھ ہے بلکہ کبھی کبھی اس سے بھی بڑھ کر بہنوئی، نندوئی، خالہ زادے، پھوپھی زادے، چچا زادے سب کے ساتھ بے حجابانہ بات چیت بے تکلف اٹھنا بیٹھنا اور ہنسی دل لگی ہوتی ہے۔ خسر محرم ہے لیکن اس کے سامنے جو حجاب کیا جاتا ہے اور اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو اوپر ذکر کیے ہوئے نامحرم عزیزوں کے سامنے ہوتا ہے۔ یہ صورتحال صاف بتاتی ہے کہ اس بارے میں ہمارے گھرانوں میں رواج کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اللہ کی شریعت سے زیادہ ہے۔ یہ بڑی قابل اصلاح بات ہے۔ آپ کو اپنی پہلی فرصت میں اس کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ اس معاملے میں آپ ہرگز نرمی نہ برتیں۔ جب تک آپ انتہائی سختی سے اس پر خود پابند نہ ہوں گی اس وقت تک آپ گھریلو اصلاح کا کام کبھی نہ کر سکیں گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020