پرامن مظاہرین کا حوصلہ توڑنے اور پست کرنے کی کوشش اور دستوری لائحہ عمل

ڈاکٹر فضل الرحمٰن، صحافی، لکھنو

کوئی بھی جمہوری نظام اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ برسر اقتدار حکومت چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہو اپنے تسلیم شدہ دستور کی روشنی میں شہریوں کے ساتھ معاملہ کرے گی اور سماج کے سبھی طبقات کو یکساں نظر سے دیکھے گی ۔اس اصول و قاعدہ کی روشنی میں مثالی طور سے ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومتیں جمہوری قدروں اور قوانین کا احترام کریں اور ایسی نوبت نہ آنے دیں کہ عدالتوں کو مداخلت کرنی پڑے یا شہریوں کا ایک بڑا طبقہ ہمہ وقت عدالت کے طرف ٹکٹکی لگاکر دیکھے اور اس خیال سے پریشان رہے کہ اب عدالت ہی واحد سہارا ہے ۔لیکن ہمارے گرد و پیش کے حالات و واقعات یہی ظاہر کررہے ہیں کہ حکومتوں کو جمہوری ضابطوں اور قوانین کے بجائے اپنی من مرضی تھوپنے اور اس پر اصرار کرنے کی عادت پڑتی جارہی ہے، قانون کی دھجیاں اڑتی ہیں تو اپنی بلا سے۔
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے نفاذ کے بعد ملک کے طول و عرض میں اس کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام و خواص نے اپنی اپنی شکل میں اس کے خلاف آواز بلند کی ۔مگر دلی میں شاہین باغ کے مظاہرے نے نہ صرف ہندستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس حقیقت کو آشکارا کردیا کہ سی اے اے نامی قانون کس طرح نہ صرف ہندستان کے مسلمانوں کے خلاف ہے بلکہ ہر اس طبقہ کے خلاف ہے جو کمزور ہے، حاشیہ پر ہے اور وہ اس قانون کے نفاذ کے بعد ایک مختلف طرح کی تعذیب سے دوچار ہونے والا ہے۔
اس قانون کے سیاسی پس منظر سے قطع نظر اگر سی اے بی اور پھر اس کے سی اے اے بننے تک کے مختلف مراحل کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت طشت ازبام ہوگی کہ خاص طور سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں میں اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو بدلے کی ایسی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی آزاد ہندستان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔
طلبہ، خواتین اور بچوں تک کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں نے پولیس طاقت کے بل میں طرح طرح کی اذیتوں سے دوچار کیا ہے اور اس میں جناب آدتیہ ناتھ کی قیادت والی اترپردیش کی حکومت تو کئی گز آگے نکل چکی ہے ۔ یہ ایک دستاویزی نوعیت کا موضوع ہے کہ کتنے لوگ اس وقت اترپردیش کی جیلوں میں قید ہیں، کتنے نوعمر لڑکے، بچے اور مرد و خواتین پولیس کی زیادتیوں کے باعث فوت ہوچکے ہیں اور جو لوگ کہیں نہ کہیں چھوٹی بڑی تعداد میں دھرنا مظاہرہ کررہے ہیں ان کی پولیس و انتظامیہ کی کن کن استبدادی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کسی تنظیم و ادارے کو اس پر معروضی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت، اپنی پولیس و انتظامیہ کو قانون کے کن پینتروں کا سہارا لے کر استعمال کررہی ہے، جو مسلمہ قوانین کے عین خلاف ہے وہ سامنے آسکے اور اس کی قانونی توڑ نکالنے اور قانون کی باریکیوں سے لوگوں کو واقف کرانے کی تدبیر بھی نکل سکے۔
جو تازہ معاملہ فی الحال اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ ہی نہیں بلکہ دیگر جگہوں کے لئے باعث توجہ بنا ہوا ہے وہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد کی ہورڈنگ ہے جو لکھنؤ میں حکومت کے آدیش پر لگائی گئی ہے۔ ان ہورڈنگوں پر تقریباً 57؍لوگوں کی تصاویر لگائی گئی ہیں جن میں سابق پولیس اہلکار اور ایک بچہ بھی شامل ہے ۔ مبارکباد دینی ہوگی الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب گووند ماتھر کو کہ انھوں نے از خود اس معاملے کا نوٹس لے کر حکومت اترپردیش کی گرفت کی اور چھٹی والے دن بھی اس معاملے میں سماعت کرتے ہوئے اسے قانون کا سبق یاد دلایا۔ سول رائٹس اور حقوق انسانی کے لئے آواز بلند کرنے والوں کے خلاف حکومت کییہ ایک ’اوچھی حرکت‘ ہے جس پر عدالت عالیہ کا چیں بہ جبیں ہونا واجب ہے۔
آدتیہ ناتھ حکومت کی بدلے کی کارروائی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے لکھنؤ میں تاریخی گھنٹہ گھر پر مظاہرہ کرنے والوں اور اس کی تائید و حمایت کرنے والوں کے خلاف اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے اور متعدد مواقع پر ایسے لوگوں پر حکومت کی ہدایت پر پولیس نے ڈنڈے برسائے ہیں اور انھیں ہراساں کیا ہے جن کے لئے قانونی چارہ جوئی ایک مشکل مرحلہ ہے اور عدالتوں تک ان کی رسائی بہت آسان نہیں ہے ۔ظاہر ہے حکومت کییہ کارروائی ان کا حوصلہ توڑنے اور انھیں بے دست و پا کرنے کے لئے ہی ہے ۔ یہ بھی دھیان رہے کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر طاقت کے بے دریغ استعمال کی ہی وجہ سے اترپردیش میں 23؍افراد اپنی جان گنواچکے ہیں، جو ایک تفصیلی جانچ کا موضوع ہے ۔
اس کڑی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 15؍دسمبر 2019 کی شب میں کی گئی پولیس کی کارروائی کو بھییاد رکھنا چاہئے جس کے عینی شاہدین تو بہت ہیں مگر دستاویزی شکل میںیہ قومی حقوق انسانی کمیشن کی باقاعدہ جانچ کے بعد ہی سامنے آیا۔ اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے کمیشن کو جانچ کا حکم دیا تھا جس نے انکوائری مکمل کرکے اپنی رپورٹ ہائی کورٹ میں پیش کی تھی۔ عدالت نے اس رپورٹ کی بنیاد پر ایسے پولیس جوانوں کی شناخت کرنے کا حکم ڈائرکٹر جنرل پولیس اتردیش کو دیا تھا جنھوں نے موٹرسائیکلوں میں توڑ پھوڑ کی، املاک کو نقصان پہنچایا اور طلبہ پر ربر کی گولیاں اور پیلیٹ فائر کئے تھے۔ عدالت نے پولیس کی بے جا کارروائی میں زخمی ہونے والے ۶؍طلبہ کو معاوضہ دینے کی بھی ہدایت دی تھی۔ اس فیصلے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ عدالت نے یہ کہا کہ بلوہ اور فساد سے نپٹنے کے لئے بنائی گئی آر اے ایف کو ایسے وقت میں زیادہ سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہئے اور شہریوں کے انسانی حقوق کا بھی احترام کرنا چاہئے ۔اے ایمیو میں ہوئے بلوے اورپولیس کارروائی کی ایس آئی ٹی بھی انکوائری کررہی ہے چنانچہ ہائی کورٹ نے ایس آئی ٹی سے کہاکہ وہ اپنی جانچ میں ان تمام پہلوؤں کو شامل کرے ۔
سی اے اے کے خلاف ہونے والے مظاہرے قانونی اعتبار سے درست ہیں بشرطیکہ وہ پرامن ہوں۔ ان مظاہروں میں شہری، پرامن انداز میں حکومت کے ایک فیصلے سے اپنے اختلاف کے حق کا استعمال کررہے ہیں۔ حالانکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہمنوا تنظیمیں جن میں کئی ایسے عناصر بھی شامل ہیں جو کھلے عام تشدد کی بات کررہے ہیں اور ایسی کئی تنظیموں کی حرکات میڈیا میں بھی آچکی ہیں، وہ چراغ پا ہیں، اور اس معاملے کو مسلم بنام ہندو کا رنگ دینے کے ناکام کوشش کررہے ہیں اور دوسری طرف بھاجپائی حکومت ہے جو اقتدار کے نشے میں شاید اس بات کو بالکل بھول چکی ہے کہ مسلمان بھی اس ملک کے باعزت شہری ہیں۔ شدت پسند عناصر کا کچا چٹھا عدالتوں کے سامنے آنا ابھی باقی ہے، حالانکہ میڈیا میں اس کی کچھ جھلکیاں دہلی کے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد دکھائی دینی لگی ہیں ۔
سیاسی پارٹیوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حکومت اور ملک دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ حکومت کے کسی فیصلے کی مخالفت یا اس سے اختلاف رائے ملک کی مخالفت یا خدانخواستہ ملک سے غداری نہیں ہے بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ اختلاف رائے ہی جمہوریت کی آبرو اور اس کی روح ہے۔ اختلاف رائے کا حق اگر چھین لیا جائے تو وہ جمہوریتنہیں، مطلق العنانییا ڈکٹیٹرشپ ہے، جو اپنا ایک طویل آئین اور اس کی روشنی میں مختلف ادارے اور قوانین رکھنے والے ہندستان جیسے عظیم ملک کے لئے ایک سیاہ باب قرار پائے گا۔
جب سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی تب بھی اس کی عوامی سطح پر مخالفت ہوئی تھی اور عدلیہ کے ایک حلقے نے بھی اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا ۔آج بھی اگر کسی قانون سے ملک کا ایک طبقہ اختلاف ظاہر کرتا ہے تو کسی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی پوری مشینری انھیں سبوتاژ کرنے اور نیست و نابود کرنے میں لگادے ۔
مظاہرین کو کس طرح چن چن کر حکومت اترپردیش نے نشانہ بنایا ہے اس کی مثال ڈاکٹر کفیل خاں بھی ہیں، جن کا نام گورکھپور کے میڈیکل کالج میں تقریباً ساٹھ بچوں کے موت کے ایک واقعہ کے بعد سرخیوں میں آیا تھا ۔ ڈاکٹر کفیل خان نے سی اے اے کے خلاف سرگرمی کیا دکھائی حکومت نے نہ صرف انھیں جیل میں بند کیا بلکہ عدالت سے ان کی رہائی کا حکم ہوتے ہی ان پر قومی سلامتی ایکٹ(این ایس اے) جیسا سخت قانون بھی لگادیا ۔اس وقت وہ متھرا جیل میں بند ہیں۔ سی اے اے کے خلاف علی گڑھ میں ایک مظاہرے کے دوران ان کی ایک تقریر کو بہانہ بنایا گیااور اس پر مقدمہ درج کرکے انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ قانون یہ ہے کہ جب کسی پر این ایس اے لگایا جاتا ہے تو اسے ریاستی ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس میں متعلقہ شخص کے ساتھ حکومت و انتظامیہ کے نمائندے بھی اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔
حکومت اترپردیش کی ’بدلے اور سبق سکھانے والی کارروائی ‘ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کئی مظاہرین کے نام حکومت کے کارندوں نے وصولی کے نوٹس جاری کئے اور حکومت کے لئے یہ بات باعث شرم ہی کہی جائے گی کہ عدالتوں نے ایسی کئی نوٹسوں پر روک لگادی ہے اور حکومت کی کارروائی کو غلط ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل کچھ شہروں میں چند افراد نے وصولی کی رقم جمع بھی کی ہے ۔ پولیس فورس کے بے دریغ استعمال اور حکومت و انتظامیہ کی حرکات سے حکومت اترپردیش کی منشا پوری طرح یہی معلوم ہوتی ہے کہ مظاہرہ کرنے والوں کے اندر خوف و دہشت پیدا کی جائے، ان کا حوصلہ پست کردیا جائے اور چہار طرف سے ان کی گھیرابندی کرکے انھیں بے دست و پا کردیا جائے ۔
یہ ساری بحث بے نتیجہ رہے گی اگر اس کے مضمرات اور آئندہ کے اقدامات پر گفتگو نہ کی جائے۔ جمہوری نظام اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ بے شک کہیں نہ کہیں ہماری عدالتوں سے ہوتا ہے ۔اترپردیش میں جس طرح کی مطلق العنانی کا مظاہرہ حکومت کی سطح سے ہورہا ہے اس پر قدغن لگانے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس و حکومت کی بے جا کارروائی سے جو لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں انھیں قانونی مدد فراہم کی جائے اور شہریوں کے اندر قانونی بیداری بھی پیدا کی جائے تاکہ ان کے اندر خوف و ڈر نہ پیدا ہو اور پرامن اور جمہوری طریقے سے اپنے حقوق کے لئے لڑنے اور ان کی بازیافت کا جذبہ ان کے اندر مضبوط ہو۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ناانصافی کا سامنا کرنے والوں میں ہر مذہب و علاقہ کے لوگ شامل ہیں اور جو لوگ کسی مسئلہ پر پر امن طریقہ سے مظاہرہ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، ان کے اندر یہ جذبہ بھی ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں کو بھی انصاف دلانے کے لئے وقت پڑنے پر کمر کس سکیں ۔
***