’وقت‘ کی بات بڑی البیلی

شخصیت سازی میں احتساب ضروری

ابوفہد۔ دلی

جب احتساب خود کا کرنا ہو تو کڑا کیجئے اور جب احتساب غیر کا کرنا ہو تو ہلکا کیجئے۔ مگر یہ بات ہر سطح کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی ہر معاملے کے لیے ہے۔
ایک مثال وقت کی پابندی کی لیتے ہیں۔ وقت کی پابندی کرنا آدمی کے لیے مشکل کاموں میں سے ایک ہے۔ اور نسبتاً معمولی اور چھوٹے کاموں کے لیے آدمی وقت کا خیال نہیں رکھ پاتا۔ مثلا ًآپ کو اگر کسی بڑے عہدے دار سے ملنا ہو تو آپ وقت سے پہلے ہی اس کے پاس پہنچ جائیں گے لیکن اگر آپ کو محلے کے کسی معمولی شخص سے ملنا ہو جسے آپ نے ملنے کا وقت دے رکھا ہے کہ آپ فلاں وقت پر فلاں جگہ پہنچ جائیں گے، تو آپ کو وقت پر پہنچنے کی پروا کم ہوگی۔اسی طرح جہاں آپ کو ہزار وں اور لاکھوں کا نفع ہورہا ہو تو وہاں آپ وقت سے پہلے ہی پہنچ جائیں گے لیکن جہاں نفع معمولی ہو وہاں آپ کو بروقت پہنچنے کی جلدی نہیں ہوگی، بلکہ کسی قدر تاخیر سے ہی پہنچیں گے۔ اسی طرح اگر آپ کی روپیوں بہت ہائی پروفائل والی ہے تو آپ وقت کی پابندی کی بہت زیادہ فکر کریں گے لیکن اگر جاب معمولی ہے توو قت کی فکر بھی نسبتاً کم ہی رہے گی۔ یہ عام انسانی نفسیات ہیں۔ اس میں ایک سیاسی نفیسات کو اور جوڑ لیں، وہ یہ کہ کچھ لوگ کچھ جگہوں پر جان بوجھ کر تاخیر سے پہنچتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی درجے میں ذمہ دار ہیں،لیڈر ہیں اور علاقے کے بااثر لوگ ہیں، انہیں جب پارٹیوں میں جانا ہوتا ہے، جلسوں میں اور شادی وغیرہ کی مجلسوں میں جانا ہوتا ہے تو یہ جان بوجھ کر دیر سے جاتے ہیں ، کیونکہ یہ اپنی انٹری دھماکے داراندازمیں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لو گ اس سچویشن کو کسی بھی قیمت پر گوارہ نہیں کرسکتے کہ یہ پہلے جا کر بیٹھ جائیں اور لوگوں کے آنے کے کرب انگیز انتظار سے گزریں، بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا انتظار کیا جائے، ان کا پرجوش استقبال کیا جائے اور جب یہ پہنچیں تو لوگ قطار در قطار کھڑے ہوں۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے یہ اکثر تاخیر کرتے ہیں اور گھر سے ہی دیرسے نکلتے ہیں اور بہانہ کام کا کرتے ہیں، بیشک کام بھی ہوتا ہے مگر کئی بار کام نہ بھی ہو تب بھی یہ ایسا ہی کرتے ہیں اور پھر اوپر سے عوام سے معافی بھی مانگتے ہیں، معاف کیجئے گا مجھے آنے میں تاخیر ہوگئی اور آپ لوگوں کو انتظار کرنا پڑا۔
کئی بار آدمی کو تاخیر ہوہی جاتی ہے، کیونکہ انسان کسی نہ کسی درجے میں مجبور بھی ہے اور اس کے ساتھ عذر ہمیشہ ہی لگے رہتے ہیں،تاخیر سے آنے والا آدمی جب اپنا عذر بیان کرتا ہے تو لگتا ہے کہ واقعی اس کا عذرحقیقی ہے اور یہ ہماری ہمدردی اور معافی کا مستحق ہے۔مگر اس میں مزید چیزیں بھی شامل ہوجاتی ہیں، مثلا ًیہ پتہ نہیں چل پاتا کہ یہ شخص واقعی سچ بول رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے۔
وقت کے تعلق سے ہمیں اپنا کڑا احتساب کرنا چاہئے اور آفس، اسکول، مدرسہ یا اگرکسی کو وقت دیا ہے تو وقت پر ہی پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس معاملے میں خود کو ذمہ دار بنانا چاہئے۔ کیونکہ ہم اپنے آپ کو جتنی زیادہ ڈھیل دیتے جائیں گے اور جتنی زیادہ توجیہ کرتے جائیں گے وقت کے ساتھ ساتھ ہم وقت کے معاملے اتنے ہی زیادہ بے پروا ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں تو وقت کے تعلق سے لاپروائی والا معاملہ محض غیر اہم امور ومعاملات ہی میں کریں مگر بعد میں جب تاخیر سے پہنچنا ہماری عادت بن جائے گی تو ہم اہم کام کے لیے بھی وقت پر نہیں پہنچ پائیں گے اور چاہ کر بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
کسی بھی قیمت پر یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ جس کام کے لیے ہمیں جانا ہے وہ معمولی ہے، جس جاب پر ہم مامور ہیں ہیں وہ غیر اہم ہے، کیونکہ وقت کی نسبت ہر طرح کے کام کے ساتھ یکساں ہے۔کام اہم ہو یا غیر اہم، جسے ہم نے وقت دیا ہے وہ معمولی ہو یا غیر معمولی لیکن وقت ہر حال میں غیر معمولی ہے۔اگر ہم تلاش کریں تو ہمیں ہماری اسی دنیا میں بلکہ ہمارے آس پاس ہی ایسے لوگ بھی مل جائیں گےکہ وہ اپنے ہی آفس میں جارہے ہیں، اپنی ہی دکان پر بیٹھ رہے ہیں اور اپنا ہی کاروبار کررہے ہیں، ان کے سامنے وقت کی پابندی کی اس طرح کی مجبور ی نہیں ہے جس طرح کی مجبوری ایک ملازم کی ہوتی ہے، ٹیچر کی ہوتی ہے ، ایک فوجی وسپاہی کی ہوتی ہے کہ ان کا ایک ایک منٹ دیکھا اور گنا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی سرزنش کی جاتی ہے اور کئی بار نوکری سے برخواست بھی کردیا جاتا ہے، اس معاملے میں سب سے بڑی پابندی ایک استاذ کی ہوتی ہےکہ اسے اپنے طلبہ کے سامنے عملی نمونہ بھی پیش کرنا ہوتا ہے اور انہیں کرکے دکھانا پڑ تا ہے کہ وقت کی پابندی ہر حال میں کی جاسکتی ہے۔آپ کو اپنے ہی علاقے میں ایسے افراد بھی مل جائیں گے کہ ان پر خارج سے کوئی دباؤ نہیں ہوتا ، انہیں کسی کی سرزنش کا خوف نہیں ہوتا، انہیں کام خراب ہونے کا بھی خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کے منیجر ان کی جگہ کام کررہے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ لوگ وقت کی پابندی کرتے ہیں اور بنا ایمرجنسی کے آفس یا کام کی جگہ پر آنے جانے کے وقت میں تاخیر نہیں کرتے۔یہی وہ لوگ ہیں جنھیں صحیح معنیٰ میں وقت کا پابند کہا جاسکتا ہے، ایسے لوگ یقینا ًبے مثال لو گ ہیں۔ اگر ملازم آفس میں وقت پر آتے ہیں تو یہ کچھ کمال کی بات نہیں کیونکہ ان کے ساتھ مجبوری لگی ہوئی ہے، ان پر خارج سے دباؤ ہے لیکن اگر کمپنی یا اسکول کا مالک کمپنی یا اسکول وقت پر پہنچتا ہے تو یہ کمال کی بات ہے۔
وقت کے حوالے سے اپنا سخت اور غیر کا ہلکا احتساب کرنے کا جوا ز اس لیے بھی ہے کہ خود ہمیں اپنے بارے میں پوری معلومات ہوتی ہیں او ر ہم یہ بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ تاخیر کی اصل وجہ کیا ہے، ہمارے بارے میں سچ اور جھوٹ کا بھی کوئی مقدمہ نہیں بنتا اور ہم اپنے آپ کا مؤاخذہ کرتے وقت اپنے آپ پر کچھ بھی ظلم نہیں کرسکتے۔بلکہ الٹا خود کا مؤاخذہ نہ کرکے ہم اپنے آپ پر ظلم کرنے والے بن سکتے ہیں۔ جبکہ غیر کا سخت محاسبہ کرنے پر ہم نادانی کی وجہ سے اس پر ظلم کرنے والے بھی بن سکتے ہیں۔ کیونکہ تاخیر کا جو عذر غیر بیان کررہا ہے وہ درست ہوسکتا ہے اور ہم اسے جھوٹا سمجھ کر سزا دے کر ظالم بن سکتے ہیں۔ اس لیے دوسرے کو معاف کرنا زیادہ بہتر، ہوسکتا ہے ایسا کرنے سے کبھی آپ کو اگر آپ باس ہیں، پرنسپل ہیں یا استاد ہیں یا کسی کمپنی کے مالک ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کبھی آپ کو احساس ہو کہ آپ کے ساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے، آپ کو بے وقوف بنایا جارہا ہے اور آپ کے ملازمین کے دل سے آپ کا خوف اور اہمیت ختم ہوگئی ہے، کبھی کبھار شیطان کی طرف سے ایسے حملے بھی ہوتے ہیں، ایسی سچویشن میں بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ظالم بننے سے مظلوم بننا بہتر ہے۔ اور حساب تو بہر حال آپ کو بھی دینا ہے، آج آپ کڑا احتساب کروگے تو کل کو آپ کا بھی کڑا احتساب کیا جائے گا، آج آپ معافی سے کام چلاؤ گے تو کل کو آپ کو بھی معافی دی جائے گی۔
ان آخری لائن سے کسی کو یہ شبہ نہ گزرے کہ مضمون میں ڈسپلن کی نفی کی جارہی ہے۔ ہر ایک چیز کا ایک دائرہ ہوتا ہے ، تو اسی طرح احتساب کرنے اور معاف کرنے کا بھی ایک دائرہ ہے۔ضروریات اور حالات مختلف ہوتے ہیں، کہیں معافی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور کہیں احتساب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔